حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط چہارم)

حضرت موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مصداق ہونیکا دعویٰ

ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کریم کب کہتا ہے کہ میں وہی کتاب ہوں جس کا وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا۔ سو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا(المزّمّل:16)

یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے

شَاہِدًا عَلَیۡکُم

جو تم پر شاہد اور گواہ ہے

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلً

ااور وہ اسی قسم کا رسول ہے جس قسم کا رسول موسیٰؑ تھا جسے فرعون کی طرف بھیجا گیا۔ اس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ کے مصداق ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور طرح بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔ اور وہ یہ کہ استثنا باب ۱۸ کی آیت ۱۸ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ وہ خود بھی کہتے ہیں کہ میں اس کا مصداق نہیں۔ انجیل میں آتا ہے، حضرت مسیحؑ کہتے ہیں۔

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘

(یوحنا باب 16آیت 12،13برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء)

پس انجیل سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جس آنے والے کی پیشگوئی ہے وہ حضرت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ اس کا مصداق کوئی اور ہے۔ پھر حضرت مسیحؑ صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے تھے۔ مگر وہ جس کی نسبت حضرت موسیٰؑ نے پیشگوئی کی وہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ اور یہ دعویٰ قرآن ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدہ:4)

یعنی اے لوگو! آج میں نے دین کے کامل کرنے کی کڑی کو پورا کر دیا۔ وہ کڑی جو آدمؑ سے لے کر اب تک نامکمل چلی آتی تھی آج قرآن کے ذریعہ پوری کر دی گئی ہے اور میں نے اپنے احسان کو تم پر کامل کر دیا ہے۔ گویا مختلف چکروں میں سے انسانوں کو گذارتے ہوئے میں انہیں اس مقام پر لے آیا کہ بندہ خدا کا مظہر بن گیا اور میں نے تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کر لیا۔

اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم اپنے بعد کسی اور شریعت اور نئی کتاب کی امید نہیں دلاتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ نیا فہم اور نیا علم حاصل کرو جو قرآن کریم کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔

قرآن کریم کے اس دعویٰ کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ فضیلت کے وہ تمام وجوہ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور فضیلت کے ہر اصل کے لحاظ سے قرآن کریم تمام دوسری کتب الہامیہ سے افضل اور برتر ہے۔

منبع کے لحاظ سے قرآن کریم کی افضیلت کا ثبوت

پہلی بات جو میں نے بطور فضیلت بیان کی ہے وہ منبع کے لحاظ سے کسی چیز کی افضلیت ہے۔ یعنی کسی چیز کے منبع اور مخرج کا اعلیٰ ہونا بھی اس کے لئے وجہ فضیلت ہوتا ہے۔ جیسے ایک بادشاہ کے کلام کو دوسرے لوگوں کے کلام پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اگر دو آدمی کلام کر رہے ہوں جن میں سے ایک بادشاہ ہو تو سننے والے لازماً بادشاہ کی بات کی طرف زیادہ متوجہ ہونگے اور بغیر یہ فیصلہ کرنے کے کہ ان میں سے کس کا کلام افضل ہے پہلے ہی یہ سمجھ لیا جائے گا کہ بادشاہ کا کلام دوسرے سے اہم ہوگا۔ اسی طرح ایک بڑے ادیب کے کلام کو دوسروں کے کلام پر ترجیح دی جاتی ہے۔ مختلف شعراء اگر ایک جگہ بیٹھے ہوں اور وہاں مثلاً غالب بھی آ جائیں تو بغیر اس کے کہ ان کے اشعار سنے جائیں یہی کہا جائے گا کہ ان کے اشعار افضل ہونگے۔ اسی طرح ایک ڈاکٹر کسی بیمار کے متعلق رائے دیتا ہے اور بعض دفعہ وہ غلطی بھی کر جاتا ہے بلکہ بعض اوقات عورتوں کے بتائے ہوئے نسخے زیادہ فائدہ دے دیتے ہیں مگر کوئی عقلمند یہ نہیں کہتا کہ ایک ڈاکٹر کی بات رد کر دی جائے اور ایک عورت کی بات مان لی جائے۔ لازماً ڈاکٹر کی بات کی طرف ہی توجہ کی جائیگی۔ ہاں جسے کسی دوائی سے فائدہ نہ ہوتا ہو وہ کسی عورت کی بتائی ہوئی دوائی بھی استعمال کرے گا۔ کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق وہ یہ کہے گا کہ چلو اس کی دوائی بھی آزمالو۔

غرض اتھارٹی اپنی ذات میں بھی فضیلت رکھتی ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے لحاظ سے غالب گمان ہوتا ہے کہ اس کی بات ٹھیک ہوگی۔ اسی کی طرف پہلے کیوں نہ توجہ کریں۔ بہرحال جس چیز کی فضیلت مقام اور منبع کے لحاظ سے ثابت ہو جائے اس کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور اسے فضیلت دے دی جاتی ہے۔ لیکن اگر منبع ایسا ہو کہ جس سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو تو پھر تو سُبْحَانَ اللّٰہِ!

اب قرآن کریم کو ہم اس اصل کے ماتحت دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے جو سب خوبیوں کا جامع ہے اور جب ہم یہ دعویٰ پڑھتے ہیں تو ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو پھر یقیناً انسانوں کے کلاموں سے افضل ہوگا۔ اور ان کلاموں کو ہم اس کے مقابلہ میں قطعی طور پر ٹھکرا دیں گے۔

میں پہلے یہ دعویٰ بیان کر آیا ہوں کہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِھًا مَّثَانِیَ اب اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو قرآن کریم کو تمام انسانی کلاموں پر منبع کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہو گئی۔

قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے تین دلائل

لیکن ظاہر ہے کہ صرف دعویٰ کافی نہیں ہو سکتا۔ دعویٰ کے لئے دلیل بھی چاہئے جس سے ثابت ہو کہ فی الواقعہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کے لئے قرآن کریم یہ دلیل دیتا ہے کہ

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃًؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ مِنَ الۡاَحۡزَابِ فَالنَّارُ مَوۡعِدُہٗ فَلَا تَکُ فِیۡ مِرۡیَۃٍ مِّنۡہُ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ(ھود:18)

اس آیت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کی تین دلیلیں دی گئی ہیں۔ پہلی دلیل یہ بیان کی کہ

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ

کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک بَیِّنَۃیعنی روشن دلیل پر قائم ہو وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا وہ تباہ ہو سکتا ہے۔ یہاںمن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے۔ جیسا کہ آگے آتا ہے اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ۔ پس فرمایا کیا یہ لوگ تمہارے خیال کے مطابق تباہ و برباد ہو جائیں یا نقصان اٹھائیں گے یہ تو ایسی کتاب کو ماننے والے ہیں جو بَیِّنَۃہے یعنی اس میں الہامی دلائل ہیں جو مدلول علیہ کے دعویٰ کی صحت کو بیان کرتے ہیں۔

آیت اور بَیِّنَۃمیں فرق

آیت اور بَیِّنَۃمیں یہ فرق ہے کہ آیت وہ ہوتی ہے جس سے ہم خود نتیجہ نکالیں۔ اوربَیِّنَۃوہ ہوتی ہے جو اپنی دلیل آپ پیش کرے۔ جیسے ایک درخت کو ہم دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اسے کسی صانع نے بنایا ہے یہ آیت ہے۔ لیکن ایک نبی آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں یہ بَیِّنَۃ ہے۔ تو آیت عام لفظ ہے اور بَیِّنَۃخاص۔ اس سے مراد وہ دلیل ہوتی ہے جو اپنے لئے آپ شاہد ہوتی ہے۔

قرآن کریم کے بَیِّنَۃہونے کا ثبوت

اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کس طرح بَیِّنَۃہے؟ یہ بھی تو دعویٰ ہی ہے کہ قرآن بَیِّنَۃہے۔ اس کے لئے میں کہیں دور نہیں جاتا۔ قرآن کریم کی بَیِّنَۃہونے کا ثبوت اس پہلی وحی میں ہی موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ باقی کتابیں دوسروں کی دلیلوں کی محتاج ہوتی ہیں مگر قرآن اپنے دعویٰ کی آپ دلیل دیتا ہے۔ اور قرآن کے بَیِّنَۃہونے کی دلیل ان تین آیتوں میں موجود ہے جو پہلے پہل نازل ہوئیں۔ قرآن کریم کا یہ کمال دکھانے کیلئے میں نے سب سے پہلی وحی قرآنی کو ہی لیا ہے۔ سب سے پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی تھی جب جبرائیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آیا اور اس نے کہا۔اقرا یعنی پڑھ۔ اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاما انا بقاری (بخاری باب کیف کان بدءالوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)میں پڑھنا نہیں جانتا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ بوجھ مجھ پر نہ ڈالا جائے۔ کیونکہ اس وقت آپﷺ کے سامنے کوئی کتاب تو نہیں رکھی گئی تھی جسے آپﷺ نے پڑھنا تھا۔ بلکہ جو کچھ جبرائیل بتاتا وہ آپ کو زبانی کہنا تھا۔ اور یہ آپﷺکہہ سکتے تھے مگر آپﷺ نے انکسار کا اظہار کیا۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کیلئے آپﷺ ہی کو چنا تھا۔ اس لئے بار بار کہا کہ پڑھو۔ آخر تیسری بار کہنے پر آپﷺ نے پڑھا اور جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا۔

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ (العلق:2تا6)

کیا ہی مختصر سی عبارت اور کتنے تھوڑے الفاظ ہیں مگر ان میں وہ حقائق اور معارف بیان کئے گئے ہیں جو اور کتابوں میں ہر گز نہیں پائے جاتے۔ دوسری کتابوں کو دیکھو تو وید یوں شروع ہوتے ہیں۔ ’’اگنی میئرھے پروہتم۔‘‘ آگ ہماری آقا ہے۔ بائیبل کو دیکھو تو اس میں زمین و آسمان کی پیدائش کا یوں ذکر ہے۔

’’ابتداء میں خدا نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا۔ اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہرائو کے اوپر اندھیرا تھا۔ اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی‘‘۔

(پیدائش باب 1 آیت 1،2برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء)

انجیل کی ابتداء اس طرح ہے۔:

’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا‘‘

(یوحنا باب 1 آیت 1،2برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء)

لیکن قرآن کریم اس دلیل کے ساتھ اپنی بات شروع کرتا ہے کہ

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ۔

اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تم ان لوگوں کے معلم بن جائو اور پڑھو اس خدا کے نام کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا۔

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ۔

اس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔

اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَم

ہاں اے محمد! پڑھ کہ تیرے پڑھتے پڑھتے خدا کی عزت دنیا میں قائم ہو جائیگی۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button