حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشقِ قرآن (قسط دوم۔ آخری)
ایک موقع پرگولڑہ (ضلع راولپنڈی ) کے ایک گدی نشین پیرمہر علی شاہ صاحب اور بعض دیگر علماء نے آپ کے مقابلہ پر اپنی علمیت دکھانے کی کوشش کی تو حضور علیہ السلام نے ان نام نہاد علماء کو غیرت دلاتے ہوئے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 431حاشیہ)
پس اس قدر تحدی کے باوجود وقت کے علماء یا گدی نشینوں میں کسی کو بھی مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کی ہوائیں آپ کے حق میں چلتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کواس بارہ میں جو الہام کیا اُس کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’کتاب اعجازالمسیح کے بارے میں یہ الہام ہوا تھا کہ
’’مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَرَیٰ اَنَّہُ تَنَدَّمَ وَتَذَمَّرَ‘‘
یعنی جو شخص غصہ سے بھر کر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے طیار ہوگا وہ عنقریب دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہوا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ 571-572)
تاریخ احمدیت میں حضور علیہ السلام کی اس تصنیف لطیف کے متعلق لکھا ہے کہ
’’سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیر مہر علی شاہ صاحب اور ان کے ہمنوا علماء کو بالمقابل تفسیر فاتحہ شائع کرنے کا جو چیلنج دے رکھاتھا اس کی میعاد حضور نے 15؍دسمبر 1900ء سے 25؍فروری 1901ء تک مقرر فرمائی تھی اور لکھا تھا کہ ’’فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر چھاپ کر شائع نہ کرے۔ اور یہ دن گزر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا اور اس کے کاذب ہونے کے لیے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی۔ ‘‘سو خدا کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضورؑ کے قلم سے 23؍فروری 1901ء کو ’’اعجاز المسیح ‘‘کے نام سے فصیح و بلیغ عربی میں سورہ فاتحہ کی تفسیر چھپ کر شائع ہوگئی جو حضور کا ایک عظیم الشان نشان اور بے مثال علمی معجزہ ہے۔ ‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ167)
حضور علیہ السلام اپنی تصنیف ’’اعجازالمسیح‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا۔ میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کام بھی۔ لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطافِ کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اَسرار عطا کئے گئے ہیں۔ میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے۔‘‘
(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 55تا56، ترجمہ عربی عبارت )
آج تک حضور علیہ السلام کی اس عربی تفسیر کے مقابلہ پر عرب وعجم کے کسی بڑے سے بڑے عالم و فاضل کو تفسیرلکھنے کی جرأت نہیں ہوسکی۔
آقاﷺ کے نقش قدم پر
کتب سیر و احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مقبولﷺ کو خوش الحان آوازوں میں تلاوت قرآن کریم سننا بہت پسند ہے۔ رسول اللہﷺ کی سنت کی اتباع میں حضور علیہ السلام کو بھی اچھی آواز میں قرآن شریف سننا بہت پسند تھا۔ اگر کبھی بیماری کے باعث آپ کی طبیعت خراب ہوجاتی تو اچھی آواز میں تلاوت ِقرآن کریم سن کر آپ کو بیماری سے افاقہ ہو جاتا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’آنحضرتﷺ نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے جب یہ آیت آئی
وَجِئْنَابِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا (النساء:42)
آپ روئے اور فرمایا:بس کر میں آگے نہیں سن سکتا۔ آپ کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گذرا ہوگا۔ ہمیں خود خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہوتو قرآن سنیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 162، ایڈیشن 1988ء)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ اپنے خدام کے ساتھ سیر کے لئے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔ حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا۔ ‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 105روایت نمبر 433)
ایک روز دوران سیر حضور علیہ السلام نے حافظ محبوب الرحمٰن صاحب کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ
’’یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور مَیں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز ان سے قرآنِ شریف سنا کریں گے۔ مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ، صحیح، خوش الحانی سے قرآنِ شریف پڑھنے والا ہو تو اس سے سناکروں۔ ‘‘
پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کرکے حضرتؑ نے فرمایاکہ ’’آج آپ سیر میں کچھ سنائیں۔ چنانچہ تھوڑی دُور جاکر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے سورہ دھر پڑھی جس کے بعد آپ سیر کے واسطے آگے تشریف لے گئے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 197، ایڈیشن 1988ء)
ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کو دوران سر کی شدید تکلیف تھی اس موقع پر حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی کچھ آیات خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں جنہیں سن کر حضور علیہ السلام کو افاقہ ہوگیا۔ گویا محبوب کے محبوب کلام کو محبوبیت کے رنگ میں پڑھا گیا تو عاشق جاںنثار نے نہایت محویت کے عالم میں اس کلام کو سنا جس سے آپ کا رواں رواں سرشار ہوگیا اور شدید جسمانی تکلیف پر کلام الٰہی کی لذت غالب آگئی۔ چنانچہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
’’جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کا می سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا۔ جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ مولوی صاحب مرحوم دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک کہ آپ کو افاقہ ہوگیا۔ ‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 146روایت نمبر 459)
دعوت وپیغام کے ذریعہ عشق کااظہار
حکیم مطلق نے ضرورتِ انسانی کے عین مطابق اپنا شفا بخش کلام نازل فرمایا تھا تا کہ اُس کے بندے اس کلام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگیوں کو سنوارتے رہیں۔ بدقسمتی سے ایک لمبے عرصہ سے عالم اسلام علم کی کمی اور عقل دوستی سے دوری کے سبب یا یوں کہیے کہ علم دشمنی اور جہل دوستی کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہے۔ جب سے انہوں نے قرآن کریم کو مہجور کی طرح چھوڑا ہے وہ جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل کا تعلق زمین سے ہے جبکہ وحی و الہام آسمان سے نازل ہوتے ہیں اوراِن دونوں کے اتصال سے کامل نور وجود پکڑتا ہے۔ وحی والہام کے بغیر نہ تو یقین کامل پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ نورِ فراست حاصل ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس والا صفات کو پہچان سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کلام پاک سے جو نور اور روشنی پائی تھی آپ چاہتے تھے کہ ساری دنیا اس نور سے اپنے سینہ و دل کو منور کرلے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
ہے شکر ربِّ عزّوجلّ خارج از بیاں
جس کے کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں
وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں
ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں
اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا
وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 11)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام و کلام کی روشنی میں قرآن شریف کے پُر حکمت لطائف و نکات، اُس کی صداقتوں، بلاغتوں اورحقائق ومعارف پر اطلاع پاکریقین کی آنکھ سے اپنے محبوب کے چہرے کو دیکھا اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیے گئے علم کلام کی روشنی میں کلام الٰہی کی تاثیرات و برکات کو ایک منفرد اور دلنشیں انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی آپ کی روحانی تحریرات کو فراست کی آنکھ سے پڑھا اور بصیرت کی روشنی میں پرکھا وہ ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی عظمتِ شان کو وہی جان سکتا ہے جس نے الہام وکلام کا مصفّیٰ آسمانی پانی پیا ہو اوروہ اُس منبع سے آشنا ہو جو عرفان و ایقان کی وادیوں سے نکلتا ہے۔ کیونکہ قرآن شریف ایسا معجز نما کلام ہے جو بعید از قیاس استعاروں سے پاک اور دقائق مخفیہ سے پُرہے جس کا ایک ایک لفظ اپنی خوبی و لطافت میں اعجاز نما طاقت رکھتا ہے۔
کلامِ پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لؤلوئے عمّاں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قولِ بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف ونکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرمادیا ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 662حاشیہ نمبر11)
ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرار لا علمی
سُخن میں اُس کے ہمتائی، کہاں مقدورِ انساں ہے
قرآن کریم کے لیے جوش غیرت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم سے جووالہانہ محبت اور عشق کی حد تک پیار تھا یہ اُسی کا نتیجہ تھا کہ آپ اس مقدس کلام کی ذرہ برابر بے ادبی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حضور علیہ السلام کی سیرت کا ایک ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ
’’حضرت مسیح موعودؑ بحیثیت ایک باپ کے نہایت شفیق اور مہربان تھے۔ کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ بچوں کو ماریں۔ پھر اپنی اولاد کی جو خدا تعالیٰ کے نشانات میں سے تھی۔ ہر طرح دلداری فرماتے تھے … باجود اس قدر نرمی اور شفقت علی الاولاد کے جب قرآن مجید کا کوئی معاملہ پیش آجاتا تو بچوں کی کوئی حقیقت آپ کے سامنے نہ رہتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب میاں مبارک احمد
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا
سے جب کہ وہ بہت چھوٹے بچے تھے۔ قرآن مجید کی بے ادبی ہوگئی۔ اس وقت آپ کا چہرہ سُرخ ہوگیا اور ایسے زور سے طمانچہ مارا کہ انگلیوں کے نشان اس گلاب رخسار پر نمایاں ہوگئے۔ اور فرمایا کہ اس کو میری آنکھوں کے آگے سے ہٹالو۔ یہ اب ہی قرآن شریف کی بے ادبی کرنے لگا ہے تو پھر کیا ہوگا۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعودؑ کی قرآنی غیرت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اندرون خانہ میں ایک واقعہ ہوتا ہے۔ اور یہ واقعہ ایک ایسے بچے سے ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور مکلف نہیں معصوم ہے۔ اور کوئی شخص بھی اسے مورد اعتراض نہیں ٹھہرا سکتا۔ پھر باپ وہ باپ جو دوسروں پر بے حد شفیق ہے۔ دشمنوں اور جاں ستاں دشمنوں تک کے قصور معاف کردینے کے لئے وسیع حوصلہ رکھتا ہے۔ بچوں کو سزا دینے کا سخت مخالف ہے اور بچوں کے تنگ کرنے پر بھی گھبراتا اور ہچکچاتا نہیں۔ وہ اس زور سے تھپڑ مارتا ہے کہ منہ پر نشان ڈال دیتا ہے اور پیارے بچے کو سامنے سے ہٹا دینے کے لئے حکم دیتا ہے۔ اس غیرت کی کوئی نظیر دنیا میں پیش کرسکتا ہے؟یہ بات پیدا نہیں ہوسکتی جب تک خدا تعالیٰ کے کلام کی خاص عظمت دل پر نہ ہو۔ ایسی محبت نہ ہو کہ اس کے سامنے دوسری ساری محبتیں ہیچ اور ساری عظمتیں اس پر قربان نہ ہوں۔ غرض آپ کے مطالعہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کا کلام رہتا۔ ‘‘
(حیات احمد جلد اوّل صفحہ 173تا174)
نثر کے ذریعہ عشق کا اظہار
یہ قرآن شریف کی معجزانہ شان ہے کہ وہ صدق سے اپنی طرف آنے والوں کے دلوں سے ظلمت کے تاریک اندھیرے دُور کرکے انہیں نور ایمان سے منور کرد یتاہے۔ قرآن کریم کی اسی خوبی و لطافت کو ایک عاشق صادق نے محسوس کیا، سمجھا اور دنیا کے سامنے کھول کھول کر بیان کیا تاکہ وہ بھی اس قیمتی خزانے سے اپنی جھولیاں بھریں اور ان کے دل یقین و معرفت سے پُر ہوں اور انہیں نور ایمان عطا ہو۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور اُن سب کا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اُس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے اور ہر ایک جو اُس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اُس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ308تا309)
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے۔ اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے بھی عاجز ہیں۔ میں ہر یک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے۔ موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ۔ میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اورسچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ ‘‘
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 345)
سچے عشق کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے آپ کو اپنے محبوب کے رنگ میں رنگین کرلے اور اپنے وجود کو مٹاکر اپنے معشوق میں گم ہوجائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپ کی اوّلین محبت خدا تعالیٰ کی ذات سے تھی اور آپ نے اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق میں فنا کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے بعد محبتِ رسولﷺ آپ کے جسم وجان میں خون کی طرح دوڑرہی تھی کیونکہ اس پاک وجود کے ذریعہ آپؑ نے اپنے ربّ کو پہچاناتھااور کلام پاک سے آپ کا عشق اپنے محبوب کا کلام ہونے کی وجہ سے تھا۔ چنانچہ آپ کی تحریرو تقریراور نظم ونثرمیں عشق ومحبت کے یہ تینوں رنگ بہت نمایاں ہیں۔ حضور علیہ السلام قرآن کی روحانی تاثیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’وہ خدا جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے، وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں۔ وہ کامل علم کا ذریعہ جس سے خدا نظر آتا ہے۔ وہ میل اتارنے والا پانی جس سے تمام شکوک دور ہوجاتے ہیں، وہ آئینہ جس سے اس برتر ہستی کا درشن ہوجاتا ہے، خدا کا وہ مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کا میں ابھی ذکر کرچکا ہوں۔ جس کی روح میں سچائی کی طلب ہے وہ اٹھے اور تلاش کرے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر روحوں میں سچی تلاش پیدا ہو اوردلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں۔ مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اٹھے گا۔ میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے۔ اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں۔ سو یقینا ًسمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کرلیتا ہے۔ اور یقینا ًسمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں۔ میں جوان تھا۔ اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔ ‘‘
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 442تا443)
منظوم کلام کے ذریعہ عشق کا اظہار
شاعری قلبی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ ملکہ ہے۔ جب اشعار دل سےنکلتے ہیں تو وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں۔ شعرو سخن کا یہ سلسلہ ابتدائے انسانیت سے جاری ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا جاری رہے گا۔ انبیاء میں لحنِ دائودی زبانِ زد عام ہے۔ شاعری کی اقسام میں سب سے اعلیٰ اور عمدہ شاعری محبت الٰہی ہے جس میں جذب ہوکر انسان وصل الٰہی سے محبت الٰہی میں سرشار ہوجاتا ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ محبت الٰہی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ عشقِ رسولﷺ سے لبریز نہ ہو۔ شاعری کی اس قسم میں انسانی روح فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ہوکر محبت الٰہی میں گداز ہوجاتی ہے اور الٰہی رضا کی جنتیں اُس کی زندگی کا مقصد بن جاتی ہیں۔ ابتدائے زمانہ سے انسان مختلف انداز میں اپنے جذبات واحساسات کو اشعار کی صورت میں ڈھال کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں رطب اللسان رہا ہے اور مختلف طریق پر اپنی عقیدت اور محبت کے گلہائے رنگا رنگ پیش کرکے دلی تسکین کے لیے کوشش کرتا رہا ہے۔
عام طور پر شاعروں کی اکثریت نے ہمیشہ ہجروفراق اور محبوب مجازی کے عشق اوراُس کے حسن وجمال کے قصے بیان کیے ہیں۔ اگرچہ غالب، حالی، میر اور اقبال جیسے شعراء نے حمد ونعت بھی بیان کی ہے لیکن قرآن کریم کی طرف ان کی توجہ بہت ہی کم گئی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار اس مقدس کتاب کی خوبیاں اپنے کلام میں بیان فرمائی ہیں اورنہایت محبت وعقیدت اور پُراثر طریق پر قرآن کریم کی عظمت اور اس صحیفۂ ہدایت پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں ایک عجب کشش اور جذب ہے جو سننے اور پڑھنے والے کو پاکیزگی کی طرف راغب کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی محبت کی چاشنی سرایت کرجاتےہے۔ حضور علیہ السلام دنیا دار شاعروں سے ہٹ کر صرف اپنے محبوب کا پاک چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فارسی الہام ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’تیرے کلام میں وہ بات ہے کہ عام شعراء کو اس میں دخل نہیں ‘‘
(تذکرہ صفحہ 595و صفحہ 658ایڈیشن سوم )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک عربی الہام کا ترجمہ ہے:
’’تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 106)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شاعری کو روحانیت اور اخلاقیات جیسے بلند مقاصد کے لیے استعمال فرمایا ہے۔ آپؑ نے اپنے شعروں میں اللہ تعالیٰ، کتاب اللہ، رسول کریمﷺ اور اسلام کی خوبیوں کا اس کثرت سے ذکر فرمایاہے کہ اس کی مثال کسی دوسرے شاعر کی شاعری میں قطعاً نہیں مل سکتی۔ حضور علیہ السلام نے رسول کریمﷺ کے ارشاد :اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً (مشکٰوۃ باب البیان والشعر)یعنی شعر بھی دانائی کی باتیں ہی ہوتی ہیں کے مطابق شعروشاعری کو اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا، اسلام کی عظمت وشان، رسول کریمﷺ کے بلند مقام ومرتبہ اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف کی بزرگ تعلیمات کو پھیلانے کا ذریعہ بنایا۔
حضور علیہ السلام نے قرآن کریم کے نور کو پہلے اپنے اندر جذب کیا۔ پھر اس کو پھیلانے کے لیے خود مینارۂ نور بن گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ اشعار جن میں اللہ تعالیٰ، قرآن کریم، نبی کریمؐ اور دین اسلام کا ذکر ہے وہ خاص طور پرعشق ومحبت، جذب وخلوص، معارف وحقائق اور شیرینی و حلاوت سے بھرے ہوئے ہیں اور اہل ذوق کو بار بار اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لا ریب حضورعلیہ السلام کے منظوم کلام میں جو زورِ بیان اور شوکت الفاظ پائی جاتی ہے وہ متقدمین اور متاخرین کے منظوم کلام میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قرآن کریم سے والہانہ عشق ومحبت سے پُر عربی، فارسی اور اردو منظوم کلام کے چند حصے بطورنمونہ درج کیے جارہے ہیں جن سے قرآن کریم کے بارہ میں آپ کی دلی کیفیات کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکتی ہے۔
عربی منظوم کلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےایک عربی قصیدہ قرآن کریم کے فضائل، اُس کی خوبیاں اور اُس کی فصاحت و بلاغت بیان کرنے کے لیے تحریر فرمایا۔ حضور علیہ السلام کے اس قصیدہ میں سے چند اشعار ذیل میں درج کیے جارہے ہیں :
لَمَّا اَرَی الْفُرْقَانُ مِیْسَمَہُ تَرَدَّی مَنْ طَغٰی
مَنْ کَانَ نَابِغَ وَقْتِہِ جاءَ الْمَوَاطِنَ اَلْثَغَا
جب قرآن نے اپنی شکل دکھلائی تو ہر یک طاغی نیچے گرگیا۔ جو شخص اپنے وقت کا فصیح اور جلد گو تھا وہ کند زبان ہوکر میدان میں آیا۔
وَاِذَا أَرٰی وَجْھًا بِأَنْوَارِ الْجَمَالِ مُصَبَّغَا
فَدَرَی الْمُعَارِضُ اَنَّہُ أَلْغَا الْفَصَاحَۃَ اَوْ لَغَا
اور جب قرآن نے اپنا ایسا چہرہ دکھایا جو اَنوارِ جمال سے رنگین تھا۔ تو معارض سمجھ گیا کہ وہ قرآن کے معارضہ میں فصاحت بلاغت سے دور ہے اور لغو بک رہا ہے۔
مَنْ کَانَ ذَاعَیْنِ النُّھٰی فَاِلٰی مَحَاسِنِہِ صَغٰی
اِلَّا الَّذِیْ مِنْ جَھْلِہِ أَبْغَی الضَّلَالَۃَ اَوْ بَغٰی
جو شخص عقلمند تھا وہ قرآن کے محاسن کی طرف مائل ہوگیا۔ ہاں جو باقی رہا وہ گمراہی کا مددگار بنا اور ظلم اختیار کیا۔
نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ھُدیٰ یَوْمًا فَیَوْمًا فِی الثَّغَا
مَنْ کَانَ مُنْکِرَ نُوْرِہِ قَدْ جِئْتُہُ مُتَفَرِّغَا
اس کی ہدایتیں نورٌ علیٰ نور ہیں۔ اور دن بدن وہ نور زیادتی میں ہے۔ جو شخص اس کے نور کا منکر ہے میں اسی کے لیے فارغ ہوکر آیا ہوں۔
فِیْھَا الْعُلُوْمُ جَمِیْعُھَا وَ حَلِیْبُھَا لِمَنِ ارْتَغَا
فِیْھَا الْمَعَارِفُ کُلُّھَا وَقَلِیْبُھَا بَلْ اَبْلَغَا
اور اس میں تمام علم ہیں اور اس میں علوم کا دودھ ہے اس کے لیے جو اوپر کا حصہ کھا رہا ہے۔ اور اس میں تما م معارف اور ان کا کنواں بلکہ اس سے زیادہ ہے۔
اَعْطَی الْوَرٰی بِدِلَائِہِ مَاءً مَّعِیْنًا سَیِّغَا
اَرْوَی الْخَلَآئِقَ کُلَّھُمْ اِلَّا لَعِیْمًا اَبْدَغَا
اس نے اپنے بوکوں کے ساتھ خلقت کو پانی خوشگوار پلایا۔ اور تمام خلقت کو سیراب کیا بجز اس کے جو لئیم اور بدی سے آلودہ تھا۔
(نورالحق جلد اوّل۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 164-165۔ بحوالہ قصائد الاحمدیہ صفحہ142-143)
فارسی منظوم کلام
حضور علیہ السلام اپنی ایک فارسی نظم میں قرآن شریف کی خوبیاں اور اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
از نورِ پاک قرآن صُبحِ صفا دمیدہ
برغنچہائے دِلہا بادِ صبا وزِیدہ
ایں روشنی و لمعاں شمس الضحٰی ندارد
وایں دلبری و خوبی کَسْ در قمر ندیدہ
کیفیّتِ عُلُومش، دانی، چہ شان دارَد
شہدیست آسمانی از وحی حق چکیدہ
آنکس کہ عالِمَش شد، شُد مخزنِ مَعارِف
وآں بے خَبَر زِ عالَم، کیں عالمے ندیدہ
بارانِ فضلِ رحماں آمد بہ مقدمِ او
بد قسمت آنکہ ازوَے سوئے دِگر دوِیدہ
اَے کانِ دِلرُبائی، دانم کہ از کُجائی
تو نُورِ آں خدائی، کِیں خَلق آفریدہ
میلم نماند باکس، محبوب مَن تُوئی بس
زِیرا کہ زاں فغاں رس نورت بما رسیدہ
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 304-305حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)
ترجمہ: قرآن پاک کے نور سے روشن صبح نمودار ہوگئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِ صبا چلنے لگی۔
ایسی روشنی اور چمک تو دوپہر کے سورج میں بھی نہیں اور ایسی کشش اور حسن تو کسی چاندنی میں بھی نہیں۔
تجھے کیا پتہ کہ اس کے علوم کی حقیقت کس شان کی ہے؟ وہ آسمانی شہد ہے جو خدا کی وحی سے ٹپکا ہے۔
جو اس کا عالم ہوگیا وہ خود معرفت کا خزانہ بن گیا اور جس نے اس عالم کو نہیں دیکھا اُسے دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں۔
رحمان کے فضل کی بارش ایسے شخص کی پیشوائی کو آتی ہے بدقسمت ہے وہ جو اسے چھوڑ کر دوسری طرف بھاگا۔
اے کانِ حُسن میں جانتا ہوں کہ تو کس سے تعلق رکھتی ہے تُو تو اُس خدا کا نور ہے جس نے یہ مخلوقات پیدا کی ہے۔
مجھے کسی سے تعلق نہ رہا اب تو ہی میرا محبوب ہے کیونکہ اُس خدائے فریاد رَس کی طرف سے تیرا نور ہم کو پہنچا ہے۔
(ترجمہ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ درثمین فارسی صفحہ 74تا75، شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی۔ رام گلی نمبر 3۔ لاہور۔ طبع دوم 1967ء )
کلامِ پاک آں بیچوں دہد صد جام عرفاں را
کسے کو بیخبر زاں مَے چہ داند ذوقِ ایماں را
نہ چشمست آنکہ در کوری ہمہ عمرے بسر کروست
نہ گوش ست آنکہ نشنیدست گاہے قولِ جاناں را
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 223 حاشیہ)
خدا کا پاک کلام عرفان کے سو جام دیتا ہے جو اس شراب سے بے خبر ہے وہ کہاں ایمان کا مزہ جانتا ہے۔
اُسے آنکھ نہیں کہنا چاہیئے جو ساری عمر اندھی رہی ہو نہ وہ کان کان ہے جس نے کبھی محبوب کی بات نہ سنی ہو۔
(ترجمہ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ درثمین فارسی صفحہ 66، شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی۔ رام گلی نمبر 3۔ لاہور۔ طبع دوم 1967ء )
از وحی خدا صبح صداقت بِدمیدہ
چشمے کہ ندید آں صُحُفِ پاک چہ دیدہ
آں دیدہ کہ نورے نگرفت ست زفرقاں
حقّا کہ ہمہ عمر ز کوری نہ رہیدہ
با خور ندہم نسبت آں نور کہ بینم
صد خور کہ بہ پیرامنِ او حلقہ کشیدہ
بے دولت و بد بخت کسانیکہ ازاں نور
سر تافتہ از نخوت و پَیوند بریدہ
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 335حاشیہ نمبر 11)
خدا کی وحی سے صبح صداقت روشن ہوگئی جس آنکھ نے یہ صحفِ پاک نہیں دیکھے اُس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔
وہ آنکھ جس نے قرآن سے نور اخذ نہیں کیا خدا کی قسم وہ ساری عمر اندھے پن سے خلاصی نہ پائے گی۔
میں سورج سے اس نور کو تشبیہ نہیں دے سکتا کیونکہ دیکھتا ہوں کہ اس کے گرد سینکڑوں آفتاب حلقہ باندھے کھڑے ہیں۔
وہ لوگ بدقسمت اور بدنصیب ہیں جنہوں نے اس نور سے تکبر کی وجہ سے رُوگردانی کی اور تعلق توڑ لیا۔
(ترجمہ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ درثمین فارسی صفحہ 75تا76، شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی۔ رام گلی نمبر 3۔ لاہور۔ طبع دوم 1967ء )
ہست فرقان آفتابِ علم و دین
تا برندت از گمان سوئے یقین
ہست فرقان از خدا حبل المتین
تا کشندت سوئے ربُّ العالمیں
ہست فرقان روزِ روشن از خدا
تا دہندت روشنئے ویدہ ہا
حق فرستاد این کلامِ بے مثال
تا رسی در حضرتِ قُدس و جلال
داروئے شک سب الہامِ خدائے
کاں نماید قدرتِ تامِ خدائے
ہر کہ روئے خود زِ فرقاں در کشید
جانِ او روئے یقین ہرگز نہ دید
وحی فرقاں مرگاں را جاں دہد
صد خبر از کوچۂ عرفاں دہد
از یقیں ہامے نماید عالمے
کاں نہ بیند کس بصد عالم ہمے
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 160حاشیہ نمبر11)
قرآن مجید علم اور دین کا سورج ہے اور وہ تجھے شک سے یقین کی طرف لے جائے گا۔
قرآن خدا کی مضبوط رسّی ہے اور وہ تجھے ربّ العالمین کی طرف کھینچ کر لے جائے گی۔
قرآن خدا کی طرف سے ایک روشن دان ہے تاکہ تجھے روحانی آنکھوں کی روشنی بخشے۔
خدا نے اس بے نظیر کلام کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ تو اس پاک اور ذوالجلال کی درگاہ میں پہنچ جائے۔
خدا تعالیٰ کا الہام شک کی دوا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی کامل قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔
جس نے قرآن سے رُوگردانی اختیار کی اُس نے یقین کا منہ ہرگز نہیں دیکھا۔
قرآن کی وحی مُردوں میں جان ڈال دیتی ہے اور معرفت الٰہی کی سینکڑوں باتیں بتاتی ہے۔
اور یقینی علوم کا ایسا جہان دکھاتی ہے جو کوئی سو جہانوں میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔
(ترجمہ از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ درثمین فارسی صفحہ 47تا48، شائع کردہ محمد احمد اکیڈمی۔ رام گلی نمبر 3۔ لاہور۔ طبع دوم 1967ء )
اردو منظوم کلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرآن شریف کی شان میں چند اردو اشعار بطور نمونہ ذیل میں درج کیے جارہے ہیں جن کے لفظ لفظ اور حرف حرف سے عشق ومحبت کا اظہار ہو رہا ہے جو ہر پڑھنے والے کے قلب وروح کو گرمانے کے لیے کافی ہے۔
شکرِ خدائے رحماں! جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہی ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے
دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھُدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 455)
اے عزیزو سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں
ان پہ اس یار کی نظر ہی نہیں
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشق دلبر
دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے
سینہ کو خوب صاف کرتا ہے
بحر حکمت ہے وہ کلام تمام
عشق حق کا پلا رہا ہے جام
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 299تا300حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلٰی نکلا
پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا
حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا
ناگہاں غیب سے یہ چشمہ اصفی نکلا
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا
(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1حاشیہ در حاشیہ صفحہ 305)
خلاصہ کلام یہ کہ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے لیے چن کر اپنے دین کے لیے خاص کرلیتاہے انہیں اُس کا دست قدرت ابتدا ہی سے تھام لیتا ہے۔ وہ اُسی کے لیے جیتے اورمرتے اور اُسی کے لیے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اُن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور اُن کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی قرآن شریف سے والہانہ اور بے پناہ محبت کے پیچھے بھی یہی جذبہ کار فرماتھا کہ وہ آپ کے محبوب کا پاکیزہ اور بابرکت کلام ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو قرآن شریف کے حقائق ومعارف بیان کرنے کی اعجاز نما قوت عطا کی تھی اور تمام زندگی آپ کا سہارا بنا رہا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کرسکے۔ ‘‘
(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 496)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے اور اُسے ہر دل میں جاگزیں کرنے کا جو جذبہ کارفرماتھا اُسی کا اظہار حضور علیہ السلام کی درج ذیل تحریر سے بھی ہوتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ
اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ
کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ ‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 27)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعلیم قرآن کےمطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمیں بھی وہ نورِ ایمان اورنورِ فراست حاصل ہوجائے جو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہونے کی صورت میں اُس کے مقربین کو دیا جاتا ہے۔
اک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف
نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار
اک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے
بعد اس کے ظن غالب کو ہیں کرتے اختیار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 147)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بتائے ہوئے رستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی قرآن کریم کی تعلیمات کو حرز جان بنا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے والے بن جائیں۔ آمین یاربّ العالمین۔
٭…٭…٭