متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عظیم نشان …ڈوئی اور صیہون کا انجام (قسط دوم۔ آخری)

(ابو نائل)

عورتوں سے معاشقے کا الزام

ڈوئی پر یہ الزام بھی لگایا جا رہا تھا کہ وہ ایک سے زیادہ شادی کو رواج دینا چاہتا ہے اور خود بھی دوسری شادی کرنے کا خواہشمند ہے۔ اور اس نے میکسیکو میں اس غرض کے لیے شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کیونکہ امریکہ کےبرعکس میکسیکو میں دوسری شادی کرنا جرم نہیں ہے۔ ڈوئی نے کہا کہ میرے پر دو عورتوں سے معاشقہ کا الزام لگایا جاتا ہے اور ان کے نام میرے رومانوی خطوط کو عام کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے موسیقی کی ایک استاد ایملی ویئر(Emily Ware) کی بیٹی ہیریٹ ویئر (Harriet Ware)ہے۔ اور یہ عورت میرے متعلق مشہور کر رہی ہےکہ میں تعدد ازدواج کو رواج دینا چاہتا ہوں۔

ہیریٹ ویئر کی ماں نیو یارک میں موسیقی کی ایک غریب استاد تھی۔ پھر اس نے ہماری تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔ اور صیہون منتقل ہو گئی۔ اسے موسیقی کے استاد کی ملازمت دی گئی۔ پھر میرے تک یہ خبریں پہنچیں کہ یہ عورت میرے کردار کے متعلق افواہیں اڑا رہی ہے۔ میں نے شروع میں خاموشی اختیار کی اور ثبوت جمع کیے۔ پھر اس عورت کو بلا کر یہ ثبوت دکھائے جس پر اسے اقرار کرنا پڑا۔ اور اس سے ایک تحریر پر دستخط کروا کے صیہون سے نکال دیا گیا۔

دوسری لڑکی جس کے نام ڈوئی کے خطوط کو شہرت دی جا رہی تھی رُوتھ ہوفر (Ruth Hoffer)تھی۔ اس کے بارے میں ڈوئی نے انٹرویو میں کہا کہ میں اسے اپنی بیٹی کی طرح سمجھتا ہوں۔ اور یہ سکینڈل میری بیوی نےپاگلوں والے حسد کےنتیجے میں مشہور کیا ہے۔

ٹیکساس میں ہی ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ پہلے شکاگو اور پھر وہاں سے صیہون جائے گا۔ اور وہاں پر فوری طور پر جلسہ سے خطاب کرے گا۔ اس کی صیہون کے حفاظتی دستے سے بات ہو گئی ہے۔ وہ جلد ہی صیہون سے شیطان کو باہر نکال دے گا۔ اور دوسری طرف صیہون میں وولیوا اور اس کا گروہ لوگوں کو تحریک کر رہے تھے کہ جب وہ صیہون میں داخل ہو تو لوگ اسٹیشن سے دور رہیں۔

(The Evening Star 9 April 1906 p 13)

شکاگو واپسی

10؍اپریل کو ڈوئی ریل گاڑی سے شکاگو پہنچ گیا۔ شکاگو کے سٹیشن پر ڈوئی کے حامیوں کی خاطر خواہ تعداد نے اس کا استقبال کیا۔ اور اس کی تنظیم کے مخصوص نعرے ’’خدا تمہارے ساتھ ہو‘‘ لگائے گئے۔ لیکن وہ فوری طور پر اپنے شہر صیہون کے لیے روانہ نہیں ہوا۔ اس نے شکاگو میں آرام کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے خطرہ ہے کہ اس کے مخالف اسے قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی حفاظت کے لیے جمیکا کا ایک جسیم سیاہ فام باڈی گارڈ اس کے ساتھ تھا۔ اس نے شکاگو میں بیان دیا کہ وہ صیہون میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال کرنے کے لیے ایک قانونی جنگ لڑے گا۔

جب ڈوئی شکاگو پہنچا تو ایک ڈپٹی شیرف (Sheriff)نے اسے کوئی قانونی نوٹس دینے کی کوشش کی لیکن ڈوئی کے ایک معاون نے اسے دھکا دے کر ایک طرف کر دیا اور وہ نوٹس ڈوئی کو نہیں دیا جا سکا۔

(The Evening Times 10 April 1906 p.1)

(The Rock Island Argus 10 April 1906 p.1)

ڈوئی کے مخالفین اعلان کر رہے تھے کہ اسے صیہون میں اور اس کے اپنے گھر میں بھی داخل نہیں ہونے دیں گے اور خود ڈوئی یہ اعلان کر رہا تھا کہ وہ صیہون پر اپنا سابقہ اقتدار بحال کر والے گا۔ یہ معاملہ عدالت میں گیا اور 19؍اپریل 1906ء کو عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ڈوئی کو صیہون میں یا اپنے گھر میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔ اور وہ ہر دوسرے دن اس شہر کے بڑے ہال Shiloh Tabernacle میں خطاب کر سکتا ہے۔

(The Minneapolis Journal April 19, 1906)

ڈوئی صیہون واپس آتا ہے

اپریل کے آخر میں ڈوئی صیہون میں داخل ہوا اور خطاب کیا۔ ڈوئی کی بیوی نے ایک اور بار اپنا رنگ تبدیل کیا اور اس نے اس موقع پر ڈوئی کا خیر مقدم کیا۔ ڈوئی کے خطاب میں ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ شامل ہوئے۔ ڈوئی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جو سمجھتا ہے کہ اس نے چرچ کے اموال میں سے ایک سینٹ کی رقم بھی چوری کی ہے وہ کھڑا ہو کر الزام لگائے۔ اس پر ڈیڑھ ہزار کے مجمع میں کوئی نہیں کھڑا ہوا۔ اور اسی وقت وولیوا نے بھی ایک تقریر کی اور اس کی تقریر میں پانچ ہزار کے قریب لوگ شامل ہوئے۔ وولیوا نے اپنی تقریر میں ڈوئی کی بیوی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ الزام لگایا کہ وہ شروع ہی سے ڈوئی کے ساتھ شامل تھی اور اس نے پہلے وولیوا کے حامیوں کی جاسوسی کرنے کے لیے ڈوئی کی مخالفت کا ناٹک کیا تھا۔ اس تقریر سے یہ ضرور ظاہر ہوتا تھا کہ ابھی بھی صیہون میں ایسے لوگ موجود تھے جو کہ ڈوئی کے ساتھ کھڑے ہو سکتے تھے۔

(Daily Alaskan April 30 1906 p. 1)

گو کہ میکسیکو سے واپسی کے سفر میں ڈوئی کی طبیعت ٹھیک رہی تھی لیکن صیہون میں پہنچنے کے بعد اس کی بیماری ترقی کر گئی اور اس کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی۔ اور مئی 1906ء کے شروع میں یہ خبریں بھی شائع ہونے لگیں کہ اب شاید ڈوئی چند دن کا مہمان ہے۔

(The Daily Alaskan May 12, 1906)

ڈوئی عدالت میں پیش ہوتا ہے

جون 1906ء میں عدالت میں ڈوئی اور اس کے مخالفین کے درمیان مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ چار مرتبہ عدالت میں ڈوئی گوا ہی دینے کے لیے کھڑا ہوا۔ ایک گواہی دیتے ہوئے جب ڈوئی نے اپنے پر پڑنے والی مشکلات کا ذکر کیا تو ڈوئی ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ اور کمرہ عدالت میں اس کی ہچکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔ اس کے کندھے ہل رہے تھے اور اس کا جسم جذبات کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ ڈوئی کے جذبات اتنے بے قابو ہو چکے تھے کہ کچھ دیر کے لیے عدالت کی کارروائی روکنی پڑی۔

یہ بات قابل ذکرہے کہ ڈوئی کے مخالف گروہ نے ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں جو کہ کمرہ عدالت میں موجود تھے تا کہ اس کارروائی کے دوران ڈوئی کی ذہنی حالت کا جائزہ لے سکیں۔

(The Stark County Democrat June 19 1906 p.8)

ایک اہم سوال یہ تھا کہ صیہون میں اس وقت لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ سے دو کروڑ دس لاکھ ڈالر کی جائیداد موجود تھی۔ یہ جائیداد شروع میں ڈوئی کے نام تھی لیکن وولیوا نے اپنا مختار نامہ استعمال کر کے اسے کسی اور کے نام منتقل کر دیا تھا۔ اس جائیداد پر دونوں ہی دعوےدار تھے۔ اس کا مالک کون ہو گا؟ دوسرے معاملات کی طرح یہ تنازعہ بھی عدالت میں گیا۔ اس پر عدالت نے فیصلہ سنایا کہ اصل میں نہ ڈوئی اس جائیداد کا مالک ہے اور نہ ہی یہ جائیداد وولیوا کی ملکیت ہے۔

جولائی 1906ءمیں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ یہ تمام جائیداد اس چرچ کے لوگوں کی ملکیت ہے اور اس چرچ کے اراکین اس کی ملکیت کا فیصلہ ایک انتخاب میں کریں گے اور یہ انتخاب 18؍ستمبر1906ء ہوگا۔ اس وقت تک عدالت کی طرف سے ایک Receiverجائیداد کے مالی معاملات چلائے گا۔ ڈوئی کے نمائندے نے اس فیصلہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈوئی کو خدا نے ایک منصب پر مقرر کیا ہے اور جسے خدا نے مقرر کیا ہو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ انتخابات کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا۔

(The San Francisco Call July 28 1906 p. 3)

صیہون میں انتخابات

جب عدالت کے حکم کے مطابق صیہون میں جنرل اوورسیئر کے انتخاب کا وقت قریب آیا تو دو امیدواروں نے اس میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ ایک تو وولیوا تھا جس نے ڈوئی کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اور دوسرا شخص اے این بلز (A.N.Bills)تھا جو کہ وولیوا کا مخالف تھا۔ ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ اس انتخاب میں حصہ نہیں لے گا اور نہ ہی وہ اس انتخاب کو قبول کرے گا۔ بہر حال جب عدالت کے حکم کے مطابق 18؍ستمبر 1906ء کو انتخاب ہوا تو وولیوا نے 1911 اور اس کے مد مقابل نے صرف 6ووٹ حاصل کیے۔ اب یہ واضح تھا کہ صیہون شہر اور اس کی تنظیم کا سربراہ وولیوا ہو گا۔ اور اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہو گئی۔ اور قانونی اور عملی طور پر ڈوئی کی پوزیشن ختم ہو گئی۔

(The Independent weekly August 9,1906)

(The Daily Silver State 20 September 1906)

اس کے بعد ڈوئی کی صحت گرتی گئی۔ اس کی بیوی اور بیٹا صیہون سے مشی گن منتقل ہو گئے جہاں پر ڈوئی کے والد کی بھی رہائش تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ڈوئی کا ذہنی توازن درست نہیں رہا۔ اس کے پاس دو ملازم تھے جو اس کا خیال رکھتے تھے۔ وہ ہفتہ میں ایک مرتبہ پبلک میں آکر عبادت میں شریک ہوتا اور خطاب کرتا۔ اس کے کچھ وفادار جن کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب رہ گئی تھی اس میں شامل ہوتے۔ لیکن فروری 1907ء میں اس کی صحت اتنی گر گئی کہ اس نے ہفتہ میں ایک مرتبہ بھی پبلک میں آنا بند کر دیا۔ اس کے بعد بھی اس کی صحت کا تنزل جاری رہا۔

ڈوئی کی موت

آٹھ اور نو مارچ 1907ء کی درمیانی رات میں اس کی طبیعت بہت بگڑ گئی۔ اس وقت صرف اس کے دو سیاہ فام ملازمین اور ایک پرانے دوست جج Barnesاس کے ساتھ تھے۔ یہ جج وولیوا کی کونسل میں شامل تھے لیکن ان کا خیال تھا کہ ڈوئی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے اور اب اپنے افعال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ جب اس رات ڈوئی کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو اس نے اس طرح تقریر شروع کر دی جیسا کہ وہ مذہبی تقریبات میں تقریر کیا کرتا تھا۔ ایک مرحلہ پر اس نے گارڈز کو پکار کر کہا کہ جو شور کر رہے ہیں انہیں باہر نکال دیں۔

اس نے لیٹے لیٹے اپنے خیال میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں واپس آئوں گا اور اپنے بے رحم ہاتھوں سے جہنم کے ان سانپوں اور کتوں کو جو اَب صیہون میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ختم کردوں گا۔ انہوں نے خوابیں دیکھیں اور خیال کیا کہ وہ اوّل رسول (یعنی ڈوئی ) پر غالب آ گئے ہیں۔ میں تمہیں زیر کرنے کے لیے پھر واپس آئوں گا۔ میں زیادہ روشن اور خوبصورت اور دس ہزار گنا زیادہ خوفناک بن کر واپس آئوں گا۔ میں ان لوگوں کو ان گناہوں کے درمیان کاٹ کر رکھ دوں گا۔ اور صیہون کو دوبارہ سچائی کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جیتوں گا جو کلام پر قائم رہے اور انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔

اس طرح اپنی دوسری آمد کا اعلان کرتے ہوئے 9؍ مارچ 1907ء کو ڈوئی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اور اس کی عبرتناک موت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت ثابت کر دی۔ اس کے باقی ماندہ مریدوں نے یہ بیان دیا کہ ڈوئی مرا نہیں ہے بلکہ گہری نیند میں چلا گیا ہے۔ اور جلدکسی اور مقام پر کسی اور صورت میں دوبارہ ظہور کرے گا۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ڈوئی مر سکتا ہے۔ وہ دوبارہ زیادہ طاقتور بن کر ظہور کرے گا۔

(The Sunday Star March 17, 1907)

(The Evening Times-Republicans March 9 , 1907)

دوسرے عمائدین خدا کی گرفت میں

کچھ روز بعد صیہون میں ڈوئی کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ڈوئی چیلنج قبول کرے یا نہ کرے یقین کرلو صیہون پر آفت آنے والی ہے۔ ڈوئی کی موت کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا یہ قہری نشان جاری رہا۔ جن دنوں میں ڈوئی کی موت ہوئی، انہی دنوں میں صیہون کے تین اور اہم عہدیدار وں کی موت ہوئی۔ یہ لوگ پہلے ڈوئی کے نائب کی حیثیت رکھتے تھے اور پھر وولیوا کے معاون بن گئے تھے۔ جب ڈوئی کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں، اس وقت یہ افواہ مشہور ہوگئی کہ ایک اور اہم عہدیدار کی موت ہوگئی ہے۔ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ صیہون پر خدا کی لعنت پڑی ہے اور کئی شرکاء یہ آخری رسومات چھوڑ کر بھاگ گئے۔

(The Sunday Star March 17, 1907)

اس وقت کے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ صیہون میں Quinsyنام کی انفیکشنپھیل گئی۔ اور صیہون کی تنظیم کے نئے سربراہ وولیوا پر بھی اس بیماری کا شدید حملہ ہوا اور اس کے نتیجے میں اسے فالج کا ایک حملہ بھی ہوا۔ یہ خبریں پھیل رہی تھیں کہ اس بیماری کی شدت سے وولیوا کی موت بھی ہو سکتی ہے۔

ڈوئی نے اپنی وصیت میں جان اےلیوس (John A Lewis)کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ یہ شخص ڈوئی کی موت کے وقت میکسیکو میں تھا۔ ڈوئی کے بچے کھچے پیروکار اس امید کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ جانشین آ کر ڈوئی کا تختہ الٹنے والوں کو مزا چکھائے گا۔

(The Columbus Weekly March 28, 1907)

اس کے بعد بھی یہ خبریں شائع ہوتی رہیں کہ ڈوئی کےاہم معاونین مختلف طریقوں پر ناگہانی موت کا شکار ہو گئے۔ جون 1910ء میں ڈوئی کا ایک Pughنام کا معاون سانپ کے کاٹنے سے مر گیا۔

(The Topeka State Journal June 14 , 1910)

صیہون دیوالیہ ہوتا ہے

ڈوئی کی موت کے بعد صیہون شہر اور ڈوئی کی تنظیم کی مشکلات کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈوئی نے اپنے شہر اور اپنی تنظیم کے مالی استحکام کے لیے اس شہر میں صنعتیں بھی لگائی تھیں۔ اور یہ صنعتیں اس تنظیم کی عظیم کامیابی سمجھی جاتی تھیں۔ ان میں سے سب سے اہم تسمے بنانے کی فیکٹری تھی اور اس کے علاوہ میٹھی گولیاں بنانے کی صنعت بھی لگائی گئی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ عدالت نے صیہون کی آمد پر ایک انچارج مقرر کر دیا تھا تا کہ اس کے مالی وسائل جمع کر کے قرض ادا کیا جا سکے۔ عدالت کے مقرر کیے گئے انچارج نے قرضوں کی وجہ سے صیہون کی یہ دونوں صنعتیں فروخت کر دیں۔ اور اس طرح یہ صنعتیں اس تنظیم کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وولیوا اور اس کا گروہ یہ کوششیں کر رہا تھا کہ کسی طرح اپنے لوگوں سے رقم جمع کر کے یکمشت ڈوئی کی ساری جائیداد خرید لے تاکہ یہ املاک اس چرچ سے وابستہ رہیں۔

(Alburoqueroue Citizen June 4 1908 p. 3)

(Morning Astorian November 28 1908 p.1)

صیہون شہر اور تنظیم پر بہت سے قرضے تھے۔ ان میں سے بہت سے قرضوں کے حصول کے لیے جائیدادوں کی ضمانتیں دی گئی تھیں۔ ان قرضوں کو ختم کرانے کے لیے تو صیہون کی جائیدادیں فروخت کرنی پڑیں۔ اور جو قرضے باقی رہ گئے تھے ان کے متعلق عدالت کے مقرر کردہ انچارج نے رپورٹ دی کہ ان قرضہ دہندگان کو اپنے قرضوں کا 29؍ فیصد ہی واپس مل سکے گا۔ ایک وقت میں صیہون شہر کی صنعتی اور مالی ترقی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اور اب یہ حالت تھی کہ عدالت کے مقرر کردہ انچارج نے رپورٹ دی کہ اس شہر کی جو کل مالیت ہے اس سے تقریباََ تین گنا زیادہ کے قرضے اور دعوے اس پر موجود ہیں۔ اس لحاظ سے صیہون کا سارا نظام دیوالیہ ہو رہا تھا۔

(The Madison Daily Leader March 1, 1910)

(Mower County Transcript October 7, 1908)

ڈوئی کا ایک گھر جہاں وہ موسم گرما میں رہا کرتا تھا مشی گن میں تھا۔ فروری 1910ءمیں اس رہائش گاہ کو ایک ڈانس ہال میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اور ڈوئی کی بیوی نے بیان دیا کہ اسے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے اگر ڈوئی کی رہائش گاہ کو مالی وسائل کے حصول کے لیے ڈانس ہال میں تبدیل کر لیا جائے۔

(The Baraboo News Feb 24 , 1910)

اب ڈوئی کے بیٹے گلیڈسٹون ڈوئی کا صیہون تنظیم میں تو کوئی کردار نہیں رہا تھا۔ اس نے سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کی اور ایک بستی Montagueکے کلرک کے انتخاب میں حصہ لیا۔ لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

( The Winchester News 8th April 1909)

وولیوا کی شکست اور گرفتاری

اپریل 1909ء میں صیہون شہر کی سیاسی قیادت کے لیے ایک بار پھر انتخابات ہوئے۔ اس میں وولیوا کے مقابل پر ایک آزاد گروہ انتخابات میں حصہ لے رہا تھا۔ اس میں بظاہر وولیوا کو شکست ہو گئی۔ لیکن وولیوا اور اس کے حامیوں نے اختیار نئے منتخب ہونے والے عہدیداروں کو منتقل کرنے کی بجائے اجلاس ملتوی کر دیا۔ اور الزام لگایا کہ کئی ووٹ جومسترد کر دیے گئے تھے انہیں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے صیہون میں ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا۔ لیکن دو ماہ بعد جون میں وولیوا کے گروہ کو ایک نئی قیادت کو اختیارات منتقل کرنے پڑے۔ اور صیہون شہر کے اختیارات وولیوا کے ہاتھ سے نکل کر نئے میئر E.N.Richieکو منتقل ہو گئے۔

(The Evening Statesman Walla Walla April 23, 1909)

(LOS ANGELES HERALD: FRIDAY MORNING. JUNE 25, 1909.)

(TOPEKA DAILY STATE JOURNAL THURSDAY EVENING, JUNE 24, 1909.)

ڈوئی کے عہد میں صیہون میں ڈاکٹروں کے مطب اور دوائیوں کا سٹور کھولنے پر پابندیاں تھیں۔ کیونکہ اس کا نظریہ تھا کہ صرف روحانی ذرائع سے بیماریوں کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ وہ طب کو جہنمی علاج کہتا تھا۔ ڈوئی کی موت کے دو سال بعد صیہون میں کلینک اوردوائیوں کے سٹور کھلنے شروع ہو گئے۔

(The Oakes Time August 12,1909 p 2)

ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت کا ایک اور نشان ظاہر ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ڈوئی اس چیلنج کو قبول کرے یا نہ کرے صیہون پر جلد تباہی آنے والی ہے۔ ڈوئی کی موت کے دو سال بعد ہی ڈوئی کی تنظیم کا نیا سربراہ بھی گرفت میں آ گیا۔ عدالت نے ہتک عزت کے مقدمے میں وولیوا کے خلاف فیصلہ سنا یا۔ اور اسے دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ لیکن جرمانہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔

(New Ulm Review 8 Sept 1909)

جب ڈوئی نے صیہون کی بنیاد رکھی تو اس وقت یہ قانون بنا دیا تھا کہ اس شہر کی حدود میں سگریٹ نوشی اور تمباکو نوشی کی اجازت نہیں ہو گی۔ اور اس پابندی کے متعلق ایک بورڈ شہر کی حدود شروع ہونے کےمقام پر آویزاں کر دیا گیا تھا۔ ڈوئی کے بعد جلد ہی تمباکو نوشی پر سے پابندی اُٹھا دی گئی۔ اگرچہ باہر پرانا بورڈ آویزاں رہا۔

(Perth Ambroy Eveing News. December 11, 1908)

صیہون میں اس شہر کی بنیاد رکھنے کی تقریبات دھوم دھام سے منائی جاتی تھیں۔ لیکن جب ڈوئی کی موت سے اگلے سال ان تقریبات کا وقت آیا تو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اس سال اس قسم کی کوئی تقریبات منعقد نہیں ہوئیں۔

(The Evening Statesman Wala Wala, July 15, 1909)

ڈوئی کی زندگی میں تو صیہون میں کوئی اور تنظیم نہ اپنا چرچ بنا سکتی تھی اور نہ ہی اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی تھی۔ لیکن ڈوئی کی موت کے دو سال بعد ہی میتھوڈسٹ اور باپٹسٹ چرچ صیہون میں قائم ہو گئے تھے۔

(Bismarck Daily Tribune July 21, 1909 p. 1)

اس تنظیم کی املاک کا بڑا حصہ تو قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو گیا تھا۔ جولائی 1910ءمیں عدالت نے یہ حکم دیا کہ جو عمارات بچ گئی ہیں وہ اس تنظیم کو واپس کی جائیں۔ چنانچہ یہ عمارات وولیوا کی سربراہی میں کام کرنے والی تنظیم کو واپس کی گئیں۔ اور وولیوا نے اپنے پیروکاروں سے چندے کی اپیل کی۔

(The Bemeidgi Pioneer July 19, 1910)

صیہون کی قیادت پر تنازعہ

ویسے تو عدالت کے حکم پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ڈوئی کی بنائی ہوئی تنظیم کا سربراہ وولیوا منتخب ہو چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ عرصہ تک یہ تنازعہ چلتا رہا کہ ڈوئی کی تنظیم کی قیادت کون کرے گا اور مختلف اشخاص یہ کوشش کرتے رہے کہ اس تنظیم کی قیادت ان کے ہاتھ میں آجائے۔ ان میں ایک ڈوئی کی اہلیہ جین ڈوئی بھی تھی۔ اس نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر اسے اس تنظیم کاسربراہ بنا دیا جائے تو وہ اس کے مختلف متحارب گروپوں میں صلح کرا سکتی ہے۔ اور یہ بھی تجویز سامنے آئی کہ آسٹریلیا سے اس تنظیم کے ایک عہدیدار کو بلا کر اس کو قیادت سونپی جائے۔

(The Morning Astorian 14 Feb 1908)

جولائی 1910ءمیں ایک شخص جو کہ بحرالکاہل میں فری لینڈ نام کے جزیروں کے مجموعے میں رہتا تھا۔ وہاں پر اس کے پیروکار رہتے تھے اور وہاں اس کےپیروکاروں میں اس کی حیثیت بادشاہ کی سی تھی۔ اس نے وہاں ایک صیہون قائم کیا تھا۔ اس شخص کا نامFrancis Schlatterتھا۔ اس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ جزیرے ڈوئی نے اسے تحفے میں دیے تھے۔ اس شخص نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ بائبل کی ان چار سو گمشدہ کتابوں کو دوبارہ تحریر کر رہا ہے جنہیں ایک پوپ کے حکم پر تلف کر دیا گیا تھا۔ یہ شخص سوئٹزرلینڈ سے تھا اور اس کے اکثر پیروکار جرمنی سے تعلق رکھتے تھے۔

(Los Angeles Herald Feb 7,1909)

اس تنظیم کی قیادت پر جھگڑے جاری رہے۔ ایک اور شخص نے اچانک نمودار ہو کر یہ دعویٰ کر دیا کہ میں ڈوئی کا بھائی ہوں۔ اور اس ناطے سے اس کی جائیداد کا وارث اور اس کی تنظیم کی قیادت کا حقدار ہوں۔

(The Hattiesburgh News July 20,1910 p. 1)

ہر صاحب شعور دیکھ سکتا ہے کہ یہ نشان صرف ڈوئی کی موت تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق ڈوئی کی تنظیم کے بہت سے عمائدین اس پیشگوئی کا نشانہ بنے۔ صیہون کا شہر ایک مالی معجزہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ شہر اور تنظیم مالی طور پر دیوالیہ ہو گئی۔ اور اس کی قیادت انتشار کا شکار ہو گئی۔ اس طرح اس پیشگوئی کی صداقت بار بار ظاہر ہوتی رہی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button