یادِ رفتگاں

میرے والد مکرم شریف احمد راجوری صاحب مرحوم

(’م م محمود‘)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہرباپ اپنی اولادکے لیے شرعاًاوراخلاقاًہردولحاظ سےقابلِ احترام ہوتاہے۔ میرے والدصاحب بھی ہم سب بہن بھائیوں کے لیے قابلِ احترام وفخروجودتھے۔ کیونکہ انہوں نے نہ صرف دعاؤں بلکہ اپنے نیک نمونہ اورنیکی کی تلقین وتاکیدکے ذریعہ ہمیں صراطِ مستقیم پرچلنے کی ہدایت کی اورآج ہم بہن بھائی اس امرپرگواہ ہیں کہ انہوں نے تربیتِ اولاد کے بارے میں بطورباپ اپنا فرض کماحقہ اداکیا۔ محبتِ الٰہی، سلسلہ احمدیہ سے گہری وابستگی، نظامِ خلافت سے انتہائی عقیدت اورشعائراللہ کااحترام آپ کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ خداتعالیٰ نے آپ کواپنے فضل سے صحت وتندرستی والی لمبی عمرعطافرمائی۔ آپ 96؍سال کی عمر میں 15؍ نومبر2020ء کو اپنے خالقِ حقیقی کے حضورحاضرہوئے۔ زیرِ نظرمضمون میں خاکسار اپنے والدِ محترم کی زندگی کے چندپہلوؤں سے متعلق ذکرکرناچاہتاہے۔

آپ نے اپنی زندگی کابیشترحصہ کنری سندھ میں گزاراجہاں آپ پیشہ کے اعتبارسے میڈیکل پریکٹیشنرتھے۔ آپ1924ء میں رہتال ضلع راجوری میں پیداہوئے۔ آپ کے ناناحضرت قاضی محمداکبرصاحبؓ صحابی حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ تھے جنہوں نےچارکوٹ ضلع راجوری میں 1894ء میں نشانِ کسوف وخسوف کے بعداحمدیت قبول کی۔ حضرت قاضی صاحبؓ کُل آٹھ بھائی تھے جن میں سے چھ بفضلہ تعالیٰ صحابہ سیدناحضرت اقدس مسیح موعودؑ تھے۔راجوری کے علاقے میں احمدیت کے نفوذکاایک بڑاذریعہ حضرت قاضی محمداکبرصاحبؓ کی تبلیغی مساعی بھی تھیں۔ اور اس تبلیغ کے دوران حضرت قاضی صاحبؓ اپنے خاندان کی دی ہوئی مختلف صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کوقبول کرنے کے باعث آپؓ پرکفرکے فتوے بھی لگائے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی سعی کوقبول فرماتے ہوئے آپؓ کی زندگی میں ہی راجوری کے علاقے میں ہزاروں افرادکواحمدیت قبول کرنے کی توفیق عطاکی۔ حضرت قاضی محمداکبرصاحبؓ کی نمازِ جنازہ غائب حضرت مصلح موعودؓ نے 5؍جون1931ءکوپڑھائی۔

والدصاحب نے ابتدائی تعلیم تعلیم الاسلام ہائی اسکول چارکوٹ سے حاصل کی۔ ازاں بعد 1942ء میں پہلی مرتبہ قادیان گئےاور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اورکچھ عرصہ دارالشیوخ میں حضرت میرمحمداسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شفقتوں کے سائے میں قیام کیا۔ تاہم بعدمیں تعلیم ترک کرکے بابواکبرعلی صاحب کی اسٹارہوزری اورازاں بعدنواب محمداحمدصاحب کے کارخانہ میک ورکس میں کام کرتےرہے۔ جب حضرت میرمحمداسحاق صاحبؓ کی وفات ہوئی توآپ گیسٹ ہاؤس دارالانوارقادیان میںموجودتھے۔ 1944ء میںجب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دعویٰ مصلح موعودکے سلسلے میں ہوشیارپورمیں جلسہ منعقدفرمایا، آپ کوبھی اُس جلسے میں قادیان سے شرکت کااعزازحاصل ہوا۔

1944ءمیں ہی قادیان سے حضرت نواب محمدعبداللہ خان صاحبؓ کے ہم راہ آپ نصرت آباداسٹیٹ سندھ پربطورمنشی آگئے۔ ازاں بعدآپ کورہتال ضلع راجوری میں جماعتی طورپرنائب صدر اورسیکرٹری مال اورتنظیمی سطح پر قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے طورپرخدمت کی توفیق ملی۔

1946ءمیں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے الفضل میں اعلان فرمایاکہ نوجوانانِ جماعت قادیان میں اپنے مرکزِ احمدیت کی حفاظت کے لیےآئیں تووالدصاحب جو اپنےوالدِ محترم کی وفات کے بعدگھرکے واحدکفیل تھے، اپنی والدہ، چھوٹے بھائی (جواُس وقت دس برس کے قریب عمرکے تھے)، چھوٹی بہن اوراپنی اہلیہ کو سپردِ خداکرکےحضورؓ کی تحریک پر قادیان چلے گئے۔ اس دوران قادیان آنے کے بعدآپ کی بیٹی کی پیدائش ہوئی اوروہ تقدیرِ الٰہی کے تحت پیدائش کےچھ ماہ بعدوفات پاگئی۔ لیکن آپ خداکے مسیح کی اُس پیاری بستی قادیان میں ڈیوٹی کی ادائیگی کی وجہ سے بیٹی کوپیدائش کے بعدنہ دیکھ سکے۔ آپ کوہجرت کے موقع پرقریباً6ماہ قادیان میں حفاظتِ مرکزکی ڈیوٹیاں دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ازاں بعدآپ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادپرعارضی مرکزلاہورسے احمدی مہاجرقافلے سندھ کی اسٹیٹوں میں چھوڑنے کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ کے تحریرکردہ ہجرت اوراس سے قبل قادیان میں گزارے ہوئے ایام کے مفصل حالات وواقعات الفضل آن لائن میں شائع ہوچکے ہیں۔

(https://www.alfazlonline.org/09/01/2021/29794)

پاکستان بننے کے بعدوالدصاحب جب ہماری پہلی والدہ، دادی جان، پھوپھی جان اورچچاجان کولےکر بھمبرگلی کے راستہ جہلم پہنچے۔ وہاں جہلم میں امیرجماعتِ احمدیہ سیدزمان شاہ صاحب تھے۔ وہ ڈی سی آفس میں ہیڈ کلرک بھی تھے۔ اُس زمانہ میں حضرت مولوی محمدحسین صاحبؓ (سبزپگڑی والے )جہلم کی جماعت میں مبلغ تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے آپ کوفرمایاکہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اگراس لڑکے(یعنی والدصاحب نے)یہاں جہلم میں آبادہوناہوتوشہرمیں سکھوں کاایک متروکہ مکان اورسامان سے بھری دکانیں ہیں، وہ انڈیاچلے گئے ہیں۔ میں کھلوا دیتاہوں۔ مگرآپ نے انکارکردیاکہ میں نے سندھ ہی جاناہے۔ آپ اپنے سندھ جانے کی وجہ بیان کیاکرتے تھے کہ سندھ میں مقیم ہونے کی وجہ اورخواہش حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسندھ میں اپنی زمینوں کے سلسلے میں دورہ پرتشریف لانااوریوں آپ کی ملاقات سے مشرف ہونااوربرکت پاناتھا۔اوراسی شوق نے آپ کو جہلم میں بلاادائیگی معاوضہ، سامان سےپُردو دکانات اورایک مکان ملنے کے باوجود آبادنہ ہونے دیا۔ اورآپ نے مستقلاًسندھ میں آبادہونے کوترجیح دی۔

آپ نے اپنی یادداشتوں میں تحریرکیاکہ

’’خاکسارنےبعدازہجرت کنری کو جس مقصد اور خواہش کو مدنظررکھتے ہوئے اپنامسکن ٹھہرایااللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھ حقیرکے اس مدعااورمقصدکو قبولیت بھی عطافرمائی اورخلافت کی بے انتہابرکتوں سے مالامال فرمایاجومیرے اورمیری اولادوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔ خلافت کی انہی برکتوں اوردعاؤں کی بدولت خاکسارکے دوبیٹے مربی سلسلہ کے طورپرخدمتِ دینیہ کی توفیق پارہے ہیں۔ جن میں سے ایک جامعہ احمدیہ میں استادہیں۔‘‘

آپ کہاکرتے کہ مجھےحضرت مصلح موعودؓ کے وجودِ بابرکات سےعشق ہوگیاتھا اورخداتعالیٰ کے فضل سےآپ کی یہ غلامانہ محبت وعقیدت دیگر خلفائے کرام کے ساتھ بھی جاری رہی اوراپنی اولادکو ہمیشہ اس کی تاکیدکرتے رہے۔ مئی1949ء میں جب حضورؓ ناصرآبادسندھ تشریف لائےتوایک ملاقات میں حضرت مصلح موعودؓ نے ہماری دادی جان سےفرمایاکہ آپ کے والد قاضی محمداکبرصاحبؓ کے بھائی میاں ثناء اللہ صاحب(یہ صحابی نہ تھے) میرے ساتھ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سے اکٹھے حدیث اور طب پڑھتے رہے ہیں۔ لہٰذاحضرت قاضی صاحبؓ کی تبلیغی مساعی اورقربانیوں اورمیاں ثناء اللہ صاحب سے تعلق کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے ازراہِ شفقت والدصاحب سے ہمیشہ محبت وشفقت کاسلوک فرمایا۔ چہ نسبت خاک راباعالمِ پاک و

ایں سعادت بزورِ بازونیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

حضرت مصلح موعودؓ جب ناصرآباددورہ پرتشریف لاتے تو آپ خلافت سے عقیدت ومحبت کی خاطراپناکاروبارچھوڑ دیتےاورسارادن حضورؓ کی موجودگی سے برکت پانے کے لیےناصرآبادمیں ہی موجودرہتے۔دن میں حضرت مصلح موعودؓ کی اقتدائے مبارک میں نمازیں اداکرنے کی توفیق پاتےاوررات کوعشاء کی نمازکے بعدحضورؓ کے بدنِ مبارک کودبانے کے لیے کوٹھی چلےجاتے۔ 1949ء کا رمضان ختم ہونے کے بعدحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے مطابق آپ اگست 1949ء میں کنری سندھ سے کوئٹہ حضورؓ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہوگئے۔والدصاحب بتایاکرتے تھے کہ اس موقع پرایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیاکہ میرے کوئٹہ جانے سے قبل وہاں برسات نہیں ہوئی تھی۔ سخت حبس اورگرمی زوروں پرتھی۔ میں جس دن کوئٹہ اتراشام کوحضورؓ سے ملاقات کے لیے کوٹھی یارک ہاؤس میں داخل ہواتونہایت موسلادھاربرسات شروع ہوگئی۔ حضورؓ ازراہِ شفقت مجھےاندرکمرے میں یہ فرماتے ہوئے لے گئے کہ اب برسات ختم ہوگی توپھرجانا۔ قریباً ایک گھنٹہ بوجہ برسات حضورؓ کے سایہ محبت وشفقت میں اسی کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ حضورؓ اندرتشریف لے جاکربسترپرلیٹ گئے اوراس دوران خاکسار کوساتھ بیٹھ کرحضورؓ پُرنورکاجسم دبانے کا موقع ملا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ کوئٹہ میں سخت گرمی پڑرہی تھی۔ برسات ہونہیں رہی تھی۔ تم تواپنے ساتھ برسات بھی لے کرآئے ہو۔ میں نےجسارت کرکے ازراہِ تفنن عرض کی کہ حضورؓ سندھ میں برسات ہورہی تھی اس لیےمیرے ساتھ ہی آگئی ہے۔

کوئٹہ میں آپ نے اپنی اہلیہ کی وفات کاذکرحضرت مصلح موعودؓ سے کیاتوآپ نے نہایت شفقت سےفرمایاکہ تم نے مجھے کیوں نہیں لکھا، میں جنازہ پڑھاتا۔ آپ کہتے تھے کہ مجھے اب یہ یاد نہیں کہ آیاحضورؓ نے بعدمیں جنازہ پڑھایا۔ کوئٹہ میں ہی حضورؓ نے اپنے تکیے کے غلاف کے اندر ہاتھ ڈال کر گذشتہ ایک ماہ میں آپ کے اپنے آقاکو تحریرکردہ چاریاپانچ خطوط بھی نکال کردکھائے کہ یہ تمہارے خط آئے ہوئے ہیں۔ حضرت مصلح موموعودؓ نے اپنے اس غلام کوازراہِ شفقت اپنے دستِ مبارک سے ایک سے زائدمرتبہ مکتوباتِ گرامی تحریرفرمائے۔ جن کے لفافہ پربھی حضورؓ نے اپنے دستِ مبارک سے پتہ تحریرفرمایا۔ والدصاحب نے یہ مکتوبات نہایت حفاظت سے سنبھال کررکھے ہوئے تھے اورانہیں اپنااثاثہ قراردیتے تھےجوکہ ہمارے لیے اب نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے والدصاحب پرعلاوہ دیگر بے شمارشفقتوں کےازراہِ شفقت آپ کواپنا بدنِ مبارک دبانے کاموقع بھی بیسیوں مرتبہ ناصرآباداورکوئٹہ میں عطافرمایا۔

خداتعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ میسرآنے والے بابرکات لمحات کے بارے میں بھی آپ کاایک تفصیلی مضمون الفضل آن لائن میں شائع ہوچکاہے۔

(https://www.alfazlonline.org/07/04/2020/14598)

آپ کی طبیعت میں حجاب اورعاجزی تھی۔ آپ نے کبھی کسی سے حتیٰ کہ اپنی اولادسے بھی حضرت مصلح موعودؓ کی عطافرمودہ شفقتوں کاذکرنہ کیاتھا۔ خاکسارکے اصرارپرہی آپ نے اپنی یادداشتیں تحریرکیں اور وفات سے قریباًڈیڑھ سال قبل ہجرت اوراس سے پہلے قادیان میں گزارے ہوئے ایام کے تفصیلی حالات وواقعات نیزحضرت مصلح موعودؓ کے بابرکت وجودکےہم راہ یادیں حضورِ انورایدکم اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں پیش کرنے کے لیے بھجوائیں۔ جس پرحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےازراہِ شفقت والدصاحب کوخط میں تحریرفرمایاکہ

’’ماشاء اللہ بڑی تاریخی یادداشتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔‘‘

آپ خاکسارکودورانِ طالب علمی جامعہ احمدیہ جب خط لکھاکرتے تو اکثراُس میں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کا یہ شعرنصیحتاًلکھاکرتے

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

اسی طرح ہمیشہ خلافت سے عقیدت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تاکیدکیاکرتے اورکہاکرتے کہ سب برکتیں خلافت سے ہی وابستہ ہیں۔ عمرکے آخری حصے میں جب شنوائی بہترنہ رہی اور حضورِ انورایدکم اللہ تعالیٰ کا خطبہ سن نہ سکتے تھے توخطبہ کے بعدپوچھاکرتے کہ آج حضورِ اقدس نے کس بارے میں خطبہ ارشادفرمایاہے۔ والدصاحب مرحوم اکثرکہاکرتے تھے کہ میری صحت مندلمبی عمرکارازحضرت مصلح موعودؓ کی خدمت کی سعادت میسرآنااورآپؓ کی اپنے غلام کودی ہوئی دعائیں ہیں۔ آپ اپنی اولادکوبھی تاکیدکیاکرتے تھے کہ ہمیشہ خلافت سے غلامانہ تعلق رکھنا۔ نیزحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعائیہ خط خودبھی لکھتے اورہمیں بھی اس کی ہرموقع پرتلقین کیاکرتے تھے۔

شعائراللہ کااحترام آپ کے دل میں ہروقت موجزن رہتا۔ ہمیں نصیحتاً کہاکرتے تھے کہ جس طرح آنحضرتﷺ کاذکرآنے پرزیرِ لب درود شریف پڑھا جاتا ہےاسی طرح جب بھی حضرت مسیح موعودؑ اورآپ کے خلفائے کرام کاذکرہوتودل میں علیہ السلام اوررضی اللہ عنہ ضرورکہاکرو۔

خاندان حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ سے بھی آپ کوخادمانہ عقیدت تھی۔ حضرت چھوٹی آپاسیدہ اُمِ متین مریم صدیقہ صاحبہ نے آپ کوبھائی بنایاہواتھا۔ کنری سے ربوہ آتے توحضرت چھوٹی آپاصاحبہ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضرہوتے۔ اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کفن کے کپڑے کاایک ٹکڑابھی آپ نے بڑی احتیاط اورعقیدت سے تبرکاًسنبھال کررکھاہواتھا۔

نمازوں کی ادائیگی اورعبادات گویاآپ کاجزوِ روح تھی اورآخرعمرتک باجماعت نمازکی ادائیگی کاالتزام کرتے رہے۔ کراچی میں رہائش کے وقت باوجوداس کے کہ گھرسےمسجدکافاصلہ دومیل کے قریب تھا آپ پیدل فجرکی نمازکی ادائیگی کے لیے ہم بچوں کوبھی ساتھ لےکرجاتے۔ اسی طرح عمرکے آخری حصہ قریباً94سال کی عمرتک کھڑے ہوکرنمازکی ادائیگی آپ کامعمول رہا۔ خاکسارنے آپ سے ایک سے زائدمرتبہ یہ عرض کی کہ شریعت نے اس عمرمیں اوربیماری کی حالت میں بیٹھ کرنمازپڑھنے کی اجازت دی ہے جس پرآپ جواباًکہاکرتےکہ بیٹھ کرنمازاداکرنے میں لطف نہیں آتا۔ کنری میں جب آپ میڈیکل پریکٹس کیاکرتے تھے تودن کے مصروف اوقات میں نمازوں کے لیےکلینک کھلی چھوڑکر مسجد میں ظہروعصرکی نمازباجماعت اداکرتے۔ 1984ء سے قبل احمدیہ بیت الحمدکنری میں عصرکے وقت اذان دینابھی آپ کامعمول تھا۔ آپ کی وفات کے بعدکنری کے چنددوستوں اورجماعتِ احمدیہ کنری میں خدمات بجا لانے والے ایک مربی صاحب سے بات ہوئی توہرکسی نے یہ الفاظ دوہرائے کہ ’’ڈاکٹرصاحب کنری کی مسجدکی رونق تھے۔‘‘

آپ کواپنے مالکِ حقیقی کی ذات پرکامل یقین تھا۔خاکسار نے جب سے ہوش سنبھالاوالدصاحب مرحوم کورات کے آخری پہرنہایت گریہ وزاری سے خداتعالیٰ کے حضورنمازِ تہجد ادا کرتے دیکھااورتہجدکایہ معمول آخری وقت تک جاری رہا۔آخری عمرکاکچھ عرصہ جب آپ خاکسارکی رہائش میں منتقل ہوگئے توایک دن بیماری کاشدیدحملہ ہوالیکن دو روز بعدخداتعالیٰ کے فضل سےجب طبیعت معمولی سی بہترہوئی تو اسی طرح الحاح کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں آپ کے رونے اورخداتعالیٰ کے حضوردعائیں کرنے کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں۔

آپ اپنی اولادکونصیحتاًبتایاکرتے تھے کہ میں جوانی میں 50ء اور60ء کی دہائی میں گولارچی کے قریب جنگلوں میں رہااورمجرّدزندگی میں بھی نمازِ تہجدکوترک نہ کیا۔ آپ نے اپنی یادداشتوں میں میڈیکل پریکٹس کے دوران بکثرت ایسے مریضوں کی شفایابی کاذکرکیاجنہیں محض دعاکے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ زندگی عطافرمائی۔ آپ نے لکھاکہ

’’اصل میں تو میں بالکل جاہل اوربے علم تھامگر اپنے پیداکرنے والے شافی اورکافی مولاکے آگے شفاکی بھیک مانگتاتھا۔ وہ اس بے علم اورگناہ گارکی عزت اورشرم رکھتاتھا۔‘‘جوبھی دعاکاکہتا، باقاعدہ نام لے کرصبح کے نوافل میں اُس کے لیے دعائیں کرناآپ کامعمول تھا۔

قریباً90سال کی عمر تک آپ کورمضان المبارک کے روزے رکھنے کی توفیق حاصل ہوتی رہی۔ جبکہ وفات سے دوسال قبل تک نفلی روزے بھی رکھاکرتے تھے۔ نمازِ فجرسے قبل تفسیرِ صغیرسے بآوازِ بلندتلاوتِ قرآنِ کریم باترجمہ کالمبادورکیاکرتے۔ بچپن میں ہم بچوں کوآپ نے ہی صبح کلینک پرجانے سے قبل قرآنِ کریم ناظرہ پڑھایااور ایک کثیرحصہ باترجمہ قرآنِ کریم کا زبانی یاد بھی کروایا۔

چندہ جات کی باشرح ادائیگی میں آپ نہایت باقاعدہ تھے۔ جب تک میڈیکل پریکٹس کرتے رہے، شام کو گھر آنے کے بعدسب سے پہلے والدہ صاحبہ کوطوعی اور لازمی چندے علیحدہ کرکے دیتے تھے۔ آخری دنوں تک اپنے بیٹے کی جانب سے جوبھی آمدہوتی، سب سے پہلےاُس میں سے حصہ وصیت علیحدہ کیاکرتے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیدادمکمل اداکردیاتھا۔

آپ کوسلسلےکی کتب خصوصاًحضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی تصانیفِ مبارکہ کے مطالعہ کاجنون کی حدتک شوق تھا۔ آخری عمرمیں انوارالعلوم کی کئی جلدوں کامطالعہ کیا۔ کتابیں اپنی جیب پربوجھ ڈال کربھی خریداکرتے تھے۔ گھرمیں سلسلےکی کتب پرمشتمل لائبریری بنائی ہوئی تھی۔ عموماًمغرب کے بعدہم بچوں کوگھرمیں جمع کرکے فیملی کلاس کابھی انعقادکیاکرتے تھے۔ جس میں بچوں سے جماعتی لٹریچرپڑھایاکرتے تھے۔ بچپن میں ہم بچوں کو رات سونے سے پہلے اکٹھاکرکے تلاوت، نظم اورتقریرکامقابلہ کروایاکرتے۔ تنظیمی مقابلہ جات میں بڑے شوق کے ساتھ ہماری تیاری کروایاکرتےاوران مقابلوں میں پوزیشنز حاصل ہونے کے نتیجے میں اپنی جانب سے بھی حوصلہ افزائی کے طورپرانعام دیتے۔ 1982ء میں بڑے بھائی مکرم فاتح الدین صاحب کنری میں غالباًدوسری جماعت کے طالبعلم تھےتوشہربھرکے اسکولزکے درمیان قومی دن کے موقع پر تقریری مقابلہ ہوا۔ جس میں والدصاحب نے انہیں تقریرلکھ کرتیاری کروائی۔ تقریرمیں قرآنی آیات بھی شامل تھیں۔ والدصاحب کی لکھی اس تقریرکی جب پہلی پوزیشن آئی توانعام میں قرآنِ کریم بھی شامل تھا۔ لہٰذاشہربھرمیں شورمچ گیاکہ ’’قادیانی بچہ‘‘ انعام میں ’’ہمارا‘‘قرآنِ کریم لےگیاہے۔ چنانچہ اس موقع پرایک استادنے مجمع کویہ کہہ کرخاموش کروایاکہ جس کوقرآن آتاتھا اُس نےتقریرمیں قرآن پڑھ کرقرآنِ کریم حاصل کیاہے۔

منظوم کلام حضرت اقدس مسیح موعودؑ اورخلفائے کرام سے آپ کومحبت تھی۔ اس کابہت ساحصہ آپ کوزبانی یادتھا جسےزیرِ لب گنگناتے بھی رہتےتھےنیزفارغ اوقات میں علاوہ دیگرکتب کےمنظوم کلام کابھی مطالعہ کیاکرتے۔ ہمیں بچپن میں آپ اپنے کلینک پر لے جاتے تودرِ ثمین اورکلامِ محمودکی نظمیں پڑھواتے۔ کراچی میں ایک مرتبہ ہم بچوں سے دکان پربیٹھے بلندآوازسے نظمیں سن رہے تھے کہ سامنے سے دکاندارآگیااورکہنے لگاکہ بچوں سے یہ نظمیں مت پڑھواؤ۔ جس پروالدصاحب نے اُسے سمجھایاکہ اس کلام میں کیامضمون بیان ہورہاہے۔

آپ با ذوق طبیعت کے مالک تھے اورمعروف شعراء کے کلام کاکچھ حصہ آپ کوازبرتھااوراُس کابرموقع وبرمحل استعمال بھی کیاکرتے تھے۔ وفات سے چنددن پہلے آپ کی ایک بہونے آپ کوکہاکہ اباجان اب توآپ کی طبیعت بہترلگ رہی ہے توالحمدللہ کہنے کے بعدبرجستہ یہ شعر پڑھا

اُن کے دیکھے سے جوآجاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

1950ء میں اپنے ایک دوست مولوی فضل الٰہی صاحب ابن حضرت مولوی رحمت علی صاحبؓ کی ناصرآباد سندھ میں اچانک وفات پرایک غزل بھی کہی جس کا آخری شعر یہ تھا:

پوچھتے ہوصادق اب کیا، کون ہے چلتا ہوا

نام اُس کافضل تھا اورفضل ہی اُس پر ہوا

جب تک روزنامہ الفضل جاری رہاآپ باقاعدگی سے اسے خریدکرپڑھاکرتے۔ اسی طرح عام اخبارکابھی خریدکرمطالعہ کیاکرتے تھے اوراپنے دونوں مربیان بیٹوں کوکہاکرتے کہ اخبارباقاعدگی سے پڑھاکرو۔ اس سے حالاتِ حاضرہ سے آگاہی رہتی ہے جوایک مربی کے لیے بےحدضروری ہے۔ جماعتِ احمدیہ کنری کے الفضل کے ایک سابق ایجنٹ صاحب نے آپ کی وفات کے بعدخاکسارکولکھاکہ’’آپ کے والدصاحب کوالفضل سے بھی بہت عقیدت تھی جس کامشاہدہ خاکسارنے اُس وقت کیاجب خاکسارکنری میں روزنامہ الفضل کانمائندہ بنا۔‘‘روزنامہ الفضل میں آپ کے بعض مضامین اورہفت روزہ لاہورمیں چندخطوط شائع بھی ہوئے۔

آپ کوجوانی سے روزانہ کی ڈائری لکھنے کی عادت تھی اوراپنی اولادکوبھی کہاکرتے تھے کہ ڈائری لکھاکرواِس سے محاسبہ نفس بھی ہوتاہے اوریادداشت بھی بہترہوتی ہے۔ جذبہ خدمتِ خلق کے تحت آپ بطورمیڈیکل پریکٹیشنر مستحق مریضوں کانہ صرف مفت علاج کیاکرتے تھے بلکہ بعض مریضوں کے گھردوائیاں بھی بھجواتے تھے۔

آپ کوتبلیغِ سلسلہ کا بھی ازحدشوق تھااورعموماًسفروں میں اپنے ساتھ سفرکرنے والے مسافروں کولازماً سلسلہ کاتعارف کروایاکرتے۔ نوجوانی میں پاکستان بننے سے قبل رہتال ضلع راجوری میں ایک شخص آپ کے زیرِ تبلیغ رہ کراحمدی ہواجسے بعدمیں اُس کے عزیزوں نے بوجہ مخالفت شہیدکردیا۔

نوجوانی سے ہی آپ نے جناح کیپ پہننی شروع کردی تھی اورکبھی بھی ننگے سرگھرکے دروازے سے قدم باہرنہ نکالاتھا۔ اس کی وجہ آپ بیان کیاکرتے تھے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایاہے کہ ننگے سرپھرناآوارگی کی علامت ہے۔

شریعت کے ہرحکم کی تعمیل آپ کے مدِ نظررہتی۔ آپ نے جب اپنی جائیدادفروخت کی تواپنی وصیت کاحصہ جائیداد اداکرنے کے بعدباوجوداشدذاتی ضرورت کے اپنی شادی شدہ بیٹی کاحصہ فوری طورپراُسے اداکیا۔ اسی طرح ہماری والدہ صاحبہ کوحق مہربھی اُن کے ہاتھ پررکھ کراداکیا۔ رحمی تعلقات اوراُن کی ضروریات کابھی آپ بے حدخیال رکھتے اورنہ صرف اپنی اولادبلکہ اپنی اکلوتی ہمشیرہ اوربھائی کی اولادسے بھی آپ کوبے حدپیارتھا۔ آپ کی اس شفقت اورمحبت کاذکرخاکسارکے چچامکرم مبارک احمدراجوری صاحب نے اپنی کتاب’’چارکوٹ کے درویش‘‘میں بھی کیاہے۔

آپ کی طبیعت میں توکل علی اللہ اوربے حدخودداری تھی۔ باوجودضرورت کےکسی سے کوئی ادنیٰ چیزبھی وصول کرنے سے حتی المقدوراجتناب کرتے۔ آپ نے اپنی جوانی کاایک واقعہ یوں تحریرکیا کہ

’’میں جنوری1951ء میں حضرت مصلح موعودؓ سے ملاقات کے لیے ربوہ روانہ ہوا۔ ملتان اسٹیشن پرگاڑی رکی توایک بزرگ نورانی چہرے والے ریل کے ڈبہ میں آکرمیرے سامنے سیٹ پربیٹھ گئے۔ انہوں نےسلام دعاکے بعدمجھ سے پوچھاکہ کہاں سے آئے اورکہاں جارہے ہو۔ میں نے بتایاکہ میں کنری سندھ میں جماعتِ احمدیہ کی فیکٹری میں سپروائزرہوں اورحضورؓ کوملنے ربوہ جارہاہوں۔ انہوں نے مجھے فرمایاکہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمتِ اقدس میں میراسلام پہنچادینا۔ میرا نام محمدحسین ہے اور میں جماعتِ احمدیہ ملتان کا امیر ہوں۔ جنوری کا مہینہ اور صبح کا وقت تھا اور سردی بہت تھی۔ میں نے بغیربازوؤں کاسویٹر پہنا ہوا تھا۔ چودھری محمدحسین صاحب نے اپنا اوورکوٹ اتارا اورمجھے کہاکہ یہ پہن لوکیونکہ سردی بہت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس بزرگ نیک انسان پررحمتیں اوربرکتیں نازل فرمائے اوراعلیٰ علیین میں داخل فرماوے۔ یہ بزرگ مکرم ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نوبل لاریٹ کے والدِ محترم تھے۔ میں نےاُن سے شکریہ کے ساتھ عرض کیاکہ مجھے سردی نہیں لگتی اوراگرمجھے سردی لگی تومیرے پاس اوپربسترمیں کمبل پڑا ہے، نکال کراوڑھ لوں گا۔ حالانکہ میرے پاس بسترمیں ایک پرانا کمبل تھا۔ جوبوجہ خستہ ہونے کے شرم سے نہیں اوڑھاتھا۔ میرے کوٹ لینے کے انکارکے باوجوداصرارکرتے ہوئےفرمایاکہ یہ دیکھو میںنےایک سویٹراورچھوٹاکوٹ اندرپہناہواہےاوریہ کہتے ہوئےانہوں نے اوورکوٹ میرے اوپرڈال دیا۔ مجھے لیتے ہوئے طبیعت میں حجاب اورشرم محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ شکریہ کے ساتھ کوٹ انہیں واپس کرکے لینے سے انکارکردیا۔ حالانکہ مجھے سردی لگ رہی تھی۔‘‘

آپ اپنے واقفینِ زندگی بیٹوں سےروزمرہ ضروریات کی خاطرمعمولی سی رقم لینابھی پسندنہ کرتے تھے اوراگرہم دونوں مربیان بیٹے اپنے والدصاحب کوکبھی کبھارمحبت سے کچھ دیتے بھی تووقتی طورپرقبول کرلیتے لیکن اُس کے چنددن بعدہی اُس سے زائدرقم کسی طرح سے لوٹادیتے۔ وفات سے چارروزقبل خاکسارپرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ سے اجازت لے کروالدصاحب کے پاس اسلام آبادہسپتال گیا۔ جب آپ کوخاکسارکے آنے اورسفرمیں ہونے کامعلوم ہواتوخاکسارکے پہنچنے سے قبل بڑے بیٹے کوکہاکہ واقفِ زندگی بھائی کواُس کے آنے کاخرچ ضروردینا۔ اسی طرح کنری میں رہائش کے وقت مرکزسے آمدہ مربیانِ سلسلہ سے محبت کاتعلق رکھتے۔ ا ُن کی ضیافت کیاکرتے اوراُن واقفینِ زندگی کے بیمارہونے کی صورت میں علاج اوردوائیاں پیش کیاکرتے۔

آپ کوروزانہ ورزش کی عادت تھی اورعمر کے آخری حصہ تک باقاعدگی کے ساتھ صبح نمازِ فجر کے بعدورزش کرتے رہے۔ ہم دونوں واقفینِ زندگی بیٹوں کوبھی اکثرکہاکرتے تھے کہ اگرخدمتِ دین کرناچاہتے ہوتواِ س کے لیے صحت کاخیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ خاکسارنےموٹرسائیکل کی اجازت حاصل کرکے جب سائیکل کے ساتھ ساتھ بچوں کولانے اورلے جانے کے لیے موٹرسائیکل بھی چلاناشروع کی توکہنے لگے کہ سائیکل کاایک بہت بڑافائدہ ورزش بھی تھا۔ وقت توبچ جائے گالیکن غیرمحسوس ورزش سے محروم ہوگئے ہو۔

جیساکہ ابتدا میں ذکرکیاکہ خداتعالیٰ کے فضل سے آپ کواپنے مالکِ حقیقی کی ذات پرپختہ اورکامل یقین تھا۔ اسی تعلق باللہ، خلافتِ احمدیہ سے والہانہ عقیدت، نظامِ جماعت سے کامل وابستگی اور خداتعالیٰ کے فضل کےنتیجہ میں بہت سے مواقع پرآپ کو سچی خوابیں بھی آئیں۔ خصوصاًخلافتِ ثالثہ اوررابعہ کے متعلق آپ کوخداتعالیٰ نے بذریعہ خواب قبل ازانتخابِ خلافت آگاہ فرمایا۔ خلافتِ رابعہ کے متعلق دیکھاہواخواب ازاں بعد روزنامہ الفضل میں 25؍جولائی 1982ء کو شائع بھی ہوا۔ جبکہ خلافتِ خامسہ کے متعلق ایک مبشر خواب کاذکرآپ نے اپنی نوٹ بک میں یوں کیاکہ

’’حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات سے سات آٹھ دن قبل میں نے خواب میں دیکھاکہ پوراچاندہے اورغروب ہونے کے نزدیک ہے مگراُس کے آگے ابرہےاوراُس میں سے چھَن کرروشنی آرہی ہے۔‘‘

آج ہم خلافتِ خامسہ کے ابرِرحمت اورآپ کے وجودِ بابرکت میں للّہی نورکامشاہدہ بفضلہ تعالیٰ اپنی آنکھوں سے کررہے ہیں۔ فالحمدللہ تعالیٰ۔

خلافتِ خامسہ کے متعلق ہی والدہ صاحبہ مرحومہ کو آیاہوا ایک خواب جوآپ نے ڈائری میں نوٹ کیا اوروالدہ مرحومہ کوانتخابِ خلافت سے قبل کسی کوبتانے سے منع کیااوربتایاکہ یہ خلافت کے تقدس کے خلاف ہے۔ یہ خواب جوآپ نے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا کچھ اس طرح تھاکہ

’’7؍جولائی2000ء جمعہ کی رات صبح چاربجے میری اہلیہ حفیظہبیگم صاحبہ نے خواب دیکھاکہ فاتح الدین بشیر محمود اوربرہان الدین احمدمحمود(متعلم جامعہ احمدیہ) دونوں بیٹے باہرسے گھرمیں آئے ہیں توکہتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ وفات پاگئے ہیں۔ میری اہلیہ کہتی ہیں کہ کل تک توان کی بیماری کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اب جمعہ کون پڑھائے گا۔ کہتی ہیں کہ میں نام لینے لگی ہوں توبرہان الدین بیٹااپنے منہ پرانگلی رکھ کرمجھے منع کررہاہے۔ امی جی نام مت لیں لکھ لیں۔ جس پرمیں نے لکھاہے ’’مرزامسروراحمد‘‘اورمیری آنکھ کھل گئی۔‘‘

2003ء میں حضورِ انورایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے مسندِ خلافت پرمتمکن ہونے کے بعدیہ خواب والدصاحب نے حضورِانورکی خدمتِ اقدس میں لکھ کر بھجوایا۔

ہماری پہلی والدہ کی وفات(1949ء)کے بعدآپ کی دوسری شادی بعمر 48سال1972ءمیں ہوئی اورآپ نے شادی کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں لکھاکہ خداتعالیٰ نے جواولادبھی عطاکی وہ سب خداتعالیٰ کی راہ میں وقفِ اولادکے تحت خلافت کے قدموں میں ڈال دوں گا۔ چنانچہ آپ کو اپنے اس کیے ہوئے عہدکوبفضلہ تعالیٰ نبھانے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اورپہلے چاربچوں کی وفات کے بعدپیداہونے والے تینوں بیٹے جامعہ احمدیہ میں تعلیم کی غرض سے بھجوائے۔ جن میں سے دوخداتعالیٰ کے فضل سے بطور مربی سلسلہ خدمتِ دین کی توفیق پارہے ہیں۔ جبکہ اکلوتی بیٹی اوراُس کے تینوں بچوں کواُس کے شوہرکی وفات کے بعدتربیت کی خاطراپنے پاس بلالیا۔ چنانچہ اکلوتانواسہ اس وقت جامعہ احمدیہ میں زیرِ تعلیم ہےاوردونواسیاں حافظہ قرآن ہیں۔

آپ کوخداتعالیٰ نے قریباً50سال کی عمرکے بعد اولاد دی اورتمام عمرایک ہی خواہش اورتمنارہی کہ میں اپنی زندگی میں اولادکودین کی خدمت کرتے دیکھ لوں۔ اس خواہش کااظہارآپ اپنی اولادسے بھی کیاکرتے تھے۔ الحمدللہ کہ محض اورمحض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کی اس خواہش کوپورافرمایا۔ ایک مرتبہ بچپن میں آپ نے خاکسارسے پوچھاکہ تم نے بڑے ہوکرکیابنناہے۔ جس پر خاکسارنے کم عمری کے شوق میں کہاکہ کرکٹربنناہے۔ جس پرآپ نہایت پیارسے سمجھاتے ہوئے بتانے لگے کہ دین کی خاطرزندگی وقف کرنے میں بڑی برکتیں ہیں۔ آج کے اِس دَورمیں جوزندگی وقف کرکے صدقِ دل سےخدمتِ سلسلہ کرے گااُس کاذکرکل تاریخ میں نمایاں طورپر ہوگا۔

خاکسارکےزمانہ طالبعلمی میںایک مرتبہ جب خاکسار گھرگیاتوکہنے لگے کہ دیکھوکل جب تم نے میدانِ عمل میں جاناہے تولوگ حضرت مسیح موعودؑ اورخلیفۂ وقت سے محبت کی وجہ سے ممکن ہے تمہیں کبھی کبھارکوئی تحفہ بھی دیں۔ تم کبھی بھی اُس تحفہ کواپناحق نہ سمجھناکیونکہ وہ تمہیں تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خلافت اورسلسلہ کی وجہ سے دیاجائے گا۔

مراکزِ احمدیت ربوہ اوربالخصوص قادیان سے آپ کوبےانتہاعقیدت اورلگاؤ تھا۔ وفات سے دوروزقبل ہسپتال میں خاکسارکوکہنے لگے کہ مجھے اب ربوہ لے چلو۔ خاکسارنے عرض کی کہ ان شاء اللہ صحتیابی کے بعد ربوہ چلیں گے۔ جس پرنہایت یقین اورانتہائی اطمینان سے کہاکہ اب خداتعالیٰ کے حضورحاضرہونے کاوقت آگیاہے اور دو دن کے بعداپنے خالقِ حقیقی کے حضورحاضرہوگئے۔

دعاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سےمغفرت اوربخشش کاسلوک فرماتے ہوئے درجات بلند فرماتا رہے۔ ہمیںآپ کی دعاؤں کاوارث بنائے اورآپ کی نیکیوں پرعمل کرنے اورنیک خواہشات پر پورااترنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

آخرمیں حضرت مصلح موعودؓ کے ایک منظوم کلام پرتضمین کی صورت میں والدصاحب مرحوم کے متعلق جذبات کااظہار بغرضِ دعاپیش ہے۔

’’مجھ کو بھی اُن سے عشق تھا اُن کو بھی مجھ سے پیار تھا‘‘

میرے لیے تو بس وہی، موسمِ دل بہار تھا

اُس کا اسیرِ غم ہوں میں، کس سے کہوں تو کیا کہوں

میری تو جان تھا وہی مجھ پہ جو جاں نثار تھا

زندہ خدا پہ تھا یقیں، دل میں یہی تھا موجزن

یادِ خدا میں روح کو، اُ س کی تو بس قرار تھا

دُھن تھی بس اُس کو ایک ہی، کرتا تھا جس کووہ بیاں

خاتمہ ہو بخیر بس، دل میں یہی شرار تھا

عزم میں باکمال تھا، لمحۂ انتقال بھی

دل میں تھی لہرِرنج نہ آنکھ سے اشکبار تھا

عشق تھا قادیان سے، جس میں رہا شباب میں

کہتا تھا وہ یہ برملا میرا وہی دیار تھا

جب سے ہواہے وہ جدا، اُس سے جدا نہیں ہوں میں

خواب میں وصل ہے مدام، جو کبھی در نہار تھا

کرتا ہے تجھ سے التجا، بندۂ عاصی اے خدا

کرنا تو اُس سے درگزر، تیرا جو خاکسار تھا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button