متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے انقلاب انگیز لٹریچر کے 17 امتیازی پہلو (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

آپؑ نے سیف کا کام قلم سے دکھایا اور نئے ارض و سما تخلیق کیے

14۔ دنیا کے ایوانوں میں

حضرت مسیح موعودؑکے قلب منورکی تجلی سے وہ صبح صادق ظہورپذیر ہوئی جس کے متعلق خدا نے خبر دی تھی کہ (ترجمہ): زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائیں گی۔ (تذکرہ صفحہ189)وہ حقائق جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑپر کفر کے فتوے لگائے گئے آج وہی باتیں دنیا کے ایوانوں میں گونج رہی ہیں۔ اس شعرکے مصداق کہ

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

امام آخرالزماں کے پیش کردہ سچے دینی عقائد اورناقابل تسخیر نظر یات کی دنیا بھر کے دانشور تحسین کرتے ہیں۔ مثلاً:

٭…کسر صلیب

حضرت مسیح موعودؑ نے 1891ء میں وفاتِ مسیح کا اعلان کیا اورلندن میں 1978ء میں کسرصلیب کانفرنس میں برطانیہ، سپین، چیکو سلواکیہ اوربھارت کے مسلمان اور عیسائی محققین نے مسیحؑ کی صلیبی موت سے نجات اور کشمیرمیں وفات کا برملا اعلان کیا۔ موازنۂ مذاہب کے مشہور ہسپانوی سکالر فیبر قیصر (A.Faber Kaiser)قبر مسیح کی تحقیق کے لیے خود کشمیر گئے اورانتہائی محنت و قابلیت سے قابل قدر تاریخی معلومات فراہم کرکے ایک ضخیم کتاب شائع کی جس کا نام ہی یہ رکھا کہJesus Died in Kashmir یعنی یسوع کشمیر میں فوت ہوئے۔ دَورحاضر میں بہت سے عرب زعماء حضرت مسیح کی طبعی وفات کے قائل ہوچکے ہیں۔ السید محمد رشید اور السید عباس محمود العقاد نے تسلیم کیا کہ عقلی نقلی اور تاریخی اعتبار سے سرینگرکے محلہ خانیار میں واقع مقبرہ حضرت مسیح علیہ السلام ہی کا ہے۔

(تفسیر المنار جلد6صفحہ43ناشردارالمعرفہ بیروت۔ حیاة المسیح فی التاریخ و کشوف العصر صفحہ255تا256ناشر دارالکتاب ا لعربی بیر وت 1969ء)

ایرانی مفسر مولانا زین الدین نے اپنی تفسیر میں لکھاکہ حضرت مسیح علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں جس پر آپ نے مشرق کارخ اختیار کیا اور کشمیر اورمشرقی افغانستان کے اسرائیلی قبائل کی طرف ہجرت کرگئے اورانہیں وعظ ونصیحت فرمائی۔

٭…یاجوج ماجوج

حضرت مسیح موعودؑ نے مغربی اقوام کے مذہبی اورسیاسی فتنوں کو دجال اوریاجوج ماجوج قرار دیا۔ آج عرب لیڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ الشیخ عبداللہ بن زید آل محمود وزیر مذہبی امور قطراور الشیخ عبدالرحمٰن بن سعدی کے نزدیک یاجوج ماجوج سے مراد روس، امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی اقوام ہیں۔

(رسالہ ’’لامہدی ینتظر ‘‘صفحہ 75تا79مطبوعہ ریاست قطر)

ریسرچ سکالر علی اکبر صاحب لکھتے ہیں :

’’یورپی اقوام ہی یاجوج و ماجوج ہیں اور آسمان میں تیر چلانے سے مراد طاقتور راکٹ ہیں۔ ‘‘

(اسرائیل قرآنی پیشگوئیوں کی روشنی میں صفحہ28 مکتبہ ’’شاہکار‘‘ لاہور جون1976ء)

مولانا ابوالجمال احمد مکرم صاحب عباسی چڑیا کوٹی (رُکن مجلس اشاعة العلوم حیدرآباد دکن)نے پادریوں کو دجال اورریل کو خرِ دجال قراردیا۔

(حکمت بالغہ جلد 2صفحہ126تا142مطبع دائرة المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن 8؍جمادی الاولیٰ 1332ھ۔ 5؍اپریل 1914ء)

٭…ام الالسنہ

1895ء میں ناقابل تردید دلائل سے حضرت مسیح موعودؑ نے عربی کو ام الالسنہ قرار دیا۔ عیسائی ماہر لغت رائل عرب اکیڈمی کے ممتاز ممبر اور’’لغة العرب‘‘کے ایڈیٹر انستاس الکرمی (1866ءتا1947ء) نے 1935ء میں ببانگ دہل عربی کے ام الالسنہ ہونے کا اعلان کیا۔

(بحوالہ الفضل سالانہ نمبر1978ء صفحہ37)

برصغیر کے مولانا عبدالرحمٰن طاہر سواتی لکھتے ہیں کہ عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے میں شک نہیں۔

(تاریخ الادب العربی اردو ایڈیشن صفحہ26 ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہورجون 1961ء)

مفتی محمد شفیع صدر مدرسہ دارالعلوم کراچی لکھتے ہیں کہ حکومت الٰہیہ کی دفتری زبان عربی ہے کہ سب سے پہلے انسان کو وہی سکھائی گئی اور بالآخر جنت میں پہنچ کر تمام انسانوں کی زبان وہی ہو جائے گی۔

(مقدمہ المنجد عربی اردو ناشر دارالاشاعت کراچی جولائی 1973ء )

٭…نزول جبریلؑ

نزول جبریلؑ کے متعلق مولانا اللہ یارلکھتے ہیں :

’’جبریل ولی اللہ کے پاس آسکتے ہیں۔ صرف وحی شرعی اوروحی احکامی کا سلسلہ ختم ہواکیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ ‘‘

(دلائل السلوک صفحہ127)

٭…مسئلہ جہاد

جہاد کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ پر بہت طعن وتشنیع کی گئی مگر آج تمام عالم اسلام اسی حقیقت کو بیان کرنے پر مجبور ہے جو حضورؑ نے بیان فرمائی تھی۔ مولانا زاہدالحسینی لکھتے ہیں :

’’یہ جہاد بالقلم کا دورہے آج قلم کا فتنہ بڑا پھیل گیاہے آ ج قلم کے ساتھ جہاد کرنے والا سب سے بڑا مجاہد ہے۔ ‘‘

( ماہنامہ خدام الدین لاہور۔ یکم اکتوبر 1965ء بحوالہ تبصرہ از ابو قیصرآدم خان صاحب صفحہ440ربوہ 1976ء)

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے ایک دفعہ کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کے ہاتھ میں کتاب کی بجائے بندوق تھمائی۔ درحقیقت آج دنیا کا مقابلہ بندوق سے نہیں بلکہ قلم کے ذریعے کیا جا سکتاہے۔

(روزنامہ جنگ راولپنڈی 9؍مئی 2006ء)

شاہ فیصل نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا کہ جہادصرف بندوق اٹھانے یا تلوار بے نیام کرنے کا نام نہیں بلکہ جہاد تواللہ تعالیٰ کی کتاب اوررسول مقبولﷺ کی سنت کی طرف دعوت دینے، ان پر عمل پیرا ہونے اورہرقسم کی مشکلات، دقتوں اورتکالیف کے باوجود استقلال سے ان پر قائم رہنے کا نام ہے۔

(رسالہ ام القریٰ مکہ معظمہ۔24؍اپریل 1965ء بحوالہ تبصرہ از ابوقیصرآدم خان صاحب صفحہ438ربوہ 1976ء)

ایرانی عالم آیت اللہ مرتضیٰ مطہری لکھتے ہیں :

’’پیغا م قرآن مجید نے بنیادی طور پر وضاحت کردی ہے کہ جہاد، بالادستی اوراقتدار کی جارحانہ جنگ نہیں جارحیت کے مقابلہ کا نام ہے۔ ‘‘

معروف دینی سکالرشاہ بلیغ الدین لکھتے ہیں :

’’اسلام انسانی کشت وخون کوحرام قرار دیتا ہے۔ قرآن میں حکم ہے کہ ’’ایک بے گناہ انسان کو مارنا پوری قوم کو ختم کردینا ہے‘‘۔ جہاد اورقتال یعنی جنگ یہ دونوں الگ الگ صورتیں ہیں۔ مسلمان اس وقت تک لڑائی پر نہیں نکل سکتاجب تک مذاکرات اورسفارتی تعلقات سے امن برقرار رکھنے کی پوری کوشش نہ کرے۔ اس کے بعد اگر مخالف میدان جنگ میں نکل آئے اوردونوں فوجیں آمنے سامنے ہوں توبھی مسلمانوں کو حکم ہے کہ ایک مرتبہ اورصلح کی کوشش کریں اگر مخالف نہ مانے تو بھی اس صورت میں مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنی طرف سے پہل نہ کریں دشمن حملہ کردے توصرف اپنے بچاؤ کے لئے ہتھیار اٹھائیں۔ یہی قرآن کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’جنگ اگر تم پرتھوپ دی جائے تب تم مدافعت کرسکتے ہو‘‘۔

(مضمون مطبوعہ نوائے وقت مورخہ 5؍نومبر1906ء ادارتی صفحہ)

٭…انگریز کا انصاف

حضرت مسیح موعودؑ نے حکومت برطانیہ کے انصاف اورامن پسندی کو سراہا، مدتوں دشمن اس پر معترض رہے مگر آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انگریز استعمار نہیں بلکہ برصغیر کا معمارتھا اور اس کاانصاف یاد کرکے روتے ہیں۔ حسن نثار اپنے کالم میں لکھتے ہیں :

’’14؍اگست 1947ء والی آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کے حکمران طبقوں نے ’’آزاد عوام‘‘کے ساتھ جو کچھ کیا اسے دیکھنے کے بعد ہر کوئی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ انگریز استعمار تھا یابرصغیر کا معمار؟ سوال یہ نہیں کہ آزادی کے نتیجہ میں برصغیر کے مسلمان ہندوستان، پاکستان اوربنگلہ دیش میں منقسم ہو کر اپنا امپیکٹ کھو بیٹھے…سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عام پاکستانیوں پر کیا گزری اورگزر رہی ہے؟ کیا ہمارے ’’ذاتی‘‘حکمرانوں نے ہمارے ساتھ ’’انگریزاستعمار‘‘سے بہتر سلوک کیا؟ استعمار نے کیا دیا اور ’’رشتہ دار ‘‘ نے کیا کچھ چھین لیا؟

آج پورے برصغیر میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے… انفراسٹرکچر ہو یا دیگر سسٹمز سب گورے کے گیان ودھیان کا نتیجہ ہے ورنہ مقامیوں نے توکبھی ماچس تک نہ دیکھی تھی۔ انگریز نے سول و ملٹری ڈھانچہ کے ساتھ ساتھ دنیا کا عظیم ترین نظام آبپاشی دیا۔ بہت سے نئے شہر آباد کئے، ریلوے کا جال بچھایا، پل اورسرنگیں تعمیر کیں، سکولوں، کالجوں اوریونیورسٹیوں کی چین بنائی، ٹیلی گراف، ٹیلی فون، بجلی اوربینکنگ سے لے کر عدالتی نظام تک …یتیم خانوں سے لے کر پھولوں کی نمائش کے تصور تک …میز کرسی کے استعمال سے لے کر دہلی میں پہلے طبیہ کالج کی تعمیر تک …جو کچھ ہے اسی استعمارکی یاد ہے۔ ہم نے توصرف جعلی الاٹمنٹوں کی ٹیکنالوجی ایجاد کی یا مختلف قسم کے مافیا ز تخلیق کئے اورآج بھی انگریز کے دیئے ہوئے نظام کے’’لنڈے ‘‘کو ہی کانٹ چھانٹ کر پہن رہے ہیں۔ ‘‘

(روزنامہ ایکسپریس فیصل آباد۔ 23؍جولائی 2006ء)

15۔ علمی استفادہ

حضرت مسیح موعودؑ کے بلند پایہ لٹریچر نے مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی رائے ہی نہیں بدلی بلکہ ان مضامین کو بیان کرنے کے لیے ان کے پاس اس صاحب قلم کے الفاظ سے بہتر الفاظ بھی نہیں تھے۔ اس لیے بے شمار مخالفین نے آپ کی کتب اورکلام منظوم کو نقل کیا اور اسے اپنے یا کسی اورنام سے شائع کیا ہے۔ ان میں مفتی، صحافی، مناظر، خطیب، شعرا ٫، ماہرین تعلیم، قانون دان اوروکلاء سب شامل ہیں اوران کے حوالے مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت نے ایک ضخیم کتاب بیسویں صدی کا علمی شاہکار میں جمع کر دیے ہیں اس میں منظوم اور منثور دونوں کلام شامل ہیں اسی کتاب سے چند ایک مثالیں پیش کرتاہوں۔

مشہور دیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب ’’ احکام اسلام عقل کی نظر میں ‘‘میںکشتی نوح، نسیم دعوت، اسلامی اصول کی فلاسفی، آریہ دھرم، برکات الدعا کے صفحے کے صفحے نقل کیے ہیں۔ ممتاز بریلوی عالم محمدافضل شاہد صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’تھانوی صاحب نے قادیانی کی مذکورہ بالا کتاب سے پیراگراف اور صفحے درصفحے اپنی کتاب میں نقل کرڈالے لیکن کتاب و مصنف کا حوالہ تک نہ دیا۔ شاید تھانوی صاحب کو یہ خطرہ تھا کہ اگر حوالہ دیا توپیروکار اورمریدبھاگ نہ جائیں … اگر تھانوی صاحب کے اس طرز عمل پر غور کیا جائے تو تھانوی صاحب قادیانی کے مذکورہ بالا دعووں کے مطابق کہ یہ الہامی مضمون ہے اورسب پر غالب آئے گا وغیرہ کی اپنے عمل سے تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ بات قابل غورہے کہ تھانوی صاحب کا اصل مقصد قادیانی کی تعبیروتشریح کو چوری کرناتھا۔ الفاظ کی چوری تو اس لئے کی گئی ہے کہ ان سے بہتر الفاظ کا انتخاب ممکن نہ تھا …۔ ‘‘

(ماہنامہ القول السدید مئی 1993ء صفحہ88تا108)

مولوی صاحب دیوبندی مکتب فکر میں مجدد الملہ کہلاتے ہیں ۔انہوں نے اس کتاب میں حضرت مسیح موعودؑ کی کئی کتب سے سرقہ کیا۔ مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شا ہد صاحب نے روزنامہ الفضل 5 اور 7؍مئی 1983ء میں اس سرقہ کا پردہ چاک کیا تو پاکستان کے نامور ادیب جمیل احمد عدیل نے مؤرخ احمدیت کے نام خط میں لکھا کہ آپ کی اس مایہ ناز تحریر سے …دیوبندی مکتب فکر میں زلزلہ آ گیا ہے۔

(بیسویں صدی کا علمی شاہکار صفحہ 133)

حضرت مسیح موعودؑ کا شہرہ آفاق عربی قصیدہ ہے:

یاعین فیض اللّٰہ و العرفان

مولوی جان محمد صاحب ایم اے ایم اوایل منشی فاضل، مولوی فاضل کی کتاب ’’اصلی عربی بول چال مکمل کلام ہے‘‘ کے آخر میں اس قصیدہ کے 70؍میں سے 58؍اشعار نقل کیے گئے ہیں۔

ایک مولوی صاحب نے اپنی کتاب’’کتاب اسلام‘‘میں اسلامی اصول کی فلاسفی قریباًپوری نقل کرلی اورآئینہ کمالات اسلام، چشمہ معرفت اور کشتی نوح سے جابجا مضامین نقل کیے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی مشہور فارسی نعت ہے:

جان و دلم فدائے جمال محمد است

پیر کرم شاہ صاحب جن کو عصر حاضر کا مجدد کہا جاتا ہے انہوں نے اپنے رسالہ ضیائے حرم میں یہ پوری نعت نہایت جلی اورنفیس قلم سے بغیر نام کے شائع فرمائی۔

(رسالہ ضیائے حرم اپریل 1972ء)

مشہور معاند سلسلہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے 4؍جنوری 1924ء کو لاہورکے جلسہ میں تقریرکرتے ہوئے آخر میں فرمایا: چونکہ میں قرآن مجید کواپنا بلکہ جملہ انسانوں کا کامل ہدایت نامہ جانتا ہوں اس لیے اپنا اعتقاد دو شعروں میں ظاہر کرکے بعد سلام رخصت ہوتا ہوں۔

جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا

بھلا کیوں کر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے

(فتاویٰ ثنائیہ جلداول صفحہ 86۔ ناشرادارہ ترجمان السنہ 7۔ ایبک روڈ لاہور)

مولانا حافظ عطاء اللہ صاحب کے رسالہ ’’اعجاز قرآن‘‘ کے سرورق پر نہایت جلی قلم سے یہ الفاظ درج ہیں :

’’اس رسالہ میں بحمدہ تعالیٰ دہریت، آریت، عیسائیت، بہائیت اور قادیانیت کے خیالی قلعوں کو اعجاز قرآن کی تین اقسام سے بمباری کرکے بکلی مسمار کردیا گیاہے۔ ‘‘

مولانا نے ’’قادیانیت کے خیالی قلعے‘‘پربمباری کے لیے یہ دلچسپ طریق اختیار کیا کہ رسالہ کے صفحہ104پر ’’درمدح قرآن‘‘کے زیر عنوان حضرت مسیح موعودؑ کی یہ نظم شائع کی:

جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

اوربعض شعروں میں تصرف بھی کردیا ہے۔

’’مجلس ختم نبوت پاکستان‘‘کے مرکزی رہ نماؤں نے فروری1971ء میں انگریزی زبان میں ایک رسالہ ارکان اسمبلی میں تقسیم کے لیے شائع کیا جس کا نام تھا:

AN APPEAL TO THE MEMBERS OF NATIONAL ASSEMBLY OF PAKISTAN

اس میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا اورحضرت مسیح موعودؑ کے 2شعر بھی لکھے جن کو ڈاکٹر اقبال سے منسوب کر دیا۔

ہست او خیرالرسل خیرالانام

ہر نبوت را برو شد اختتام

ختم شد ہر نفس پاکش ہر کمال

لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے

مولانا سید نذیر الحق قادری صاحب کی کتاب الاسلام میں پنجگانہ نمازوں کے اوقات کی حکمت سے متعلق کئی اقتباس درج ہیں(صفحہ686تا صفحہ688) یہی مضمون مشہوردیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب’احکام اسلام عقل کی نظر میں‘ میںبغیر حوالے کے درج کیا ہے۔ (49تا51)

حضرت مسیح موعودؑ کے بعض پر زور اقتباسات جی ایم مفتی صاحب مدیر ہفت روزہ قائد مظفر آباد آزاد کشمیر نے عذاب الٰہی کے عنوان کے تحت 23؍اگست1973ء کو اپنے اداریہ میں بغیر حوالہ کے قلمبند کیے۔ بزرگ کشمیری صحافی میر عبدالعزیز صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ انصاف راولپنڈی نے اس سرقہ کا پول کھولا اور کشتی نوح اور اداریہ کے اقتباس کا عکس شائع کرتے ہوئے سخت گرفت کی اور لکھاکہ حوالہ دے کر مرزا صاحب کی عبارت نقل کرنا نہ جرم ہے اور نہ گناہ لیکن جرم یہ ہے کہ مفتی نے اسے اپنا اداریہ قرار دے دیا ایک تو ادبی سرقہ کیا دوسرے احمدیت کی تبلیغ کا وہ نرالا طریقہ ایجاد کیا جو کسی احمدی نے بھی آج تک اختیار نہ کیا۔

(انصاف22؍اپریل1976ءصفحہ6)

مولانامحمد مکی صاحب ایڈیٹر The Muslim Digest جنوبی افریقہ نے جولائی، اگست 1990ء کے شمارے میں ایک اداریہ لکھا جو کشتی نوح کے انگریزی ترجمہ سے ماخوذ تھا۔

ایک مولوی صاحب نے اپنی کتاب’’کتاب اسلام‘‘ میں اسلامی اصول کی فلاسفی قریباًپوری نقل کرلی اورآئینہ کمالات اسلام، چشمہ معرفت اور کشتی نوح سے جابجا مضامین نقل کیے۔

یہ ایک طویل سلسلہ ہے اور جن موضوعات پر سرقہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ حمد باری تعالیٰ۔ شان مصطفیٰﷺ۔ عظمت قرآن کریم۔ اخلاقیات۔ فلسفہ احکام شریعت۔ تصوف۔ علم الارواح۔ علم مکاشفہ وغیرہ

16۔ اردوکی نئی زندگی

حضرت مسیح موعودؑ کے آب حیات نے اردو زبان کو بھی نئی زندگی سے ہمکنار کیا۔ ماہ دسمبر1913ء میں آل انڈیا محمڈن اینگلو اورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس کا ستائیسواں اجلاس آگرہ میں منعقد ہوا۔ خواجہ غلام الثقلین نے اپنے خطبہ صدارت میں خاص طورپر ان مشاہیر کا ذکرکیا جنہوں نے اردو کی ترقی میں نمایا ں حصہ لیا۔ اس ضمن میں آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کو ان مایہ ناز ہستیوں کی صف میں شمار کیاجن کو آج اردو زبان میں بطور سند پیش کیا جاتاہے۔ مثلاً پروفیسر آزاد، مولانا حالی، سرسید احمدخاں، داغ، امیر، جلال لکھنوی۔

(رپورٹ اجلاس مذکورہ صفحہ76)

کرزن گزٹ کے مشہور ایڈیٹر جناب مرزا حیرت صاحب دہلوی نے تحریر فرمایا:

’’مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جواس نے آریوں اورعیسائیوں کے مقابلہ میں … کی ہیں۔ وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اورایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کویہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا…اگرچہ مرحوم پنجابی تھامگراس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندیٔ ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں …اس کا پُرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالہ ہے۔ اورواقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجدکی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا راستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا۔ ‘‘

(اخبار کرزن گزٹ دہلی۔ یکم جون1908ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ189)

حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات مندرجہ ’’کشتی نوح‘‘ سے متاثر ہو کر اردو ادب کے ایک بہت بڑے نقاد جناب وقار عظیم نے ایک روز کلاس روم میں کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی تحریر کسی ہم عصر سے کم نہیں لیکن ہم تعصب کی وجہ سے اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ وقت قریب ہے کہ ادب میں سے تعصب نکال کر ادبی تصنیفات کا جائزہ لیا جائے گا۔

(الفضل 29؍مارچ 1959ء صفحہ 3)

(ماہنامہ انصار اللہ مارچ 1973ء)

آج اکناف عالم میں ہراحمدی یہ تمنا رکھتاہے کہ امام دوراں کے کلام کو اس کی زبان میں سمجھ سکے۔ پس جہاں جہاں احمدیت جائے گی اردوساتھ ساتھ ہوگی۔ آج مسیح موعودؑ کے عشاق افریقن بھی حضور کی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتے ہیں جامعہ احمدیہ انٹر نیشنل گھانا کے طلباء روانی سے اردو بولتے لکھتے اور سمجھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے امام اردو میں خطبہ ارشاد فرماتے ہیں جو ساری دنیا میں نشر ہوتا اور سمجھا جاتا ہے اور 11؍زبانوں میں اس کے تراجم ہوتے ہیں۔

17۔ صلح کا پیغام

آج دنیا جنگ اورتباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور سائنسی تصوراتی گھڑیوں کے مطابق قیامت برپا ہونے میں صرف 5منٹ باقی ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ کی مقدس کتب اورتعلیمات یہاں بھی انسان کو نجات اور صلح کا پیغام دیتی ہیں۔ فرماتے ہیں :

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

یہ کتب تمام بانیان مذاہب اورقومی پیشواؤں کی تعظیم کی تعلیم دیتی ہیں۔ یہ کتب ہر قسم کے جبرواکراہ کی نفی کرکے آزادی ضمیر ومذہب کا اعلان کرتی ہیں یہ کتب انسان کو اولی الامر کی اطاعت اورقانون کی پابندی اوراعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’دنیا کی بھلائی اورامن اورصلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کوہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑ ہا انسانوں کی صدہا برسوں سے رائے قائم ہوچکی ہو۔ اورخدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں۔ اورمیں یقین رکھتاہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہوخواہ یوروپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اورآہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارااصول ایسا کیوں نہ ہوا۔ ‘‘

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد12صفحہ261)

آپؑ نے آخری کتاب کا نام ہی پیغام صلح رکھاہے۔

انہی اصولوں کی بنا پر آج جماعت احمدیہ ہی ہے جودنیا میں جگہ جگہ امن کے جزیرے تخلیق کر رہی ہے۔ یہ واحد جماعت ہے جو یوم پیشوایان مذاہب مناتی ہے اور جس کا ہر فرد اپنے اپنے ملک و قوم کا وفادارہے اوراس کے دامن پر ظلم برداشت کرنے کے زخم توہیں ظلم کرنے کاایک داغ بھی نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے انقلاب انگیز لٹریچر نے دنیا میں تبدیلی کی وسیع اور ٹھوس بنیاد رکھ دی ہے اور جمالی شان سے یہ انقلاب دلوں اور سینوں میں دھڑکن بن رہاہے اوروہ وقت دور نہیں جب یہ انقلاب اپنی معراج کو پہنچے گا اور انسانیت کا پورا وجود ایک نئے لبادہ میں نظر آئے گا اور وہ نئی اقوام متحدہ نظر آئے گی۔ جس کا چارٹر سلامتی کے شہزادے کے ہاتھ سے لکھا گیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’میں بڑے دعوے اوراستقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اورجہاں تک میں دُوربین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اورزبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے۔ ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں۔ کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کرسکتیں۔ کیاوہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 403)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button