متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد وارد ہونے والی قدرتی آفات کا جائزہ (قسط دوم۔ آخری)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

زلازل

دنیا میں روزانہ کسی نہ کسی مقام پر زلزلہ آتا ہے۔ لیکن کسی زلزلے کے آنے سے قبل خدا تعالیٰ کے مامور کا اس کی جانب سے خبر دیے جانا یا کسی بڑے زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع خدا تعالیٰ کے قہر اوراس کے غضب اور اس کے جلال کی نشانی ہے۔

1900ء سے 2019ء تک قدرتی آفات کے نتیجہ میں ہونے والی اموات کا جدول

حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد دنیا میں کثرت سےآنے والے زلازل کا مختصر جائزہ پیش ہے۔

انیسویں صدی میں 1891ء میں جاپان کے علاقے مینو۔اوواری Mino-Owari میں زلزلے سے 7273؍افراد ہلاک ہوئے۔ آسام (انڈیا) میں 1897ءمیں زلزلے سے ڈیڑھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی صدی میں امریکہ میں 17؍مزید زلزلے بھی آئے جن کی شدّت کا اندازہ ماہرین نے 6سے 8؍ میگنی چیوڈ (Magnitude) کے درمیان لگایا ہے اور ایسٹ انڈیز (انڈونیشیا) میں دو زلزلے آئے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

برصغیر میں بھی اس صدی کے دوران پانچ بڑے زلزلے آئے۔ 1819ءمیں پنجاب اور کچھ (Kutch) کے مقام پر 32 ہزار افراد زلزلے کا شکار ہوئے۔ 1838ءمیں نیپال میں زلزلہ آیا جس سے دو ہزار اموات ہوئیں۔ 1885ء میں کشمیر میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے اور آسام میں 8.3 کی شدت کے زلزلے میں ڈھائی ہزار افراد 1897ءمیں لقمہ اجل بنے۔ 1827ءمیں لاہور میں زلزلے سے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ 1827ءسے 1931ءتک بلوچستان میں 9 زلزلے آئے لیکن ان کی تفصیل نہیں ملتی۔

بیسویں صدی کا پہلا بڑا زلزلہ 1905ء میں ہمالیہ پٹی پر کانگڑہ کے مقام پر 8.0 کی شدت سے آیا جس میں 20؍ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔

1906ءمیں تین زلزلے آئے جس میں کولمبیا اور ایکواڈور کے ایک ہزار، سان فرانسسکو کے تین ہزار اور چلی میں 20؍ہزار افراد کی جانیں گئیں۔

1908ءمیں تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک زلزلہ اٹلی میں آیا تھا جس میں ایک لاکھ 60؍ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1918ءمیں پورٹوریکو (برّاعظم امریکہ) میں 116؍افراد کی ہلاکت ہوئی۔

1920ءمیں تاریخ کا نوواں بڑا زلزلہ 8.6 میگنی چیوڈ (Magnitude) کی شدت سے آیا جس میں چین کے علاقے ننگشیر اور گنسو کے دو لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ 1923ءمیں جاپان میں زلزلے سے ایک لاکھ 43؍ہزار افراد، 1927ءمیں کیلیفورنیا میں 13؍، جبکہ چین اور جاپان میں دو بڑے زلزلوں سے جاپان کے تین ہزار اور چین کے دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ 1931ءمیں نیوزی لینڈ میں 258؍افراد جبکہ 1932ءاور 1933ء دو زلزلوں سے چین کے 70؍ہزار اور جاپان کے تقریباً تین ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1934ءمیں ہندوستان کے صوبہ بہار میں زلزلے سے 13؍ہزار افراد، 1935ءمیں تائیوان میں 3279؍افراد ہلاک ہوئے۔

1935ءمیں پاکستان کے شہر کوئٹہ میں تباہ کن زلزلہ آیا، جس سے کوئٹہ شہر بُری طرح تباہ ہو گیا۔ یہ زلزلہ 7.8 شدت (Magnitude) کی شدّت کا تھا، جس سے مستونگ، لورالائی، قلات، پشین اور چمن کے علاقے بھی متاثر ہوئے تھے۔ زلزلے کا مرکز چمن فالٹ کا مقام تھا۔ اس زلزلے نے 30؍ سیکنڈ میں پورے شہر کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اس زلزلے سے ہونے والی اموات کی تعداد اندازاً 60؍ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ 1939ءمیں ترکی میں زلزلے سے 32؍ہزار 700؍ جبکہ 1940ءمیں کیلیفورنیا میں غیر معمولی یعنی 7.1 شدّت کے زلزلے کے باوجود صرف 9؍افراد ہلاک ہوئے۔

1944ءمیں جاپان میں 8.1شدت کے زلزلے سے 1223؍ہلاکتیں ریکارڈ ہوئیں۔ 1945ءمیں مکران کے ساحلی علاقوں میں سمندری زلزلہ سونامی آیا جس کے باعث اُٹھنے والی سمندری لہریں کراچی، ممبئی اور کَچھ تک گئیں۔ مغربی محقق سینچ رے کی کتاب ’’ورلڈ میپ آف نیچرل ہیزرڈ‘‘کے مطابق اس سونامی سے کُل چار ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

1946ءمیں تین زلزلے الاسکا، ڈومینین اور جاپان میں آئے جس سے تقریباً 1600؍افراد ہلاک ہوئے۔ 1949ءمیں واشنگٹن میں 8؍افرادجبکہ 1950ءمیں معمولی شدت کے 6؍زلزلوں میں یونان کے 476، ؍ امریکہ کے 46؍اور منگولیہ کے 30؍افراد ہلاک ہوئے۔ 1960ءکے دوران مراکش میں زلزلے سے 10؍ہزار، جبکہ چلی میں 5700؍افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔

1964ءمیں الاسکا (امریکہ) میں 9.2 شدت کے زلزلے میں 125؍، جاپان میں 26؍، 1967ءمیں واشنگٹن میں 7؍، ہندوستان کے علاقے کویانا میں 900؍اور1970ءمیں بھڑوچ (انڈیا) کے مقام پر زلزلے میں 900؍افراد جاں بحق ہوئے۔

1974ءمیں پاکستان کے علاقے مالا کنڈ اور پتن میں زلزلے سے کُل 6؍ہزار افراد جبکہ 1975ءمیں چین کے علاقے ہائی چنگ میں 10؍ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔

1976ءمیں گوئٹے مالا میں زلزلے سے 23؍ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ اسی سال تانگ شان (چین) میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے اندازاً 6؍لاکھ 55؍ہزار افراد ہلاک ہوئے، یہ تاریخ کا تیسرا بڑا زلزلہ تھا۔

1977ءکے دوران رومانیہ میں زلزلے سے 1500؍، 1980ءمیں نیپال میں 1500؍افراد، 1981ءمیں گلگت میں زلزلے سے 220؍، 1983ءمیں پاکستان کے شمالی علاقے میں زلزلے سے 14؍افراد جبکہ 1984ء میں بھارت کے علاقے کاچھر میں زلزلے سے 500؍افراد ہلاک ہوئے۔ 1987ءمیں کیلیفورنیا میں 8؍ہزار، 1988ءمیں آرمینیا (ترکی) میں 25؍ہزار، 1989ء میں کیلیفورنیا میں 63؍افراد کی جانیں گئیں۔ 1990ءمیں ایران میں زبردست زلزلہ آیا جس سے 35؍ہزار (بعض اندازوں کے مطابق 50؍ہزار) افراد ہلاک ہوئے۔

1991ءمیں ہندوکش سے افغانستان تک زلزلے میں 500؍افراد ہلاک ہوئے، اسی سال بھارت کے علاقے اُترکاشی (بنارس) میں زلزلے سے تین ہزار جبکہ کیلیفورنیا میں تین افراد لقمہ اجل بنے۔ 1993ءمیں بھارت میں لاٹر کے مقام پر زلزلے سے 9748؍افراد ہلاک ہوئے۔ 1994ءمیں کیلیفورنیا میں زلزلے سے 60؍افرادجبکہ بولیویا میں 5؍افراد ہلاک ہوئے۔

1995ء میں جاپان کے علاقے کوبے میں 5582؍افراد، 1997ءمیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تقریباً ایک ہزار، 1998ءمیں نیوگینیا میں 2183؍افراد زلزلے سے ہلاک ہوئے۔

1999ءمیں چار بڑے زلزلے آئے، جس میں کولمبیا کے 1185؍، ترکی کے 17118؍، تائیوان کے 2400؍اور ترکی ہی کے 895؍افراد ہلاک ہوئے۔ 1999ءہی میں بھارت کے علاقے چمولی میں زلزلے سے ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

21ویں صدی کاآغاز ہی زبردست زلزلے سے ہوا۔ 26؍جنوری 2001ء میں بھارت کے علاقے گجرات میں زبردست قسم کا زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.7 تھی۔ اس زلزلے کی شدت پاکستان میں بھی محسوس کی گئی۔ اس زلزلے سے بھارت کے 25؍ہزار اور پاکستان کے کُل 20؍افراد ہلاک ہوئے۔ اسی سال پیرو میں بھی زلزلے سے 75؍افراد جاں بحق ہوئے۔

2002ء میں افغانستان میں زلزلے سے ایک ہزار، الجیریا میں 2266؍اموات ہوئیں۔ 2002ءمیں پاکستان کے شہر گلگت میں تین زلزلوں میں کُل 41؍افراد ہلاک ہوئے۔

2003ءمیں ایران میں زلزلے سے 31؍ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ 2004ءمیں جاپان، تیمور (انڈونیشیا)، ڈومینکا اور کوسٹاریکا (امریکہ) اور مراکش میں معمولی شدت کے زلزلے آئے۔

2004ءمیں سب سے بڑی تباہی 26؍دسمبر کو انڈونیشیا کی ریاست سماٹرا میں زیرِ سمندر زلزلے سونامی سے آئی۔ جس سے اُٹھنے والی لہریں انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، سری لنکا، میانمار (برما)، مالدیپ، صومالیہ، کینیا، تنزانیہ، سیشلز (مڈغاسکر) اور جنوبی افریقہ تک گئیں۔ اس تباہی سے ہونے والی اموات 5؍لاکھ سے زائد ہیں جبکہ سرکاری طور پر ہلاکتوں کا اندازہ 2؍لاکھ 83؍ہزار 106؍ لگایا گیا ہے۔ 2005ءمیں انڈونیشا میں زلزلے سے 1313؍، ایران میں 790؍، جبکہ جاپان میں ایک اور چلی میں گیارہ افراد جاں بحق ہوئے۔

8؍اکتوبر 2005ءکو اب تک کا شدید ترین زلزلہ پاکستان کے شمالی علاقے میں آیا۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.6تھی۔ اس زلزلے سے کشمیر، اسلام آباد، بالاکوٹ، مانسہرہ، ہزارہ سمیت بہت سے چھوٹے بڑے دیہاتوں اور قصبوں کو شدید نقصان پہنچا۔ 80؍ہزار سے زائد افرادہلاک، دو لاکھ سے زائد افراد زخمی اور ڈھائی لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس زلزلے کے 978؍آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔

پاکستان میں ہی 18؍جنوری 2011ءکو 7.2شدت اور 20؍جنوری 2011ء کو 7.4شدت کے زلزلے نے تباہی مچائی۔ 16؍اپریل 2013ء کو کوئٹہ میں 7.9 شدت کے زلزلے سے 34؍افراد ہلاک اور ایک لاکھ گھر تباہ ہوئے۔ 24؍ستمبر 2013ء میں صوبہ بلوچستان کے شہر آواران میں زلزلے سے 5؍ہزارافراد جاں بحق ہوئے۔

25؍اپریل 2015ء میں نیپال کے علاقے گورکھا میں 7.8شدت کے زلزلے نے شدید تباہی مچا دی۔ اور 8؍ہزار 964؍افراد لقمہ اجل بنے۔ بھارت میں اس زلزلے نے نقصان پہنچایا۔ اسی طرح 12؍مئی کو نیپال میں 7.3 شدت کے ایک زلزلے سے 218؍لوگ لقمہ اجل بنے۔

2018ء میں فجی میں ایک 8.2 اور ایک 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ اس کے علاوہ فلپائن، پیرو، امریکہ، رشیا، پوپویا نیو گنی میں 7.5سے 7.1 شدت کے زلزلے آئے لیکن جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں 7.5شدت کے زلزلےمیں 4؍ہزار 340؍افراد ہلاک ہوئے۔

2019ء میں اسلام آباد، کشمیر سے لاہور تک 5.8 شدت کے زلزلے میں 40؍، انڈونیشیا میں 7.2 شدت کے زلزلے میں 14؍اور 6.5 شدت کے زلزلے میں 41؍ اور البانیہ میں 6.4 شدت کے زلزلے میں 51؍افراد ہلاک ہوئے۔ 30؍اکتوبر 2020ء میں ترکی میں زلزلے سے 119؍ افراد ہلاک ہوئے۔ سال 2021ء کے آغاز میں 14؍جنوری کو 6.2 شدت کے زلزلے سے 105؍افراد ہلاک ہوئے۔

(یہ اعداد و شمار مختلف ویب سائیٹس سے لیے گئے ہیں۔ )

زلازل کاجائزہ بیان فرمودہ حضور انورایدہ اللہ بنصرہ العزیز

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف لوگوں کی اس زمانے میں آفاتِ سماوی و ارضی کو خدا کی تنبیہ قرار دینے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ

’’تو بہرحال یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ برائیاں تھیں اور ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ وارننگ دی یا عذاب آیا۔ لیکن اتنا ہی تسلیم کر لینا کافی نہیں ہے۔ مسیح و مہدی کا ظہور تو ہو چکاہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ماننے کا حکم بھی ہے دعویٰ کرنے والا بھی موجود ہے۔ خداتعالیٰ نے زمینی اور آسمانی نشان بھی ظاہر فرما دئیے ہیں۔ اب بھی اگرآنکھیں بند رکھنی ہیں تو پھر اللہ ہی لوگوں کوسمجھائے گا۔ اور خود جو عالم بنے ہوئے ہیں، قوم کو تویہ سمجھارہے ہیں، ان کو خود بھی تو سمجھناچاہئے۔ قرآن کریم نے جو پیشگوئیاں فرمائیں وہ پوری ہو گئیں پھر چاند اور سورج نے بھی گواہی دے دی۔ تو اب اور مزید انتظار کے لئے رہ کیا گیا ہے۔ اور پھر یہیں تک نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ 1905ء سے یہ نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں ہو رہے ہیں۔ 1905ء میں کانگڑہ میں (ہندوستان میں ایک جگہ ہے) وہاں بڑا زبردست زلزلہ آیا تھا۔ قادیان تک بھی اس کا اثر آیا تھا۔ تو یہ جو نشانات ظاہر ہو رہے ہیں یہ مسلمانوں کے لئے بھی وارننگ ہے اور غیر مسلموں کے لئے بھی وارننگ ہے۔ سیلابوں کے ذریعہ سے، سمندری طوفانوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بار بار توجہ دلا رہا ہے۔

اس بارہ میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے مطابق دنیا میں گزشتہ گیارہ سو سال میں جو بڑے بڑے زلزلے آئے ہیں، ان کی تعداد گیارہ ہے۔ اور گزشتہ سو سال میں جو زلزلے آئے ہیں، بشمول 1905ء کا کانگڑہ کا زلزلہ(جوان اعداد میں شامل نہیں کیا گیا) لیکن مَیں نے اس کو شامل کیا ہے انکی تعداد13بنتی ہے۔ یہ وہ زلزلے ہیں جن میں 50ہزار یا اس سے زائد اموات ہوئیں۔ کانگڑہ کے زلزلے کو شامل نہیں کرتے کیونکہ وہ انکے لحاظ سے 25-20ہزار ہیں۔ لیکن بعض پرانے اخباروں نے اس وقت 60-50ہزار بھی لکھا تھا۔ بہرحال جو بھی اعداد تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھا اس لئے مَیں نے اس کو شامل کیا ہے۔ کیونکہ بعض اخباروں نے اس وقت 60-50ہزار تعداد لکھی تھی۔

مَیں نے ایک او ر زاویے سے بھی دیکھا ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہی ہے اور اب جو نئی صدی میں داخل ہوئے ہیں یہ بھی بڑے دعووں سے داخل ہوئے ہیں۔ دنیاوی ترقی کی ہی باتیں ہیں، خدا کی طرف رجوع کرنے کی باتیں نہیں ہیں۔ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے اور پچھلی صدی کو جو الوداع کہا گیا ہے وہ امیر ملکوں نے بڑے شور شرابے سے ہا ہو کرکے اس کو الوداع کیا۔ بے تحاشا رقمیں خرچ کیں، کسی کو یہ احساس نہیں ہوا کہ غریب ملکوں کو کسی طرح پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ بڑی بڑی نشانیاں بتا دیں کروڑوں روپے خرچ کر لئے، پاؤنڈز خرچ کر لئے۔ کروڑوں کیا بعض جگہ تو اربوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نئی صدی کا استقبال بھی اس طرح ہوا کہ خداتعالیٰ کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اور جوانسانی ہاتھوں سے دنیا میں بے چینی اور تباہی گزشتہ سالوں میں آئی ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ ایک جگہ کوائف ملے تھے پچھلے سو سال میں، تقریباً 33ممالک میں مختلف تباہیوں میں 9کروڑ 50لاکھ آدمی موت کے شکار ہوئے۔ 1900ء سے لے کر 2000ء تک۔

تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ گزشتہ صدی کوبھی انہوں نے نہیں سمجھا۔ ساڑھے 9کروڑ اموات کی کوئی قدر ان کے نزدیک نہیں تھی، ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ پھر بھی ان کے لئے امن پیدا کرنے کی کوشش، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی کوشش نہیں کی اور اگلی صدی کے استقبال میں بھی وہ خانہ بالکل خالی رکھا۔ تو یہ جو زلزلے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑا ہے۔ قوموں کو جھنجھوڑا ہے، دنیا کو جھنجھوڑا ہے کہ ابھی بھی باز آ جاؤ۔

مَیں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ اس نئی صدی میں جب ہم داخل ہوئے ہیں تو کیا صورت حال ہوئی ہے۔ تو جنوری 2001ء میں یعنی پہلے سال میں ہی انڈیا میں ایک بڑا زلزلہ آیا۔ تقریباً 7.9 ریکٹر (Rechter) سکیل پر اس کا میگنی چیوڈ (Magnitude) تھا اور اس میں تقریباً 20ہزار سے زائدآدمی مرے۔ پھر 2003ء میں ایران کازلزلہ آیا۔ پھرسونامی آیا جس میں کہتے ہیں 2لاکھ 83ہزار موتیں ہوئیں۔ پھر پاکستان میں آیا(ساری مَیں نہیں گن رہا) تو یہ پانچ بڑی بڑی تباہیاں نئی صدی کے پہلے پانچ سالوں میں آئی ہیں اور اندازہ ہے، مَیں جائزہ لے رہاہوں کہ احمدیت کے سو سال پورے ہونے کے بعد 1989ء کے بعد بھی ان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اگر انسان سوچے تو یہ جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ یہ لوگوں کو، قوموں کو یاد دلانے کے لئے ہے کہ خدا کو پہچانو، آنے والے کی آواز پر کان دھرو۔

ان گزشتہ 10-8سالوں میں یا ہم کہہ سکتے ہیں احمدیت کے 100سال پورے ہونے کے بعد سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز تقریباً ہر جگہ پہنچ چکی ہے۔ پھر مَیں نے ایک جائزہ لیا تھا کہ احمدیت کے 100سال 1989ء میں جو پورے ہوئے، پورے کوائف تو نہیں ملے، مثلاً انڈیا کے ملے تھے۔ صرف انڈیا میں 1990ء سے لے کر اب تک 6بڑے زلزلے آئے ہیں جبکہ اس سے پہلے 1897ء سے لے کر 1988ء تک یہ تقریباً 91سال بنتے ہیں، 12 زلزلے آئے تھے۔ اور دنیا کے دوسرے ممالک اس کے علاوہ ہیں۔ اب یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا یہ اتفاقات ہیں یا تقدیر الٰہی ہے؟ یا لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لئے تنبیہ ہے؟ ۔ …

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اسی طرح آپؐ کا مسیح بھی تمام دنیا کے لئے آیا ہے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اس لئے یہ طوفان، یہ زلزلے، یہ سیلاب، صرف ایک علاقے کے لئے نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر قوم کو، ہر ملک کو یہ وارننگ دی جا رہی ہے تو اس لحاظ سے ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ان آفات سے نجات کا اب صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا کو پہچانواور ظلم اور ناانصافیوں کو ختم کرو۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍فروری2006ءصفحہ6تا7)

شریر کے ساتھ معصوم لوگ بھی عذاب میں کیوں گرفتار ہوتے ہیں؟

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتے ہویئے فرماتےہیں کہ

’’ہمارے احمدیوں میں بھی بہت سارے لکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ معصوم جانیں کیوں ضائع ہوتی ہیں۔ …

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’مکّہ میں جب قحط پڑا تو اس میں بھی اوّل غریب لوگ ہی مرے۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ ابو جہل جو اس قدر مخالف ہے وہ کیوں نہیں مرا‘‘۔ فرمایا: ’’حالانکہ اس نے تو جنگ بدر میں مرنا تھا‘‘۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت رکھا ہوا تھا کس طرح اس نے مرنا ہے تاکہ لوگوں کے لئے نشان بنے۔

فرماتے ہیں کہ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ابتلاء ہوا کرتا ہے۔ اور یہ اس کی عادت ہے اور پھر اس کے علاوہ یہ اس کی مخلوق ہے۔ اس کو ہر ایک نیک اور بد کا علم ہے۔ سزا ہمیشہ مجرم کے واسطے ہوا کرتی ہے۔ غیرمجرم کے واسطے نہیں ہوتی۔ بعض نیک بھی اس سے مرتے ہیں۔ مگر وہ شہید ہوتے ہیں اور ان کو بشارت ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ سب کی نوبت آجاتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 650جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

ساری دنیا کی آفات نشان کیوں ہیں؟

پھر ایک سوال ہوا کہ سان فرانسسکو میں جو زلزلہ آیا ہے، یہ بھی آپ کا نشان ہے۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے تو اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ تمام زلزلے جو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات میں آئے ہیں یہ محض میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں۔ کیونکہ اس زمانے میں بعض جگہوں پر پیغام تو نہیں پہنچا ہو گا۔ فرمایا کہ مَیں نے یہ نہیں کہا کہ یہ میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں، کسی اور امر کا اس میں دخل نہیں۔ ہاں مَیں کہتا ہوں کہ میری تکذیب ان زلزلوں کے ظہور کا باعث ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے تمام نبی اس بات پر متفق ہیں کہ عادت اللہ ہمیشہ سے اس طرح پرجاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں۔ تب اس زمانے میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے اور کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اس کا مبعوث ہونا دوسرے شریر لوگوں کو سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص اپنے گزشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اس کے لئے اس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل:16)

کہ ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک ان کی طرف کوئی رسول نہ بھیج دیں۔ تو یہ علماء جو بحث کر رہے ہیں کہ عذاب تو آیا ہے لیکن یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے اس کا کوئی تعلق ہے یہ غلط ہے۔ ایک حصے کو تو تسلیم کر رہے ہیں، دلیل تو قرآن و حدیث سے بڑی اچھی دے رہے ہیں لیکن قرآن کریم کی اگلی بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ وہاں ان کی روٹی پر اثر پڑتا ہے۔

تو فرمایا کہ اس سے زیادہ میرامطلب نہ تھا کہ ان زلزلوں کا موجب میری تکذیب ہو سکتی ہے۔ ’’یہی قدیم سنت اللہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا سو سان فرانسسکووغیرہ مقامات کے رہنے والے جو زلزلہ اور دوسری آفات سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ا گرچہ اصل سبب ان پر عذاب نازل ہونے کا ان کے گزشتہ گناہ تھے مگر یہ زلزلے ان کو ہلاک کرنے والے میری سچائی کا ایک نشان تھے کیونکہ قدیم سنت اللہ کے موافق شریر لوگ کسی رسول کے آنے کے وقت ہلاک کئے جاتے ہیں۔ اور نیزاس وجہ سے کہ مَیں نے براہین احمدیہ اور بہت سی کتابوں میں یہ خبر دی تھی کہ میرے زمانہ میں دنیا میں بہت سے غیر معمولی زلزلے آئیں گے‘‘اور وہ اعداد جو مَیں نے دئیے ہیں اس سے ثابت ہو گیا’’اور دوسری آفات بھی آئیں گی اور ایک دنیا ان سے ہلاک ہو جائے گی۔ پس اس میں کیاشک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے۔ یاد رہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں جو اور ملکوں کے رہنے والے ہیں جن کو اس رسول کی خبر بھی نہیں ‘‘۔ تو اب تو خبر بھی دنیا میں ہر جگہ پہنچ چکی ہے عموماً۔ ’’جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک قوم کی تکذیب سے دنیا پر عذاب آیا بلکہ پرند چرند وغیرہ بھی اس عذاب سے باہر نہ رہے۔ غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآن شریف بھی یہی فرماتا ہے۔ …… خلاصہ کلام یہ کہ سنت اللہ اسی طرح پہ جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا اس تکذیب سے کچھ تعلق نہیں۔ پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر پر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے۔ اس لئے باہر کوئی نہیں رہے گا‘‘۔

فرمایا کہ’’اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے

اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا (الرعد:42)

یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں۔ اس میرے بیان میں ان بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آ گیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے۔ اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلے سے ہلاک ہو گئے۔ ان کا کیا قصور تھا، انہوں نے کونسی تکذیب کی تھی۔ سو یاد رہے کہ جب خدا کے کسی مرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خداتعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ان قہری نشانوں سے جو موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے، فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا۔ صرف غریب مارے گئے‘‘۔ یعنی 9 نشان تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے۔ ’’لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اس کے لشکر کو ختم کر دیا۔ یہ سنت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کار انکار نہیں کر سکتا‘‘۔

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ 164-167)

پس یہ جو علماء کہتے ہیں کہ عذاب تو ہے لیکن مسیح کی آمد سے اس کا تعلق نہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا قرآن کریم تو ان کی بات کو رد ّکرتا ہے۔ قیامت کے روز قوم اللہ تعالیٰ سے سوال کرے گی کہ بگڑنے کی پیشگوئیاں تو پوری ہو گئیں اور ہم انتظار میں رہے کہ مسیح و مہدی آئیں، یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور ہمارے علماء بھی انتظار کرواتے رہے اور بغیر مسیح و مہدی کو بھیجے توُ نے ہم پر عذاب بھیج دیا۔ یہ بھی تو سوال اٹھنا چاہئے۔ پس قوم کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے اور اگر علماء کی نیت نیک ہے تو ان کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے۔

پس اب چاہے مسلمان ممالک ہوں یا ایشیا کا کوئی ملک ہو یا افریقہ ہو یا جزائر ہوں یا یورپ ہے یا امریکہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دعوے کے بعد اگر اپنی حالتوں کو نہیں بدلیں گے تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ …

پس جہاں یہ دنیا کے لئے انذار ہے ہمارے لئے بھی فکر کا مقام ہے کہ اپنے دلوں کو پاک کریں ہم بھی کہیں ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ان لوگوں میں شامل ہو کر خدا کے حضور حاضر نہ ہوں جن کے دامن پر کسی بھی قسم کا داغ ہو۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر اب بھی ہم نے ہر ایک تک پیغام پہنچانے کی کوشش نہ کی تو علماء یا دوسرے لوگ تو پرے ہٹ رہے ہیں یا علماء بگاڑ رہے ہیں یا لیڈر بگاڑ رہے ہیں۔ انسانیت کے ساتھ ان کو کوئی ہمدردی نہیں لیکن ہمارا بھی جوانسانیت کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا دعویٰ ہے یہ صرف زبانی دعویٰ ہوگا۔ پس دنیا کے ہرکونے میں، ہر احمدی کو، ہر شخص تک، ہر بگڑے ہوئے تک، یہ پیغام پہنچاناچاہئے کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھکے اور اس کے حکموں پر عمل کرے۔ اللہ سب کو اس کی توفیق دے۔

دعا کرو اور اسبابِ رعایت رکھو!

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک اور اقتباس پڑھتاہوں۔ آپؑ کہتے ہیں کہ

’’اخبار میں چھاپ دو اور سب کواطلاع کردوکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایاہے کہ

غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا۔

آجکل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ مَیں اپنی جماعت کے واسطے خداتعالیٰ سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے۔ مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہو گا۔ دیکھو حضرت نوحؑ کا طوفان سب پر پڑا اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوح کا دعویٰ اور ان کے دلائل کیا ہیں۔ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں یہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ کافر جہنم کو گیا اور مسلمان شہید کہلایا۔ ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ ہم خداتعالیٰ کے حضور دعا میں بہت مصروف ہیں کہ وہ اُن میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے۔ لیکن جماعت کے آدمیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے۔ سب سے اوّل حقوق اللہ کو ادا کرو، اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوقِ عباد کو ادا کرو اور اعمال صالحہ کو پورا کرو۔ خداتعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خداتعالیٰ کے حضور رو کر دعا نہ کی ہو۔ اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 194-195ش جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے حصہ پاتے ہوئے آپؑ کی دعاؤں کے طفیل ہم بھی اور ہماری آئندہ نسلوں میں بھی وہ تمیز قائم رہے جس سے ہمارے اور غیر میں فرق ظاہر ہوتا رہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ جنوری 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍فروری2006ءصفحہ8تا9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button