متفرق مضامین

انوکھی داستانِ عشق

(الرحیق المختوم۔ یوکے)

مسجد نبویؐ میں قیامت کا منظر تھا۔ بعض اصحابِ رسولؐ غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے اور بعض کی غم سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ نوجوانانِ جنت کے سردار رسول اللہﷺ کے وارث دونوں نواسے ایک بوڑھے مگر مضبوط جسم کے مالک کے سامنے روتے کھڑے تھےجبکہ رسول اللہﷺ ایک طرف چپ چاپ کھڑے تھے۔

قارئین آپ کو اس پُرسوزواقعہ کے پس منظر میں لیے چلتے ہیں تا پورا واقعہ آپ کو سمجھ آ سکے۔

یہ رسول اللہﷺ کی آخری بیماری کے ایام ہیں جب سورۃ النصر نازل ہوچکی تھی۔ بڑے دنوں بعد آج مسجد نبوی میں نبوت کا بدر طلوع ہواتھا۔ رسول اللہﷺ بہت کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ کھڑا ہونا دشوار تھا۔ صحابہ کرامؓ شوق سے اپنی آنکھوں کی پیاس اپنے محبوب کےدیدار سے بجھا رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اپنا دل نکال کے پیش کر دیتے۔ آقائے نامدارﷺ نے اپنے غلام حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا اور اس کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کو سن کر اصحاب رسولؓ بہت روئے۔ پھر آپؐ نے پوچھا ’’اےلوگو! میں کیسا نبی ہوں؟ ‘‘اس پر ان اصحاب کرامؓ نے کہا ’’اللہ آپؐ کو جزا دے۔ آپؐ سب سے بہترین نبی ہیں۔ آپؐ ہمارے لیے رحیم باپ کی طرح اور شفیق اور نصیحت کرنے والے بھائی کی طرح ہیں۔ آپؐ نے ہم تک اللہ کے پیغام پہنچائے اور اس کی وحی پہنچائی اور حکمت اور اچھی نصیحت سے ہمیں اپنے ربّ کے راستے کی طرف بلایا۔ پس اللہ آپؐ کو بہترین جزا دے جو وہ اپنے انبیاء کو دیتا ہے۔‘‘

پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’اے مسلمانوں کے گروہ! میں تمہیں اللہ کی اور تُم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تووہ کھڑا ہو اور میرے سے بدلہ لے۔‘‘

صحابہ کرامؓ کی تو جیسے جان نکل گئی اور مارے صدمے کے کوئی کچھ نہ بول سکا۔ آپؐ نے دوسری بار قسم دےکر پوچھا مگر کوئی بھی کھڑا نہ ہواحتیٰ کہ آپؐ نے تیسری مرتبہ دریافت فرمایا کہ ’’اے مسلمانوں کے گروہ! میں تمہیں اللہ اور تُم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ اُٹھے اور قیامت کے دن کے بدلہ سے پہلے میرے سے بدلہ لے۔‘‘

اس پر لوگوں میں سے وہ بوڑھا شخص کھڑا ہوا جن کا نام عکاشہؓ تھا۔ عکاشہؓ صف سے نکلے اور رسول اللہﷺ کے روبرو کھڑے ہوئےاور کہنے لگے کہ ’’یا رسول اللہ!ﷺ عکاشہ کے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ اگر آپؐ نے بار بار قسم نہ دی ہوتی تو میں ہرگز کھڑا نہ ہوتا۔ قصہ یوں ہے کہ ایک غزوہ میں آپؐ کے ساتھ میں شامل تھا واپسی پر میری اونٹنی آپؐ کی اونٹنی کے برابر آگئی اور میں سواری سے اتر کر آپؐ کے قریب آیا تاآپؐ کے نعلین مبارک کو بوسہ دے سکوں مگر آپؐ نے چھڑی ماری جو میرے پہلو میں لگی اور مجھے نہیں معلوم کہ وہ آپؐ نے مجھے ماری تھی یا اونٹنی کومگر مجھے وہ لگی تھی اور میں اس چھڑی کا بدلہ چاہتا ہوں۔‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ کے جلال کی قسم! خدا کا رسول جان بوجھ کر تجھے نہیں مار سکتا۔ ‘‘ عکاشہؓ کہنے لگے ،میں نہیں جانتا مگر مجھےاس کا بدلہ چاہیے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ یارِ غار لرزتے آہ و بُکا کرتے آگے آئے اور کہا ’’اے عکاشہؓ میرے آقاؐ کو کچھ نہ کہو اُن کا بدلہ میں دیتا ہوں اگر مال چاہیے تو بتاؤ اگر کچھ اَور بدلہ چاہیے تو میرا جسم حاضر ہے۔‘‘ رسول کریمؐ نے فرمایا: اے ابوبکرؓ عکاشہؓ کو کچھ نہ کہو۔ اتنے میں حضرت عمرؓ غصےسے بھرے اُٹھے اور قریب تھا کہ عکاشہؓ کوکوئی نقصان پہنچا دیتے مگر رسولِ کریمؐ کی موجودگی کا خیال کر کے خود پر قابو پایا اور بدلے کے لیے اپناآپ پیش کیا مگر ان کو بھی رسول اللہﷺ نے خاموش کروا کے بٹھا دیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے ابوبکر و عمر رُک جاؤ۔ اللہ تُم دونوں کےمقام کو جانتا ہے۔

تب حضرت علیؓ شیرِ خدا اُٹھے اور کہا ’’اے عکاشہؓ ! میں نے اپنی ساری زندگی رسول پاکؐ کے ساتھ گزاری ہے اور میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ رسول پاکؐ کو کوئی آنچ آئے۔ پس یہ میرا جسم ہےمیرے سے بدلہ لو بیشک سو بار مار لو مگر خدا کے واسطے رسول اللہﷺ سے بدلہ نہ لو۔ ‘‘ اس پر رسول کریمؐ نے فرمایا ’’اے علیؓ بیٹھ جاؤ اللہ تمہاری نیت اور مقام کو جانتا ہے۔‘‘

دوسری طرف عکاشہؓ کی وہی تکرار کہ وہ رسول اللہؐ سے بدلہ لے گا تب رسول اللہﷺ نے اپنے غلام جاںنثار بلالؓ حبشی کو خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی طرف روانہ کیا کہ جائیں اور میری چھڑی لے کر آئیں۔

حضرت بلالؓ گئے اور حضرت فاطمہؓ سے عرض کی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی! مجھے آپؐ کی چھڑی دے دیں۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا: اے بلال! میرے والد اس چھڑی کے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا یہ جنگ کے دن کی بجائے حج کا دن نہیں۔ اس پرحضرت بلالؓ نے کہا کہ اے فاطمہ آپ اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی بے خبر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو الوداع کہہ رہے ہیں اور دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اپنا بدلہ دے رہے ہیں۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے حیرانگی سے پوچھا اےبلالؓ ! کس کا دل کرے گا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے۔ تو حضرت بلالؓ نے سارا ماجرا بیان کیا۔ حضرت فاطمہؓ بےساختہ رونے لگ گئیں اور اپنے بیٹوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو چھڑی سمیت حضرت بلالؓ کے ہمراہ کیا اور بیٹوں کو حکم دیا کہ عکاشہؓ کے سامنے کھڑے ہو جانا اورکہنا ہم حاضر ہیں وہ ہم دونوں سے جتنا جی چاہے بدلہ لے لیں مگر فاطمہؓ کے باپؐ اور ہمارےنانارسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ کریں۔

حضرت بلالؓ مسجد نبوی لوٹے اور چھڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ تب چشم فلک نے وہ منظر دیکھا کہ باغِ نبوت کے یہ دو معصوم پھول جن کی سواری دوشِ نبوت ہوا کرتی تھی اور جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں دونوں عکاشہؓ کے سامنے کھڑے ہوئے اور اپنا آپ بدلے کے لیے پیش کر دیااور کہا ’’اے عکاشہؓ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینا گویا کہ رسول اللہ سے بدلہ لینے جیسا ہی ہے۔‘‘عکاشہؓ نظریں جھکائے گویا ہوئے کہ میرا معاملہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے بس۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے میرے جگر گوشو بیٹھ جاؤ۔‘‘

آپؐ نے چھڑی عکاشہؓ کو پکڑائی اور کہا بدلہ لے لو۔ عکاشہؓ کچھ ٹھہرے اور پھر بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپؐ کی چھڑی مجھے لگی تھی تب میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم سے کپڑا ہٹا دیا۔ مسجد نبوی میں اصحابؓ کی چیخیں نکلنے لگ گئیں اور سب سوچ رہے تھے کہ عکاشہؓ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے گا۔ کیا واقعی عکاشہؓ ایسا کرے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑی مارے گا؟

مگر جب عکاشہؓ کو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی سفیدی نظر آئی تو دیوانہ وار لپکے اور آپؐ کے جسم کو بوسے دینےشروع کر دیے اور ایسے لپٹ گئے جیسا بچہ اپنی شفیق ماں سے لپٹتا ہے اور روتے ہوئے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کس کا دل گوارہ کر سکتا ہے کہ آپؐ سے بدلہ لے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ’’اب بدلہ لینا ہے یا معاف کرنا ہے؟‘‘ عکاشہؓ نے عرض کی ’’یا رسول اللہ! میں نے معاف کیا اس اُمید پر کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھے معاف کر دے۔‘‘اس پر آپؐ نے لوگوں کومخاطب کر کے فرمایا ’’جو جنت میں میرا ساتھی دیکھنا چاہتا ہے وہ اِس بوڑھے شخص کو دیکھ لے۔‘‘

وہ تمام اصحاب کرام جو کچھ دیر پہلے عکاشہؓ کو مارنے پر تلے ہوئے تھے عکاشہؓ کے دیوانہ وار پیار اور رسول اللہؐ کے ان جملوں نے ان کے دل بدل دیے اور وہ بے اختیار اُٹھے اور روتے جاتے اور حضرت عکاشہؓ کا ماتھا چوم کر مبارک باد دینے لگے کہ تو نے بہت بلند مقام اور نبی کی رفاقت کو پا لیا۔

(مجمع الزوائد جلد8صفحہ 429تا431)

یہ تھے عاشقِ رسول عکاشہؓ جنہوں نے اپنی فراست سے بھانپ لیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف واپسی کی خبریں سنا رہے ہیں اور اب پتہ نہیں کبھی موقع ملے گا بھی کہ نہیں۔ تو بس یہی موقع ہے کہ آپؐ کے جسم مبارک کا بوسہ لیا جا سکتا ہےاور پیار کیا جاسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عکاشہؓ کو ان کے ایسے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلے جنت میں عکاشہؓ کے معشوقِ مبارک کا ہمیشگی والاساتھ عطا کر دیا۔ الحمدللہ

حضرت عکاشہؓ کی خوش قسمتی یہیں صرف اس موقع پر نہیں تھی بلکہ اِس سے پہلے ایک دفعہ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’میری امّت سے ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ ستّر ہزار ہوں گے اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عکاشہؓ اپنی چادر اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسے بھی ان میں شامل کردے۔ پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنادے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سَبَقَکَ بِھَا عُکَاشَۃُکہ عکاشہؓ اس بارے میں تجھ پر سبقت لے گیا ہے۔ ‘‘

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علیٰ دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب حدیث 369)

حضرت عکاشہؓ جن کا پورا نام عکاشہ بن محصن تھا آپ کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے اور آپ خوش قسمت بدری صحابہ میں شامل ہیں۔ غزوہ بدر میں حضرت عکاشہؓ کی بہادری اور بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ بدر کے دن آپ گھوڑے پر سوار ہو کر شامل ہوئے۔ اس دن آپ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک لکڑی دی تو وہ آپ کے ہاتھ میں گویا نہایت تیز اور صاف لوہے کی تلوار بن گئی اور آپ اسی سے لڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ پھر اسی تلوار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےہمراہ تمام غزوات میں شامل ہوئے اور یہ لکڑی کی تلوار وفات تک آپ کے پاس ہی تھی۔ اس تلوار کا نام عون تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی تھی کہ تم جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گے۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 64تا65عکاشہ بن محصن مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت1996ء)

غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ عرب کا بہترین شہسوارہمارے ساتھ شامل ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے؟ فرمایا عکاشہ بن محصن۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 435 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

عشق کا فیصلہ عقل کے فیصلے سے بالکل متصادم ہوتا ہے مگر عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے اِسی لیے دُنیا نے دیکھا کہ اِسی عشق کےطفیل صحابہ کرام کو دُنیا میں اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا۔ یہ اُن کے عشقِ رسول کا کمال تھا کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی اُنہیں اتباعِ رسول سے انحراف گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلے میں اپنے محبوب آقاعلیہ التحیۃ والثناء کا نقش پا ڈھونڈتےاور اِسی کو مشعلِ راہ بناتے تھے۔

ربِ کریم ہمارے سینوں میں عشقِ رسولؐ بھر دے اور حقیقی معنوں میں صحابہ کرامؓ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور محبت کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button