فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے
مسافر اور مریض فدیہ دیں
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔
(بدر17؍اکتوبر1907ءصفحہ7)
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے؟
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
(البدر12دسمبر1902ءصفحہ52)
فدیہ کسے دیں؟
سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا:
’’ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:
’’اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔‘‘
اور
وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:185)
کی نسبت فرمایا:
’’اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے۔‘‘
(بدر26ستمبر1907ء صفحہ7)
٭…٭…٭