متفرق مضامین

کیا نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوسکتا؟ (قسط دوم۔ آخری)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حضرت سموئیلؑ کا یہودی عالم سے تعلیم پانا

سورۃ البقرۃ میں طالوت اور جالوت کا واقعہ بیان ہوا ہے جس کا آغاز آیت نمبر 246 میں یوں ہوا ہے کہ

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا… (البقرۃ:246)

یعنی کیا تُونے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کا حال نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقررکر…

جس نبی سے بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی گئی تھی اُن کا نام تفاسیر میں سموئیل یا اشمویل بیان ہوا ہے اور اکثر مفسرین نے حضرت سموئیل کے تورات کی تعلیم حاصل کرنے کا ذکر کیا ہے، مثلاًمشہور مفسر علامہ ابوحیان (متوفّیٰ 754ھ) لکھتے ہیں :

’’فتعلم التوراة في بيت المقدس‘‘

(تفسير البحر المحيط/ ابو حيان۔ البقرۃ: 246)

یعنی انہوں (حضرت سموئیل) نے بیت المقدس میں تورات سیکھی۔

بریلوی عالم مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی (متوفّیٰ 1367ھ) اپنی تفسیر’’خزائن العرفان‘‘میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :

’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور انہوں نے عہدِ الٰہی کو فراموش کیا، بت پرستی میں مبتلا ہوئے، سرکشی اور بدافعالی انتہا کو پہنچی، اُن پر قومِ جالوت مسلّط ہوئی جس کو عمالِقہ کہتے ہیں …انہوں نے بنی اسرائیل کے شہر چھین لیے، آدمی گرفتار کیے، طرح طرح کی سختیاں کیں۔ اس زمانہ میں کوئی نبی قومِ بنی اسرائیل میں موجود نہ تھے، خاندانِ نبوت سے صرف ایک بی بی باقی رہی تھیں جو حاملہ تھیں ان کے فرزند تولّد (پیدا) ہوئے ان کا نام اشمویل رکھا، جب وہ بڑے ہوئے تو انہیں علم توریت حاصل کرنے کے لیے بیت المقدس میں ایک کبیر السِّنّ (بزرگ) عالم کے سپرد کیا، وہ آپ کے ساتھ کمال شفقت کرتے اور آپ کو فرزند کہتے۔ جب آپ سنِ بلوغ کو پہنچے تو ایک شب آپ اس عالم کے قریب آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام…ظاہر ہوگئے اور انہوں نے بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کا منصب عطا فرمایا، آپ اپنی قوم کی طرف جائیے اور اپنے رب کے احکام پہنچائیے…‘‘

(القرآن الکریم مع کنز الایمان و خزائن العرفان زیر آیت سورۃ البقرۃ: 246۔ ناشر مکتبۃ لمدینہ (دعوت اسلامی) طباعت دوم اپریل 2013ء)

حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعلّم

حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ آپؑ نے تبابعۃ (قوم تبع) سے عربی زبان کی لکھائی یعنی کتابت سیکھی۔ چنانچہ ملکہ سبا کے نام لکھے گئے آپؑ کے خط کے متعلق بحث میں علامہ آلوسی (المتوفّی 1270ھ) لکھتے ہیں :

’’…واختار ابن خلدون القول بأنه تعلم الكتابة العربية من التبابعة وحمير أهل الحيرة وتعلمھا منھم أهل الحجاز وظاهر كون بلقيس من العرب وأنھا قرأت الكتاب يقتضي أن الكتاب كان عربيًا، ولعل سليمان عليه السلام كان يعرف العربـي وإن لم يكن من العرب…‘‘

(تفسير روح المعاني/ الالوسي۔ (النمل:29 قَالَتْ يٰأَيُّهَا الْمَلأُ إِنِّيۤ أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ)

یعنی علامہ ابن خلدون نے یہ قول اختیار کیا ہے کہ آپؑ (حضرت سلیمانؑ ) نے تبابعہ اور حمیر قبائل سے عربی کتابت سیکھی اور اہل حجاز نے بھی اُن سے ہی سیکھی۔ اور ملکہ بلقیس کا عربی ہونا اور خط کو خود پڑھنا تقاضا کرتا ہے کہ خط بھی عربی میں ہو۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ گو حضرت سلیمان علیہ السلام عرب نہ تھے لیکن عربی جانتے تھے۔

اس سے ظاہر ہے کہ علامہ ابن خلدون نے اس بات کو خارج از امکان نہیں سمجھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے عربی کتابت کی تعلیم تبابعہ قوم سے حاصل کی ہو۔ اگر نبی کا عمر کے کسی بھی حصے میں اللہ تعالیٰ کے سِوا تعلیم پانا جائز نہ ہوتا تو علامہ ابن خلدون حضرت سلیمانؑ کے عربی کتابت سیکھنےوالی بات کو تصور میں بھی نہ لاتے۔ ویسے بھی علامہ ابن خلدون نے اپنی مایہ ناز کتاب مقدمہ ابن خلدون جلد اوّل کی تیسویں فصل میں کتابت اور لکھائی کے متعلق لکھا ہے

’’أن الخط والكتابة…إنما يكون بالتعليم ‘‘

یعنی لکھائی اور کتابت محض تعلیم و تعلم سے ہی آتی ہے۔

حضرت عزیرؑ کا بچپن میں تورات کی تعلیم پانا

قرآن حکیم نے سورۃ توبہ میں

وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُ ۣ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ…(التوبۃ: 30)

کے الفاظ میں حضرت عزیر علیہ السلام کا مختصر ذکر فرمایا ہے، اس کی تفسیر میں امام ابو جعفر الطبری (متوفّیٰ 310ھ) بیان کرتے ہیں :

’’…أن عزيرًا كان في أهل الكتاب وكانت التوراة عندهم…وكان عزير قبل من علمائھم …‘‘

(تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري۔ التوبۃ: 30)

کہ حضرت عزیر علیہ السلام نے اپنے علماء سے تورات یاد کی تھی۔

علامہ السیوطی وغیرہ دیگر مفسرین نے بھی اس کا ذکر اپنی تفاسیر میں کیا ہے، بہرحال ہندوستان کے مشہور مفسر علامہ قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی پانی پتی (متوفّیٰ 1225ھ) نے اپنی تفسیر میں یوں ذکر کیا ہے:

’’…جب عزیر موجود تھے اور توریت بھی موجود تھی اور تابوت بھی یہودیوں کے پاس موجود تھا تو یہودیوں نے توریت پر عمل چھوڑ دیا اور توریت کو انہوں نے کھو دیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے توریت ان کے سینوں سے فراموش کرادی اور تابوت کو اٹھالیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت عزیرؑ سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے اللہ سے دعا و زاری کی، اللہ نے دعا قبول فرما لی اور ان کو توریت لوٹا کر عطا فرما دی (یعنی حضرت عزیر کو بھولی ہوئی توریت پھر یاد ہوگئی) حضرت عزیر نے بنی اسرائیل کو اطلاع عام دے دی اور فرمایا قوم والو! اللہ نے توریت مجھے دوبارہ عنایت فرمادی۔ لوگ یہ سن کر (ہر طرف سے) ان سے چمٹ گئے (اور یاد کرنے لگے)‘‘۔

(تفسیر مظہری تالیف علامہ قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی پانی پتی۔ زیر تفسیر سورۂ توبہ آیت نمبر 30۔ ناشر دار الاشاعت اردو بازار کراچی نمبر1)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تعلّم

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر جو بشارات اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو دیں اُن میں فرمایا

وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ(آل عمران: 49)

یعنی اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور حکمت سکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور بشارت کے باوجود حضرت مریم اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں استاد کے پاس چھوڑ کر آتی ہیں چنانچہ لکھا ہے:

لما بلغ سبع سنين أسلمته أمه إلى المعلم لكن الروايات متضافرة أنه جعل يسأل المعلم كلما ذكر له شيئًا عما هو بمعزل عن أن ينبض فيه ببنت شفة، وذالك يؤيد أن علمه محض موهبة إلۤھية وعطية ربانية،

(تفسير روح المعاني/ الالوسي (ت 1270ھ) سورۂ آل عمران: 48۔ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ )

یعنی جب وہ (حضرت عیسیٰ) سات سال کی عمر کو پہنچے تو ان کی والدہ نے اُن کو ایک معلم کے حوالے کر دیا۔ لیکن اس بات پر روایات مطابقت رکھتی ہیں کہ جب بھی حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) اپنے استاد سے سوال پوچھتے تو استاد کی زبان ہی بند ہو جاتی (یعنی آپؑ کا سوال استاد کی سمجھ سے بالا ہوتا تھا) اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ کا علم اور معرفت محض خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔

علامہ جلال الدین السیوطیؒ نے تفسیر’’الدر المنثور في التفسير بالمأثور ‘‘ میں اور علامہ ابن کثیر نے اپنی کتاب ’’البدایۃ والنھایۃ‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سات سال کی عمر میں پہنچنے پر استاد کے مقرر ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر نبی کی تعلیم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہی براہ راست ہوتی ہے تو پھر حضرت مریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو استاد کے پاس نہ لے جاتیں۔ علامہ آلوسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلیم کے لیے جانے پر کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ہاں آپؑ کی ذہانت، زِیرکی اور لیاقت کا ذکر کیا ہے کہ حصول تعلیم کے دوران آپؑ کے سوالات ایسے ہوتے تھے کہ آپ کے استاد بھی خاموش ہو جاتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ بچے یکساں طور پر سکول یا استاد کے پاس بنیادی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں لیکن بعض بچے اپنی خداداد صلاحیت اور ذہانت کی وجہ سے بعد میں اپنے استاد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی روایتی اور بنیادی علوم سکھانے کے لیے استاد کے حوالے کیا گیا لیکن عمر کے ساتھ ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایسے معانی اور معارف عطا ہوئے کہ اس سے پہلے وہ کسی نے بیان نہیں کیے تھے اور اس لحاظ سے آپؑ معلمِ تورات و انجیل ہوئے۔ چھٹی صدی کے مشہور مفسر علامہ ابن عطیہ الاندلسی(المتوفّیٰ 546ھ) سورۂ آل عمران کی اسی آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :

’’الحِكْمَة…. فذكر اللّٰه تعالٰى في هذه الآية أنه يعلم عيسى عليه السلام الحكمة، والتعليم متمكن فيما كان من الحكمة بوحي أو مأثورًا عمن تقدم عيسى من نبي وعالم، وأما ما كان من حكمة عيسى الخاصة به فإنما يقال فيھا يعلمه على معنى يھیىء غريزته لھا ويقدره ويجعله يتمرن في استخراجھا ويجري ذهنه إلى ذالك‘‘

( تفسير المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز/ ابن عطية۔ سورۃ آل عمران: 48)

یعنی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکمت سکھانے کا ذکر فرمایا ہے اور حکمت کا سکھانا ممکن ہے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا حضرت عیسیٰؑ سے پہلے آنے والے انبیاء اور علماء سے منقولاً ہو ہاں جو حکمت حضرت عیسیٰؑ سے خاص تھی اس کے لیے یہی کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُن کا ذہن اس طرف چلائے گا اور اس کے استخراج و استدلال پر اُن کو قدرت دے گا۔

یہ حوالہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی حقائق و معارف سکھائے جانے سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بچپن میں منقولی علم جو نسلاًبعد نسلٍ چلتا ہے، سیکھنا بعید از قیاس نہیں۔ ان سب حوالوں سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کے شروع عمر میں (جبکہ اس کے نبی ہونے کا کسی کو بھی علم نہیں ہوتا)اپنے بڑوں اور بزرگوں سے اپنے آبائی دین کے اسباق پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور وہ اپنے معاشرے کے باقی بچوں کی طرح رائج الوقت تعلیم پاتا ہے ہاں جب وہ اپنی پختہ عمر (بَلَغَ أَشُدَّهٗ)کو پہنچ جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر وحی کا آغاز ہوتا ہے تو پھر اس کا تعلیم و تعلم خدائے رحمٰن کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے سامان کرتا ہےیہی وجہ ہے کہ پھر وہ نبی علم و معرفت میں اپنے بچپن کے اساتذہ اور دیگر علماء زمانہ سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ پس یہی حال حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ہے کہ بچپن میں آپؑ نے (جبکہ آپؑ کو اپنے امام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا ابھی کوئی علم نہیں تھا) دیگر بچوں کی طرح مروّجہ علوم کی تعلیم پائی لیکن بعد میں اپنی پختہ عمر کے پہنچنے پر اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے کلام کیا اور آپ کو اپنی پاک کتاب کی حکمت، فہم اور حقائق و معارف عطا فرمائے جس کی نظیر آنحضورﷺ کے غلاموں میں اور کہیں بھی ملنا ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ آپؑ کے بچپن کے ہم مکتب اور ہم وطن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپؑ کی پہلی ہی معرکہ آراء کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پر ریویو کرتے ہوئے لکھا:

’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی۔ ‘‘

(اشاعۃالسنۃجلد7نمبر6صفحہ169)

اگر آپؑ کے بیان کردہ معارف اپنے اساتذہ سے سیکھے ہوئے اور منقولی ہوتے تو اِن ہم مکتب مولوی صاحب کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ تو وہ علوم ہیں جو ہم نے اکٹھے بچپن میں اپنے اساتذہ سے اخذ کیےلیکن اُن کی رائے اور گواہی اس بات کا واشگاف اظہار ہے کہ قرآنی حقائق و معارف اور اسلام کی صداقت کا یہ بیان نہ صرف یہ کہ کسی بھی استاد سے اخذ کردہ نہیں بلکہ ساری تاریخ اسلام میں اس کی نظیر ہی نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس علمِ ربّانی کے متعلق فرماتے ہیں :

’’…یہ حکمت اور معرفت جو مردہ دلوں کے لئے آبِ حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 104)

پھر فرماتے ہیں :

’’…مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا۔ سو فہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا ہے یہ اللہ جلّ شانہٗ کا ایک نشان ہے…‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 41)

ایک اور جگہ اپنی شان مہدویت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

’’…سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔ سو مَیں حلفًا کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے، کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِ دین بلا واسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ394)

اس مضمون کے آغاز میں آپؑ کے بچپن میں تعلیم پانے کے متعلق جو اقتباس پیش ہوا ہے وہ اور کتاب ’’ایام الصلح‘‘کا مندرجہ بالا حوالہ دونوں ملا کر عام طور اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان میں تضاد ہے کہ وہاں اپنے بچپن کے اساتذہ کا ذکر کیا ہے اور یہاں فرمایا ہے کہ قرآن و حدیث میں کسی کا شاگرد نہیں۔ مگر اہل انصاف پر یہ واضح ہے کہ بچپن میں قرآن پڑھنے سے مراد صرف اس کی حرف شناسی یا ناظرہ یعنی اس کی تلاوت سیکھنا مراد ہے قرآن کریم کے معانی و مطالب کا ذکر نہیں چنانچہ تلاوت کے معنی میں لکھا ہے:

’’تلا كتاب اللّٰه.وقال ابن عباس رضي اللّٰه عنهما: معناه غير عارفين بمعاني كتاب اللّٰه تعالى۔ ‘‘

(تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن (سورۃ البقرۃ: 78)

یعنی کتاب اللہ کی تلاوت سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھے بغیر پڑھنا ہے۔ پس بچپن میں اسی طرح قرآن پڑھنے کا ذکر ہےاور کتاب ’’ایام الصلح‘‘میں ’’علمِ دین‘‘اور ’’اَسرارِدین‘‘یعنی قرآن کریم کے معانی و معارف کا ذکر فرمایا ہےکہ یہ بلا واسطہ آپؑ پر کھولے گئےاور اسی کے متعلق آپؑ نے فرمایا ہے کہ’’یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے۔ ‘‘ورنہ وہ خالص مہدویت جس میں بچپن میں بھی کسی تعلیم و تعلّم کا تکلف نہ ہو، وہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے علاوہ اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی چنانچہ اسی ’’ایام الصلح‘‘کتاب میں آپؑ فرماتے ہیں :

’’علمِ دین یا محض علم جو علوم دین کی کنجی ہے دوسرے نبیوں نے انسانوں کے ذریعہ سے بھی حاصل کئے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ زیر تربیت فرعون مصر میں مکتب میں بیٹھے اور علومِ مروّجہ پڑھے اور ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توریت کو بتمام کمال ایک یہودی اُستاد سے پڑھا تھا لیکن یہ خالص مہدویت کہ کسی انسان سے ایک حرف بھی نہ پڑھا اور آخر خدا نے ہی اِقْرَأْ کہا، بجز ہمارے نبیﷺ کے کسی نبی کو نصیب نہ ہوئی اِسی لئے آپ کتب سابقہ اور قرآن میں نبی اُمّی کہلائے۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 397 حاشیہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button