متفرق مضامین

حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ نبوت کے متعلق بعض اعتراضات کے جوابات۔ سنت انبیاء کی روشنی میں (قسط دوم۔ آخری)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے اٹھارہ سال بعد پانچ ہجری میں آیت خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ یعنی اس مقام سے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا گیا۔ لیکن آپؐ نے بعد میں فرمایا کہ میں تو اس وقت سے خاتم النبیین ہوں جبکہ آدم اپنی مٹی پانی میں گندھا پڑا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا پہلے اعلان کیوں نہیں کیا۔ اٹھارہ سال انتظار کیوں کیا؟ جواب یہی ہے کہ جب اللہ نے بتایا تب اعلان کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن خاتم النبیین بنائے گئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ابتدا سے ہی اس منصب پر فائز تھے بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا، یا اعلان کرنے کی اجازت نہ تھی، اور جب تک آپؐ پر ان باتوں کا انکشاف نہیں ہوا آپؐ منع کرتے رہے کہ مجھے ان مذکورہ انبیاء پر فضیلت نہ دو۔ علامہ ابن حجر العسقلانیؒ اپنی شرح بخاری میں قاضی عیاض کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أحْمَد قَبْلَ أَنْ یَّکُوْن مُحَمَّدًا۔

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم احمد کے مقام پر تھے قبل اس کے کہ محمد کے مقام پر فائز ہوئے۔

(فتح الباری شرح بخاری کتاب المناقب، بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

اب کیا کوئی بے وقوف یہ سوال کرسکتا ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے آپ کو یونسؑ او رموسیؑ وغیرہ انبیاء سے افضل ہونے سے انکار کیا اور اب سب نبیوں سےافضلیت کا دعویٰ ہے، تو اس میں تضاد ہے؟ کیونکہ دراصل نبی اپنی مرضی سے کچھ کرہی نہیں سکتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تصریح نہ فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انکساری اور خاکساری کے ماتحت عدم افضلیت کا ذکر فرماتے رہے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسب سے افضل کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اعلان کردیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک عقلمند کے لیے مندرجہ بالا تحریرات یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی بھی نبی پر اپنے مقام و مرتبہ میں تدریجاً انکشاف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں اور نہ کسی نے اس بات کو صداقت انبیاء کا معیار ٹھہرایا ہے۔ پس اس حقیقت کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اس قسم کا الزام لگانا محض تعصب احمدیت کا نتیجہ ہے اور تعصب کا یہ گُر اِن معترضین مولوی صاحبان نے ولیم میور (William Muir) جیسے معاندین اسلام سے سیکھا لگتا ہے جس نے اپنی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘کے تیسرے باب The Belief of Mahomet in his own Inspiration میں یہ سرخی لگائی ہے:

’’Supposed process by which the conviction that he was to be the messenger of God, gained ground.”

جس کے نیچے وہ لکھتا ہے :

“Thus by degrees he was led on to believe that God had called him to preach reformation to his countrymen.”

یعنی اس طرح درجہ بہ درجہ وہ (آپؐ ) اس یقین کی طرف رہ نمائی کیا گیا کہ خدا نے اُسے اپنی قوم کے لیے اصلاحانہ تبلیغ کے لیے پکارا ہے۔

(The Life of Mahomet Vol. II page 68, by William Muir, London: Smith, Elder & Co. 65, Cornhill, 1858)

(بحوالہ:الفضل انٹرنیشنل8؍دسمبر 2020ء صفحہ 20تا 23)

اس کے ساتھ نماز کی سب سے زیادہ فضیلت، کبھی جہاد کی سب سے زیادہ فضیلت، کبھی والدین کی اطاعت کی سب سے زیادہ فضیلت، کبھی بیوی بچوں کی خبر گیری کی سب سے زیادہ فضیلت، وغیرہ وغیرہ عناوین پر مبنی احادیث کو بھی پیش نظر رکھنا۔ جو ان میں بظاہر سرسری نظر سے اختلاف نظر آتاہے اور درحقیقت یہ تمام احادیث اختلافات سے پاک ہیں، اور جُدا جُدا مفہوم اور مواقع سے تعلق رکھتی ہیں۔

بعینہٖ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی بنیاد وحی اور الہام الٰہی ہے۔ آپ نے اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور براہین احمدیہ میں درج متفرق الہامات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آغاز میں ہی آپ کو محدث، امام مہدی و مسیح موعود اور نبی و رسول ہونے کی بشارت دے دی تھی۔ چنانچہ براہین احمدیہ میں درج آپ کے الہامات میں سے بعض یہ ہیں :

’’لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1صفحہ 267، حاشیہ در حاشیہ نمبر1)

’’أَنْتَ مُحدث اللّٰہِ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1صفحہ 666، حاشیہ در حاشیہ نمبر4)

’’يَا عِيْسَىٰ إِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1صفحہ664، حاشیہ در حاشیہ نمبر4)

’’هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدىٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهِ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ265، حاشیہ نمبر1)

پس آپؑ کے متعلق تدریج کا الزام درست نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ آغاز میں آپؑ اپنی نبوت کو محدثیت کی نبوت سے اشد مشابہت قرار دیتے تھے بعد میں کثرت الہام سے جب آپؑ پر اپنی نبوت کے متعلق تصریح ہوگئی تو آپؑ نے’’محدث‘‘والی تاویل ترک فرمادی اور سرور کونین حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ’’غیر تشریعی ظلی نبوت‘‘کا اعلان کیا۔

پس حقیقت یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ اپنے نبی کوایک بات شرح وبسط سے بیان نہیں کردیتا تونبی اپنی طرف سے از خود اپنا قدم احکام الٰہی سے آگے نہیں بڑھاتا۔ جیسا کہ پہلے تذکرہ کیا گیا ہے کہ جب تک جدید احکامات نازل ہوکر پُرانے احکامات کو منسوخ نہیں کردیتے تھےحضورصلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب سے موافقت کو پسند فرماتے تھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ

كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيْمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيْهِ بِشَيْءٍ

(بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)

یعنی آنحضرتﷺ ان امور کے بارے میں کہ جن کی بابت آپؐ پر کوئی احکامات نازل نہیں ہوئے تھے اہلِ کتاب کے طریقہ کار کی موافقت فرماتے تھے۔

بعینہٖ یہی طریق سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کا ہے۔ نادان مخالف ان کی ترقیات کوا رتقائی کہہ کر ان کے جُھوٹے ہونے کی دلیل گردانتا ہے، حالانکہ یہ بات صداقت کی زبردست دلیل ہے کہ جب وحی الٰہی نےاس راز کو کھول کر بتادیا توحضورعلیہ السلام نےبھی صفائی سے اس کا اظہار فرمادیا، یہ بات آپؑ کی سچائی کی دلیل ہے، ورنہ اگرآپؑ نے منصوبہ بنایا ہوتا تو کبھی بھی ایسا نہ کرتے۔

ایک ضمنی اعتراض

اس بابت ضمنی طورپرایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جب شروع دعویٰ سے نبیوں کی تمام شرائط پائی جاتی تھیں تو آپؑ انکار کیوں کرتے رہے۔ اور بعدمیں انہی شرائط پر نبوت کا دعویٰ بھی کیا توبعد میں وہ کونسی باتیں پیدا ہو گئیں جن کی بناپر نبی ہونے کا دعویٰ کیا؟

جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ نبوت کے اقرار و انکار میں خود تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد18 صفحہ210تا211)

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتراض کی حقیقت حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں واضح کردی جائے۔ آپؓ فرماتےہیں:

’’…یہ اختلاف ایک نہایت چھوٹی سی بات سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں کہ ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں۔ اس تمام اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ دو مختلف اوقات میں نبی کی دو مختلف تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ 1901ء سے پہلے آپ نبی کی اَور تعریف کرتے تھے اور بعد میں آپ نے جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی پر غور فرمایا اور قرآن کریم کو دیکھا تو اس سے نبی کی تعریف اور معلوم ہوئی چونکہ جو تعریف نبی کی آ پ پہلے خیال فرمایا کرتے تھے اس کے مطابق آپ نبی نہ بنتے تھے اس لئے باوجود اس کے کہ سب شرائط نبوت آپ میں پائی جاتی تھیں آپ اپنے آپ کو نبی کہنے سے پرہیز کرتے تھے اور اپنے الہامات میں جب نبی کا نام دیکھتے اس کی تاویل کرلیتے اور حقیقت سے ان کو پھیر دیتے کیونکہ آپ جب اپنے نفس پر غور فرماتے تو اپنے اندر وہ باتیں نہ دیکھتے تھے جن کا انبیاء میں پایا جانا آپ ضروری خیال فرماتے تھے لیکن بعد میں جب آپ کو الہامات میں بار بار نبی اور رسول کہا گیا اور آپ نے اپنی پچھلی تئیس سالہ وحی کو دیکھا تو اس میں برابر ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا تھا پس آپ کو اپنا عقیدہ بدلنا پڑا اور قرآن کریم سے آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی تعریف وہ نہیں جو آپ سمجھتے تھے بلکہ اس کے علاوہ اور تعریف ہے اور چونکہ وہ تعریف جو قرآن کریم نبی کی کرتا ہے اس کے مطابق آپ نبی ثابت ہوتے تھے اس لئے آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا۔

نبی کی وہ تعریف جس کے رو سے آپ اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا یہ کہ اس نے بلا واسطہ نبوت پائی ہو اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو اور یہ تعریف عام طورپر مسلمانوں میں مسلم تھی۔ چونکہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کام کو نہ شروع کرتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آئے اس لئے اسی احتیاط انبیاء سے کام لے کر حضرت مسیح موعودؑ بھی اسی عقیدہ پر قائم رہے کہ نبی میں مذکورہ بالا تین باتیں پائی جانا ضروری ہیں اور چونکہ آپ میں ان باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جاتی تھی اس لئے آپ اپنے الہامات کی یہ تاویل فرماتے کہ نبی سے مراد محدث ہے اور آپ کا درجہ محدثیت کا ہے نہ کہ نبوت کا۔ اور نبی آپ کا نام صرف بعض جزئی مشابہتوں کی وجہ سے رکھ دیا گیا ہے یا صر ف لغت کے معنوں کے لحاظ سے کیونکہ نبوت کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ پس جو شخص خبر دے وہ جزئی طورپر نبی کہلا سکتا ہے اور رسول کا نام پا سکتا ہے۔ لیکن بعد میں آپ نے معلوم کیا کہ نبی کے لئے شرط نہیں کہ وہ ضرور شریعت جدیدہ لائے یا بعض پچھلے حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبوت پائے بلکہ اس کے لئے اور شرائط ہیں جو آپ میں دعوائ مسیحیت کے وقت سے پائی جاتی ہیں اس لئے آپ نے اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کبھی اپنے نبی ہونے سے انکار نہیں کیا۔

اگر کیا تو صرف اس بات سے کہ میں کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں اور نہ ایسا نبی ہوں کہ میں نے بلا واسطہ نبوت پائی ہے۔ پس سارا اختلاف نبوت کی تعریف کے اختلاف سے پیدا ہوا ہے جب تک آپ نبی کی یہ تعریف کرتے رہے کہ اس کے لئے شریعت جدیدہ لانا یا بلاواسطہ نبی ہونا شرط ہے تب تک تو آپ اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے رہے اور گو ان باتوں کا اقرار کرتے رہے جو نبی ہونے کی اصلی شرائط تھیں اور جب آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی شرائط کوئی اور ہیں وہ نہیں جو پہلے سمجھتے تھے اور وہ آپ کے اندر پائی جاتی ہیں تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اقرار کیا۔ چنانچہ حقیقۃ الوحی کی مذکورہ بالا تحریر[نوٹ اس تحریر کا اصل حوالہ یہ ہے:حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:’’اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اور اگر کوئی اَمر میری فضیلت کی نسبت ظاہرہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا ؔ تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 153تا154)۔ ناقل]سے بھی یہ امر ثابت ہے کیونکہ اس میں آپ لکھتے ہیں کہ میں پہلے تو مسیح سے اپنے آپ کو ادنیٰ خیال کرتا رہا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ نبی ہے اور میں غیر نبی۔ لیکن بعد میں جب بار بار مجھ پر وحی نازل ہوئی اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا تو مجھے اپنا عقیدہ بدلنا پڑا۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ نبی کے نام سے تو حضرت مسیح موعودؑ کو براہین کے زمانہ سے یاد کیا جاتا تھا پس صریح طور سے نبی کا خطاب دیا گیا کہ یہ معنی تو ہو نہیں سکتے کہ آپ کو پہلے نبی کا خطاب نہ دیا گیا تھا بعد میں دیا گیا اس لئے فضیلت کا عقیدہ بدل دیابلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے بھی نبی کے نام سے آپ کو پکارا تو جاتا تھا لیکن آپ اس کی تاویل کرتے رہتے تھے لیکن بار بار الہامات میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول کے نام سے پکارا تو آپ کو معلوم ہوا کہ آپ واقعہ میں نبی ہی ہیں غیر نبی نہیں۔ جیسا کہ پہلے سمجھتے تھے اور نبی کا لفظ جو آپ کے الہامات میں آتا ہے صریح ہے قابل تاویل نہیں۔

پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو نبی کا خطاب نیا دیا گیا بلکہ یہ مطلب ہے کہ بار بار کی وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا کہ تیئس سال سے جو مجھ کو نبی کہا جار ہا ہے تو یہ محدث کا دوسرا نام نہیں بلکہ اس سے نبی ہی مراد ہے اور یہ زمانہ تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ تھا اور اس عقیدہ کے بدلنے کا پہلا ثبوت اشتہار ’ایک غلطی کا ازالہ‘سے معلوم ہوتا ہے جو پہلا تحریری ثبوت ہے ورنہ مولوی عبدالکریم صاحب کے خطبات جمعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1900ء سے اس خیال کا اظہار شروع ہو گیا تھا گو پورے زور اور پوری صفائی سے نہ تھا چنانچہ اسی سال میں مولوی صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرسل الٰہی ثابت کیا اور لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ والی آیت کو آپ پر چسپاں کیا اور حضرت مسیح موعودؑ نے اس خطبہ کو پسند بھی فرمایا ہے اور یہ خطبہ اسی سال کے الحکم میں چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پورا فیصلہ اس عقیدہ کا 1901ء میں ہی ہوا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ چونکہ ابتداءً نبی کی تعریف یہ خیال فرماتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبی ہو اس لئے باوجود اس کے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لئے واقع میں ضروری ہیں آپ میں پائی جاتی تھیں آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے رہے اور گو ان ساری باتوں کا دعویٰ کرتے رہے جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے بلکہ محدث کی شرائط سمجھتے تھے اس لئے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعوے کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں پائی نہیں جاتی اور نبی ہونے سے انکار کرتاہوں لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعوے کی آپ شروع دعویٰ سے بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ کیفیت نبوت ہے نہ کہ کیفیت محدثیت۔ تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت کا انکار کیا۔ تمہارا یہ فرض تھا کہ بتاتے کہ ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے اسلام کو منسوخ کر دیا ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر نبوت پائی ہو ورنہ نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے۔

جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ واقعہ ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ 1899ء کے ایک خط میں جو الحکم1899ء میں چھپ چکا ہے نبی کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں :

’’مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآ ن شریف خاتم الکتب ہے۔ ‘‘

(الحکم جلد3 نمبر29۔ 1899ء)

اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ 1901ء سے پہلے آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ اسلام کی اصطلاح کی رو سے نبی وہی ہو سکتا ہے جس میں مذکورہ بالا تین باتوں میں سے کوئی پائی جائے یعنی

(1)وہ جدید شریعت لائے۔

(2)بعض احکام شریعت سابقہ منسوخ کرے۔

(3)یا بلاواسطہ نبوت پائے۔

اور چونکہ یہ باتیں آپ میں پائی نہ جاتی تھیں اس لئے آپ بالکل درست طور پر اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے تھے ہاں چونکہ لغت میں نبی کے لئے ان شرطوں میں سے کوئی شرط مقرر نہیں اس لئے آپ یہ فرما دیتے تھے کہ میرا نام صرف لغوی طور پر نبی رکھا گیا ہے اور اس کی یہ وجہ تھی کہ لغت میں جو شرائط نبی کی پائی جاتی تھیں وہ آپ اپنے اندر موجود پاتے تھے یعنی

(1)کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ

(2)انذار و تبشیر سے پر امور غیبیہ کا اظہار

(3) اور خدا تعالیٰ کا نبی نام رکھنا۔

لیکن اسلامی اصطلاح کو اس تعریف کے خلاف سمجھ کر (کیونکہ عام مسلمانوں کا یہی عقیدہ تھا اور انبیاء انکشاف تام تک عام عقیدہ پر قائم رہتے ہیں ) آپ باوجود سب شرائط نبوت کے موجود ہونے کے اور ان کے پائے جانے کا اقرار کرنے کے اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے۔ مگر بار بار کے الہامات نے آخر آپ کی توجہ کو نبی کے حقیقی مفہوم کی طرف پھیرا اور آپ کے دل پر پورے طور پر امر واقع کا انکشاف ہوا اورقرآن کریم کو بھی آپ نے عام لوگوں کے عقیدہ کے خلاف پایا۔ تو اس سے پہلے عقیدہ کو ترک کر دیا۔ ‘‘

(حقیقۃالنبوة حصہ اول، انوار العلوم جلد2صفحہ445-449)

مدت معیار صداقت پر پورا نہ اترنے کا اعتراض

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جس مدت کو معیار صداقت ٹھہرا یا ہے آپ خود اس پر پورا نہیں اترتے کیونکہ آپ نے1901ء میں دعویٰ نبوت کیا ہے۔ اس پرمزید اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سورۃ الحاقۃ کی آیت

وَلَوۡتَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ۔ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ۔ فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ۔ (الحاقۃ:45تا48)

میں مدعی الہام نہیں مدعی نبوت کا ذکر ہے۔

جواب:حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کرکے مرتے ہیں۔ اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تئیس23برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتدا چالیس برس پر ہوتا ہے اور تئیس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے۔ اسی وجہ سے مَیں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افترا کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے موافق یعنی تئیس23 برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا۔ اس بارے میں میرے ایک دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا(الحاقۃ:45)

میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں۔ اس سے کیونکر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتراکرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا۔ مَیں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول محلِ استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعویٰ کرنے والا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے لئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تئیس23 برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افترا کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہئے تو اس کے لئے نظیریں ہونی چاہئے تھیں۔ اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تئیس 23 برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افتراکئے اور ہلاک نہ ہوئے۔ تو اب بتلائو کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا؟ ‘‘

(اربعین نمبر4، روحانی خزائن جلد17صفحہ434تا435)

حضرت مسیح موعودؑ لیکچر لاہور جو3؍ستمبر 1904ء کا ہے میں فرماتے ہیں :

’’سو مَیں زور سے کہتا ہوں کہ میرا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اِسی شان کاہے کہ ہر ایک پہلو سے چمک رہا ہے۔ اوّل اِس پہلو کو دیکھو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا اور نیز مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہونے کا قریباً ستائیس برس سے ہے۔ یعنی اس زمانہ سے بھی بہت پہلے ہے کہ جب براہین احمدیہ ابھی تالیف نہیں ہوئی تھی۔ اور پھر براہین احمدیہ کے وقت میں وہ دعویٰ اسی کتاب میں لکھ کر شائع کیا گیا جس کو چوبیس برس کے قریب گزر چکے ہیں۔ اب دانا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جھوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہوسکتا اور خواہ کوئی شخص کیسا ہی کذّاب ہو وہ ایسی بدذاتی کا اس قدر دور دراز مدّت تک جس میں ایک بچہ پیدا ہو کر صاحب اولاد ہو سکتا ہے طبعًا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ماسوائے اس کے اس بات کوکوئی عقلمند قبول نہیں کرے گا کہ ایک شخص قریباً ستائیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہے اور ہر ایک صبح اپنی طرف سے الہام بنا کر اور محض اپنی طرف سے پیشگوئیاں تراش کر کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر ایک دن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے۔ حالانکہ خدا جانتا ہے کہ وہ اس بات میں جھوٹا ہے۔ نہ اس کو کبھی الہام ہوا اور نہ خدا تعالیٰ اُس سے ہمکلام ہوا۔ اور خدا اس کو ایک لعنتی انسان سمجھتا ہے مگر پھر بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اور اس کی جماعت کو ترقی دیتا ہے۔ اور ان تمام منصوبوں اور بلاؤں سے اُسے بچاتا ہے جو دشمن اس کیلئے تجویز کرتے ہیں۔ پھر ایک اَور دلیل ہے جس سے میری سچائی روز روشن کی طرح ظاہر ہوتی ہے اورمیرا منجانب اللہ ہونا بپایۂ ثبوت پہنچتاہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا یعنی براہین احمدیہ کے زمانہ میں جبکہ میں ایک گوشۂ تنہائی میں اس کتاب کو تالیف کررہا تھا اور بجز اس خدا کے جو عالم الغیب ہے کوئی میری حالت سے واقف نہ تھا تب اس زمانہ میں خدا نے مجھے مخاطب کر کے چند پیشگوئیاں فرمائیں جو اسی تنہائی اور غربت کے زمانہ میں براہین احمدیہ میں چھپ کر تمام ملک میں شائع ہوگئیں ‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ188تا189)

پس اس اعتراض کی بنیاد صرف اس مفروضہ پرہے کہ درج ذیل آیات میں صرف مدعی نبوت کے لیے وعید ہے۔

وَ لَوۡ تَقَوَّلَ عَلَیۡنَا بَعۡضَ الۡاَقَاوِیۡلِ۔ لَاَخَذۡنَا مِنۡہُ بِالۡیَمِیۡنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعۡنَا مِنۡہُ الۡوَتِیۡنَ۔ فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ۔ (الحاقۃ:45تا48)

اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا۔ تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم یقیناً اس کی رگِ جان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی ایک بھی اُس سے (ہمیں ) روکنے والا نہ ہوتا۔

جبکہ ان آیات کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ان میں صرف مدعی وحی و الہام کا ذکر ہے۔ اگر مدعی نبوت کا ذکر ہوتا تو لَوْ تَنَبَّأَکے الفاظ ہوتے۔ تَقَوَّلَ اور تَنَبَّأَ کے فرق کو لغت کھول کر معترضین کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے الہامات 1880ء سے شائع کرنے شروع کیے۔ گو اس سے قبل بھی آپؑ اپنے الہامات لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن 1880ء سے باقاعدہ کتابی صورت میں بھی لوگوں کے سامنے آنے شروع ہو گئے۔ براہین احمدیہ ہرچہارحصص جو 1880تا1884ء شائع ہوئے ان میں آپؑ نےایک آدھ نہیں بلکہ سینکڑوں الہامات شائع کیے۔ اب ایک ملہم من اللہ ہونے کے دعویدار کے لیےمعیارِ صداقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے زمانے کے باعث 23؍سال ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ 1908ء میں فوت ہوئے۔ اگر1884ء سے بھی حساب لگائیں تو یہ 24؍سال بنتے ہیں۔ جبکہ آپ کو وحی و الہام کا دعویٰ اس سے قبل یعنی1868ءکے قریب سے تھا۔

اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف مدعی نبوت ہی مراد ہے تو پھر بھی یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ حضرت اقدسؑ کا الہام:

ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَی

براہین احمدیہ میں موجود ہے جس میں حضورؑ کو رسول کہہ کر پکارا گیا ہے اور حضورؑ نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی قطع و تین ہونی چاہیے تھی۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ اس الہام کے بعد تقریباً 30؍سال تک زندہ رہے۔

ہما رایہ مذہب نہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ براہین کی تالیف کے زمانے میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضورؑ براہین احمدیہ کے زمانے میں بھی نبی تھے ہاں لفظ نبی کی تعریف جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ تھی کہ نبی کے لیے شریعت لانا ضروری ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مسیح موعودؑ 1901ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں کیونکہ آپؑ کوئی شریعت نہ لائے تھے اس لیے اوائل میں حضورؑ اس تعریف نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ آپؑ صاحب شریعت براہ راست نبی نہیں ہیں لیکن بعد میں جب حضورؑ نے مشیت الٰہی کے تحت نبی کی تعریف سب مخالفین پر واضح فرماکر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لیے شریعت لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا نام نبوت ہے تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسو ل کہا۔ اب ظاہر ہے کہ1901ءسے پہلے کی تعریف نبوت کی رو سےحضورؑ کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضورؑ بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلاً حضرت ہارونؑ، سلیمانؑ، یحییؑ، زکریاؑ، اسحاقؑ یوسفؑ وغیرہ بھی نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے لیکن 1901ء کے بعد کی تشریح کی رو سے ( جو اوپر بیان کی ہے) 1901ءسے پہلے بھی حضورؑ نبی تھے۔

غرضیکہ حضورؑ کی نبوت یا اس کے دعوے کے زمانے کے بارے میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث صرف بحث نبوت کے متعلق ہے ورنہ حضورؑ کا دعویٰ ابتداء سے آخر تک یکساں چلا آتا ہے جس میں کوئی فرق نہیں۔ آپؑ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانے سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے۔ حضرت اقدسؑ نے جس چیز کو1901ءکے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضورؑ نے براہین احمدیہ کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button