متفرق مضامین

تلاوت قرآن کریم کی فضیلت وبرکات (قسط اول)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس تمام کائنات کا مرکزی نقطہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو تمام کتب سماوی پر فضیلت عطا کرکے اسے سب کتب سماوی کا مرکزی مقام عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی لامحدود اور نہاں در نہاں ہے اسی طرح قرآن شریف کی برکات اور اُس کے خزانے بھی لامحدود اور مخفی در مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر غیر سے بالا اور افضل وبرتر ہستی ہے اسی طرح اُس کا پاک کلام بھی ہر دوسرے کلام سے افضل اور بالاہے۔ قرآن کریم کے فیوض وبرکات کی انتہا معلوم کرنا ایک عام انسان کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُسی کی مدد سے قرآن کریم کے اوصاف ِحمیدہ پر اطلاع ہوسکتی ہے۔ قرآن کریم ہدایت کا صحیح راستہ اور اندھیروں سے نور کی طرف لے جانی والی راہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ۙ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ۔

(ابراھیم:2)

أَنَااللّٰہُ أَرٰی:میں اللہ ہوں۔ میں دیکھتا ہوں۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اُتاری ہے تاکہ تُو لوگوں کو ان کے ربّ کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکالتے ہوئے اس راستہ پر ڈال دے جو کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ حمد کا راستہ ہے۔

عربی لغت کے لحاظ سے قرآن کا لفظ ’’ قرء‘‘سے نکلا ہے۔ قرء کے بنیادی اور اوّلین معنی جمع کرنااور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ نیز مختلف اور متفرق چیزوں کو سمیٹنے اور ملانے کے فعل کو قرءکہتے ہیں۔ جب حروف اور الفاظ کو ملایا جائے اور جمع کیا جائے تو پڑھنے کا عمل وجود میں آتا ہے۔ اس لیے قرء کے دوسرے معنی پڑھنے کے ہیں اور اس فعل کو قراء ت کہا جاتا ہے۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ میں ’’قرآن مجید ‘‘کی ذیل میں لکھا ہے کہ

قُرآن مجید:…قَرَأَ کے لفظی معنی پڑھنے کے بھی ہیں اور ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا کر جمع کرنے کے بھی، ایک حرف کا دوسرے حرف کے ساتھ ملاکر تلفظ کیا جائے تو اس کو قِرۡاءَ ۃ کہتے ہیں۔

قرآن، مَقۡرُوءٌ(مفعول) کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب وہ صحیفہ جو پڑھا جاتا ہے۔

اصطلاحی معنی میں قرآن، اللہ کا وہ کلام ہے جو اس نے اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کیا۔ قرآن کو، قرآن کیوں کہتے ہیں اور اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہیں : (1) یہ آیات اور سورتوں کا مجموعہ ہے۔ (2)انبیائے سابقین پر نازل شدہ کتب و صُحف کی تعلیمات کا عطر اور خلاصہ اس میں جمع کر دیا گیا ہے۔ (3) اس میں قصص و واقعات، اہم سابقہ حالات و حوادث، اوامر و نواہی اور وعدہ و وعید وغیرہ کو مناسب انداز سے جمع کیا گیا ہے۔ (4) علوم و معارف کا عمدہ ترین مجموعہ ہے۔

(اردودائرہ معارفِ اسلامیہ۔ زیر لفظ قرآن مجید جلد 16صفحہ 318۔ ناشر اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور۔ بار ثانی مارچ 2004ء )

قرآن کریم آخری ابدی شریعت کے طور پر اُتارا گیا ہے جو ہر لحاظ سے مکمل مجموعہ ٔحیات ہے۔ اس کی تنزیل میں اللہ تعالیٰ نے خاص اہتمام فرمایا ہے اور اس کو اُس رسول پر اُتارا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور اپنی قوم میں امین کے لقب سے مقلب تھا۔

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ۔ ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ۔ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ۔

(التکویر:20تا22)

یقیناً یہ ایک (ایسے ) معزز رسول کا قول ہے۔ (جو) قوّت والا ہے۔ صاحبِ عرش کے حضور بہت مرتبہ والا ہے۔ بہت واجب الاطاعت (جو) وہاں (یعنی صاحبِ عرش کے حضور) امین بھی ہے۔

اسی طرح اس بابرکت کلام کو اُتارنے کے لیے جو فرشتہ مقرر کیا گیا وہ بھی اللہ تعالیٰ اور ملائکہ میں امین کے لقب سے مشہور ہے :

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ۔

(الشعراء:193تا194)

اور یقینا ًیہ تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے اتارا ہوا (کلام) ہے۔ جسے روح الامین لے کر اُترا ہے۔

پس اس کلام کو ایک امین نے دوسرے امین کی طرف بڑی ذمہ داری اور حفاظت کے ساتھ منتقل کیا۔ پھر اسے دونوں امانت داروں کی نگرانی میں بڑی حفاظت کے ساتھ محفوظ کیا گیا تاکہ من و عن اللہ تعالیٰ کے بندوں تک پہنچے۔ قرآن کریم رحمان خدا کی طرف سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زمین و آسمان کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے۔ رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

فَضْلُ الْقُرْآنِ عَلٰى سَائِرِ الْكَلَامِ كَفَضْلِ اللّٰهِ عَلٰى خَلْقِه

(سنن الترمذی كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر 2926)

قرآن کریم کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے، جیسے اللہ کی فضیلت تمام مخلوق پر۔

نیز فرمایا:

اَلۡقُرۡآنُ أَحَبُّ اِلی اللّٰہِ مِنَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ، وَمَنۡ فِیۡھِنَّ

(سنن الدارمي حديث3390)

قرآن کریم اللہ کو آسمان وزمین اور جو کچھ اُن میں ہے، سب سے زیادہ محبوب ہے۔

پس جو چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب ہو تو لامحالہ اُس کے پڑھنے اور اُس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب شمار ہوں گے۔ قرآن حکیم انسانی فطرت کی آواز اور اُس کی روح کے لیے آبِ حیات کے طور پر ہے۔ جس کی رہ نمائی میں طے ہونے والا سفر انجام بخیر کی علامت اور منزلِ مقصود کی طرف لے جانے والا ہے۔ اس میں انسان کی روحانی، اخلاقی اور تمدنی کامیابی کا تمام سامان موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کےلیے قرآن کریم ہی سے مدداور رہ نمائی لی جائے اور اُسوۂ رسولﷺ کی روشنی میں قدم آگے بڑھایا جائے۔ اس زمانے میں عاشق رسولؐ اور عاشق قرآن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفائے کرام نے جس طرح خدمت قرآن کی توفیق پائی ہے اُس کی نظیر تاریخ اسلام میں ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتی۔ پس اسلوب قرآن کو جاننے اور اُن کو سیکھنے کے لیے اس آسمانی رہ نمائی سے وہ روشنی حاصل ہوسکتی ہے جو انسانی طاقت سے ممکن نہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے :

عَلَیۡکُمۡ بِالۡقُرۡاٰنِ فَاتَّخِذُوۡہُ اِمَامًا وَّ قَائِدًا، فَاِنَّہٗ کَلَامُ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ الَّذِیۡ ھُوَ مِنۡہُ وَاِلَیۡہِ یَعُوۡدُ فَاٰمِنُوۡا بِمُتَشَابہہٖ وَاعۡتَبِرُوۡا بِاَمۡثَالِہٖ۔

(کنزالعمال، کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع، فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، الفصل الاوّل فی فضائل حدیث:2300)

تم قرآ ن کو لازم پکڑو اور اس کو امام اور قائد بنالو کیونکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو اسی سے نکلا ہے اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس اس کے متشابہ پر ایمان لاؤ اور اس کی مثالوں سے عبرت وسبق حاصل کرو۔

انسان ایک حقیر اور لامحض شَے ہے اُس کا کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے زندگی کے ہر معاملہ میں دعاؤں سے کام لینا اُس کی فطرتِ ثانیہ بن جانی چاہیے۔ وہی ہے جو انسانی نفس کی اصلاح کرکے اُس کی دلی کیفیات کو صراط مستقیم پر چلاسکتا ہے۔ قرآن کریم کی ابتدا ہی اس بات سے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذا ت تمام صفات کاملہ کامنبع ہے اس لیے ہر ایک معاملہ میں اُسی کے حضور مددو استعانت کا طلبگار ہونا چاہیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف کی پہلی آیت بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’یہ آیت قرآن شریف کے شروع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے پڑھنے سے مدعا یہ ہے کہ تا اس ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ سے مدد طلب کی جائے جس کی صفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رحمان ہے اور طالب حق کے لئے محض تفضل اور احسان سے اسباب خیر اور برکت اور رُشد کے پیدا کردیتا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ وہ رحیم ہے یعنی سعی اور کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے جدوجہد پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے اور ان کی محنت کا پھل ان کو عطا فرماتا ہے اور یہ دونوں صفتیں یعنی رحمانیت اور رحیمیت ایسی ہیں کہ بغیر ان کے کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا انجام کو پہنچ نہیں سکتا اور اگر غور کرکے دیکھو تو ظاہر ہوگا کہ دنیا کی تمام مہمات کے انجام دینے کے لئے یہ دونوں صفتیں ہر وقت اور ہر لحظہ کام میں لگی ہوئی ہیں۔ خدا کی رحمانیت اس وقت سے ظاہر ہور ہی ہے کہ جب انسان ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ سو وہ رحمانیت انسان کے لئے ایسے ایسے اسباب بہم پہنچاتی ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہے اور جن کو وہ کسی حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا اور وہ اسباب کسی عمل کی پاداش میں نہیں دیئے جاتے بلکہ تفضل اور احسان کی راہ سے عطا ہوتے ہیں جیسے نبیوں کا آنا، کتابوں کا نازل ہونا، بارشوں کا ہونا، سورج اور چاند اور ہوا اور بادل وغیرہ کا اپنے اپنے کاموں میں لگے رہنا اور خود انسان کا طرح طرح کی قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ مشرف ہوکر اس دنیا میں آنا اور تندرستی اور امن اور فرصت اور ایک کافی مدت تک عمر پانا یہ وہ سب امور ہیں کہ جو صفت رحمانیت کے تقاضا سے ظہور میں آتے ہیں۔ اسی طرح خدا کی رحیمیت تب ظہور کرتی ہے کہ جب انسان سب توفیقوں کو پاکر خدا داد قوتوں کو کسی فعل کے انجام کے لئے حرکت دیتا ہے۔ اور جہاں تک اپنا زور اور طاقت اور قوت ہے خرچ کرتا ہے تو اس وقت عادت الہٰیہ اس طرح پر جاری ہے کہ وہ اس کی کوششوں کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ ان کوششوں پر ثمرات حسنہ مترتب کرتا ہے۔ پس یہ اس کی سراسر رحیمیّت ہے کہ جو انسان کی مردہ محنتوں میں جان ڈالتی ہے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 421تا422۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر 11)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کے روحانی فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔ جس کے اصول نجات کے بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہر یک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتااور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا دیتا ہے اور ہر ایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہر یک اصول کی حقیت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کا جاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہر یک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانون فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے اور عقل کے اجمال کو تفصیل دینے والا اور اس کے نقصان کا جبر کرنے والا ہے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 81تا82)

قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت اُس شخص پر جو بغیر دیکھے قرآن پڑھے ایسی ہے جیسے فرض کی فضیلت نفل پر۔

اللہ تعالیٰ کی پیروی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَ اتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (الانعام:156)

اور یہ بہت مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم رحم کئے جاؤ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں اس آیت کریمہ کے حوالے سے قرآن کریم کی برکات سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’اگریہ قرآن کِتَابٌ مُّبَارَکٌ ہے اور یقیناً قرآن کِتَابٌ مُّبَارَک ہے اور اس نے تمام برکاتِ روحانی کو اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے تو پھر عقلاً تین نتیجے نکلتے ہیں۔

اوّل: یہ کہ اس کتاب کی کامل پیروی کی جائے۔

دوسرے:یہ کہ اس کتاب نے تقویٰ کی جو باریک راہیں ہمیں بتائی ہیں ان پر گامزن رہا جائے اور تیسرے : یہ کہ اگر اور جب، ہم یہ کرلیں تب خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے ہم پر کھل سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ایسا نہ کریں تو باوجود اس کے کہ یہ کتب تمام برکاتِ روحانی کی جامع ہے ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ ‘‘

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بصیرت افروز ارشاد کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ سورۃ انعام آیت 156میں فرماتا ہے :

وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ

یہ کتاب جو میں تم پر نازل کر رہا ہوں۔ یہ تمام برکات کی جامع ہے فَاتَّبِعُوۡہ اس لیے تمہارے لیے یہ ضروری ہے کہ تم اس کی کامل اتباع کرو۔ وَاتَّقُوۡا اور تقویٰ کی جو باریک راہیں یہ تمہیں بتاتی ہے تم ان پر گامزن رہو۔

لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ

تاکہ اس طرح پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے تم پر کھولے جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا کہ قرآن کریم جامع ہے تمام برکاتِ روحانی کا (لیکن کتب سابقہ کے متعلق مُبَارَکٌ کا لفظ استعمال نہ ہوسکتا تھا) اور اس طرح ہمیں یہ بتایا کہ پہلی امتیں اپنی پوری جدوجہد، اپنے پورے مجاہدہ، اپنی پوری محنت اور اپنی پوری کوشش اور ایثار اور اپنے پورے جذبۂ قربانی کے باجود اس روحانی مقامِ رفعت تک نہ پہنچ سکتی تھیں جس مقامِ رفعت تک تم پہنچ سکتے ہو۔ کیونکہ تمہیں ایک کامل کتاب دی گئی ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں تم کامل برکات کو حاصل کرسکتے ہو۔ کامل برکات کے حصول کا امکان تمہارے لیے پیدا ہوگیا ہے۔ اتنی ارفع اور اتنی اعلیٰ کتاب کے ملنے کے بعد بھی اگر تم کوتاہی کرو اور اس طرف متوجہ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن کر اس کی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھائو تو تمہارے جیسا بدبخت دنیا میں کوئی نہیں ہوگا۔

پس فرمایا کہ یہ کتاب تمام برکات کی جامع ہے اور تمام برکات کا حصول تمہارے لیے ممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے اٹھو!! اور کوشش کرو اور محنت کرو اور قربانیاں دو اور ایثار دکھاؤ تاکہ تم ان تمام برکات اور فیوض کو حاصل کرسکو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍اگست 1966ء مطبوعہ خطباتِ ناصر جلد اوّل صفحہ 363تا365)

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تلاوت کی طرف متوجہ فرمایا گیاہے تاکہ پڑھنے والوں کو اس کے مضامین سے آگاہی ہو اور وہ اس کے فیوض وبرکات سے کماحقہٗ فائدہ اُٹھاسکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا۔ (الکہف:28)

اور تلاوت کر اُس کی جو تیرے ربّ کی کتاب میں سے تیری طرف وحی کیا جاتا ہے۔ اس کے کلمات کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور تُو اس کے سوا ہرگز کوئی پناہ گاہ نہ پائے گا۔

قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا :

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ۔ لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ۔

(الفاطر:30تا31)

یقینا ًوہ لوگ جو کتابُ اللہ پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور اعلانیہ بھی، وہ ایسی تجارت کی اُمید لگائے ہوئے ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔ تاکہ وہ اُن کو اُن کے اُجور (اُن کی توفیق کے مطابق) بھر پور دے بلکہ اس سے بھی زیادہ انہیں اپنے فضل سے بڑھائے۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا (اور) بہت قدر دان ہے۔

وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَ اتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔

(الانعام:156)

اور یہ بہت مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اُتارا ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم رحم کئے جائو۔

دَور اوّلین میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کریم کو والہانہ محبت اور نہایت اخلاص ووفا کے ساتھ تھام لیا اور اس کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے وہ تمام دنیا کے استاد بن گئے۔ پس دَور آخرین والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو تعلیم قرآن کے ساتھ وابستہ کرلیں تاکہ دنیا کے معلّم اور استاد بن سکیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سناتا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ اس کے لکھنے کے متعلق مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن یہ بات ضرور تھی کہ اُسے پڑھنا آتاتھا۔ اُس نے قرآن کو قرآن کرکے پڑھا، جنت کی طمع اور دوزخ کے خوف سے نہیں، عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر کہ اس کے اندر دنیا کے تمام علوم ہیں اسے پڑھا۔ اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اس نے کسی کے پاس زانوئے شاگردی طے نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی۔ وہ عورت کون تھی؟ اُس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا تھا۔

(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول، صفحہ 225تا226)

اللہ کا محبوب کلام

قرآن کریم جس طرح زمین پر پسندیدہ کتاب ہے اُس سے بڑھ کر اُسے آسمان پر پذیرائی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ جلّ شانہ ٗکو اچھی آواز میں اس بابرکت کلام کا سننا بہت محبوب ہے۔ جیسا کہ رسول کریمﷺ کے درج ذیل ارشادات سے واضح ہے۔

عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہُ صَلّی اللّٰہ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَیۡئٍ کَأَذَنِہِ لِنَبِّی یَتَغَنَّی بِالۡقُرۡآنِ یَجۡھَرُ بِہِ

(صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا، باب اسۡتِحۡبَابِ تَحۡسِینِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، حدیث:1312)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کسی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنا کہ وہ خوش آواز نبیﷺ کو جب وہ خوش الحانی سے بلند آواز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا اَبُوۡ ھُرَیۡرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ: مَااَذِنَ اللّٰہُ لَشَیۡئٍ کَاَذَنِہٖ یَتَغَنّٰی بِالۡقُرۡآنِ، یَجۡھَرُ بِہٖ

(صحیح ابن حبّان، کِتَابُ الرَّقَائِقِ، ذِکۡرُ اسۡتِمَاعِ اللّٰہِ اِلَی الۡمُتَحَزِّنِ بِصَوۡتِہٖ بِالۡقُرۡآنِ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا، جتنی توجہ سے قرآن کی خوش الحانی سے کی جانے والی تلاوت کو سنتا ہے، جو بلند آواز میں کی جاتی ہے۔

عَنۡ فَضَالَۃَ بۡنِ عُبَیۡدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ: لَلّٰہُ اَشَدُّ اَذَنًا اِلَی الرَّجُلِ الۡحَسَنِ الصَّوۡتِ بِالۡقُرۡآنِ، مِنۡ صَاحِبِ الۡقَیۡنَۃِ اِلٰی قَیۡنَتِہٖ۔

(صحیح ابن حبان، کِتَابُ الرَّقَائِقِ، ذِکۡرُاسۡتِمَاعِ اللّٰہِ اِلٰی مِنۡ ذَکَرۡنَا نَعۡتَہٗ اَشَدُّ…)

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : جتنے شوق کے ساتھ کوئی صاحبِ کنیز اپنی کنیز کا گانا سنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ پسندیدگی کے ساتھ اچھی آواز والے شخص کی قرآن کی تلاوت کو سنتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو حکم دیاہے کہ آپؐ یہ مقدس کلام لوگوں کو پڑھ کر سنایا کریں جبکہ آپ کی اقتدا میں آپ کے ماننے والوں کا فرض ہے کہ تعلیم قرآن کو پھیلانے کے لیے مقدرو بھر کوشش اور سعی کرتے رہا کریں تاکہ زمین وآسمان ہر دومقام پر پسندیدہ قرار پانے والے کلام سے دنیا کا ہر انسان آگاہ ہوجائے۔

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ۔ (العنکبوت:46)

تُو کتاب میں سے، جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے، پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر۔ یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر یقینا ًسب (ذکروں ) سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button