حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نکاح اور شادی کا مقصد…اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے

قولِ سدید اور تقویٰ کی کمی کے نتیجہ میں سسرال کی زیادتیاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’بعض دفعہ گھروں میں چھوٹی موٹی چپقلشیں ہوتی ہیں ان میں عورتیں بحیثیت ساس کیونکہ ان کی طبیعت ایسی ہوتی ہے وہ کہہ دیتی ہیں کہ بہو کو گھر سے نکالو لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب سسر بھی، مرد بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہوئی ہے اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر یا خود ہی بہوؤں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ بلاوجہ بہوؤں پہ ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ پھر بیٹوں کو بھی کہتے ہیں کہ مارو اور اگر مر گئی تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور بیوی لے آئیں گے۔ اللہ عقل دے ایسے مردوں کو۔ ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں کہ ایسے مرد بزدل اور نامرد ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جولائی2004ء بمقام انٹرنیشنل سنٹر، مسس ساگا، کینیڈا۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جولائی 2004ء)

24؍جون 2005ء کوٹورانٹو (کینیڈا) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے باہمی رشتوں کے حوالے سے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے فرمایا:

’’مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کینیڈا میں بڑی تیزی کے ساتھ شادیوں کے بعد میاں بیوی کے معاملات میں تلخیاں پیدا ہو رہی ہیں اور میرے خیال میں اس میں زیادہ قصور لڑکے، لڑکی کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ذرا بھی ان میں برداشت کا مادہ نہیں ہوتا۔ یالڑکے کے والدین بعض اوقات یہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ(Understanding) نہ ہو اور ان کا آپس میں اعتما دپیدا نہ ہونے دیا جائے کہ کہیں لڑکا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ پھر بعض مائیں ہیں جو لڑکیوں کو خراب کرتی ہیں اور لڑکے سے مختلف مطالبے لڑکی کے ذریعے کرواتی ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کرنا چاہئے ایسے لوگوں کو۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل08؍جولائی 2005ء)

اسلام مکمل ضابطۂ حیات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی مسلمان عورت کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دِلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہم میں جو تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار احکامات دئیے ہیں۔ بعض جگہ صرف مومنو !یہ کام کرو کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ بعض جگہ عورت، مرد دونوں کو علیحدہ علیحدہ مخاطب کرکے احکامات عطا فرمائے ہیں۔ جہاں بھی یہ حکم ہے کہ اے مومنو یہ کام کرو اس سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی فرمادی کہ جو احکامات قرآن کریم میں ہیں وہ تم سب مومن مردوں اور مومن عورتوں پر عائد ہوتے ہیں اس لئے اُن کی بجا آوری کی کوشش کرو اور اگر تم یہ اعمال صالح بجا لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی زندگی بخش انعامات سے نوازے گا۔ جو اس زندگی میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھر دیں گے اور آخرت میں بھی۔‘‘

پھر فرمایا:

’’قرآن کریم ایک مکمل تعلیم ہے اس کو سیکھیں اور اس پرعمل کریں کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس تعلیم پرعمل کرتے ہوئے دنیا کو اس طرف بلائیں ایسے عمل دکھائیں تاکہ آپ کے اعلیٰ معیار دیکھ کر غیر عورتیں آپ سے رہنمائی حاصل کریں۔ دنیا کی عورتیں آپ کے پاس یہ سوال لے کر آئیں کہ گو ہم بعض دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بظاہر ہم آزاد ماحول میں اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دل کا سکون اور چین حاصل نہیں کرسکیں۔ ہمارے اندر ایک بے چینی ہے ہمارے خاندانوں میں بٹوارہ ہے ایک وقت کے بعد خاوند بیویوں میں اختلافات کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس سےبچے بھی متاثر ہوتے ہیں اور سکون اور یکسوئی سے نہیں رہ سکتے جب کہ تمہارے گھروں کے نقشے ہمارے گھروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ تمہارے گھر ہمیں پرسکون نظر آتے ہیں ہم تمہیں ماڈل سمجھتے ہیں۔ ہمیں بتاؤ کہ ہم یہ سکون کس طرح حاصل کریں ؟یہ غیروں کو آپ کے پاس آکر سوال پوچھنا چاہیے۔ پھر آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اُسے تم بھول رہی ہو۔ نہ مرد اس پرعمل کر رہے ہیں نہ عورتیں اُس پرعمل کر رہی ہیں اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا اور نیک اور صالح اعمال بجا لانااور یہ تمہیں حقیقی اسلام میں ہی نظر آئے گا۔‘‘

(جلسہ سالانہ یوکے، خطاب از مستورات فرمودہ 29؍ جولائی 2006ء)

مزیدفرمایا:

’’حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے۔ اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے۔ لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہ ہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔ اگر یہ خیالات ہوں ہر احمدی کے تو آج کل کے جو عائلی جھگڑے ہیں، تُوتکار اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگیاں ہیں ان سے بھی انسان بچ جاتا ہے۔ بیوی اپنی ذمہ داریاں سمجھے گی کہ میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ میں خاوند کی خدمت کروں، اس کا حق ادا کروں اور اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر میں یہ کر رہی ہوں گی تو اس کا ثواب ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں کو یہ بتا یا کہ اگر تم اس طرح کرو تو تمہارا یہ فعل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے عبادت بن جائے گا۔ اس کا ثواب ملے گا۔ تو یہ چیزیں ہیں جو انسان کو سوچنی چاہئیں اور یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو بعض گھروں کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں ‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍مارچ2009ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍اپریل 2009ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 32تا37)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button