متفرق مضامین

تلاوت قرآن کریم کی فضیلت وبرکات (قسط دوم)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

تلاوت قرآن کریم کے سلسلے میں رسول کریمﷺ کا بابرکت اسوہ ہمارے لیے بہترین رہ نما ہے۔ آپﷺ کثرت کے ساتھ تلاوت قرآن کریم کرنے والے بابرکت وجود تھے۔ آپؐ نفل نمازوں کی ادائیگی کے وقت گھنٹوں قیام کرتے اور تلاوت قرآن کریم سے اپنے جسم وروح کو تازگی پہنچاتے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کو صحابہ کی اچھی آوازوں میں کلام الٰہی سننا بھی بہت محبوب تھا۔

عَنۡ عَبۡدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُ قَالَ: قَالَ لِی النَّبِیُّﷺ اقۡرَأ عَلَیَّ قُلۡتُ: آقۡرَأ عَلَیۡکِ وَعَلَیۡکَ اُنۡزِلَ؟ قَالَ: اِنِّی اُحِبُّ اَنَّ أَسۡمَعَہُ مِنۡ غَیۡرِی۔

(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن،35:بابالۡبُکاءِِ عِنۡدَ قِرَاءَۃِ الۡقُرۡآنِ)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ! میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ ! میں آپ کو قرآن سناؤں ؟آپؐ پر تو قرآن نازل ہوا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

اِنِّی اُحِبُّ أَنۡ أَسۡمَعَہُ مِنۡ غَیۡرِی

مجھے کسی اورسے سننا بہت محبوب ہے۔

تلاوت قرآن کریم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لاتے اور آنحضرتﷺ کے ساتھ مل کرجس قدر قرآن کریم نازل ہوچکا ہوتا اُس کا دَور مکمل کرتے۔ جس سال رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اُس سال قرآن مجید کے دو دَور مکمل کیے گئے۔

عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ قَالَ: کَانَ جِبۡرِیۡلُ یَعۡرِضُ عَلَی النَّبِیِّﷺ الۡقُرۡآنَ کُلَّ عَامٍ مَرَّۃً، فَعَرَضَ عَلَیۡہِ مَرَّتَیۡنِ فِی الۡعَامِ الَّذِی قُبِضَ فِیۡہِ۔

(صحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن،باب7:تَأۡلِیفِ الۡقُرۡآنِ، حدیث:4998)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺ کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دَورکیاکرتے تھے لیکن جس سال آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دَورمکمل کیا۔

قرآن کریم کی اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے خود حامل قرآنﷺ کو نصیحت فرمائی کہ یہ کلام لوگوں کو پڑھ کر سنایا کریں۔

ایک حدیث قدسی سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ماننے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو شرف اور تقویٰ عطا کرے گا اور اس کی پیروی کے نتیجہ میں وہ دنیا و آخرت میں عزت وشرف پائیں گے :

قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ یَقُوۡلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنۡ شَغَلَہُ الۡقُرۡآنُ وَذِکۡرِی عَنۡ مَسۡأَلَتِی أَعۡطَیۡتُہُ أَفۡضَلَ مَا أُعۡطِیَ السَّائِلِیۡنَ۔

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ۔ حدیث:836)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: صاحبِ عزت وجلال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جس شخص کو قرآن کریم نے اور میرے ذکر نے مصروف رکھا اور اس نے سوال نہ کیا تو میں اسے ان لوگوں سے زیادہ عطا کروں گا جن کو سوال کرنے پر میں دیتا ہوں۔

قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا اور سیکھنا سکھانا بھی باعث خیروبرکت اور سکینت و اطمینان کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :

وَمَا اجۡتَمَعَ قَوۡمٌ فِی بَیۡتٍ مِنۡ بُیُوۡتِ اللّٰہِ یَتۡلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَ سُونَہُ بَیۡنَھُمۡ اِلَّا نَزَلَتۡ عَلۡیۡھِمُ السَّکِنَۃُ وَغَشِیَتۡھُمُ الرَّحۡمَۃُ وَحَفَّتۡھُمُ الۡمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیۡمَنۡ عَنۡدَہُ وَمَنۡ بَطَّاَ بِہِ عَمَلُہُ لَمۡ یُسۡرِعۡ بِہِ نَسَبُہُ۔

(صحیح مسلم، کتاب الذکروالدعا والتوبۃ والاستغفار، 11:بَاب فَضۡلِ الاِجۡتِمَاعِ عَلَی تِلَاوَۃِ الۡقُرۡآنِ وَعَلَی الذِّکۡرِ، حدیث:4853)

جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اس کی کتاب پڑھنے کے لیے اور آپس میں ایک دوسرے کو سکھانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو ضرور ان پر سکینت اترتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں اپنے حلقے میں لے لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور جس کا عمل اسے سست کرے اس کا نسب اسے تیز نہیں کرے گا۔

ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی بڑی کوہانوں والی اونٹنیوں کے مل جانے سے زیادہ بہتر اور خیروبرکت کا باعث ہے۔

چنانچہ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ہم صفہ میں تھے رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایاکہ تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ وہ ہر روز صبح بطحان یاعقیق کی طرف جائے اور وہاں سے بغیرکسی گناہ اور قطع رحمی کے دو بڑی بڑی کوہانوں والی اونٹنیاں لے آئے۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! ہم سب ایسا پسند کرتے ہیں آپؐ نے فرمایا: پھر تم میں سے ہر ایک کیوں صبح مسجد نہیں جاتا تاکہ اللہ عزوجل کی کتاب میں سے دو آیتوں کا علم حاصل کرلے یا پڑھے جو اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین (آیات) جو تین (اونٹنیوں ) سے بہتر ہیں اور اور چار(آیات) چار (اونٹنیوں) سے بہتر ہیں۔ اسی طرح اپنی تعداد کے مطابق اونٹوں سے (بہترہیں )۔

(صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا، بَاب فَضۡلِ قِرَاءَۃِ الۡقُرۡآنِ فِی الصَّلَاۃِ وَتَعَلُّمِہِ)

جنتیوں کا کلام

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن شریف کو اس دنیا میں محبوب بنالیا وہ جنت میں بھی اُسے پڑھتے ہوئے لطف اور خوشی محسوس کریں گے کیونکہ قرآن شریف اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی نیک لوگوں کی پسندیدہ کتاب ہے۔ رسول کریمﷺ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

دَخَلۡتُ الۡجَنَّۃَ فَسَمِعۡتُ فِیۡھَا قِرَاءَ ۃً قُلۡتُ مَنۡ ھَذَا قَالُوا حَارِثَۃُ بۡنُ النُّعۡمَانِ کَذَاکُمۡ الۡبِرُّ کَذَاکُمۡ الۡبِرُّ

(مسند احمد بن حنبل(مترجم)، مُسند عائشہؓ جلد 11، حدیث نمبر:24581، ناشر مکتبہ رحمانیہ، اردوبازار لاہور)

میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں، تمہارے نیک لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں، نیک لوگ اسی طرح ہوتے ہیں۔

کائنات کے سب سے پاکیزہ اور خیروبرکت کے حامل کلام کی فضیلت ایک حدیث قدسی میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔

قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَرَأَ طٰہَ وَیٰسٓ قَبۡلَ أَنۡ یَخۡلُقَ السَّمَوَاتِ وَالۡاَرۡض۔ بِأَلۡفِ عَامِ فَلَمَّا سَمِعَتِ الۡمَلَائِکَۃُ الۡقُرۡآنَ قَالَتۡ طُوۡبٰی لِأُمَّۃٍ یَنۡزِلُ ھٰذَا عَلَیۡھَا وَطُوبٰی لِأَجۡوَافٍ تَحۡمِلُ ھٰذَا وَطُوبٰی لِأَلۡسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِھٰذَا۔

(سنن الدَّارمی، کتاب فضائل القرآن، بَاب فِیۡ فَضۡلِ سُورَۃِ طٰہ وَ یٰسٓ)

رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین وآسمان پیدا کرنے سے ایک ہزار سال قبل سورت طٰہٰ اور سورت یٰس پڑھیں تو فرشتوں نے سن کر کہا کہ اس امت کے لیے بشارت ہو جس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور خوشخبری ہو ان سینوں کے لیے جو اس کلام کو یاد کریں گے اور مبارک ہو ان زبانوں کے لیے جو اس کی تلاوت کیا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف پیرائے میں اس عظیم کتاب کی اہمیت وافادیت کو واضح فرمایا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ بھلائی اور خیر عطا کرنے والی کتاب کی طرف مبذول رہے اور وہ اس نصیحت آموزکلام سے کماحقہ ٗفائدہ اٹھا تے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا۔ (المزمل:20)

یقیناً یہ ایک بڑی سبق آموز نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے ربّ کی طرف (جانے والی ) راہ پکڑلے۔

اگرچہ تلاوت قرآن کریم کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں لیکن صبح کے وقت تلاوت قرآن اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ پسندیدہ عمل اور خیروبرکت کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا (بنی اسرائیل:79)

سورج کے ڈھلنے سے شروع ہوکر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے۔ یقینا ًفجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطراپنی راتوں کو اُس کی عبادت سے زندہ کرتے ہیں، قرآن کریم پڑھتے اور اُس پر غوروفکر کرتے ہیں انہیں اُمت کے برگزیدہ لوگوں میں شمار فرمایا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں :

أشراف أُمَّتِی حملۃُ القرآنِ۔ وأصحاب القرآن و أصحابُ اللّیل

(کنزالعمّال،کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائل، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2259)

میری امت کے برگزیدہ لوگ حاملین قرآن، اصحابِ قرآن اور شب زندہ دار ہیں۔

نیز فرمایا:

أعبدُ النّاس أکثرُھُمۡ تلاوۃً للقرآن

(کنزالعمّال،الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائل، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2260)

لوگوں میں سے زیادہ عبادت گزار شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اے اہل قرآن ! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلائو اوراس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کرو تاکہ تم فلاح پائو۔

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر 2210)

رفعت عطا کرنے والی

قرآن کریم کے فضل و کمال اور اس کی بلندیوں کا یہ عالم ہے کہ جو لوگ اسے یاد کرتے اوردن رات اُس کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں قیامت کے روزاس کلام کی برکت سے اُن کودرجات کی بلندیوں تک پہنچا دیا جائے گا۔

پس قرآن کریم وہ رفیع الشان کتاب ہے جو اپنے پڑھنے والوں اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرنے والوں کو رفعت کے اعلیٰ مقام پر فائز کردیتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

یَجِیُٔ صَاحِبُ الۡقُرۡاٰنِ یَوۡمَ الۡقِیَامَۃِ فَیَقُوۡلُ یَارَبِّ حَلِّہٖ فَیُلۡبَسَ تَاجَ الۡکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوۡلُ یَارَبِّ زِدۡہُ فَیُلۡبَسَ حُلَّۃَ الۡکَرَامَۃِ ثُمَّ یَقُوۡلُ یَا رَبِّ اَرۡضَ عَنۡہُ فَیَرۡضٰی عَنۡہُ فَیُقَالُ لَہٗ اِقۡرَأۡ وَارۡقَأۡ وَیُزَادُ بِکُلِّ اٰیَۃٍ حَسَنَۃٌ۔

(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، 368:بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ مَنۡ قَرَأَ حَرفًا مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَالَہٗ مِنَ الۡاَجۡرِ)

قیامت کے دن صاحب قرآن آئے گا تو قرآن اپنے ربّ سے عرض کرے گا۔ یا اللہ ! اسے جوڑا پہنا تب اُسے عزت کا تاج پہنایا جائے گا۔ وہ عرض کرے گا : یا اللہ ! اسے مزید پہنا۔ چنانچہ پھر اسے عزت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ پھر وہ عرض کرے گا : یا اللہ ! اس سے راضی ہوجا تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور سیڑھیاں (درجات) چڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلے ایک نیکی زیادہ کی جائے گی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ مبارک ہے کہ

مَنۡ قَرَأَ فِیۡ لَیۡلَۃٍ بِخَمۡسِیۡنَ آیَۃً لَمۡ یُکۡتَبۡ مِنَ الۡغَافِلِیۡنَ

(سُنَن الدَّارمی کتاب فضائل القرآن، بَاب مَنۡ قَرَأَ خَمۡسِیۡنَ آیَۃً)

جس نے رات کو پچاس آیات پڑھیں وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا۔

مَنۡ قَرَأَ فِیۡ لَیۡلَۃٍ بِمِائَۃِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الۡقَانِتِیۡنَ

(سُنَن الدَّارمی کتاب فضائل القرآن، بَاب مَنۡ قَرَأَ بِمَائَۃِ آیَۃِ)

جو کوئی رات کو سو آیات پڑھے گا عابدوں میں لکھا جائے گا۔

أَنَّ رَسُوۡلَ اللّٰہِﷺ قَالَ مَنۡ قَرَأَ بِمِائَۃ آیَۃٍ فِیۡ لَیۡلَۃٍ کُتِبَ لَہٗ قُنُوۡتُ لَیۡلَۃٍ

(سُنَن الدَّارمی کتاب فضائل القرآن، بَاب مَنۡ قَرَأَ بِمَائَۃِ آیَۃِ)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو کوئی رات کو سو آیات پڑھے گا اس کے لیے ایک رات کی عبادت لکھی جائے گی۔

عَنِ ابۡنِ عُمَرَ قَالَ مَنۡ قَرَأَ فِیۡ لَیۡلَۃٍ عَشۡرَ آیاتٍ لَمۡ یُکۡتَبۡ مِنَ الۡغَافِلِیۡنَ وَمَنۡ قَرَأَ فِیۡ لَیۡلَۃٍ بِمِائَۃِ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الۡقَانِتِیۡنَ وَمَنۡ قَرَاً بِمِائَتَیۡ آیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الۡفَائِزِیۡنَ

(سُنَن الدَّارمی کتاب فضائل القرآن، بَاب مَنۡ قَرَأَ بِمِائَتَیۡ آیَۃٍ)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو رات کو دس آیات پڑھے گا غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو شخص سو آیات پڑھے گا عابدوں میں لکھا جائے گااور جو دو سوآیات پڑھے گا بامرادوں میں لکھا جائے گا۔

بیماریوں سے شفا کا ذریعہ

انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اُس نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب اُن کو عطا کی ہے۔ اس کی پاکیزہ تاثیرات کا اندازہ کرنا ایک عام انسان کا کام نہیں۔ قرآن کریم سینوں میں چھپی روحانی بیماریوں کودُور کرنے والی بابرکت کتاب ہے جو مومنوں کے لیے سراسر رحمت اور خیروبرکت کا موجب ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اس عطا پر مومنوں کو خوش ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کی قدر کرتے ہوئے اس کی تعلیم کو حرزِ جان بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں اُن پر پڑتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ۔ (یونس:58تا59)

اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اِسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔ اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی۔ تُو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہیے کہ وہ بہت خوش ہوں۔ وہ اُس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ارشادِ مبارک ہے :

’’آسمان کے نیچے کوئی دوسری کتاب نہیں پائی جاتی کہ جو طبِّ جسمانی اور طبِّ روحانی میں اس قدر تطابق دکھلا کر قانون قدر ت کے معیار کو اپنی پیروی کرنے والوں کے ہاتھ میں دیدے۔ اس لئے میں پورے یقین سے سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کے مقابل پر تمام دوسرے مذاہب ہلاک شدہ ہیں۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 103)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’یہ کتاب دلی شبہات کے لئے شفاء ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 93)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’یہ کتاب

شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡر

ِہے۔جوبیماریاں سینہ و دل سے تعلق رکھتی ہیں اس کتاب میں ان تمام بیماریوں کا علاج پایا جاتا ہے اور جو نسخے یہ کتاب تجویز کرتی ہے ان کے استعمال سے دل اور سینہ کی ہر روحانی بیماری دور ہوجاتی ہے۔‘‘

(انوارالقرآن جلد 2صفحہ 272)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا۔ (بنی اسرائیل:83)

اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفاء ہے اور مومنوں کے لیے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا کسی اور چیز میں نہیں بڑھاتا۔

قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا:

قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ (حٰمۡ السّجدۃ:45)

تُو کہہ دے کہ وہ تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں ہدایت اور شفا ہے۔

حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے شفا ہونے سے کفر کی بیماری کا دُور ہونا۔ نیز جسمانی بیماریوں سے شفا بھی مراد لی ہے۔

(تفسیر الرازی جلد 1صفحہ 281)

پاکیزگی عطا کرنے والی

جس طرح قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے جسمانی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح اس کے معانی ومطالب کو جاننے اور اس کے علوم ومعارف پر اطلاع پانے کے لیے ضروری ہے کہ صاف ذہن اور اچھے ارادے کے ساتھ اسے پڑھا جائے۔ تب اس کی روحانی تاثیرات انسان پر ظاہر ہوں گی اور اس کلام کی برکت سے اُسے روحانی بیماریوں سے شفا عطا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (آل عمران:165)

یقینا ًاللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا ًکھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی برکات و تاثیرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی …قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کرسکتا ہے۔ اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو تو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 27)

ہدایت کی راہ پر چلانے والی

قرآن کریم جامع جمیع کمالات حسنہ اور تمام ابدی صداقتوں اور حکمتوں کا مجموعہ ہے اس میں انسان کی پیش آمدہ تمام ضرورتوں اور حاجتوں کو بتمام وکمال بیان کردیا گیا ہے جن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں انسان کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے پس یہی سیدھی اور سچی راہ ہے جو قرآن کریم کی صورت میں انسانوں کو عطا کی گئی ہے۔ اس پیروی اور رہ نمائی میں طے ہونے والا ہر قدم راہ ہدایت کی طرف لے جانے والا اور اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ۔ (البقرۃ:3)

یہ ’’وہ‘‘ کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متقیوں کو۔

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ (البقرۃ:186)

رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا۔

قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا:

فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ (الانعام:158)

پس (اب تو) تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک کھلی کھلی دلیل آچکی ہے اور ہدایت بھی اور رحمت بھی۔

یہی وجہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے خیرو برکت اور فلاح و کامیابی کے اس سرچشمے کو اپنانے اوراسے بار بار پڑھنے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ اس کے مضامین پر اطلاع پاکرہمیں اُس کے مطابق زندگیاں گزارنے کی توفیق ملے۔ پس قرآن کریم سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا یہی طریق ہے کہ اسے بار بار پڑھ کر اس کے مضامین پر غور وتدبر کیا جائے تاکہ اُ ن راہوں کی طرف ہماری رہ نمائی ہو جو فلاح اور کامیابی کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرنے والی راہیں ہیں کیونکہ قرآن کریم گمراہی سے بچنے اور جہالت کے اندھیروں کو دُور کرنے والی پاکیزہ راہ ہے۔ رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

أبشروا فانَّ ھذا القرآن طَرفُہ بیدہِ اللّٰہ وطَرفُہ بأیدکم فتمسکوا بہ فانکم لن تھلکوا ولن تضلوا بعدہ أبدًا۔

(کنزالعمال، الکتاب الاوّل فی الایمان والاسلام، الباب الثانی فی الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث:888)

لو خوشخبری سنو! یہ قرآن ہے، اس کا ایک سرا اللہ عزوجل کے دستِ قدرت میں ہے تو دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں۔ پس اس کو مضبوطی سے تھام لو، پھر تم ہرگز ہلاک نہ ہوگے اور نہ اس کے بعد کبھی گمراہ ہوگے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button