متفرق مضامین

کووِڈ۔19:ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ، مگر کیوں؟ (قسط اوّل)

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…نوجوان افراد کو ویکسین لگانے کی کیوں ضرورت ہے؟

٭…ویکسین لگوانے کے کیا بد اثرات(Side Effects)ہیں؟

٭…کیا ویکسین ہماری بنیادی جینیاتی ساخت (DNA) کو تبدیل کرتی ہے؟

٭…کیا ویکسین خواتین کے رحم پر حملہ آور ہوکر انہیں بانجھ بناتی ہے؟

٭…کیا کووڈ کی ویکسین افریقی نژاد اور جنوبی ایشیائی افرادپر زیادہ شدت سے بد اثر ڈالتی ہے؟

٭… کیا کووڈ ویکسین حاملہ خواتین یا دودھ پلاتی ماؤں کے لیے موزوں ہے؟

٭…کووڈ کی ویکسین کس طرح سے اتنی جلدی تیار ہو کر سامنے آگئی؟

جیسا کہ قارئین کوعلم ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں کووڈ۔19جیسی مہلک وبائی مرض کی روک تھام کی غرض سے ہنگامی بنیادوں پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس وبائی مرض کی ہولناکی کا بچشم خود مشاہدہ کرنے کے باوجود لوگوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جسے مخصوص تحفظات یامفروضات کی بنا پر ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ (Vaccine Hesitancy) ہے، اور یا اس کے بارے میں اٹھنے والے بعض اہم سوالات کا تسلی بخش یا عام فہم زبان میں جواب دستیاب نہ ہونے کی بنا پر تذبذب اور شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

اس حوالے سے Humanity First UK کے شعبہ میڈیکل سروسز کےسربراہ ڈاکٹر حماد خان صاحب نے امریکہ میں مقیم معروف ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فہیم یونس صاحب سے یکم مارچ 2021ءکو Webinar کی شکل میں ایک معلوماتی مجلس سوال وجواب کا اہتمام کیا جس کا اردو خلاصہ افادۂ عام کی غرض سے قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ کووڈ ویکسین تیارکرنے والی کمپنیوں اورہر ملک کے محکمہ صحت کی طرف سے گاہے بگاہے تازہ ترین معلومات اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں لہٰذا کسی بھی brandکی ویکسین لگوانے سے قبل متعلقہ طبی عملہ سے اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر لینے اورتسلی کے بعد اپنی ذمہ داری پر ویکسین لگوائیں۔ جزاکم اللہ۔

مکمل گفتگوکی ریکارڈنگ، جو کہ انگریزی میں ہے، درج ذیل لِنک پر موجود ہے :

ڈاکٹر حماد خان:السلام علیکم ڈاکٹر فہیم صاحب اورآج کے پروگرام میں شامل ہونے پر آپ کا بہت شکریہ!

ڈاکٹر فہیم یونس:وعلیکم السلام۔ بہت بہت شکریہ مجھے موقع دینے کا۔

ڈاکٹر حماد خان:ڈاکٹر فہیم صاحب لگ بھگ ایک برس پیشترجب کہ کورونا کی وبا دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےرہی تھی اور افرا تفری کا عالم تھا، ہم یہ باتیں کرتے تھے کہ جب اس کی ویکسین دستیاب ہو جائے گی تو حالات بدل جائیں گے۔ اس ایک سال کو سامنے رکھتے ہوئے آج آپ اس کے بارے میں کیا تاثرات رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر فہیم یونس:جی بالکل۔ ایک برس قبل اگر آپ مجھ سے کہتے کہ ایک سال تک کووڈ کے مریضوں کی تعدادکئی ملین تک پہنچ جائے گی تو میں اس بات پر بہت پریشان ہوتا لیکن اگرآپ ساتھ یہ بھی بتاتے کہ سال کے اختتام تک آپ کو اس کی ویکسین بھی لگ چکی ہوگی تو مارے حیرت کے میں اپنی کرسی سے اچھل پڑتااور باوجود یکہ میں کوئی عرصہ بیس سال سے متعدی امراض کے شعبہ سے وابستہ ہوں (اس بات پر)یقین نہ کرتا۔ لیکن جس طرح سے اس بارے میں باہمی پیش رفت ہوئی ہے خصوصاً اس وائرس کو سمجھنے میں، تو یہ واقعۃ ًحیران کن ہے۔ گواس کی ہمیں بہت بھاری قیمت بھی چکانا پڑگئی۔

ڈاکٹر حماد خان:ویکسین کے بارے میں پہلا سوال ہے کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس وبا سے زیادہ خطرہ عمر رسیدہ افراد یا ان لوگوں کوہوتا ہے جنہیں دیگر کئی عوارض بھی لاحق ہوں تو ایک جوان اور صحت مند شخص کہہ سکتا ہے کہ جب میں اس گروپ میں شمار نہیں ہو تا اور بیماری کا حملہ اگر مجھے ہوتا بھی ہے تو وہ معمولی نوعیت کا ہی ہوگا تو مجھے ویکسین لگوانے کی کیا ضرورت ہے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:منطقی طور پر تو یہ نقطہ ٔنظر درست معلوم ہوتا ہے اور اگر ویکسین ہمیں محدود تعداد میں دستیاب ہوتی یا طلب اور رسد کا مسئلہ ہوتا تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہو سکتے کہ بھئی یہ ویکسین عمررسیدہ افراد کے لیے پہلے ہے جیسا کہ شروع میں ہم نے بہت سے ممالک میں یہی حکمت عملی اپنائی بھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کووڈ محض عمررسیدہ افراد کا مرض نہیں۔ یہ سب کو یکساں متاثرکرتی ہے۔

ہزارہا نوجوان افراد کووڈ کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ خود ہمارے اپنے ہسپتال میں کئی نوجوان مریضوں کو ہمیں وینٹی لیٹر پہ ڈالنا پڑا۔ اگرچہ یہ معمول تو نہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا۔

دوم، یہ سمجھنا کہ کووڈ کا حملہ ہونے کے ہفتہ دو ہفتہ بعد سب لوگ ٹھیک ہو جاتے ہیں، بس ذرا سی کھانسی اور تھوڑا سا نزلہ زکام ہی ہوتا ہے جس کے بعد صحت یاب ہو جاتے ہیں تو یہ خیال بھی غلط ہے۔

کووڈ کےکم ازکم 20تا 30فیصد مریض ایسے ہیں جنہوں نے اس بیماری کے حملہ کے بہت بعد بھی مسلسل تھکاوٹ، سانس کی دقت، دل کی تیزدھڑکن، اعصابی تناؤ وغیرہ کی شکایت کی ہے۔ ہمیں فی الحال اس کا علم نہیں کہ اس قسم کے اثرات کیسے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

سوم یہ کہ ہاں ٹھیک ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک دبلا پتلا صحت مند کھلاڑی قسم کا جوان ہوں مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ میں اس وائرس کو دوسروں تک پہنچانے والا(Carrier) تو ثابت ہو سکتا ہوں۔ ان میں میرے بزرگ، گھر والے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

پچھلے سال امریکہ کی ریاست مین (Maine) میں ایک واقعہ ہوا۔ 55؍افراد نے شادی کی ایک تقریب میں شرکت کی، لیکن اس کے نتیجے میں 150؍سے زائد افراد کووڈ میں مبتلا ہوگئے جن میں سے 8؍افراد ایسے تھے جن کی موت واقع ہوگئی۔ ان مرنے والوں میں سے کسی نے اس شادی میں شرکت نہیں کی تھی لیکن وہ اس شادی میں شامل ہونے والوں کے عزیز یا رشتہ دارتھے۔

اس لیے یہ تین بنیادی نکات ہیں اول آپ کو بھی کووڈ کے ہاتھوں موت کا شکار ہونے اور ہسپتال میں داخلے کی نوبت پیش آسکتی ہے۔ دوسرے، آپ کو طویل المدت علامات لاحق ہو سکتی ہیں اور تیسرے یہ کہ آپ اس وائرس کو اپنے عزیزوں میں پھیلانے والے بن سکتے ہیں۔

اور اس کے بالمقابل ویکسین کے مضرات تقریباً صفر کے قریب ہیں۔ اس کے طویل المدت بد اثرات کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ تو جب آپ ان دونوں کا تقابلی جائزہ کریں تو سمجھ آجائے گی کہ کس میں خطرےکا امکان زیادہ ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:آپ نے ویکسین کے بداثرات کا ذکر کیا۔ اس وقت کووڈ کی کئی قسم کی ویکسین دستیاب ہو چکی ہیں۔ ذرا ان کے بداثرات (Side Effects) کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ لوگوں کو کس قسم کے بد اثرات کے نمودار ہونے کی توقع رکھنی چاہیے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:ایک تو شارٹ ٹرم یعنی فوری نوعیت اور محدود مدت کے اثرات ہیں۔ جو ایک یا دودن تک محدود رہتے ہیں۔ ان میں متعلقہ بازو میں درد ہونا، بخار، تھکاوٹ، چکر آنا شامل ہیں جوہماری ٹیم میں شامل کچھ ممبران کو محسوس ہوئے۔ اور میں بتاتا چلوں کہ ہمارے ہسپتال کی ٹیم 3000؍افراد پر مشتمل ہے جنہیں ویکسین لگ چکی ہے۔ تو ان تین ہزار افراد کے (ویکسین لگنے کے) کوائف تو خود میرے پاس محفوظ ہیں۔

اور آج محکمہ (CDC) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو ان اولین 13؍ملین (13,000,000) امریکی شہریوں کے بارے میں ہے جنہیں کووڈ ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ انہیں موڈرنا یا پھر فائزر کی ویکسین لگی ہے تو یہ اعدادوشمار اور ان کی تفصیلات کوئی معمولی نوعیت کے کوائف نہیں۔ بہت ہی بڑے اعدادوشمارہیں۔

تو پانچ یا دس فیصد لوگوں کو یہ علامات لاحق ہو سکتی ہیں جو ایک یا دو دنوں میں خود ہی زائل ہو جاتی ہیں۔

جہاں تک طویل المدت بد اثرات کا تعلق ہے تو ان کی شرح دس لاکھ میں ایک کی ہے، جو بہت ہی کم شرح ہے۔ یہ شاذ کے طور پر ظاہر ہونے والے بداثرات ہیں۔

ان کے لاحق ہونے کا امکان اتنا ہی ہے جتنا کہ کسی گاڑی کے حادثہ کا شکار ہونے کا ہوتا ہے۔ اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں کسی بھی حادثہ کے ہونے کا امکان تقریباً اتنا ہوتا ہی ہے۔

ان بداثرات میں الرجی ری ایکشن (Anaphlaxis) ہونا شامل ہے۔ سی ڈی سی کے مطابق 13؍ملین افراد میں، جنہیں فائزر یا موڈرنا ویکسین لگی، اس کی شرح چار اعشاریہ پانچ فی ملین رہی۔ یہ الرجک ری ایکشن قابل علاج ہے اور اس سے کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین لگانے کے بعد ان افرادپر کم از کم تیس منٹ تک نظر رکھی جاتی ہے۔

یہ عمل دیگر ویکسین کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک اچھی علامت قراردی جاسکتی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کامدافعاتی نظام مستعد ہے۔

یہ ویکسین آپ کےاس مدافعاتی نظام کوحرکت میں لے آتی ہے۔ ایک پیغام دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مدافعاتی نظام سمجھ بیٹھتا ہے کہ گویا سچ مچ کے وائرس نے جسم پر حملہ کردیا ہے اور وہ فوراً اس کے خلاف مدافعاتی مادے (Anti- bodies)بنانا شروع کردیتا ہے۔ یوں مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کی غرض سے ویکسین کی یہ ’’حکمت عملی‘‘کامیاب ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ہے جیسے آپ پرنٹر کو ایک ای میل بھیجتے ہیں اور وہ اوپرتلے صفحوں کے صفحے پرنٹ کرڈالتا ہے۔

جہاں تک طویل المدت بد اثرات کا تعلق ہے تو ان کا امکانی خطرہ ایک ملین میں ایک کی نسبت کا ہے اور اتنا خطرہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں اور بھی کئی معاملات میں لاحق رہتا ہی ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:آپ نے ان ممکنہ اثرات کے بارے میں جو تسلی بخش معلومات فراہم کی ہیں میں تو اس سے مطمئن ہوں لیکن بہت سے لوگ اس قسم کی جعلی خبروں سے بھی متاثر ہورہے ہیں کہ یہ ویکسین ہماری بنیادی جینیاتی ساخت (DNA) کو تبدیل کردیتی ہے اور یا پھر یہ کہ یہ خواتین کے رحم پر حملہ آور ہوکر انہیں بانجھ بنادیتی ہے۔ ان خبروں میں کتنی صداقت ہے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ یہ احمقانہ اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ اگر میں یہ دعویٰ کردوں کہ کل آسمان نیچے گر جائے گا تو اس دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی مجھ پر پڑے گی۔ میں آپ کوتو اس بات کا پابند نہیں کرسکتا کہ جاؤ اور میرے اس دعویٰ کے برعکس شواہد لا کردکھاؤ اور مجھے جھوٹا ثابت کرو۔

سب سے پہلے تو مجھے بتانا چاہیے کہ کن شواہد کی بنا پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آسمان نے کل نیچے گرناہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ ویکسین بانجھ بنا دیتی ہے۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ ویکسین ڈی این اے کو تبدیل کردیتی ہے۔

یہ ویکسین اصل میں ایم آر این اے(Messenger-Ribo-Nucleic Acid جو ایک پیغام رساں پروٹین پر مبنی مادہ ہے۔ اسے لیبارٹری میں مصنوعی طریق پرتیار کیا جاتاہے۔ ناقل ) پر مشتمل ہے جو اتنا نازک ہوتا ہے کہ اگر اسے ہم کمرے کے درجہ حرارت پر پڑا چھوڑدیں تو یہ خود بخود تحلیل ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اسے مخصوص درجہ حرارت میں رکھنا پڑتا ہے خواہ یہ فائزر کی ویکسین ہو یا موڈرنا کی۔ ان کے لیے فریج کی ضرورت ہوتی ہیں۔ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کے لیے بھی فریج کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کے بالمقابل جسم کا درجہ حرارت 37؍ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے جو اس لحاظ سے کافی زیادہ گرم ہے۔ اس درجہ حرارت پر یہ ایم آر این اے جسم کے اندر جلدی، غالباً ایک یا دو دن کے اندراندر، Snapchat میسج کی طرح خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

اورایک انتہائی اہم سائنسی تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ یہ ویکسین ہمارے خلیات کے مرکزے (Nucleus) میں کبھی داخل نہیں ہو پاتی جہاں ڈی این اے موجود ہوتا ہے۔ بلکہ سائٹو پلازم میں (Cytoplasm جو مرکز کے اردگرد موجود سیال مادہ ہوتا ہے۔ ناقل) رہ کر اپنا کام کرتی ہے اور کام کرنے کے بعد خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا کہ یہ ڈی این اے میں کوئی تبدیلی لا سکے۔

اسی طرح سے ایم آر این اے ویکسین میں نہ تو کوئی وائرس اور نہ ہی وائرس کا کوئی حصہ موجود ہوتا ہے۔ (دم تحریر دستیاب ویکسین میں صرف فائزر اور موڈرنا کی ویکسین اس ٹیکنالوجی سے تیارشدہ ہیں۔ ناقل)

لہٰذا تکنیکی اور سائنسی اعتبار سے یہ ویکسین نہ تو جسم میں کووڈ وائرس داخل کرتی ہیں اور نہ ہی کووڈ کی بیماری میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کووڈ کی ویکسین لگوائی اور مجھے اس سے کووڈ ہو گیا۔

اسی طرح سے اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ یہ ویکسین بانجھ پن پیدا کرتی ہیں۔ ہاں اگر کسی کے پاس باقاعدہ شواہد موجود ہیں تو مجھے بھجوائے۔ میں ضرور ان کا جائزہ لوں گا۔

یہ ذمہ داری انہی لوگوں کی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آپ فیس بک پر کوئی بات پھیلا دیں اور پھر پوری میڈیکل کمیونٹی سے توقع رکھیں کہ وہ اب اپنے سارے وسائل اور توانائیاں اس بے بنیاد دعوے کا ردّ کرنے میں لگا دے۔

میری رائے میں عوام کو ایسے لوگوں سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرکے دکھائیں !حقیقت یہی ہے کہ یہ جان بوجھ کر بے بنیاد باتیں پھیلا کر عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کی نیت سے چلائی جانے والی مہم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

ڈاکٹر حماد خان:بہت شکریہ ڈاکٹر فہیم۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں بدقسمتی سےافریقی نژاد اور جنوبی ایشیائی افراد میں یہ ویکسین لگوانے کی شرح کم ہے۔ کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ جیسا کہ معلوم ہے کہ کووڈ ان مخصوص افراد پر بڑی شدت سے حملہ آور ہوتا ہے تو کیا کووڈ کی ویکسین بھی ان پر اسی شدت کا بد اثر ڈال سکتی ہے؟کیا یہ پہلو اہم یا قابل تشویش ہے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:بہت اچھا سوال ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ویکسین پر عدم اعتماد کی حامل اس سوچ نے کیسے جنم لیا۔ یہ درست ہے کہ افریقی نژاد امریکنوں، میکسیکن اور ایشین کمیونٹی کووڈ کے نرغے میں نسبتاً زیادہ آتی ہیں۔ اور اس کی متعدد معاشی، معاشرتی اور طبی وجوہات ہیں جو باہم مل کر ان لوگوں کو زیادہ خطرے میں ڈالنے والی ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں کہ کووڈ کی ویکسین بھی ان مخصوص طبقات پر برا اثر ڈالنے والی ہو گی یا ان لوگوں میں ان کے سائیڈ ایفیکٹس زیادہ ظاہر ہونے کا امکان ہے۔

ڈاکٹر حماد، میں نے 13؍ملین افراد کو ویکسین لگنے کا آپ سے ذکر کیا تھا جو بہت بڑی تعداد ہے، …میں ابھی چیک کرکے آپ کو بتاتا ہوں کہ …مجموعی طورپر 7.28؍ملین یعنی سات کروڑ سے زائد ویکسین صرف امریکہ میں لگائی جاچکی ہیں اور ان کے اس قسم کے نقصانات دیکھنے میں نہیں آئے۔ اگر ہونے ہوتے تو اب تک ضرور سامنے آچکے ہوتے۔

جہاں تک ویکسین پر عدم اعتماد اور اس پر شک وشبہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ جہاں تک افریقی نژاد امریکنوں کا تعلق ہے تو افسوس کہ ہمارے ماضی کا ایک ناقابل فراموش سیاہ باب ’’ ٹسکیجی ٹرائل ‘‘ہے جس میں افریقی نژاد امریکنوں پر نام نہاد ’’تحقیق ‘‘ کے نام پر انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ یہ کام مغربی دنیا خصوصاً امریکہ میں ہوا۔ (بدنام زمانہ Tuskegee Institute Trialجس میں 1932ء سے لے کر اگلے چالیس برس تک افریقی نژاد امریکنوں کو بتائے بغیر اوران سے باقاعدہ اجازت لیے بغیر ان پرسفلس یعنی آتشک کے انسانی جسم پر ہونے والے طویل المدت بد اثرات کو جانچنے کی تحقیق کی گئی۔ اورمبینہ طور پر انہیں اس کے علاج سے بھی محروم رکھا گیا۔ ناقل )

بہت سے لوگ ہیں جن کے آباءاس نام نہاد’’تحقیق‘‘ کا نشانہ بنے تھے جو واقعۃً بہت ہی غیر انسانی نوعیت کی تھی اور میری رائے میں اس قسم کے واقعات باہمی اعتماد کو دائمی ٹھیس پہنچانے کا سبب بن جاتے ہیں جسے بحال کرنے میں پھر مدتیں صرف ہو جاتی ہیں۔ تو یہ ایسے تلخ اور ٹھوس حقائق ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔

لیکن موجودہ دَور کی جو خوش آئند اورنہایت حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایک افریقی نژاد امریکی ڈاکٹر کِزمیکیا کوربِٹ (Kizzmekia Corbet) جو پی ایچ ڈی فزیشن ہیں اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں کام کرتی ہیں، وہ موڈرنا ویکسین تیارکرنے والی ٹیم کی سرکردہ ممبر ہیں۔

تو یہ ایک تاریخی نوعیت کی بات ہے۔ میں جن سے بھی ملتا ہوں انہیں کہتاہوں کہ اس عظیم خاتون کی تصویر نمایاں جگہ پر آویزاں کریں۔ اس کو دیکھ کر افریقی نژاد امریکنوں کا دل اس طرف مائل ہوگا۔ اپنائیت کا ایک احساس جنم لے گا کہ دیکھو یہ ہماری ہی بچی ہے جس نے یہ ویکسین ایجاد کی ہے تو اس طرح سے یہ کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:بے شک، اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مختلف قسم کی ویکسین کی تیاری میں دنیا کے ہر خطے کے محققین نے مل جل کر جس طرح سے کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اگلا سوال حاملہ خواتین کے بارے میں ہے۔ کیا کووڈ ویکسین حاملہ خواتین یا دودھ پلاتی ماؤں کے لیے موزوں ہے؟

ڈاکٹر فہیم یونس:بہت اہم سوال ہے۔ مختصر جواب یہ ہے کہ ہاں وہ بھی یہ ویکسین لگواسکتی ہیں۔

اس بارے میں مزید بتانا چاہوں گا کہ جب ان ویکسین کی آزمائش کا تیسرامرحلہ (فیز تھری) شروع ہوا تو حاملہ خواتین کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن جیسا کہ یہ بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، بعض خواتین جو ان ستر ہزار رضاکاروں میں شامل تھیں جن پر فائزر اور موڈرنا کی ویکسین کی آزمائش کی جارہی تھی تو مقررہ مدت کے آخر پر ان میں سے دو درجن خواتین حاملہ بھی ہو گئی تھیں۔

ان کی تعداد تھوڑی ہے لیکن بہرحال ان میں ہمیں اس ویکسین کا کوئی ضر رساں اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ خاص کر اسقاط حمل کا خطرہ معمول سے بڑھ کر ظاہرنہیں ہوا۔ محکمہ سی ڈی سی کی طرف سے یہ ہدایت جاری کی جاچکی ہے کہ حاملہ یا دودھ پلانے والی مائیں بلا خطر یہ ویکسین لگوا سکتی ہیں۔

تاہم میں یہ بھی کہوں گا کہ اس کا دارومدار اس پر بھی ہے کہ آپ کس قسم کے ماحول میں ہیں اور آپ کاحمل کس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ فرض کریں کہ حمل کا آٹھواں مہینہ چل رہا ہے اورآپ گھر پرہی رہتی ہیں اور آپ کا کووڈ میں مبتلا ہونے کا امکان صفر ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنی تسلی کے لیےکووڈ ویکسین لگوانے کا فیصلہ زچگی سے فارغ ہونے کے بعد کے ایام کے لیے رکھ چھوڑیں۔

لیکن اگر آپ کا تیسرا یا چوتھا مہینہ ہے اور آپ فرنٹ لائن پرکسی ہسپتال میں کام کرتی ہیں تو پھر وہ بالکل الگ معاملہ ہوگا۔ تب تو آپ کو ضرور ویکسین لگوانی چاہیے۔

تو اس طرح سے دیکھا جاتا ہے کہ کووڈ میں مبتلا ہونے کا امکان کتنا ہے اس کے مطابق دونوں طرف کے پہلو مدنظررکھ کرہی کسی مخصوص صورت حال میں ویکسین لگانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:بہت شکریہ ڈاکٹر فہیم صاحب۔ اب ایک سوال ویکسین کی تیاری سے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ویکسین کی تیاری میں عموماً دس سال تک لگ جاتے ہیں۔ تو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کووڈ کی ویکسین کس طرح سے اتنی جلدی تیار ہو کر سامنے آگئی؟لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ان کی تیاری میں معمول کی احتیاطوں یا آزمائشوں کو ملحوط خاطر نہیں رکھا گیا؟ کہیں کسی اہم مرحلے کو نظرانداز تو نہیں کیا گیا؟

ڈاکٹر فہیم یونس:یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ گذشتہ برس جولائی تک میرے ذہن میں بھی یہی سوالات اٹھا کرتے تھے۔ اس کے لیے مجھے بہت مطالعہ کرنا پڑا کیونکہ میرے لیے بھی یہ ایک نئی بات تھی۔

یہ بالکل درست ہے کہ عمومی طورپر ویکسین کی تیاری میں دس برس تک کاعرصہ لگتا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ کئی دہائیاں بلکہ صدیاں گزرجانے کے باوجود ہم ملیریا، ٹی بی، ایچ آئی وی کی ویکسین تیار کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن پھر ہم ایک سال کے اندر کووڈ کی ویکسین تیار کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کووڈ کے معاملہ میں ہمیں سرخ فیتے اور دیگر غیر ضروری تکلفات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ویکسین کی تیاری میں پہلے ہمیں ایک ٹارگٹ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ ویکسین کا بنیادی ٹارگٹ (وائرس کا کون سا حصہ) ہوگا۔ بہت سے سال تو اسی میں لگ جایا کرتے ہیں۔ اور پہلے سارس SARS وائرس، جس نے 2008ءمیں ایک محدود پیمانے کی وبا پھیلائی تھی، کے معاملہ میں ایسا ہوا بھی ہے۔ چنانچہ آج سے دس برس قبل اس وائرس پرجو تحقیق کی گئی تھی اس کے نتیجے میں اس وائرس کی سطح پر موجود مخصوص ’’سپائیک پروٹین‘‘ (Spike Protein) کو بطور ٹارگٹ اپنا لیاگیا تھا۔ کیونکہ سارس وائرس بھی ’’کورونا‘‘وائرس کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ تو اس لحاظ سے کورونا وائرس پر بہت ساری تحقیق آج سے دس برس پیشتر ہو چکی تھی۔ اور کووڈ۔19 وائرس بھی ایک کورونا وائرس ہی ہے اس لیے سائنسدانوں کے لیے تحقیق کا دوسال کا عرصہ تو اس مرحلہ پر بچ گیا۔

دوسری بات یہ کہ یہ درست ہےکہ ویکسین کی آزمائش کے پہلے اوردوسرے مرحلے میں بھی لگ بھگ پانچ سال لگ جاتے ہیں کیونکہ اس غرض سے چالیس پچاس ہزار رضاکاروں کا حصول کوئی معمولی کام نہیں ہوتا۔

لیکن کووڈ 19کے معاملے میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں متاثرہ افراد سامنے آرہے تھے اس لیےاس مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں رضاکاروں کا حصول جلد ممکن ہو سکا۔ اور پانچ سال میں جو کام ہونا تھا وہ تین ماہ میں مکمل ہو گیا۔

تیسرا مرحلہ ویکسین کی تیاری کاہے۔ اس میں بھی عموماً دوسال لگ جایا کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طورپر فنڈز کی فراہمی اور کاروبار کا مسئلہ ہوتا ہے۔ کمپنیاں پیسہ لگانے سے قبل سوچتی ہیں کہ انہیں مالی نقصان تو نہیں ہوگا۔ لیکن کووڈ کے معاملہ میں حکومتوں نے انہیں مالی معاونت فراہم کردی۔ صرف امریکہ نے اس مد میں بلین ڈالر تک کی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا اور کہا کہ تم بے فکر ہو کر ویکسین تیار کرو پیسہ ہم فراہم کریں گے۔

آخری مرحلہ تیارشدہ ویکسین کی جانچ پڑتال اور متعلقہ نگران محکموں، مثلاً امریکی ایف ڈی اے (FDA)کی طرف سے منظوری کا مرحلہ ہو تا ہے۔ اس میں بھی سال بھر کا عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن ہنگامی بنیادوں پرمل بیٹھ کر یہ عمل چند ہفتوں میں مکمل کرلیا گیا۔

اور واضح رہے کہ منظوری کا یہ سارا عمل صاف اورشفاف طریق پر سرانجام دیاگیا۔ منظوری کے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر ایف ڈی اے نے 42صفحات پر مبنی رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر بھی جاری کردی تا کہ کسی کےذہن میں ویکسین کی منظوری دیے جانےکے بارے میں کو ئی سوال ہو تو وہ اپنی تسلی کرلے۔ میں نے بھی یہ ساری دستاویز پڑھی ہے اورمیں اس سے مطمئن ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہایت خوش آئند بات ہے۔ اس تجربے نےویکسین کی تیاری کے نظریہ کو بدل کر رکھ دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ اسی طریق پرویکسین تیار ہوا کریں گی۔

ڈاکٹر حماد خان:بے شک یہ بہت اچھی پیش رفت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر حکمران تعاون کریں تو ان کاموں کا تیزی سے سرانجام دیا جانا ممکن ہو سکتا ہے۔ اور امید ہے کہ مستقبل میں ہمارے سیاستدان اپنی ترجیحات کو اس کے مطابق ڈھالیں گے۔

ڈاکٹر فہیم صاحب آپ نے جو بات ابھی کی ہے اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ کووڈ ویکسین اپنی تیاری کے تمام لازمی مراحل میں سے گزر کر عوام تک پہنچی ہے اور یہ اب تک ہزاروں لاکھوں افراد کو لگائی بھی جا چکی ہے اور اسی پربات ختم نہیں ہوئی بلکہ ویکسین پر ما بعد اجرا تحقیق اور کڑی نگرانی کا عمل ابھی بھی جاری و ساری ہے۔

ڈاکٹر فہیم یونس:بالکل، حماد، آپ نے یہ نہایت ہی اہم نشاندہی فرمائی کہ ان پرکڑی نگرانی کا عمل ابھی بھی جاری ہے۔ ان کی منظوری چونکہ ہنگامی بنیادوں پر دی گئی تھی نہ کہ عمومی طور پر، تو ان پرمستقلاً کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔

ڈاکٹر حماد خان:بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button