الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ (حضرت امّاں جان)
الفضل ربوہ 21اور 23جنوری 2013ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا دو اقساط پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت امّاں جانؓ کی سیرت و سوانح پر تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعوؑد فرماتے ہیں:’’میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفائول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لیے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 275)
حضرت اقدس مسیح موعوؑد کی دوسری بیوی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ جو الٰہی بشارات کے مطابق آپ کے عقد میں آئیں۔ حضور کو اس شادی سے تین برس قبل یہ الہام ہوا تھا اُشۡکُرۡ نِعۡمَتِی رئیت خدیجتی۔(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد1صفحہ666 حاشیہ)
حضورعلیہ السلام اس الہام کے متعلق فرماتے ہیں:
’’میرا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پایا۔ یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا جس سے بفضلہ تعالیٰ چار لڑکے پیدا ہوئے اور خدیجہ اس لیے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی اسی کے مطابق دوسرا الہام ہے اور وہ یہ ہے … یعنی وہ خدا جس نے باعتبار رشتہ دامادی اور باعتبار نسب تمہیں عزت بخشی۔‘‘
(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ 525-524)
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ دہلی کے ایک مشہور خاندان سادات کے روشن گوہر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی بیٹی تھیں۔ ننھیالی سلسلہ میں آپ کاتعلق حضرت خوا جہ میر دردؒ کے ساتھ تھا جن کا خاندان تقویٰ اور پرہیزگاری سے بخوبی آگاہ تھا۔ حضوؑر نے جب آپ کے رشتہ کاپیغام بھجوایا تواس کے متعلق حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ فرماتے ہیں: پہلے تو مَیں نے تأمل کیا کیونکہ مرزا صاحب کی عمر کچھ زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے مگر پھر حضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پرنظر کر کے جس کا مَیں دل سے خواہاں تھا، میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اس نیک مرد سے اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کردوں۔ نیز مجھے دلّی کے لوگ اور وہاں کے عادات و اطوار بالکل ناپسندتھے۔
حضرت اماں جانؓ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ المعروف نانی اماں بیان کرتی ہیں: جب حضرت صاحب نے حضرت میر صاحب کو اپنے لیے لکھاتو میر صاحب نے اس ڈرسے کہ میں بُرا مانوں گی مجھ سے ذکر نہ کیا، اس عرصہ میں اَور بھی کئی جگہ سے پیغامات آئے مگر میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی … آخر ایک دن میرصاحب نے لودھیا نے کے ایک باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی، اسے رشتہ دے دو۔ مَیں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تومجھے شرح صدرنہ ہوا اور مَیں نے انکار کیا۔ اس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر اسے یونہی بٹھاچھوڑوگے؟ مَیں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزاردرجہ اچھا ہے۔ میرصاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزاغلام احمد کا بھی خط آیا ہے، جو کچھ بھی ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہئے۔ مَیں نے کہا اچھا، پھر غلام احمد کو لکھ دو۔
اس پر حضرت میرناصر نواب صاحب نے اسی وقت قلم دوات لے کر منظوری کی اطلاع دے دی۔ حضرت میر صاحب کاخط موصول ہونے کے آٹھ دن بعد حضرت اقدسؑ اپنے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب ، لالہ ملاوا مل اور ایک دو اَور آدمیوں کو ساتھ لے کر دہلی پہنچ گئے۔ آپؑ اپنے ساتھ کوئی زیور اور کپڑا نہیں لے گئے تھے، صرف اڑھائی سو روپیہ نقد تھا۔ اس پر بھی رشتہ دارو ںنے طعن کیا کہ اچھانکاح کیا ہے نہ کوئی زیور ہے نہ کپڑا۔ الغرض 17نومبر 1884ء کو گیارہ سو روپیہ حق مہر پر اس مبارک نکاح کااعلان مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے کیا۔ دوسرے دن حضرت اقدس عازمِ قادیان ہوئے۔
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بطن سے پانچ صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن میں سے پانچ بچے بچپن میں وفات پاگئے جبکہ تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اللہ تعالیٰ نے لمبی زندگی سے نوازا۔
آپؓ کا ہر بچہ قبل از وقت الہامی اطلاع اور بھاری آسمانی بشارتوں کے ماتحت پیدا ہوا ، اسی لیے حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کو شعائر اللہ یقین کرتے تھے اور آپؓ کی دلداری کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔حضورؑ فرماتے ہیں: ’’خواب میں میں نے دیکھا کہ میری بیوی مجھے کہتی ہے کہ مَیں نے خدا کی مرضی کے لیے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے۔ اس پر مَیں نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ اسی سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 597)
حضوؑر نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خود بھی گھر میں وعظ و نصیحت کی مجالس لگائیں اور پھر انہیں اپنی تربیت یافتہ زو جہ کی صحبت میں بھی کچھ وقت گزارنے کی تلقین فرمائی۔ حضوؑر نے حضرت خلیفہ اولؓ کے نام ایک مکتوب میں ان کی اہلیہ حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ کو قادیان لانے کے متعلق فرمایا: ’’… میرے نزدیک یہ قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ اول آپ جموں میں پہنچنے کے بعد براہ راست لدھیانہ میں تشریف لے جائیں پھر اپنے گھر کے لوگوں کو ساتھ لے کر دو تین روز کے لیے قادیان میں ٹھیر جائیں، میرے گھر کے لوگوں کے خیالات موحدین کے ہیں … اس لیے آپ کے گھر کے لوگوں کی بشیر کی والدہ سے ملاقات منتج حسنات ہوسکتی ہے۔ واللّٰہ اعلم و علمہ احکم‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر دوم صفحہ 70,69)
حضرت ملک نور خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مسجد اقصٰی کی پہلی دفعہ توسیع کے لیے صبح کی نماز کے وقت حضوؑر نے چندہ کی تحریک فرمائی۔ جب دوستوں نے نام لکھوانے شروع کیے تو حضور نے فرمایا مَیں اندر سے بھی دریافت کر آؤں۔ یہ کہہ کر حضور گھر میں تشریف لے گئے اور پھر واپس تشریف لاکر فرمایا کہ انہوں نے (یعنی حضرت اماں جانؓ) اپنا زیور فروخت کر کے ایک ہزار روپیہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اماں جانؓ کی مالی قربانیوں کے متعلق فرمایا: ’’والدہ صا حبہ اپنے چندوں میں جہاں تک میرا تجربہ اور علم ہے اس نسبت کے لحاظ سے جو دوسرے مرد ادا کرتے ہیں میرے نزدیک بہت سے مردوں سے بڑھی ہوئی ہیں۔‘‘ (الفضل 27 اپریل 1922ء)
حضرت اقدسؑ نے جہاں اورپہلوؤں میں سیرت نبویﷺ کی اتباع کی وہاں بیویوں سے حسن سلوک میں بھی ایک نہایت عظیم اور اثر انگیز نمونہ دکھلایا ہے۔ ایک مرتبہ حضوؑر نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’میں اس حدیث پر عمل کرنا علامت سعادت سمجھتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اور وہ یہ ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ یعنی تم میں سب سے اچھا وہ آدمی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 83)
حضرت ملک غلام حسین صاحب رہتاسیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اماں جانؓ اس کنویں پر جو مرزا سلطان احمد صاحب کی حویلی کے اندر ہے رات کے 9بجے گرمیوں کے موسم میں گئیں۔ آپؓ کےکسی بات پر ہنسنے پر مرزاسلطان احمد صاحب کی بیوی نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو گھر میں کنواں کیوں نہیں لگوا لیتیں۔ یہ بات سن کر حضرت اماں جان غمگین ہوکر واپس آگئیں۔ گرمی کا موسم تھا۔حضرت صاحب نے اماں جان سے سارا قصہ سن کر مجھے بلایا اور فرمایا ’’جاؤ مرزامحمد اسمٰعیل کے پاس کہ دو چار پاڑ کھودنے والوں کو اسی وقت بلالائے۔‘‘ چنانچہ رات کے دس بجے پاڑ کھودنے والے آگئے اور کام شروع کردیا۔ صبح تک آٹھ نو فٹ کنواں کھود دیا۔ بعدہٗ ایک آدمی کو بٹالہ سے اینٹیں لانے کے لیے بھیج دیا۔ ایک آدمی کو معماروں کے لیے روانہ کردیا۔ وہاں سے آدمی آگئے اور پندرہ روز میں کنواں بالکل تیار ہو گیا۔
حضوؑر حضرت اماں جان ؓکی فکر اور پریشانی کو دُور کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے اور اس کے لیے طویل اور تکلیف دہ سفروں سے بھی پرہیز نہ فرماتے۔ 1887ء میں ایک مرتبہ حضرت اماں جانؓ کی والدہ ماجدہ کی بیماری کی خبر سن کر حضوؑر آپؓ کو لے کر فوراً انبالہ روانہ ہوگئے۔
اسی طرح حضرت اماں جانؓ کے بیماری کے ایام میں حضوؑر بڑی توجہ اور محویت سے دعا، تیمارداری اور علاج فرماتے اور طبیعت کے اچھی طرح سنبھلنے تک آپؓ کا خیال رکھتے۔ 1904ء میں طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے حضورؑ نے ڈاکٹری مشورے پر آپؓ کو باغ میں سیر کے لیے لے جانا شروع کیا اور ایک موقع پر فرمایا کہ در اصل مَیں تو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں، رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور مَیں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ باہر کی ہوا کھاؤ۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں۔ علاوہ اس کے آنحضرت ﷺ حضرت عائشہؓ کو لے جایا کرتے تھے، جنگوں میں حضرت عائشہ ساتھ ہوتی تھیں۔پردہ کے متعلق بڑی افراط و تفریط ہوئی ہے۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے۔ اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ غرض ہم دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں۔
حضرت شیخ فضل الٰہی صاحب کلانوریؓ بیان فرماتے ہیں کہ پادری وائٹ بریخٹ صاحب جوبٹالہ میں کرسچن مشن کے انچارج تھے، بٹالہ سے معہ دو لیڈیوں کے قادیان آئے اورمجھ کو کہا یہ دونوں لیڈیاں عورتوں میں تبلیغ کرنا چاہتی ہیں۔مَیں نے ان دونوں عورتوں کو حضرت صاحب کے گھر میں بھیج دیا۔ وہاں جب بات چیت ہوئی تو اندر سے ایسے سوال کئے گئے جن سے ان کے مذہب کا مردہ ہونا اور اسلام کا زندہ ہونا ثابت ہوا تو وہ جھنجھلا کر نکل آئیں اور مجھے ناراض ہوکر کہا کہ تم نے ہم کو کس گھر میں داخل کر دیا ہم تو خاکروبوں کے گھر میں جانا چاہتی ہیں چنانچہ مَیں نے ان کو خاکروبوں کے مکانات کا نشان دے دیا اور وہ وہاں چلی گئیں۔
حضرت اماں جانؓ کا دل احباب جماعت کی محبت سے پُر تھا۔حضرت قدرت اللہ سنوری صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں اپنی اہلیہ کے ساتھ قادیان آیا ہوا تھا اور مسجد مبارک سے ڈیڑھ فرلانگ فاصلے پر ایک مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ میرے گھر سے حاملہ تھیں اور ایام وضع قریب ہی تھے۔ گرمی کاموسم تھا۔میَں ظہر کی نماز کے لیے جانے لگا تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ مجھے درد کی تکلیف ہے دعا کرنا۔ مَیں مسجد مبارک میں چھوٹے زینے سے اوپر چڑھا اور کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر حضرت اماں جان ؓکو اطلاع کروائی۔ آپؓ تشریف لائیں تو مَیں نے عرض کیا کہ حضور کی خادمہ نے درد کی وجہ سے مجھے دعا کے لیے کہا ہے آپ دعا فرمائیں، ہم وطن سے اکیلے آئے ہوئے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا بہت اچھا مَیں دعا کروں گی۔ مَیں مسجد میں داخل ہو گیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب مَیں گھر پہنچا تو میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ نے حضرت اماں جانؓ سے کیوں یہ عرض کی تھی۔ مَیں نے کہا کہ آپ کو کیسے علم ہو ا؟انہوںنے کہا کہ آپ نماز کے لیے چلے گئے۔ معمولی درد تھا میری آنکھ لگ گئی، میَں سو گئی تو دروازہ کھٹکنے کی وجہ سے میری آنکھ کھلی۔ وہاں حضرت اماںجان تشریف لائی ہوئی تھیں۔ اندر تشریف لاکر مجھے کہا کہ لیٹ جا، تیل کی شیشی لے کر آپ نے اپنے دست مبارک سے میرے پیٹ پر مالش کی … پھر آپ تشریف لے گئے، ہفتے کے بعد اللہ تعالیٰ نے لڑکی عطا فرمائی اس دوران میں آپؓ نے ایک خادمہ دو تین بار پوچھنے کے لیے بھیجی۔
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ یوسف علی صاحبؓ بیمار ہوئے اور ایک رات بارہ بجے قضاء و قدر کے ماتحت موت کے آثار ہوکر جان کندنی شروع ہوگئی ۔ میں سیدھا حضرت اقدسؑ کے مکان پر گیا، ساڑھے بارہ بجے ہیں، دروازے بند اور سب سوتے ہیں۔ میَں نے ایک آواز بڑے زور سے گھبراہٹ میں دی تو پہلے جو بولے تو حضرت بولے کہ صاحبزادہ صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور سراج الحق ہے۔ فرمایا: اس وقت کیسے آئے ہیں؟ عرض کیا کہ یوسف علی کی حالت غیر اور قریب الموت ہے اور جان کندن شروع ہے۔ فرمایا شام تک تو ہم نے خبر منگائی اچھے تھے، اندر آؤ۔ اور اندر ایک خادمہ سے فرمایا کہ جلدی دروازہ کھول دو ثواب ہوگا۔ ادھر حضرت اماں جانؓ جاگ اٹھیں اور کہنے لگیں خیر ہے اس وقت پیر صاحب کیسے آئے؟ حضرت اقدس نے وہی حال بیان کیا تو حضرت قدسیّت بدعا ہوگئیں اور کچھ نہیں بولیں۔ یہ دوسرا نمونہ ہے حضرت اقدس کی قوت قدسیہ اور اثر صحبت کا، عموماً عورتوں کی طبیعت نازک ہوتی ہے ایسی آرام کی حالت میں اور پھر آدھی رات کو خفا ہوجانا یا زبان سے اضطراری اور نیند کے وقت کوئی کلمہ سخت نکل جانا کچھ بات نہیں لیکن اللہ اللہ وہ خلق، وہ رحم کہ سن کر دعا میں لگ جانا یہ آپ ہی کا کام تھا۔
حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحبؓ آف بریلی فرماتے ہیں: ایک بار مَیں اور منشی اروڑا صاحب قادیان آئے۔ مَیں چونکہ پان میں تمباکو کھایا کرتا تھا منشی صاحب نے حضرت اماںجانؓ کو کہلا بھیجا کہ تین ٹکڑے پان کے درکار ہیں، انہوں نے اندر سے پان لگا کر بھیج دیے۔ تھوڑی دیربعد منشی صاحب نے پھر آدمی بھیجا کہ تین ٹکڑے اَور بھیج دیں۔ حضرت اماںجانؓ نے فرمایا کہ یہی ایک پان تھا ، اس کے دو ٹکڑے بنا کر بھیجتی ہوں،تم کو تو ہم نے پان بھیج دیے مگر خود ہم نے لسوڑی کے پتے کھائے ہیں۔
قادیان میں جب مدرسۃالبنات کا آغاز ہوا تو جگہ کا مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت اماں جانؓ نے وقتی طور پر کمال مہربانی سے اپنے دونوں دالان سکول کے لیے مرحمت فرمادیے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں: جب ہم پانی پت سے روانہ ہوکر قادیان مقدس پہنچے تو خاکسار مہمان خانہ میں ٹھہرا۔ حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ مولوی راجیکی صاحب کی پہلی ضیافت میرے ہاں تیار ہوگی۔ مَیں چونکہ بوجہ دنبل زیادہ چل پھر نہ سکتا تھا اس لیے آپؓ نے کھانا تیار کر کے مہمان خانہ میں بھجوادیا، کبوتر کا گوشت اور سات کے قریب چھوٹی چھوٹی چپاتیاں تھیں۔ میرے لیے ویسے تو دو چپاتیاں ہی کافی تھیں لیکن مَیں نے اس خیال سے کہ حضرت ممدوحہ کے ہاتھ سے تیار شدہ کھانا میرے لیے باعثِ شفا ہوگا، یہ سب کھانا کھالیا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت استانی سکینۃ النساء بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ بیان کرتی ہیں: میں نے حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں کوئی عیش و عشرت کا سامان نہیں دیکھا۔ ایک دن بھی حضرت اماں جانؓ کو ایسے زیور یا نمائشی کپڑا پہنے نہیں دیکھا، وہ بہت سادگی پسند ہیں۔ ان کے مزاج میں بہت کچھ رنگ مسیح موعود کا ہے، وہ غریبوں کی امداد زکوٰۃ خیرات دینے میں قابل رشک ہیں، میں نے کئی دفعہ دیکھ کر بے اختیار سبحان اللہ پڑھا کہ دُور دُور سے فقیرنیاں مثلاً کوئی ملتان کی سیّدانی زلفیں گلے میں ڈالے یا کوئی زیارت اُٹھانے والی آئی، حضرت اماں جانؓ نے اُسے چپ چاپ روپیہ دے کر رخصت کیا، یہ بھی نہیں کہا کہ لے۔ بلکہ اس کی خوشامدانہ دعاؤں کو سُنا بھی نہیں۔ اور وہ غریبوں کی امداد ایسے استقلال سے کرتی ہیں کہ میں نے ایسی مثالیں خاص کر عورتوں میں کم دیکھی ہیں، ہمارے ہی مکان کے نیچے ایک غریب اندھا بوڑھا رہتا ہے، میں دیکھتی ہوں بارش ہو یا آندھی دونوں وقت برابر اُسے روٹی خود پہنچانے کا انتظام کرتی ہیں۔ اسی طرح کئی غرباء کی پرورش کرتی ہیں۔ عورتوں کو مردوں کی تابعداری کرنے کی ایسی نصائح کرتی ہیں کہ نظیر ملنی مشکل ہے۔ مَیں نے ان کے گھروں میں کوئی جائیداد نہیں دیکھی مگر سوائے ضروریات زندگی کے۔ وہ نماز کو ایسی سنوار کر پڑھتی ہیں کہ قابل رشک اور ان کی خوئیں شریفانہ اور مومنانہ ہیں، ان کا اپنی بہوؤں سے ایسا عمدہ اور قابل تقلید و پیروی سلوک ہے کہ بیٹیوں سے ایسا کم دیکھنے میں آیا ہے اور سب سے ایسا ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضور کو جو نشانات عطا فرمائے ہیں ان میں ایک بہت بڑا نشان قبولیت دعا کا بھی ہے۔ حضرت اماں جانؓ بھی قبولیت دعا اور الہام الٰہی کے مرتبے سے مشرف تھیں، حضورؑ فرماتے ہیں: ’’اس وقت میں نے گھر میں پوچھا کہ تم کو بھی کوئی خواب آیا ہے کیونکہ دیکھا ہے کہ میرے الہام کے ساتھ ان کو بھی کوئی مصدّق خواب آ جایا کرتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 412)
حضوؑر فرماتے ہیں: ’’کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں مَیں کچھ اشعار لکھ رہا تھا اور گھر سے قریب ہی سوئے ہوئے تھے کہ اچانک وہ اُٹھے اور ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے ؎
صوفیا سب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
ہم نے اس الہامی مصرعہ کو بھی ان اشعار کے درمیان درج کر دیا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 294)
حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے لڑکے کو تعلیم کے زمانہ میں عارضہ ہو گیا تھا دفعتاً بیہوش ہو کر ہاتھ اینٹھ جاتے، حکیم ڈاکٹروں کا بہت علاج کرایا اور جگہ جگہ لے جاتا رہا، ڈاکٹر اور طبیبوں نے مرض مرگی تشخیص کیا لہٰذا مدرسہ سے حکماً علیحدہ کر دیا گیا۔ جب میں علاج کرنے سے تھک گیا تو لڑکے کو مع اس کی والدہ کے قادیان میں حضرت مولانا حکیم نورالدینؓ خلیفہ اول کی خدمت میں علاج کے واسطے بھیج دیا حضوؓر نے بھی مرض مرگی تجویز کی اور عرصہ تک اس کا علاج ہوتا رہا بالکل فائدہ نہیں ہوا اور بالآخر مایوسی کے الفاظ میں کپورتھلہ واپس جانے کا حکم دے دیا۔مایوسی کے الفاظ سن کر اس کی والدہ رونے لگی۔ ان کا قیام حضرت اماں جانؓ کے پاس تھا۔ اُن کے پوچھنے پر معاملہ عرض کیا تو حضرت اما ں جانؓ نے فرمایا: ٹھہرو ہم دعا کریں گے۔ اسی وقت حضوؓر نے وضو کیا اور مصلّٰی بچھا کر سجدہ میں گر گئیں اور ایک گھنٹہ تک روتی رہیں۔ جب سجدہ سے سر اٹھایا تو سجدہ گاہ آنسوؤںسے تر تھا۔ رات ہوئی سو گئے۔ خواب میں مسجد مبارک میں لڑکے کو دورہ ہوا حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے اور دریافت کیا کہ لڑکے تیرا کیا حال ہے؟ لڑکے نے عرض کیا حضور میرا حال دیکھ رہے ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے لڑکے کے سرپر ہاتھ پھیرا اور زبان مبارک سے فرمایا رنج نہ کر اچھا ہو جاوے گا۔
اس کے بعد ہم قادیان سے کپورتھلہ آگئے۔ رستہ میں جب لڑکے کودورہ پڑتا اور اس حالت کو مخالف دیکھتے تو طنزیہ طور پر کہتے کہ مسیح موعود سے دعا کراؤ؟ مَیں جواب میںکہتا کہ اس کے واسطے دعا ہو چکی ہے خدا تعالیٰ کوئی سبب ایسا کر دے گا جس سے یہ بچہ صحت یاب ہو جاوے گا ۔تو وہ میرے اس یقین کو سن کر حیران ہوتے تھے۔ پھر لڑکے کو مَیں دہلی لے گیا ۔کچھ فائدہ نہ ہوا تو ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں ایک مشہور طبیب تھےعلاج کی غرض سے ان کے پاس لے گیا۔ شام بچہ کو دورہ ہوا طبیب نے اپنی آنکھ سے دیکھا، بچہ کو بہت ہی تکلیف ہوئی۔ اگلی صبح حکیم صاحب کہنے لگے میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے درمیان میں سے جب میں اس کو کھولتا ہوں تو سرورق پر لکھا ہے کہ اس بچہ کو جو عارضہ ہے اس کا علاج تمر ہندی یعنی املی ہے۔طبیب نے مجھ سے کہا نہ تو میں مرض کوسمجھا ہوں اور نہ میں نے علاج کو سمجھا میں نے تو تم سے اپنا ایک خواب بیان کردیا ہے۔ یہ خواب سن کرمجھے بہت خوشی ہوئی کہ خدا نے طبیب کو بذریعہ الہام یا سچے خواب کے مریض کی صحت یابی کے واسطے دعا بتا دی اور یہ مسیح موعوداور اماں جان کی دعا کی برکت کاباعث ہے۔ میں بچہ کو بغیر علاج کے گھر لے کر چلا آیا۔ رات کو دو تولہ املی بھگو دیتا ،صبح کو چھان کر تھوڑی سی مصری ملا کر پلا دیا کرتا۔ ایک ہفتے میں بچہ قطعی طور پر صحت یاب ہو گیا۔اس وقت وہ تندرست اور عالی مرتبہ پر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا پر صبر و شکر بھی حضرت اماں جانؓ کا اعلیٰ وصف تھا، آپ کے پانچ بچوں نے صغر سنی میں وفات پائی لیکن آپ کی زبان سے کبھی ناشکری یا واویلا نہیں نکلا بلکہ ہمیشہ صبرکا عملی مظاہرہ کیا۔اپنے بیٹے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی کم سنی میں وفات پر آپؓ کے صبر، حوصلے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کا ذکر ملفوظات حضرت مسیح موعوؑد میں موجود ہے۔ آپؓ کے اس نمونے کی خبر سن کر محترمہ صوفیہ حسن موسیٰ خان صاحبہ آف آسٹریلیا نے آپؓ کے نام خط میں لکھا کہ مَیں آپ کے اس صدمہ پر بہت غم محسوس کرتی ہوں اور اس صدمۂ جانکاہ کے برداشت کرنے میں آپ کی جرأت اور خدا پر ایمان کو نہایت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں ۔… میرا تین سالہ بچہ جو کہ 26؍اکتوبر 1905ء کو اس دنیا سے گزر گیا … میں اس صدمۂ عظیم کا جو ایسے موقع پر ماں باپ کو محسوس ہوتا ہے تجربہ رکھتی ہوں، میرا دل چاہتا ہے کہ مجھے اس صبر کا سواں حصہ ہی حاصل ہوتا جو کہا جاتا ہے کہ آپ نے دکھایا۔
حضرت امّاں جانؓ نے حضرت مسیح موعوؑد کی وفات پر بھی نہایت صبر، بلند حوصلہ اور راضی برضائے الٰہی کا بہترین نمونہ دکھلایا۔ ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت اماںجانؓ نے اس وقت وہ نمونہ دکھایا کہ اس سے انسان حضرت اقدسؑ کی قوت قدسی کا اندازہ اچھی طرح سے کر سکتا ہے۔ ہم سب چھ سات گھنٹے حضرت اقدس ؑکی خدمت میں رہے۔ آپؓ برقع پہنے خدمت والا میں حاضر رہیں اور کبھی سجدہ میں گر جاتیں اور بار بار خدا کو پکارتے ہوئے یہی کہتیں کہ اے حی و قیوم اور قادر مطلق خدا! میری زندگی کس کام کی ہے، یہ تو دین کی خدمت کرتا ہے، میری زندگی بھی اس کو دے دے۔ کسی قسم کی جزع فزع آپؓ نے نہیں فرمائی اور اخیر میں جب کہ انجام بہت قریب تھا آپ نے فرمایا: اے میرے پیارے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تُو ہمیں نہ چھوڑیو۔ اور کئی بار یہ کہا۔ اور جب اخیر میں یٰسین پڑھی گئی اور دَم نکل گیا تو اندر مستورات نے رونا شروع کر دیا۔ مگر آپؓ بالکل خاموش ہوگئیں اور ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا کہ میرے تو خاوند تھے، جب مَیں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو!۔ ایسا صبر و استقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو کہ ایسے ناز و نعمت میں پلی ہوئی ہو اور جس کا ایسا بادشاہ اور ناز اٹھانے والا خاوند انتقال کر جائے، ایک اعجاز ہے۔
حضرت مسیح موعوؑد کے جنازے کو قادیان لے جانے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ فرماتے ہیں کہ میں سیدۃ النساء حضرت اماں جانؓ کے رتھ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے اس مصیبت کی تکلیف اور درد و رنج کو ہلکا کرنے اور بٹانے کی نیت و کوشش اور اظہار ہمدردی، نیازمندی و عقیدت کے جذبات سے لبریز دل کے ساتھ پیدل چلا آرہا تھا اور سیدہ طاہرہ بھی میری دلی کیفیات سے متاثر ہوکر گاہ گاہ دنیا کی ناپائیداری و بے ثباتی اور خدائے بزرگ و برتر کی بے نیازی کے تذکرے فرماتیں۔ دعا میں مشغول، خدا کی یاد اور اس کے ذکر میں مصروف چلی آرہی تھیں۔ آپ کے صبر و شکر اور ضبط و نظم کا یہ عالم تھا کہ غمزدہ خادموں اور دردمند غلاموں کو بار بار محبت بھرے لہجہ میں نصیحت فرماتیں اور تسلی دیتی تھیں۔ سیدہ مقدسہ کا ایک فقرہ اور درد بھرا لہجہ اپنی بعض تاثیرات کے باعث کچھ ایسا میرے دل و دماغ میں سمایا کہ وہ کبھی بھولتا ہی نہیں،جو آپ نے اسی سفر میں نہر کے پل سے آگے نکل کر جب آپ کی نظر قادیان کی عمارتوں پر پڑی، اس سوز اور رقت سے فرمایا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے اور سسکیاں لینے لگا۔ فرمایا: بھائی جی! چوبیس برس ہوئے جب میری سواری ایک خوش نصیب دلہن اور سہاگن کی حیثیت میں اس سڑک سے گزر کر قادیان گئی تھی اور آج یہ دن ہے کہ میں افسردہ و غمزدہ بحالتِ بیوگی انہی راہوں سے قادیان جا رہی ہوں۔
جب خلافت کا انتخاب عمل میں آگیا تو خواتین میں سے آپؓ اوّل المبائعات تھیں۔ پھر ساری زندگی خلافت احمدیہ سے وابستہ اور خلیفہ وقت کی کامل فرمانبردار رہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا: ’’مرزا صاحب کی اولاد دل سے میری فدائی ہے …مَیں کسی لحاظ سے نہیں کہتا بلکہ مَیں امر واقعہ کا اعلان کرتا ہوں کہ ان کو خدا کی رضا کے لیے محبت ہے۔ بیوی صا حبہ کے منہ سے بیسیوں مرتبہ میں نے سنا ہے کہ میں تو آپ کی لونڈی ہوں۔‘‘ (بدر 11,4جولائی 1912ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بھی آپؓ کا بےحد احترام کرتے۔ حضرت بابو عبدالحمید صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد پہلا جلسہ سالانہ ہوا تو مختلف شہروں سے احمدی قادیان آئے۔ جب یہ خدام حضرت خلیفۃالمسیح اوّلؓ کے حضور حاضر ہوئے تو حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ بیوی جی (یعنی حضرت اماں جانؓ) کے ہاں گئے ہیں؟ جواب نفی میں پا کر حضورؓ نے رنج کا اظہار فرمایا اور فرمایا پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہو اور پھر میرے پاس آؤ۔
………٭………٭………٭………