حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم کی کتب سابقہ پر افضلیت کے عقلی اور نقلی شواہد

(فرمودہ 29 دسمبر 1929ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ نور کی ان آیات کی تلاوت فرمائی۔

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔ فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ۔ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ۔ لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔

(النور:36تا39)

اس کے بعد فرمایا:

اسلام کا مغز اور اس کی جان

یہ مضمون جس کے متعلق میں اس وقت کچھ بیان کرنے لگا ہوں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اور درحقیت یہ اسلام کا مغز اور اس کی جان ہے۔ اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اسے پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ یہ مضمون فضائل قرآن کریم کے متعلق ہے۔ یعنی قرآن کریم میں وہ کونسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے دوسرے مذاہب کی کتابوں پر اسے فضیلت دی جا سکتی ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن کریم پر ہمارے مذہب کا دارومدار ہے۔ اگر خدانخواستہ قرآن کریم میں ہی کوئی نقص ثابت ہو جائے یا اس میں غیر معمولی خوبیاں ثابت نہ ہوں تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ پس یہ ایک نہایت ہی نازک مسئلہ ہے جس پر حملہ کرنے سے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم سے باہر نہیں سمجھتا۔ آپ بھی قرآن کا جزو ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ۔ عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ (الشعراء:193تا195)

یعنی یہ قرآن یقیناً رب العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ یہ قرآن روح الامین لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تا کہ تو انذار کرنے والوں کی مقدس جماعت میں شامل ہو جائے۔ پس ایک قرآن لفظوں میں نازل ہوا ہے اور ایک قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مطہرپر نازل ہوا ہے۔ اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حملہ درحقیقت قرآن کریم پر ہی حملہ ہوگا۔

تمام ادیان اور کتب الہامیہ پر قرآن کریم کی فضیلت

ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا کے لئے اور سارے زمانوں کیلئے ہے۔ اب اگر قرآن کریم ساری دنیا اور سارے زمانوں کیلئے ہے تو ہماری اس کے متعلق ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ قرآن کریم صرف عرب کیلئے ہوتا اور صرف ایک زمانہ کے مفاسد دور کرنے کے لئے آتا۔ عربوں کے پاس کوئی شریعت نہ تھی کوئی مذہبی کتاب نہ تھی۔ وہ خیالی باتوں پر یا قومی رسم و رواج پر عمل کرتے تھے۔ ان کے متعلق ہمارے لئے صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عرب چونکہ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے قرآن کریم نے انہیں ان برائیوں سے روک دیا اس وجہ سے اس کی ضرورت تھی۔ پس اگر عرب ہی کے لئے قرآن ہوتا تو قرآن کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم ساری دنیا کیلئے آیا ہے اور یہودی، مسیحی، ہندو، پارسی وغیرہ سب اس کے مخاطب ہیں اور تمام دوسری کتابیں جن کو الہامی درجہ دیا جاتا ہے یا وہ کتابیں جن کا پتہ آثار قدیمہ سے لگا ہے ان سب سے افضل ہے۔ اس وجہ سے ہمارے لئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے یہ پہلی تمام کتابوں پر مقدم اور ان سے افضل ہے۔ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو تورات میں نہیں۔ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو پرانے صحیفوں میں نہیں۔ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو اناجیل میں نہیں۔ قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو ویدوں میں نہیں۔ اور قرآن کریم میں ایسی خوبیاں ہیں جو زرتشت وغیرہ کی کتابوں میں بھی نہیں۔

قرآن کریم ایک روحانی خزانہ ہے

پھر قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ قرآن کریم میں وہ روحانی خزانہ ہے جس کے بغیر دنیا میں ہم گذارہ نہیں کر سکتے۔ صرف دوسری الہامی کتب کے مقابلہ میں زیادتی ثابت کر دینا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے جو چیز پیش کی ہے اس سے ایسی نئی سہولتیں بہم پہنچی ہیں جو پہلے حاصل نہ تھیں۔ جب دو چیزیں صفات کے لحاظ سے برابر ہوں تو ایک کی ظاہری خوبی بھی دوسری پر فضیلت تسلیم کی جا سکتی ہے۔ جیسے دو آم ایک ہی طرح میٹھے ہوں مگر ان میں سے ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ہو تو بڑے کو چھوٹے پر بڑائی کی فضیلت حاصل ہوگی۔ لیکن قرآن کریم کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ساری دنیا کیلئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے۔ اب اس کے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی۔ اس لئے ہمیں ساری قوموں، سارے مذاہب اور سارے علوم کے مقابلہ میں قرآن کریم کی فضیلت ثابت کرنی ہوگی۔ جو کتاب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سب سے آخری الہامی کتاب ہے، جیسے قرآن کہتا ہے، اس کی ذمہ داری پہلی تمام کتب سے بالا خوبیاں پیش کرنے کی ہے۔ پہلی کتابوں کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ اتنا ثابت کر دے کہ پہلی کتابوں سے زیادہ اس میں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن وہ کتاب جو یہ کہے کہ میرے بعد کوئی شرعی کتاب نہیں آ سکتی اور میں اب ہمیشہ کے لئے مکمل کتاب ہوں اس کے لئے یہی کافی نہیں کہ وہ پہلی کتابوں سے بڑھ کر خوبیاں پیش کرے بلکہ یہ ثابت کرنا بھی اس کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ روحانیت کے متعلق کوئی ایسی بات نہیں آسکتی جو اس میں نہ ہو۔ پس وہ کتاب جو صرف یہ نہ کہے کہ میں پہلی کتب کو منسوخ کرتی ہوں بلکہ یہ بھی کہے کہ آئندہ کے لئے بھی سب الہامی کتابوں کا دروازہ بند کرتی ہوں، اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کے قطعی ثبوت پیش کرے کہ آئندہ بھی کوئی ایسی کتاب نازل نہیں ہو سکتی۔

پس قرآن کریم کی افضلیت ثابت کرنے کیلئے یہ معیار نہایت ضروری ہے۔ ہاں علاوہ اس اصولی بحث کے تفصیلی بحث بھی کی جا سکتی ہے کہ فلاں فلاں خوبی قرآن کریم میں ہے جو اَور کسی کتاب میں نہیں ہے مگر اصولی طور پر بحث کرنا بھی ضروری ہوگا۔

جب ہم قرآن کریم میں خوبیوں کی کثرت ثابت کر دیں مثلاً یہ کہیں کہ فلاں فلاں خوبیاں وید، بائیبل اور ژَنْد اَوِسْتَا میں بھی پائی جاتی ہیں اور قرآن میں بھی ہیں مگر یہ چار یا دس بیس خوبیاں ایسی ہیں جو صرف قرآن میں پائی جاتی ہیں تو اس سے بھی قرآن کریم کی افضیلت ثابت ہوگی۔ مگر اس سے قرآن کریم کا اکمل ہونا ثابت نہ ہوگا اور یہ بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گی کہ آئندہ کوئی اور شرعی کتاب نہیں آ سکتی۔ اس طرح قرآن کریم صرف موجودہ کتب کے مقابلہ میں افضل ثابت ہو سکتا۔

تمام وجوہ ِکمال میں افضل کتاب

غرض سب کے آخر اور سب سے افضل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب کیلئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس کے اندر وہ کچھ ہے جو دوسری کتب میں نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ بھی ثابت کرے کہ جو کچھ اس میں ہے وہ دوسری کتب میں ہو ہی نہیں سکتا۔ جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے اس وقت تک صرف اچھی باتیں بتانے سے اس کی افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی۔ ہاں افضلیت چونکہ صرف اعلیٰ خوبیوں کے لحاظ سے نہیں ہوتی بلکہ وسیع خوبیوں کے لحاظ سے بھی ہوتی ہے۔ اس لئے خوبیوں کی وسعت اس غرض کے اثبات کیلئے پیش کی جا سکتی ہے کہ گو بعض خوبیاں کسی اور کتاب میں بھی پائی جاتی ہوں مگر خوبیوں کی وسعت کے لحاظ سے فلاں کتاب افضل ہے۔ ہاں کامل افضل کتاب وہ کہلائے گی جوتمام وجوہ کمال میں افضل ثابت ہو۔ اور میرا قرآن کریم کے متعلق یہی دعویٰ ہے۔

جواہرات کی کان

ممکن ہے کوئی کہے کہ کیا پہلے لوگوں کو قرآن کریم کے ان فضائل کا علم نہ تھا؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ علم تھا مگر روحانی علوم خدا تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ترقی کرتے ہیں۔ اور جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس قرآن کریم جواہرات کی ایک کان ہے جس میں سے نئے سے نئے جواہر نکلتے رہتے ہیں تو پھر کیوں ہم انہی جواہرات پر اکتفاء کریں جو پہلے لوگ حاصل کر چکے ہیں۔ اور کیوں قرآنی کان میں سے ہم نئے ہیرے اور جواہرات نہ نکالیں۔ پس میں قرآن کریم کے خزانہ میں گیا کیونکہ پہلے میں وہاں سے کئی بار لعل و جواہر نکال چکا تھا، اور پھر اپنے دامن کو بھر کر لایا۔ جب میں اس خزانہ میں قرآن کریم کی خوبیاں معلوم کرنے کیلئے گیا تو مجھے ایک عجیب بات سوجھی۔ اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ اس خرانہ میں مَیں اندھا دھند ہاتھ ماروں اور جو چیز میرے ہاتھ میں آئے اسے اٹھا لوں حالانکہ ممکن ہے اس سے بہتر چیز وہاں موجود ہو اور میں اسے نہ اٹھا سکوں اس لئے کیوں نہ میں اصولی طور پر غور کروں کہ مجھے کیا لینا چاہئے۔ تب مجھے خیال آیا کہ کسی کتاب کی فضیلت اور اکملیت ثابت کرنے کیلئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس کے مضامین پر غور کریں اور اس طرح اس کی کوئی خوبی معلوم کریں بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی چیز کو دوسری چیز پر فضیلت کیوں حاصل ہوتی ہے۔

پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ جو فضیلت کے معیار ہیں اور جن کی وجہ سے کسی کو فضیلت دی جاتی ہے وہ کس قدر قرآن میں پائے جاتے ہیں۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button