متفرق

غیبت سے اجتناب

(افشاں ریان۔ ہالینڈ)

غیبت ایک بد ترین گناہ ہے اور ایک ایسا ناپاک فعل جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ۫اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ۔(سورۃ الحجرات:13)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

غیبت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے ساتھی سے متعلق اس کی غیر موجودگی میں ایسی بات بیان کرے جسے اس کا ساتھی نا پسند کرتا ہو۔کیونکہ ایسا کرنے سے نفرت اور لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور باہمی ناراضگیاں بھی بڑھتی ہیں۔

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر غیبت اور بہتان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’اگر وہ عیب تمہارے بھائی میں پایا جاتاہے جو تم نے اس کی پیٹھ پیچھے بیان کیا تو یہ غیبت ہے اور اگر تم نے وہ بات اس سے متعلق کی جو اس میں نہیں پائی جاتی تو یہ بہتان ہے۔ ‘‘

(مسلم کتاب البر والصلۃ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غیبت سے اجتناب کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ’’غیبت کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے اگر کسی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے تو وہ غیبت میں داخل نہیں ہوتا۔ہاں اگر جھوٹی بات کی جائے تو وہ غیبت ہوتی ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ غیبت کا اطلاق ہمیشہ ایسی سچی بات پر ہوتا ہے جو کسی کو بدنام کرنے کے لیے اس کی غیر موجودگی میں بیان کی جائے،اگر جھوٹی بات بیان کی جائے گی تو وہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہو گا ۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ 579)

غیبت ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دوسرے انسان کے اندر موجود ہے۔اور ہم اس سے ناواقف ہوتے ہیں۔ہم چھوٹی چھوٹی بات پر غیبت کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر کسی کے منع کرنے پر کہتے ہیں کہ یہ تو ہم ویسے ہی بات کر رہے ہیں،یہ غیبت تو نہیں ہے۔غیبت جیسی بیماری خاص طور پر عورتوں میں بہت پائی جاتی ہے۔عورتیں اس فعل سے بالکل نا واقف ہیں کہ اُن کے اس فعل سے کسی کو یا کسی کے گھر کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ

’’ہمارے گھروں کے سکون لوٹنے والے اکثر جھگڑے لگائی بجھائی اور غیبت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔مثلاً ایک بہت مہربان نظر آنے والی خاتون آتی ہے،بہو سے انتہائی ہمدردی دکھاتے ہوئے اُسے ساس کی بعض باتیں،دلخراش انداز میں سناتی ہے۔پھر وہی خاتون مہربان اپنی تمام تر محبتوں کے ساتھ ساس کو بہو کے عیوب گنواتی ہے۔اُس خاتون کے اِس فعل سے ایسی آگ لگتی ہے جو کئی گھروں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے اور تا دیر کئی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔باقی جھگڑوں کے پیچھے بھی بالعموم ایسی غیبت کرنے والی زبانیں ہوتی ہیں ۔‘‘

(غیبت ایک بد ترین گناہ ۔صفحہ10)

ایسے لوگ جو اپنی زبانوں سےیہ گند اگلتے ہیں وہ اس بات سے بالکل نا آشنا ہیں کہ وہ ایک وقت میں دو بڑے گناہوں کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ایک غیبت جیسا بڑا گناہ،دوسرا کسی کا گھر اجاڑدینا۔کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ ہمارے اس غیبت جیسے گندے فعل سے کسی کی ذاتی زندگی کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عورتوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے مثال کے طور پر اکثر عورتیں شادی کی تقریب سے واپسی پر پوری پوری رات جاگ کر آپس میں بیٹھ کر غیبت کرتی ہیں۔دلہن تو بالکل بھی پیاری نہیں لگ رہی تھی۔کپڑے بہت پرانے ڈیزائن کے تھے۔ کھانا تو بالکل بھی مزے کا نہیں تھا وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں اس بات کا خیال نہیں آتا کہ اس ایک دن کے لیے اس پورے گھرانے نے کتنی محنت کی ہو گی اور ہم ایک پل میں سب فراموش کر دیتے ہیں ۔پھر ایسی عورتیں پوری رات غیبت جیسے برے فعل کی وجہ سے اپنی باقی نیکیاں بھی ضائع کر تی رہتی ہیں۔

جون 1906ء کو ایک دفعہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اندرونِ خانہ عورتوں کو نصیحت کی کہ ’’غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی رہتی ہیں۔اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں۔لیکن اس سے بچنا چاہیے۔عورتوں کی خاص سورت قرآن شریف میں ہے۔حدیث میں آیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں۔

عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں۔ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا،فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے پھر یہ کہ اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں ۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم،صفحہ 29)

عارضی مزے کے لیے اپنی جنت کو ضائع مت کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’اب بعض لوگ اس لیے تجسس کر رہے ہوتے ہیں۔مثلاً عمومی زندگی میں مزے لیتے ہیں۔دفتروں میں کام کرنے والے اپنے ساتھی کے بارے میں،یا دوسری کام کی جگہ کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے،اپنےساتھیوںکے بارہ میں اس کی کوئی کمزوری نظر آئے اور اس کمزوری کو پکڑیں اور افسروں تک پہنچائیں۔تاکہ ہم خود افسروں کی نظروں میں ان کے خاص آدمی ٹھہریں۔ ان کے منظورِ نظر ہو جائیں۔ یابعضوں کو یونہی بلا وجہ عادت ہوتی ہے۔کسی سے بلاوجہ کا بیر ہو جاتا ہے اور پھر وہ اس کی برائیاں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے لوگوں کا کبھی بھی جنت میں دخل نہیں ہو گا۔ ایسے لوگ کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے۔ تو کون عقلمند آدمی ہے جو ایک عارضی مزے کے لیے دنیاوی چیز کے لیے ذرا سی باتوں کا مزا لینے کے لیے،اپنی جنت کو ضائع کرتا پھرے۔‘‘

(خطبہ جمعہ26؍دسمبر2003ء)

حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ

’’دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اُس کے پاس ہوتی ہے۔کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے؟تو خوامخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنے کا فائدہ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص بڑا گناہگار ہو گا۔خدا تعالیٰ اُس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا۔اور اس سے پوچھے گا کہ تونے فلاں گناہ کیا۔ فلاں گناہ کیا۔ لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنائے گا۔وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے ہوئے ہیں۔خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن میں نے تیرے سارے گناہ معاف کیے اور ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دیا تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت ہی ثواب ملے گا۔یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا۔کہ اے خدا میں نے تو یہ گناہ بھی کیے ہیں۔تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سُن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسے دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلاتا ہے پھر اُسے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے تیری طبیعت چاہے داخل ہو جا۔تو کیا خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیا ہے۔ اس لیے غیبت کرنے سے بکلی پرہیز کرنا چاہیے ۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم، صفحہ 11)

اللہ تعالیٰ ہمیں غیبت جیسی بری عادت سے محفوظ رکھے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button