’’دارالذکر‘‘ لاہور کی یادیں اور باتیں، تاریخ کے آئینے میں (قسط اوّل)
خاکسار کاآبائی علاقہ صدر بازار لاہور کینٹ ہے، یہیں خاکسار کی پیدائش ہوئی اور میٹرک تک ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تنظیم اطفال الاحمدیہ کا ممبر ہونے کے بعد سے جس پہلی مسجد میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی توفیق ملی تھی وہ ’’دارالذکر‘‘تھی۔ اس لحاظ سے میرے دینی شعور اور تربیت کی ابتدا مسجد دارالذکر سے ہوئی تھی۔ دارالذکر سے خاکسار کاتعلق اس وقت منقطع ہوا جب مجھے2013ء میں پاکستان کو الوداع کہنا پڑا جبکہ میری عمر کی کم وبیش پانچ دہائیاں گزر چکی تھیں۔ اطفال الاحمدیہ تنظیم کا ممبر بننے کے بعد تنظیمی پروگراموں میں شرکت کرنے اور نماز جمعہ کے لیے والد محترم احمد علی سراج صاحب کے ساتھ دارالذکر جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دارالذکر کے اندر داخل ہوتے ہی جہاں مختلف اسٹالوں پر نظر پڑتی تھی وہیں کچھ بزرگوں کو دیکھا کرتا تھا جو ایک چادر کے کونے پکڑے کھڑے ہوتے تھے اوراحباب اس چادرمیں حسب توفیق پیسے ڈالتے تھےبچپن کے دنوں میں جو دارالذکر دیکھا تھا وہ آج بھی ذہن کے پردے پر موجود ہے۔ آج کے دارالذکر میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ اپنی زندگیوں کا بڑا حصہ دارالذکر میں گزارنے والوں کو یقیناً ان دنوں کو بھولنا بہت دشوار ہوگا۔ خواہ وہ لاہور میں رہتے ہوں یا دیارِ غیر میں؎
یوں برستی ہیں تصور میں یادیں
جیسے برسات کی رِم جھم میں سماں ہوتا ہے
بچپن کے دنوں میں دارالذکر کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف مکرم عبدالمالک صاحب مرحوم کا گھر ہوا کرتا تھا، پھر ان کا گھر آگے اندر شفٹ ہوگیا ۔ بعد ازاںوہ دارالذکر سے باہر کہیں قریب ہی منتقل ہو گئے۔ دیوار کے ساتھ ساتھ آگے جاکر نکڑ پر ایک نلکا لگا ہوا کرتا تھا۔ ساتھ ہی شہتوت کا ایک درخت بھی تھا، احباب وضو بھی وہیں کرتے تھے اور اجتماعات کے موقع پر برتن اسی نلکے پر دھوئے جاتے تھے۔ دارالذکر کی تعمیر کے بعد کئی سال تک صحن میں وضو کرنے کے لیے انہی ٹوٹیوں کا استعمال رہا تھا جو لمبی قطار میں لگائی گئی تھیں بعد میں وہ ختم کردی گئی تھیں اور ان کی جگہ نئے اور جدید باتھ رومز تعمیر کردیے گئے جو آج بھی زیر استعمال ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں دارالذکر کے مین ہال میں صفیں بچھا کرتی تھیں، ہر جمعہ کی نماز سے پہلے خادم مسجد اور کبھی مقامی خدام نماز جمعہ سے پہلے پورے ہال میں صفیں بچھاتے اور اٹھاتے تھے، پھر وقت بدلا، صفوں کی جگہ دریوں نے لے لی اور کئی سال یہ استعمال ہوتی رہیں، مکرم شیخ ریاض صاحب(حال مقیم کینیڈا) نے خاکسار کو بتایا کہ مکرم منیر احمد شیخ صاحب شہیدکی امارت کے ابتدائی مہینوں میں دارالذکر کے مین ہال میں اعلیٰ قسم کے قالین بچھائے گئے تھے، 28؍مئی کے سانحہ پر تمام قالین خون آلودہ ہو گئے تھے اور جل بھی گئے تھے، بعد میں وہ سب تبدیل کرنے پڑے۔
دارالذکر گڑھی شاہو لاہور میں ایک انتہائی مصروف شاہراہ علامہ اقبال روڈ کے کنارے واقع ہے، اس لیے وہاں کسی بھی سواری سے پہنچنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا۔ بچپن میں دارالذکر کے بس سٹاپ پر اترتے تو سامنے قریب ہی سرخ رنگ کا پرانے طرز کا لیٹر بکس نصب ہوتا جہاں جماعتی ڈاک بھی ڈالی جاتی تھی، لیٹر بکس کے پیچھے دارالذکر کی بیرونی دیوار پر ایک بڑا بورڈ نصب تھا جس پر ’’دارالذکر‘‘115Aعلامہ اقبال روڈ لکھا ہوتا تھا(یہ تاریخی بورڈ 2013ءتک خاکسار کے دفتر شعبہ اشاعت عقب دارالذکر (شادی ہال ) میں موجود تھا)۔ ان دنوں سرخ رنگ کی سرکاری اومنی بسیں چلا کرتی تھیں اور بس سٹاپ کا نام بھی دارالذکر ہوا کرتا تھا۔ سڑک پر تانگے بھی چلا کرتے تھے۔ احباب دارالذکر سٹاپ کا نام لےکر وہیں اترا کرتے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور کی نئی مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کی فوری خرید کی تحریک فرما رہے تھے تو ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ
’’مقامی جماعت کے دوست فوری طور پر میٹنگ کرکے آج شام تک مجھے اطلاع دیں وہ کونسی سڑک پر مسجد کے لئے زمین خریدنا پسند کرتے ہیں۔ سڑک ایسی ہونی چاہیے جہاں شہر کے لوگ آسانی سے پہنچ سکتے ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍اکتوبر1948ءمطبوعہ الفضل لاہور26؍جنوری1949ء)
یہ حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں ہی تھیں جن کی بدولت دارالذکر کی تعمیر اس سڑک کے کنارے پر ہوئی جہاں ہر احمدی کا پہنچنا آسان ہے، خواہ وہ ایئرپورٹ سے آئے یا ریلوے اسٹیشن سے اور یا اپنی ذاتی موٹر سے۔ الحمد للہ۔ دارالذکر تعمیر کے بعد سے ہی جماعت احمدیہ لاہور کا مرکز رہا۔ ضلعی دفاتر بھی یہیں قائم کیے گئے۔
دارالذکر میں ہر جمعہ ،ہر جماعتی جلسہ اور بڑے پروگرام کے موقع پر کچھ سٹال بھی ہوا کرتے تھے اوران سٹالوں میں، حمید اللہ صاحب کا ٹوپیوں کا سٹال، مبارک محمودپانی پتی صاحب، اور قیصر صاحب صدر بازار والے جن کا سرمہ، کاجل اور پھکی وغیرہ کا سٹال ہوا کرتا تھا دو بھائی تھے، عموما ًبڑے بھائی سٹال پر کھڑے ہوتے تھے۔ مکرم خالد پانی پتی صاحب ابن مکرم مبارک محمود پانی پتی صاحب نے بتایا کہ’’بچپن میں جب والد محترم سٹال لگایا کرتے تھے تو اس وقت میں بھی پاس وہیں کھڑا ہوتا تھا، احباب جو کتابیں اکثرخریدتے تھے ان میں ایک ’’تحدیث نعمت‘‘اور دوسری ’’دیباچہ تفسیر القرآن ‘‘ہوا کرتی تھی اور یہی میں ان کو پکڑایا کرتا تھا۔‘‘اس دور میں سائیکل سٹینڈ اندر ہی ہوا کرتا تھا۔ خدام الاحمدیہ کی مختلف مجالس سے تعلق رکھنے والے خدام یہاں ڈیوٹیاں دیتے اور فنڈز اکٹھے کرتے۔
اُس وقت دارالذکر کے اندر سائونڈ سسٹم نہیں ہوتا تھا، لاؤڈ اسپیکر کا سسٹم تھا، تب بچپن ہی سے ہم سب نماز جمعہ، عیدین کے مواقع پر مختلف جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ اور دیگر پروگراموں کے موقع پر چودھری عبداللہ صاحب (ہال روڈ والے) کو دیکھا کرتے تھے جو تانگے پر ہال روڈ سے اپنی دکان سے سائونڈ سسٹم لایا کرتے تھے اور اختتام تک وہیں بیٹھے رہا کرتے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جن بزرگوں کو دارالذکر میں دیکھا ان میں سرفہرست چودھری فتح محمد صاحب نائب (امیر لاہور) تھے۔ سفید پگڑی اور ہاتھ میں چھڑی ان کی شناخت ہوا کرتی تھی، آپ نے لاہور کے دو امراء کے ساتھ بحیثیت نائب امیر لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کی عاملہ کا ممبر ہونے کے بعد دارالذکر میں محترم میجر عبد اللطیف صاحب (نائب امیر)سے مزید تعلق بڑھا تو انہوں نے انتہائی شفقت کا سلوک کیا، اسلامی اصول کی فلاسفی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ربوہ میں مارچ 1996ء میں نظارت اشاعت کے اردو، انگریزی کوئز مقابلوں میں لاہور کی نمائندگی کے لیے خاکسار پر نہ صرف بھروسہ کیا بلکہ مسلسل رہ نمائی کی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ لاہور کی نمائندہ اردو کی ٹیم نے اوّل پوزیشن حاصل کی تھی اور انگریزی مقابلہ میںلاہور کی ٹیم سوم رہی۔ خاکسار کو اردو ٹیم کا ممبر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دونوں ٹیمیں خدام پر مشتمل تھیں۔ محترم میجر لطیف صاحب کادبدبہ اور اخلاص دونوں ہی کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ اسی طرح آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے شعبہ تعلیم کے تحت سالانہ مقالہ نویسی بعنوان ’’میرے ضلع میں احمدیت‘‘لکھنے میں خاکسار کی انتہائی مدد کی تھی۔ الحمد للہ مقالہ 1992ء میں پاکستان بھر میں اوّل قرار پایا تھا۔ محترم اعجاز نصراللہ خان صاحب شہیدنائب امیر رہے تھے۔ آپ نےخدمت دین کرتے کرتے شہادت کا مقام پایا۔ آپ ملاقاتوں میں ایمان افروز واقعات سناتے تھے۔ اسی طرح قریشی محمود احمد صاحب نائب امیر بھی اخلاص کے ساتھ باقاعدگی سے سمن آباد سے تشریف لایا کرتے تھے، مکرم ملک عبداللطیف صاحب ستکوہی صاحب سیکرٹری اصلاح و ارشاد لاہور، امن کے دنوں میں ان کی طرف سے جماعتی جلسوں کے پوسٹرز دیواروں پر لگے پڑھتے تھے۔ ایک یہ بھی وقت تھا کہ جماعتی جلسوں کی تشہیر ان پوسٹرز سے ہوا کرتی تھی۔ دیگر بزرگان میں محترم جنرل ناصر احمد صاحب شہید، محترم راجہ غالب احمد صاحب، مکرم چودھری محمد احمد صاحب اور ملک منور احمد جاوید صاحب شامل ہیں جنہوں نے بہت وفا کے ساتھ سلسلہ کی خدمات کی توفیق پائی۔
مکرم مولوی نذیر احمد صاحب راجوری بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ مغلپورہ جماعت کے صدر بھی رہے تھے، ان کی وفات پر دارالذکر میں ایک خطبہ میں امیر صاحب لاہور چودھری حمید نصراللہ خان صاحب نے ان کی طویل خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے چالیس سال تک بطور ناظم دفتر کام کیا اور کبھی بھی وقت کی پروا نہیں کی۔ خاکسار کی ان سے پہلی بار ملاقات اس وقت ہوئی جب جماعت احمدیہ کا دفتر اوپر بالائی منزل پر ہوا کرتا تھا، اوران کے پڑوس میں خدام الاحمدیہ ضلع کا دفتر تھا۔ دفتر خدام الاحمدیہ ضلع میں ابھی ٹیلی فون نہیں لگا تھا لہٰذا انہی کے دفتر میں ان کے سامنے بیٹھ کر جماعت کے ٹیلی فون سے قائدین مجالس اور ناظمین ضلع کو ٹیلی فون کیا کرتا تھا۔ یہیں پر محترم چودھری فتح محمد صاحب نائب امیر سے بھی تعارف ہوا تھا۔ ان دنوں میری عمر شاید انیس، بیس سال کی ہو گی۔ پھر دفتر نیچے شفٹ ہوا تو بھی ٹیلی فون کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک خدام الاحمدیہ کے دفتر میں اپنے ٹیلی فون کنکشن نہیں لگ گئے۔ اس جماعتی دفتر میں دیگر کارکنان جنہیں لمبا عرصہ کام کرنے کی توفیق ملی ان میں انوارالحق صاحب، مکرم محمد حفیظ صاحب، مکرم محمد دین صاحب، اور مکرم بابا صدیق شامل ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دارالذکر لاہور سے نسبت رکھنے والے ہزاروں احمدی مرد و خواتین آج دنیا کے متعدد ممالک میں قیام پذیر ہیں، ان میں ان بزرگوں کی اولادیں بھی شامل ہیں جنہوں نے دارالذکر کی تعمیر اور بعد ازاں اس کے ابتدائی سالوں میں وہاں خدمت دین کی ایسی شمعیں روشن کیں جن سے بعد میں پورا لاہور منور ہوتا رہا۔ دارالذکر کی تعمیر کے بعد یہاں علم و عرفان کی بارشیں ہوتی رہیں جس کے قطروں سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے، پرانے ریکارڈ اور بزرگوں کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ابتدائی دَور میں پندرہ روزہ اور ہفت روزہ تعلیمی، تربیتی کلاسز منعقد ہوتی رہی ہیں جہاں سے ہزاروں اطفال اور خدام نے فیض پایا۔ ربوہ سے علمائے کرام اور دیگر شخصیات نے یہاں ایمانوں کو گرما دینے والے خطابات کیے، صحبت صالحین کے پروگرام ہوں یا صد سالہ جوبلی اور خلافت جوبلی کے تاریخی پروگرام ، ہر موقع پر اہالیان لاہور کو ایمان افروز واقعات پر مبنی تقاریر سننے کو ملیں۔
دارالذکر کی ایک خاص بات وہاں منعقد ہونے والی الوداعی اور استقبالیہ تقریبات بھی ہیں جوذیلی تنظیموں کے صدور کے اعزاز میں منعقد ہوتی رہیں۔ جو بزرگان سلسلہ دارالذکر میں تشریف لائے ان میں کچھ کے اسمائے گرامی تحدیث نعمت کے طور پر کچھ اپنی یادداشت اور کچھ دوست احباب سے مشاورت کے بعد درج ہیں۔ ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحبؓ، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر، مولانا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ، مولانا ابو العطاء صاحب، مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، مکرم شیخ محمد احمد مظہر صاحب، حضرت مرزا عبد الحق صاحب، مکرم کرنل عطاء اللہ صاحب، مکرم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت، صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، ( حضرت چودھری محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے صحابی، دارالذکر منعقد ہونے والی ایک تقریب میں موجود تھے لیکن اظہار خیال نہیں کیا تھا)مکرم چودھری حمیداللہ صاحب، مولانا غلام باری سیف صاحب، مکرم محمود احمد صاحب شاہد، مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ، صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، مکرم سلطان محمود انور صاحب، مکرم آفتاب احمد صاحب سابق امیر یوکے، مکرم عبداللہ واگس ہائوزر صاحب امیر جرمنی(فروری1988ء) شامل ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصاراللہ ربوہ کے مہتممین، قائدین و دیگر مربیان سلسلہ بھی گاہے بگاہے تنظیمی پروگراموں میں شرکت کے لیے دارالذکر تشریف لاتے رہے۔ دارالذکر کے حوالے سے ایک اور نام ذہن میں ابھرتا ہے اور وہ ہے محترم چودھری شریف احمد صاحب انسپکٹر بیت المال کا، جو لمبا عرصہ تک دارالذکر میں مقیم رہے۔ آپ لاہور کی جماعتوں کا آڈٹ کیا کرتے تھے، آپ گویا دارالذکر کا ایک حصہ ہی تھے۔ آپ نے خوب خدمت کی توفیق پائی ۔
دارالذکر کے حوالے سے پرانے وقتوں کی ایک اور بات جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے وہ اس وقت کی ضیافت کی ٹیم تھی جو ہر بڑے جماعتی پروگرام کے موقع پر احباب جماعت کے لیے دارالذکر میں ایک خالی پلاٹ میں دیگوں میں کھانا پکاتی تھی۔ یہ ٹیم لاہور بھر میں مشہور اور جانی پہچانی تھی۔ سبھی پرانے وقتوں کے فدائی اور مخلصین اس ٹیم میں شامل تھے، ان میں مکرم میاں قیوم ناگی صاحب، مکرم ٹھیکیدار شریف صاحب، مکرم صدیق شاکر صاحب، مکرم میاں یحیٰ صاحب، مکرم شیخ رحمت علی صاحب مرحوم اعظم کلاتھ مارکیٹ والے، مکرم رئووف صاحب وغیرہ قابل ذکر تھے۔ اس کے علاوہ مکرم عبد المالک صاحب اور محترم مبارک محمود پانی پتی صاحب بھی دارالذکر کے قابل ذکر وجود تھے، انہیں بھی مقبول خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ مکرم عبد المالک صاحب کی وفات پر محترم حمید نصراللہ خان صاحب امیر لاہورنے دارالذکر میں ان کی خدمات کےبارے ایک خطبہ دیا تھا، مالک صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا عرفان احمد صاحب ناصر(المعروف مٹھو)28؍مئی کے حملہ میں شہید ہوگیا تھا۔ انتہائی تابعدار، فرمانبردار خادم تھا، مجھے ہمیشہ بھائی جان کہہ کر بلایا کرتا تھا۔ دارالذکر کے حوالے سے آج بھی پیاروں کی کمی نہیں ہے، ہجرت نے ان کو دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے۔ آج دنیا کے کونے کونے میں وہ بستے ہیں اور بیتے وقت کو یاد کرتے ہیں۔ لسٹ تو بہت طویل ہے، ان میں محترم شیخ ریاض محمود صاحب جو کم و بیش 50 فعال سال دارالذکر میں گزار کر آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ محترم اعجاز احمد صاحب، فہیم احمد ناگی صاحب (یوکے)چودھری شہباز احمد صاحب(ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم یوکے)، مکرم محمد محمود خان صاحب( قائد عمومی مجلس انصاراللہ یوکے)، مکرم عبد الحلیم طیب صاحب کینیڈا، مکرم خالد محمود پانی پتی سوئٹزرلینڈ، مکرم بشارت احمد شیخ صاحب کینیڈا، مکرم تبسم مقصود صاحب کینیڈا، مکرم مبشر احمد ستکوہی صاحب امریکہ، مکرم عبد الحفیظ گوندل صاحب کینیڈا، فضل عمر ڈوگر صاحب یوکے اور مکرم زاہد قریشی صاحب و دیگر شامل ہیں۔
دارالذکردراصل حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک اور دعائوں کا بابرکت ثمر ہے، ان شاء اللہ خلفائے احمدیت کی دعائیں اس کے شامل حال رہیں تو یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
’’مساجد اپنی ذات میں بڑی برکات رکھتی ہیں۔ ان کی وسعت کے ساتھ ہی ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے۔ جب کوئی جماعت مسجد بناتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے دیندار لوگ بھی پیدا کردیتا ہے جو اسے آباد رکھیں ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جنوری1954ء بمقام رتن باغ لاہور بحوالہ ہفت روزہ بدرقادیان)
جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے 26؍اپریل 1984ء کو بدنام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کا نفاذ کردیا گیا جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی گئی، اسی قانون کی آڑ میں دارالذکر کی پیشانی پر لکھے کلمہ طیبہ کو پہلے سیاہی سے مٹایا گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد مولویوں کے دبائو پر اسے لکڑی کی تختیوں سے ڈھک دیا گیا۔ کچھ سالوں کے بعدبارشوں سے لکڑیاں گل گئیں تو کلمہ طیبہ کچھ کچھ نظر آنے لگا لیکن دوبارہ ملاں کے دبائو پر نئی تختیوں سے ڈھک دیا گیا۔
1985ء میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور اور صدر حلقہ دارالذکر محترم اعجاز احمد صاحب کو دو مقدموں میں ملوث کر دیا گیا جن میں سے ایک 295C کے تحت پمفلٹ تقسیم کرنے کا اور دوسرا298C کے تحت۔ یہ مقدمات کئی سال تک چلتے رہے۔ ان کے مطابق وہ تین دن اور تین راتیں اسیرِ راہِ مولیٰ بھی رہے تھے۔ پھر کیس کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کو1988ءمیں پاکستان کو خیر باد کہنا پڑا اور آج کل یورپ کے ایک ملک میں قیام پذیر ہیں۔
1989ء میں صد سالہ جوبلی جماعت احمدیہ کی تقریبات کے حوالے سے ناسازگار حالات کے باوجود دارالذکر میں تاریخی اور یادگار تقریبات منعقد ہوئیں۔ اس حوالے سے’’یادگاری شیلڈز‘‘کی تقسیم کی تقریب تاریخی اور یادگار تھی۔
دارالذکر کو یہ سعادت بھی حاصل رہی کہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افرادنے یہاں قیام کیا۔ جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ کے ایام میں یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی میزبانی کی گئی۔ 1996ءمیں جب پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی وفات ہوئی تو میت کو ربوہ لےجانے سے قبل دارالذکر کے تہ خانہ میں پنجاب کے مختلف شہروں سے آنے والے احباب جماعت نے ان کے چہرے کی زیارت کی تھی۔ 1994ء سے1996ءتک مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان شعبہ تعلیم کی زیر نگرانی تین سال آل پاکستان علمی مقابلے منعقد ہوئے جن میں مقابلہ نظم، تقریر اردو اور انگریزی شامل تھے، یہ اپنی نوعیت کے پہلی دفعہ منعقد ہونے والے منفرد مقابلے تھے جن میں پاکستان بھر سے خدام نے شرکت کی تھی۔ اس وقت مکرم عبد الحلیم طیب صاحب اور مکرم چودھری منورعلی صاحب قائد ضلع تھے۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ ضلع اور مجلس انصاراللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ علاقہ لاہور کی تقاریب یہیں منعقد ہوتی رہی ہیں۔
دارالذکر میں ایم ٹی اے سٹوڈیوز کا قیام
اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ سلسلہ کی بتدریج ترقیات جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے، دارالذکر میں ایم ٹی اے سٹوڈیوزکا قیام اس کا ایک روشن ثبوت ہے۔ محترم حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کی نگرانی و ہدایات کی روشنی میں مکرم عبد الستار صاحب مرحوم نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے ایم ٹی اے سٹوڈیو کی بنیادیں رکھی تھیں، خاکسار کا دفتر خدام الاحمدیہ ضلع اور ان کا سٹوڈیو ایک ہی منزل پر واقع تھا۔ رات گئے تک ان کو کام کرتے دیکھا کرتا تھا۔ کئی سال تک انہوں نے کام کرکے ایک ٹیم بھی تیار کر لی تھی۔ ایک روز اچانک دل کے دورے کے باعث وہ اللہ کو پیارے ہو گئے تو مکرم مبشر احمد دہلوی صاحب سیکرٹری تعلیم اس کے انچارج بن گئے۔ انہوں نے کئی سال اس کو احسن طریق سے چلایا۔ انہی کے دور میں احمدیہ صد سالہ مجلہ کی اشاعت بھی ہوئی۔ مکرم دہلوی صاحب کے دَور میں احمد سعید کرمانی صاحب جو کہ قائد اعظم کے ساتھی اور تحریک پاکستان کے سرگرم ممبر تھے اور حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ کے زبردست مداح تھے، ان کا ایک انٹرویو دارالذکر سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا تھا، کرمانی صاحب کی وفات95؍برس کی عمر میں 26؍اگست2018ء کو ہوئی۔ مکرم دہلوی صاحب کے بعد مکرم محمد محمود خاں سیکرٹری سمعی و بصری لاہور بن گئے تھے( حال مقیم یوکے قائد عمومی انصاراللہ برطانیہ)، ان کی ٹیم کے دو ممبران بھی 28؍مئی کے حملہ میں شہید ہو گئے تھے جن میں کامران ارشد صاحب شہید اور مکرم محمد آصف فاروق صاحب شہید شامل ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭