کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر

میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔

(الحکم جلد 5 نمبر 3 مورخہ 24؍جنوری 1901ء صفحہ 5)

اس سوال کے جواب میں کہ جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا روزہ کیوں کر رکھیں؟ فرمایا:

اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر اُن کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قویٰ کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دکھلانا چاہیے۔ پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیے اور اگر اُن کے حساب کی، تو دوسو چھیاسٹھ برس تک بچہ پیٹ میں رہنا چاہیے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید ازقیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دن کا یہی مقدار ہے اور اس کے مطابق اُن کے قویٰ بھی ہیں۔ (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 277)

تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ ٔنفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کرجو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدا ور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔

(الحکم جلد 11 نمبر 2 مورخہ 17؍جنوری 1907ء صفحہ 9)

روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے۔ نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتی ہے۔ اس واسطے وہ افضل ہے۔ روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں۔ مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شامل نہیں۔ (بدر جلد 1 نمبر 10 مورخہ 8؍ جون 1905ء صفحہ 2)

ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔

فرمایا: جائز ہے۔

اسی طرح ایک اور سوال پیش ہوا کہ حالت روزہ میں سر کو یا ڈاڑھی کو تیل لگانا جائز ہے یا نہیں۔

فرمایا: جائز ہے۔

سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں۔

فرمایا: جائز ہے۔

سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے۔

فرمایا: مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے۔ رات کو سرمہ لگا سکتا ہے۔ (بدر جلد 6 نمبر 6 مورخہ 7؍ فروری 1907ء صفحہ 4)

فرمایا کہ بے خبری میں کھایا پیا تو اُس پر اُس روزہ کے بدلے میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔

(الحکم جلد 11 نمبر 7 مورخہ 24؍فروری 1907ء صفحہ 14)

ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میں مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا اور میرا یقین تھا کہ ہنوز روزہ رکھنے کا وقت ہے اور میں نے کچھ کھا کر روزے کی نیت کی۔ مگر بعد میں ایک دوسرے شخص سے معلوم ہوا کہ اس وقت سفیدی ظاہر ہو گئی تھی اب میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ ایسی حالت میں اس کا روزہ ہو گیا۔ دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنی طرف سے اس نے احتیاط کی اور نیت میں فرق نہیں صرف غلطی لگ گئی اور چند منٹوں کا فرق پڑ گیا۔ (بدر جلد 6 نمبر 7 مورخہ 14؍فروری 1907ء صفحہ 8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button