چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریق
سوال:اسی ملاقات میں ایک خادم نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ چھوٹے بچوں کی تربیت کےلیے کس طرح اور کیا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا:
جواب: بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کہا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسی وقت تربیت کرو۔ اسی لیے اسلام میں یہ رائج ہے اوریہ سنت ہے، آنحضرتﷺ بھی یہ فرمایا کرتے تھے اور پھر ہم عمل بھی اسی بات پہ کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے ہیں اور بائیں کان میں تکبیر پڑھتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا نام اس کے کان میں پڑے اور توحید پہ وہ قائم ہو۔ تو تربیت جو ہے وہ تو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ پہلے دن سے شروع کر دو۔ یہ نہ دیکھو کہ بچہ چھوٹا ہےاس کو سمجھ نہیں آئے گی۔ بچہ چھوٹا ہے اس کو بتاؤ، کوئی چیز تم دیتے ہو تو تم کہو کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ نےدی ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارا انتظام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا، اللہ تعالیٰ نےمجھے سہولت مہیا کی۔ ہم نے توحید کو قائم کرنا ہےاس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پہ ان کا ایمان پیدا کرو کہ جو چیز وہ حاصل کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ ان کےلیے ان کا انتظام کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ پہ آہستہ آہستہ یقین بڑھنا شروع ہو گا۔ پھر بتاؤ کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں چیزیں دیتا ہے توہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کرنا ہے۔ پھر کہو کہ تم ابھی چھوٹے ہو، تمہیں پتہ نہیں، تم اللہ میاں سےصرف دعا کیا کروکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی طرح انعامات دیتا رہے، ہمارے پہ فضل کرتا رہے۔ اور ہم بڑے ہو گئے ہیں اس لیے ہمیں کچھ تھوڑا سا پتہ لگ گیا ہے اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں۔ جب تم بڑے ہو گے تو تم بھی نماز پڑھنی شروع کر دو گے۔ پھر جب بچہ سات سال کا ہوتا ہے تویہی آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس کوبتاؤ کہ تم نے نماز پڑھنی ہے یا نماز فرض ہے۔ اور آہستہ آہستہ اس کو دو یا تین یا چارجتنی نمازیں بچہ پڑھ سکتا ہے پڑھتا رہے۔ اور جب دس کا ہو جائے، اس وقت Matured دماغ ہو جاتا ہے، پھر اس کو نماز پڑھنے کی عادت ڈال دو۔ تو یہ شروع کی جو تربیت ہے، وہی ہے جو بچہ کو آخر تک کام دیتی ہے۔ اور پھر قرآن کریم بھی بچہ پڑھتا ہے۔ لیکن اتنا بھی Stress بچہ پر نہ ڈالو کہ تین سال کی عمر میں اسے قرآن کریم پڑھانا شروع کر دو۔ چار سال کی عمر میں وہ تھک جائے اور جب گیارہ سال کی عمر کا ہو تو باہر کے ماحول میں جائے اور آزادی اس کو حاصل ہونا شروع ہو جائے۔ ایک درمیانہ رویہ اختیار کرو۔ بچہ کو سمجھاؤ، اللہ تعالیٰ کی ذات پہ ایمان دلواؤ، اسلام کی سچائی کا ثبوت دو۔ اس زمانہ میں مسیح موعود ؑکو دین کی سچائی قائم کرنے کےلیے بھیجا ہے اس کی باتیں بتاؤ۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنا کر، صحابہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سنا کر، نبیوں کے واقعات سنا کر، اللہ تعالیٰ کے جو لوگوں پہ فضل ہوئے ہیں ان کی کہانیاں سنا کے، جو تم پہ فضل ہوئے ہیں اس کی کہانی سنا کے Interest پیدا کرو۔ تو اس طرح ایک محبت پیدا کی جا تی ہے۔ نیک نیتی سے، توجہ سے ماں باپ بچوں کو سمجھاتے رہیں، دین کی طرف لاتے رہیں تو پھر دین سے وہ Attach ہو جائیں گے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف رجحان بھی ہو گا، پھر نمازوں کی طرف توجہ بھی ہوگی۔ لیکن پنجابیوں کی طرح یہ کہہ دینا کہ بچہ کو چھوڑ دو، بڑا ہو گا تو آپ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کام نہیں چلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں سبق دیا کہ پہلے دن سے تربیت کرو۔ اس لیے ’’وڈا ہو کے ٹھیک ہو جائے گا‘‘والی بات کوئی نہیں ہے۔ بچےکی تربیت ساتھ ساتھ اس کی عمر کے لحاظ سے کرو اور اپنے نمونے دکھاؤ۔