الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وعظ ونصائح کا سامعین پر حیرت انگیز اثر
رسالہ’’انصارالدین‘‘یوکے مئی جون 2012ء میں شامل اشاعت مکرم محمود احمد انیس صاحب مربی سلسلہ کے ایک مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وعظ و نصائح کے سامعین پر حیرت انگیز اثرات بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے ……
کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ
کاحکم دے کرزندوں کی صحبت میں رہنے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بارباریہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں اور ہم جوکسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کرکے ہمدردی اور خیرخواہی سے کہتے ہیں۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ ایمان درست نہیں ہوتا جب تک انسان صاحبِ ایمان کی صحبت میں نہ رہے۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ-سورۃ التوبہ:119)
چنانچہ قادیان کے صحابہ تو حضورعلیہ السلام کے پاس ہی رہتے تھے جو قادیان سے باہر رہتے تھے وہ بھی کثرت سے قادیان جاتے اور حضور علیہ السلام کی مجالس سے مستفیض ہوتے تھے۔ پھر آپؑ کی مجالس میں دونوں قسم کے لوگ ہوتے تھے، محبت وعقیدت اور شوق سے آنے والے بھی، مخالفین اور راہ چلتے لوگ بھی۔ ہرشخص کو اُس حکمت سے فیض ملتا جو اللہ تعالیٰ انبیاءکو دنیاکی اصلاح کے لیے مبعوث کرتے ہوئے عطا فرماتا ہے۔ ان کے اقوال کو برکت اور وعظ و نصائح کو ایسی غیرمعمولی تاثیربھی عطافرماتاہےجس سے سامعین کے وجود پر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔
٭…حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک مولوی صاحب بازار میں کھڑے ہوکر بڑے جوش سے وعظ کر رہے تھے کہ مرزا (مسیح موعودعلیہ السلام)کافرہےاور اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ رہاہے۔ پس جو کوئی اس کو قتل کر ڈالے گا وہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا اورسیدھا بہشت کو جائے گا۔ بہت جوش کے ساتھ اس نے اس وعظ کو باربار دہرایا تو ایک گنوارایک لٹھ ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑا تقریر سن رہا تھا۔ اُس پرمولوی صاحب کے اس وعظ کا اتنا اثرہوا کہ وہ چپکے سے وہاں سے چل کر حضرت صاحب کے مکان کا پوچھتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ وہاں کوئی دربان نہ ہوتا تھا۔ ہرایک شخص جس کا جی چاہتا چلا آتا۔ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ اور بندش نہ تھی۔ اتفاق سے اس وقت حضرت صاحب دیوان خانہ میں بیٹھے کچھ تقریر کررہے تھے۔ اور چند آدمی اردگرد بیٹھے تھے۔ وہ گنواربھی اپنا لٹھ کاندھے پر رکھے ہوئے کمرہ کے اندر داخل ہوا اور دیوارکے ساتھ کھڑاہوکر اپنے عمل کا موقع تاڑنے لگا۔ حضرت صاحب نے اس کی طرف کچھ توجہ نہیں کی اور اپنی تقریر کو جاری رکھا۔ وہ بھی سننے لگا۔ چند منٹ کے بعد اس تقریر کا کچھ اثراس کے دل پر ہوا کہ وہ لٹھ اس کے کندھے سے اترکر اس کے ہاتھ میں زمین پر آگیا اورمزید تقریر کو سننے کے لیے وہ بیٹھ گیا۔ جب حضرت صاحب نے اس سلسلہ گفتگو کو بند کیا اور مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیاکہ حضور! مجھے آپ کے دعویٰ کی سمجھ آگئی ہے اور میں حضورکو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کے مریدین میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ گنوارآگے بڑھ کر بولاکہ مَیں ایک مولوی صاحب کے وعظ سے اثر پاکر اس ارادہ سے یہاں اس وقت آیاتھاکہ اس لٹھ کے ساتھ آپ کو قتل کرڈالوں اور سیدھا بہشت کو پہنچ جاؤں۔ مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا۔ اور آپ کی ان تمام باتوں کو سننے کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ بے شک سچے ہیں اور آپ کی باتیں سب سچی ہیں۔ میں بھی آپ کے مریدوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدسؑ نے اس کی بیعت کو قبول فرمایا۔
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار
٭…حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے حضرت صاحبؑ سے دریافت کیا کہ کیا آپ واقعی مسیح اور مہدی ہیں؟ آپؑ نے فرمایاہاں میں مسیح اور مہدی ہوں۔ اورآپؑ نے ایسے انداز سے جواب دیا کہ وہ شخص پھڑک اٹھا اور اسی وقت بیعت میں داخل ہوگیااورمیرے دل پر بھی حضرت صاحب کے جواب کا بہت اثرہوا۔
٭… حضرت میاں فیاض علی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ کپورتھلہ میں ایک شخص شرابی، فاسق و فاجر تھا۔ ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہوکر آیا، راستے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرما رہے تھے۔ یہ شخص بھی وہاں آیا۔ وعظ میں حضوؑ ر افعالِ شنیعہ کی برائی بیان فرمارہے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاآپ لوگوں کو مخاطب کرکے مجھے سمجھارہے ہیں۔ اس دن اس نے توبہ کی اور پابند صوم و صلوٰۃ ہو گیا۔
٭…ایسا ہی ایک واقعہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت منشی احمد دین صاحبؓ گوجرانوالہ میں اپیل نویس تھے۔ آپؓ 1905ء میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے قادیان حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ ان دنوں باغ میں قیام فرما تھے۔ منشی صاحبؓ اپنے ساتھ ایک غیراحمدی وکیل دوست کو بھی گوجرانوالہ سے لائے جو شراب نوشی کی عادت کا بُری طرح شکار تھے۔ منشی صاحبؓ نے ایک لمبے عرصہ تک اپنے اس دوست کی عادتِ بدچھڑانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ وکیل صاحب اُن کو یہی کہتے کہ اتنے لمبے عرصے سے یہ عادت میرے اندر راسخ ہوچکی ہے کہ اب اس کا ترک کرنا میری ہمت اور طاقت سے باہر ہے۔ منشی صاحب اس خیال سے کہ قادیان میں حضرت اقدسؑ اور دوسرے بزرگوں کی دعا اور برکت سے شاید وہ اس عادت بد کو چھوڑ سکیں ان کو قادیان لائے تھے۔
ان دنوں حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ قرآن کریم کا درس بھی فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب سے منشی صاحب نے عرض کیا کہ مَیں اپنے ساتھ ایک غیراحمدی دوست کو بھی لایا ہوں جن کومے نوشی کی پرانی عادت ہے۔ آپ درس میں بادہ نوشی کی مضرتوں اور نقصانات پربھی مفصل روشنی ڈالیں ہوسکتاہے کہ وہ آپ کے وعظ ونصیحت اور توجہ سے اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اتفاق سے درس بھی آیت
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ…
الخ والے رکوع سے شروع ہونا تھا۔ چنانچہ حضرت حکیم الامتؓ نے شراب کی مضرتوں اور نقصانات کو پوری شرح و بسط سے بیان فرمایا اور روحانی، اخلاقی، اقتصادی، تمدنی اور طبی اعتبارات سے اس مسئلے پر بہت عمدگی سے روشنی ڈالی۔ آپؓ کا درس بہت ہی پُرتاثیراور فائدہ بخش تھا۔ درس کے بعد منشی صاحب کے پوچھنے پر وہ وکیل دوست کہنے لگے کہ شراب کی مذمت میں جو کچھ میں نے آج سناہے واقعی اس سے قبل میرے سننے میں نہیں آیا اور مجھ پر یہ واضح ہو گیاہے کہ شراب خوری بہت نقصان رسان اور مضرہے لیکن جب میں نے اپنے نفس سے اس بارہ میں پوچھا تو اس کو اس پرانی عادت کے ترک کرنے کے لیے آمادہ نہیں پایا ؎
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
منشی صاحبؓ اپنے دوست کے اس انکار کو سن کر بہت ہی رنجیدہ خاطر ہوئے۔
جب وہ گوجرانوالہ واپس جانے لگے تو انہوں نے اپنے وکیل دوست سے کہا کہ چلیے! حضرت اقدس سیدنا مرزا صاحب سے اجازت حاصل کرلیں۔ حضوراقدس علیہ السلام ایک خیمہ میں فروکش تھے۔ خادمہ کے ذریعہ سے حضوؑ ر کو اطلاع بھجوائی تو حضوراقدسؑ نے اندر بلالیا اور اپنے قریب پلنگ پر بٹھالیا۔ یہ خداتعالیٰ کے عجیب اسرار میں سے ہے کہ بغیر منشی صاحبؓ کے کچھ عرض کرنے کے اور اپنے دوست کا حال بیان کرنے کے حضوراقدسؑ نے قوت ارادی اور قوت ضبط کی ایک حکایت بیان کرنی شروع کردی اور فرمایا کہ انسان کے اندربہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے مختلف عیوب اور گناہوں میں مبتلا ہوجاتاہے۔ لیکن چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے انسان کو ضمیر پاک دیاگیاہے اور اس کو قوتِ ارادی اور قوتِ ضبط بھی عطاکی گئی ہے اس لیے اگر انسان اس سے کام لے تو وہ ان گناہوں سے نجات حاصل کرسکتاہے۔
حضوراقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطور مثال ایک حکایت بھی بیان فرمائی کہ ایک بادشاہ کو مٹی کھانے کی عادت پڑگئی اور مٹی سے اس قدرمانوس ہو گیا کہ ہروقت اس کی تعریف و توصیف کرنے لگا۔ دربارکے امراء و وزراء نے بھی جب بادشاہ کی طبیعت کا رجحان دیکھا تو بوجہ بادشاہ کے ملازم ہونے کے مٹی کی تعریف کرنے لگ پڑے۔ جب مٹی کے استعمال پر بادشاہ کو ایک عرصہ گزرگیا تو اس کے بدنتائج ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ جگر خون پیداکرنے سے رُک گیا۔ معدے کی قوتِ ہضم میں فرق آگیا۔ چہرہ پر بے رونقی اور مسوڑھوں اور زبان پر کمی خون کے اثرات ظاہر ہو گئے۔ چلنے کے وقت سانس پھولنا شروع ہوگیا۔ ان علامات کے نمایاں ہونے پر بادشاہ نے پھر دربارمیں ذکر کیا کہ میں نے مٹی کو کیا کھایا مٹی نے مجھے کھالیا ہے۔ اس پر درباریوں نے جو دراصل ’’راجہ کے غلام تھے نہ بینگن کے‘‘ مٹی کی مذمّت شروع کردی۔ کسی نے کہا مٹی جیسی مذموم چیز اَور کیا ہو سکتی ہے جس پر ہر روز تمام مخلوقات کا بول و براز پڑتاہے۔ کسی نے کہا کہ سب لوگوں کے جوتے جس پر پڑیں وہ چیز بھی کچھ قابل تعریف ہوسکتی ہے؟ علیٰ ہٰذالقیاس۔ آخر بادشاہ کی صحت کی بحالی کے لیے انتظام ہونے لگا۔ چیدہ چیدہ اطباء اور معالج جمع کیے گئے لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہوسکا۔ ایک مدت کے بعد کوئی سیاح بادشاہ کے شہر میں آنکلا اور جب اس نے بادشاہ کی جانگسل بیماری اور اتنا لمباعرصہ تک ناکام علاج کے متعلق سنا تو بہت افسوس کیا اور کہا کہ علاج تو بہت آسان ہے۔ اُس کی یہ بات بادشاہ تک جاپہنچی تو سیاح کو دربار میں طلب کیا اور علاج پوچھا۔ اس نے کہا کہ کیا آپ اپنا علاج ابھی جلوت میں کراناچاہتے ہیں یا خلوت و علیحدگی میں؟ یہ سن کر بادشاہ کچھ متأمل ہوااور اس نے خیال کیا کہ سب کے سامنے علاج کی صورت میں ہو سکتاہے کہ کوئی ایسی بات وقوع میں آئے جو باعث خفّت ہو۔ اس لیے اس نے کہا کہ میں علاج خلوت میں کراؤں گا۔ چنانچہ علیحدگی میں جب علاج شروع ہوا تو سیاح نے بادشاہ سے عرض کیا کہ اس وقت علاج کے طورپر جو تجویز میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا اگر وہ آپ مان لیں گے تو یقیناً آپ کو بیماری سے فوراً شفاہوجائے گی۔ بادشاہ نے کہا کہ آپ کہیے میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سیاح نے کہا اترک الحکومۃ یعنی اپنی بادشاہت کو چھوڑ دو۔ بادشاہ اس تجویز سے حیران و متعجب ہوااور اس کی وجہ دریافت کی۔ سیاح نے عرض کیا کہ بادشاہوں کو بادشاہوں سے مقابلے اور لڑائیاں بھی کرنا پڑتی ہیں۔ پس آپ خودہی بتائیں کہ جب آپ اس حقیر اور ذلیل مٹی کا جو روزانہ پاؤں اور جوتوں کے نیچے روندی جاتی ہے مقابلہ نہیں کرسکتے اور اس سے مغلوب ہو رہے ہیں تو جب آپ کا مقابلہ کسی زبردست غنیم سے ہوگا تو اس کے مقابل پر آپ کس طرح کامیاب ہوسکیں گے؟ یہ یقینی امر ہے کہ آپ شکست کھاکر نہ صرف اپنی بادشاہت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ اپنی عزت و آبرو اور جان بھی گنوائیں گے۔ پس کیا یہ بہترنہیں کہ آپ ابھی حکومت سے دستبردار ہوکرکسی زیادہ مناسب آدمی کو تخت پر بیٹھنے کا موقع دیں۔ ہاں اگر حکومت کرنے کا عزم و ارادہ ہے تو پھر این عزم الملوک- (بادشاہوں کا عزم آپ میں کہاں ہے؟ ) یہ الفاظ کہہ کر سیاح نے بادشاہ کے خفتہ عزم و استقلال کو بیدار کیا۔ چنانچہ بادشاہ نے نہایت جوش، استقلال اورجلال سے فرمایا واللّٰہ لاآکل الطین بعد ذالک ابدَا۔ یعنی خداکی قسم! مَیں اب کبھی مٹی نہ کھاؤں گا۔ اور اس نے مٹی کھانا ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔
اس کے بعد بادشاہ جب دربارمیں آیا تو اس نے ذکرکیا کہ میں نے مٹی کھانی چھوڑ دی ہے۔ درباری اس فوری تبدیلی اور علاج سے بے حد متعجب ہوئے تو بادشاہ نے کہا کہ علاج تو دراصل ہمارے اپنے اندر ہی فطری طورپر موجودتھا۔ صرف صحیح طورپر تحریک کی ضرورت تھی جو سیاح صاحب نے کردی اور ہماری قوت ضبط اور قوت ارادی کو اُبھاردیا۔
جب حضورعلیہ السلام نے یہ حکایت بیان فرمائی تو وکیل صاحب پر حضور کی توجہ اور برکت سے اس حکایت کا ایسا اثرہوا کہ وہ فوراً بول اٹھے کہ حضور! آج سے میں بھی اپنے عزم اور پختہ ارادہ سے شراب نوشی سے توبہ کرتا ہوں۔ حضورمیرے لیے دعا فرمائیں کہ خداتعالیٰ مجھے اس توبہ پر استقامت اور استقلال بخشے۔
حضرت منشی صاحبؓ نے ذکرکیا کہ حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ سے تو مَیں نے واضح طورپر اپنے دوست کی مےخواری کا ذکرکرکے وعظ و نصیحت کی درخواست کی تھی لیکن حضرت اقدسؑ سے اس بارہ میں اشارۃ ً بھی کچھ ذکر نہ کیا تھا لیکن حضوؑ رنے وہ بات بیان فرمائی جو ہزارنصائح اور مواعیظ حسنہ سے بھی بڑھ کر حضور کی توجہ اور قوتِ قدسیہ سے مؤثر ثابت ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام وکیل صاحب کی توبہ سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ انسانی فطرت گناہوں کی زہر سے خواہ کتنی ہی آلودہ کیوں نہ ہو جائے اس کے اندر ہی خداتعالیٰ نے اس زہر کا تریاق بھی رکھا ہواہے جس طرح پانی آگ کی حرارت سے خواہ کتنا گرم ہو جائے اور جوش سے ابلنے لگے پھر بھی وہ شدید گرم پانی جب مشتعل آگ پر پڑتاہے تو اس کو بجھا دیتاہے کیونکہ پانی میں حرارت کا اثر پیداہوجانا اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ یہی حال انسانی فطرت کا ہے کہ شیطان جو ناری ہے چاہتا ہے کہ انسان کو بھی گناہوں میں ملوث کرکے ناری بنادے لیکن انسان کی قوت ارادی اور قوت ضبط اس کی فطرت کے اصل جوہر کو جو پاکیزہ ہے ابھارنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد حضور اقدسؑ نے دعا فرمائی اور رخصت کی اجازت فرمائی۔ خیمہ سے باہر نکلتے ہی وکیل صاحب حضرت منشی صاحبؓ کو کہنے لگے کہ مسیحائی کا اثر اور دمِ عیسیٰ کا اعجاز تو ہم نے بچشمِ خود دیکھ لیا، جس علاج کی ضرورت تھی وہ بغیر ہماری درخواست یا بتانے کے کامیاب طورپر کردیا اور ایک پرانے گنہگار اور عادی مجرم کو ایک آن کی آن میں تائب بنادیا۔ سچ ہے :
یک زمانے صحبتے با اولیاء
بہتر از صدسالہ طاعت بے ریاء
٭…حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلویؓ بیان فرماتے ہیں کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعوؑ د ایک دفعہ خداتعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے۔ اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا، آگیااور ٹوپی اتارکرسلام کی اور حضور کی تقریر سننے کے لیے کھڑارہا اور باوجودیکہ اس کے بیٹھنے کے لیے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا۔ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتاہوا سبحان اللّٰہ سبحان اللّٰہ کہتا تھا۔ تھوڑاعرصہ تقریر سن کرسلام کرکے وہ چلاگیا۔ اس کے بعد تقریباً دوسرے تیسرے دن جب حضورسیر کو تشریف لے جاتے توایسا اتفاق ہوتاکہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتااور گھوڑے کو ٹھہراکرٹوپی اتارکرسلام کرتا۔ یہ اس کامعمول تھا۔
٭…حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلویؓ بیان فرماتے ہیں کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خداتعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا۔ وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کہ میں خداکا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ مجھے خدا دکھا دیں گے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھادیں گے۔ اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہامیں چھ ماہ کی رخصت پرہوں اور میں یہ ساراعرصہ ٹھہر سکتا ہوں بشرطیکہ آپ مجھے خدادکھادیں۔ حضوؑ ر نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا:لندن کوئی شہر ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے، سب جانتے ہیں۔ فرمایا:آپ لاہور تشریف لے گئے ہیں۔ اس نے کہا مَیں لاہور بھی نہیں گیا۔ فرمایا: قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے؟ اس نے کہا نہیں۔ فرمایا:آپ کو کس طرح معلوم ہے کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کرسکتا ہے؟ اُس نے کہا سنا تھا۔ آپؑ نے ہنس کر فرمایا کہ آپ کا تو سارا دارومدار سماعت پر ہی ہے اوراس پر پورایقین رکھتے ہیں۔ پھر حضرت اقدسؑ نے ہستی باری تعالیٰ پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثرہواکہ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکرکرنے لگا اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگواکر دی۔ جب اس کی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحبؑ کے پیروں کو ہاتھ لگاکرمسجد سے نیچے اتر آیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ اس کے ساتھ ہی نیچے اتر آئے۔ اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہوگیا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ مَیں مسلمان ہونے کی تیاری کرکے نہیں آیاتھا اور مجھے پورایقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔ مجھے خداپر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہے۔
………٭………٭………٭………
ذکر حبیب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ22؍مارچ2013ءمیں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قوّت قدسیہ کے حوالے سے دو واقعات حضرت مرزا قدرت اللہ صاحبؓ کی زبانی بیان ہوئے ہیں جو ایک پرانی اشاعت سے منقول ہیں۔
ریلوے لائن کی تعمیر
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ 1902ء میں مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد میں گاہے گاہے جب بھی دفتر سے کسی تہوار کے موقعہ پر یا اتوار کو چھٹی ہوتی، قادیان آکر حضور پُرنور کی زیارت سے مشرف ہوتا۔ حضورؑ کا یہ عام دستور تھا کہ نماز فجر کے بعد مع چند خدام سیر کے لئے تشریف لے جاتے۔ ایک دن مَیں بھی حضوؑ ر کے ساتھ تھا۔ حضوؑ ر اس گاؤں کے پاس جو نواں پنڈ کے نام سے مشہور ہے، ٹھہر گئے۔ خلیفہ رجب الدین صاحب (خسر خواجہ کمال الدین صاحب) نے مجھے اس وقت مخاطب کرکے کہاکہ حضرت صاحب نے اپنے سونٹے سے اس مقام پر نشان لگا دیا ہے جہاں سے ریلوے لائن گزرے گی۔
یہ واقعہ 1902ء کا ہے اور اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ریلوے لائن اسی جگہ پر بنی ہے۔
گاڑی لیٹ ہو گئی
دوسرا واقعہ بھی انہی دنوں کا ہے۔ مَیں بطور مہمان، مہمان خانہ میں اترا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا جارہا تھا۔ مَیں نے خلیفہ رجب الدین صاحب سے کہا مجھے آپ حضرت صاحب سے جانے کی اجازت لے دیں تاکہ مَیں شام کی گاڑی پر بٹالہ سے سوار ہوسکوں کیونکہ کل مجھے دفتر حاضر ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھانا کھا کر جائیں۔ میرے اصرار پر وہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں گئے اور واپس آکر مجھے یہ پیغام دیا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے:کھانا کھائے بغیر نہیں جاسکتے۔ مَیں نے کہا حضرت صاحب کی خدمت میں میری طرف سے دوبارہ عرض کریں کہ دو گھنٹے تک بمشکل کھانا تیار ہوگا اور پھر مجھے گاڑی نہیں مل سکے گی۔ خلیفہ صاحب پھر حضرت مسیح موعودؑ کے پاس گئے اور آکر فرمایا کہ حضور فرماتے ہیں :خواہ کچھ ہو کھانا کھا کرجانا ہوگا۔ بالآخر جب کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو گاڑی کے روانہ ہونے میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا۔ یکے کرایہ پر لیے گئے لیکن پہنچنا محال نظر آتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بعد دعا ہمیں رخصت کیا۔ جب ہم قادیان سے نصف راستے تک پہنچے تو شمال کی طرف سے سخت کالی گھٹا اٹھی اور موسلا دھار مینہ برسنے لگا۔ چونکہ سخت تند ہوا بھی چل رہی تھی اس لئے یکے والوں نے کہا کہ اس شدید بارش میں چلنا محال ہے۔ اس طرح گاڑی کا وقت راستہ میں ہی ہو گیا اور ہم نے سمجھ لیا کہ گاڑی نہیں مل سکتی۔ لیکن جب ہم سٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ شدید بارش کی وجہ سے گاڑی ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور گاڑی میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گئے۔
………٭………٭………٭………