متفرق مضامین

مصلح عالم مسیح محمدی علیہ السلام کی اعجازی برکات (قسط دوم۔ آخری)

(م۔ ا۔ شہزاد)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی قوت قدسیہ کی بدولت لقائے الٰہی و دیدار الٰہی

دینے والے کے نام کاکسی سے ذکرنہ کریں

حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکیؓ تحریرفرماتے ہیں :

’’ایک دفعہ کاذکرہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی اور میری بیوی کہہ رہی تھی کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں بچو ں کی تعلیمی فیس بھی ادانہیں ہوسکی۔ سکول والے تقاضہ کررہے ہیں بہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ یہ بات کہہ رہی تھی کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اورکرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوکر ابھی دفتر میں آجائیں۔ جب میں دفتر جانے لگا تومیری اہلیہ نے پھر کہاکہ آپ لمبے سفر پر جارہے ہیں اورگھر میں بچوں کے گزارے اوراخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟میں نے کہاکہ میں سلسلہ کاحکم ٹال نہیں سکتااورجانے سے رک نہیں سکتا۔ کیونکہ میں نے دین کو دنیاپر مقدم کرنے کا عہد کیاہواہے۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل وعیال کو گھروں میں بےسروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کویہ بھی خطرہ ہوتاتھا کہ نہ معلوم وہ واپس آتے ہیں یاشہادت کامرتبہ پاکر ہمیشہ کے لئے ہم سے جد ا ہوتے ہیں اوربچے یتیم، بیویاں بیوہ ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرتﷺ کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل وعیال سے نرم سلوک کیاگیاہے اور ہمیں قتال اور حرب درپیش نہیں بلکہ زندہ سلامت آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ پس آپ کو نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاناچاہئے اس پر میری بیوی خاموش ہوگئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میں میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ’’اے میرے محسن خداتیرایہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہاہے اورگھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیں۔ توخود ہی ان کا کفیل ہواور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبد ان افسردہ دلوں اور حاجت مندوں کے لئے راحت و مسرت کاکوئی سامان نہیں کرسکتا۔ ‘‘میں دعاکرتاہواابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی جب میں نے آگے بڑھ کر دروزاہ کھولا تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہافلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلاکر مبلغ یک صد روپیہ دیاہے اور کہاہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیاجائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں نے وہ روپیہ لے کر انہی صاحب کو اپنے ساتھ لیااور کہاکہ میں تواب گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل پڑاہوں۔ بازار سے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دے دیا اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوادی۔ فالحمد للّٰہ علی ذالک۔ ‘‘

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ4تا5)

واقعی یہ رقم خداتعالیٰ کی طرف سے ہے

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ مزید تحریر فرماتے ہیں :

’’1929ءمیں مَیں تبلیغی سفر کے سلسلہ میں مختلف مقامات سے ہوتاہوا مردان شہر میں جو سرحدی علاقہ ہے پہنچا دوسرے دن عیدالاضحیہ کی عید کا مبارک دن تھا۔ مجھے وہاں جانے سے ایک دودن پہلے عزیز اقبال احمد کی طرف سے ایک خط ملاتھاکہ آپ سفر پر ہیں اور مجھے کالج کی تعلیمی کتب اور فیس وغیرہ کے اخراجات کے لئے اس وقت کم از کم ایک سور وپیہ جلد از جلد ملنا از بس ضروری ہے۔ میرا ورو د مردان میں اس موقعہ پر پہلی دفعہ تھا۔ چنداں تعارف اور شناسائی نہ تھی کہ کسی دوست سے قرض حاصل ہوسکتا صر ف اللہ تعالیٰ کی خیر الراحمین اورخیرالمحسنین اور واہب المواہب ذات پر بھروسہ تھا۔ دوسرے دن احباب کی فرمائش پرمیں نے نمازِ عید پڑھائی۔ جب میں بحالتِ سجدہ دعا کررہا تھا تومجھ پررِقّت طاری ہوگئی اور رِقّت کا باعث یہ امر ہواکہ نماز سے پہلے بعض احمدی بچے جو اپنے باپوں کے ساتھ مسجد میں آئے ہوئے تھے اپنے باپوں سے عیدی کے لئے کچھ طلب کرتے تھے اور ان کے باپ اپنے بچوں کو بقدر مناسب عیدی دے رہے تھے۔ مجھے بحالت سجدہ دعاکی تحریک انہی بچوں کی عیدی طلب کرنے پر ہوئی اور میں نے اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیاکہ میرے مولیٰ آج عید کا دن ہے بچے اپنے والدین سے عیدی طلب کررہے ہیں اور میر ابچہ بھی مجھ سے بذریعہ خط ایک سو روپیہ کی ضرورت پیش کرچکاہے۔ سو میں اپنے بچہ کے لئے حضو رکی خدمت میں اس رقم مطلوبہ کے متعلق ہاتھ پھیلاتاہوں کہ میرے بچے کی شدید ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی صورت محض اپنے فضل وکرم سے مہیا فرمادے تا اس پریشانی سے مخلصی ہو۔ نماز عید، کھانے اور نماز ظہر سے فارغ ہونے پر ہم نے مردان سے چارسدہ جانے کے لئے تیاری کی کیونکہ چارسدہ میں جماعت احمدیہ کے ہاں جانابھی ہمارے پروگرام میں داخل تھا۔ جب ہم مردان سے باہر ٹانگے پر سوار ہونے کے لئے احباب سے رخصت ہوئے توکئی احباب ہماری مشایعت کے لئے اڈے تک آئے۔ ان میں سے اچانک ایک صاحب جن کو اس وقت میں قطعًا نہ جانتا تھامیرے پاس سے گذرے اور گذرتے ہوئے کوئی چیز میرے کوٹ کی بیرونی جیب میں ڈال دی۔ جب ہم مردان سے سوار ہوکر چار سدہ پہنچے اور میں نے جیب میں ہاتھ ڈالاتومجھے ایک لفافہ ملا جس میں کوئی کاغذ ملفوف تھا۔ جب میں نے لفافہ کو کھولا تواس میں ایک صد روپیہ کا نوٹ تھاجس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا جس میں یہ لکھا ہواتھا کہ آپ جب نماز عید پڑھا رہے تھے تومیرے قلب میں زور سے یہ تحریک ہوئی کہ میں سو روپیہ کی رقم آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ لیکن اس طریق پر کہ آپ کویہ پتہ نہ لگ سکے کہ یہ کس نے دی ہے اس لئے میں نے سوروپیہ کا نوٹ آپ کی جیب میں ڈال دیاہے او رپتہ نہیں لکھاتامیراعمل بھی مخلصانہ محض اللہ تعالیٰ کے علم تک رہے اور آپ بھی اس سو روپیہ کی رقم کا عطیہ اللہ تعالیٰ کی معطی اور محسن ہستی کی طرف سے ہی محسو س کریں۔ یہ وہی عیدی تھی جو بحالتِ سجدہ نماز عید میں مَیں نے اپنے بچے کے لئے اپنے محسن مولیٰ سے مانگی تھی اور جو حضرت خیرالراحمین اور خیر المحسنین مولیٰ کریم کی فیاضانہ نواز ش سے مجھے عطا فرمائی گئی تھی۔ اس رقعہ کے پڑھنے سے مجھے اور بھی اس بات کا یقین ہوا کہ واقعی یہ رقم مجھے خداتعالیٰ ہی کی طرف سے بغیر کسی کے منّت واحسان کے عطا ہوئی ہے اور میری روح جذبۂ تشکرات سے بھر کر اپنے محسن خدا کے حضور ایک وجد نماجوش کے ساتھ جھک گئی۔ میرے قلب میں اس مخلص دوست کی اس نیکی کابھی بہت احساس ہوا او ر میں نے اس کے لئے دعاکی کہ مولیٰ کریم اپنی کرم فرمائی سے اسے جزائے خیر دے او راس کی آل اورنسل کو اپنے فیوض خاصہ سے نوازے۔ میں نے وہ رقم عزیز اقبال احمد سلمہ کوبھجوادی۔ یہ سیدنا حضرت مسیح پاک کی اعجاز نما برکت ہے کہ ایک طرف میرے جیسے حقیر خادم کو حضور کے روحانی اور بابرکت تعلق سے دعا۔ ہاں قبول ہونے والی دعا۔ کی توفیق نصیب ہوئی اور پھر اس دعاکی استجابت کا اثر ایسے طور سے نمایاں ہوا جو احتیاج خلق سے بالاتر نظر آتاتھا۔ اس قسم کا مخلصانہ عمل جس میں نمود ونمائش کاکوئی شائبہ نہیں پایاجاتا دنیابھر میں مشکل سے مل سکتاہے۔ ہاں صرف احمدی جماعت کے افراد میں پایا جاتاہے جہاں تک بتحریک اخلاص وللّٰہیت رقم کے عطیہ کے ساتھ رقعہ میں نام وپتہ تک کا نہ لکھناحددرجہ کا اخلاص ہے لیکن یہ اخلاص کس کی قوت قدسیہ اور روحانی کشش اور مؤثر توجہ سے پیدا ہوا؟ میں خداتعالیٰ کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ ایسااخلاص اور بے ریاءعمل میرے پیارے اور پاک مسیح ہاں میرے مولیٰ کے محبوب اور مصلح عالم مسیح محمدی کی اعجازی برکات کا نمونہ ہے اورایسے نمونے جماعت احمدیہ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ احبابِ جماعت کے اخلاص اور ایمان میں برکت پر برکت دے۔ ان کی زندگی اور موت رضائِ الٰہی کے ماتحت ہو او ران کے ذریعہ سے اسلام او راحمدیت کے قیام کی غرض پوری ہو۔ ‘‘آمین یارب العالمین

(حیات قدسی حصہ چہارم 177تا179)

میں اللہ قادر مقتدر ہوں

حضرت مولانا ابراہیم بقاپوری صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں:

’’28؍نومبر1950ءکاواقعہ ہے کہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے قرضہ کی رقم جو مبلغ بارہ صد روپے میرے ذمہ واجب الادا تھی۔ مولوی صاحب نے مجھے لکھاکہ آپ اس رقم کی ادائیگی کاجلد انتظام کریں میں نے ان سے مل کر ماہوار اقساط کی صورت میں ادائیگی کاوعدہ کیامگر اسے آپ نے منظور نہ کیا اور یکمشت وصولی پر اصرار کرتے ہوئے فرمایاکہ جب آپ یکمشت رقم اداکریں گے توا س میں کچھ رقم چھوڑ دوں گا۔ اس موقعہ پر میں نے انہیں آنحضرتﷺ کے فیصلہ کی طرف توجہ دلائی جوحضورﷺ نے قرض خواہ کو فرمایاکہ نصف رقم قرضہ تم چھوڑ دو اور مقروض کو فرمایاکہ نصف کی ادائیگی کا تم انتظام کرو۔ اس فیصلہ نبوی کو میں نے یاد دلاکر کہا کہ اگر آپ نصف رقم چھوڑ دیں تو بقیہ نصف کی جلد ادائیگی کے متعلق میں کوشش کروں گا۔ اس پر آپ نے نہایت خوش اخلاقی کا نمونہ دکھلاتے ہوئے بخوشی منظور فرمالیا مگر شرط یہ کی کہ 15؍دسمبر 1950ءتک رقم اد اکردی جاوے۔ بشری کمزور ی کے باعث اس پر مجھے سخت فکر ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں اتنی رقم کہاں سے مہیا کروں گا۔ آخر آستانہ الٰہی پر گر کر دعا کی تو اثنائے دعامندرجہ ذیل الفاظ زبان پر جاری ہوئے ’’میں اللہ قادر مقتدر ہوں۔ ‘‘جس سے مجھے یقین ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ جلد ہی غیب سے ادائیگی کی کوئی صورت پیدا فرمادے گا۔ چنانچہ ایساہی ہواچند ہی دنوں میں تین صد روپے کی رقم ایک طرف سے اور تین صد کی رقم دوسری طرف سے مجھے مل گئی اور مقررہ تاریخ سے بہت پہلے یعنی10؍دسمبر کو میں نے مبلغ چھ صد روپیہ خان صاحب کی خدمت میں لے جا کر قرضہ بےباق کر دیا۔ فا لحمد للہ علی ذالک۔ ‘‘

(حیات بقاپوری جلد سوم صفحہ88تا89)

خدانے مجھے ابھی ابھی ایک بات کہی ہے

حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سیالکوٹ میں اپنے سکول کے مینیجر (جوکہ پادری تھا)سے تبلیغ کرتے میرا جھگڑاہوگیا۔ مینیجر نے کہا کہ خدا کس سے باتیں کرتاہے؟ فرمایاکہ اگر میں نے کہاحضرت مسیح موعودؑ سے، تویہ کوئی اور اعتراض کردے گا۔ میں نے کہامجھ سے کرتاہے اور اپنے چند واقعات بتائے۔ چند دنوں کے بعد وہ پادری کسی لڑکی کو عیسائی بناکر لے گیا۔ اس کے رشتہ دار اس کی کوٹھی پرگئے اور اس کو مارا۔ میں نے دوپہر کوسوتے ہوئے دیکھاکہ پادری کو مار پڑ ی ہے او روہ کہتا ہے کہ دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ اسی وقت اٹھا اور اس کی کوٹھی پر گیا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟کہاکہ خدا نے مجھے ابھی ابھی ایک بات کہی ہے۔ وہ آپ کو بتانے آیاہوں اوروہ یہ کہ آپ کو مار پڑی ہے اور دائیں طرف زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔ اس نے اس کی تصدیق کی۔ (اس نے ناراض ہوکر منشی صاحب کی ترقی روک رکھی تھی) دوسرے دن سکول میں میرے کمرے میں آیا او رکہنے لگا ہم اس ماہ آپ کو ترقی دیں گے۔ میں نے کہا ہم نہیں لیتے۔ وہ یہ کہہ کر کہ ہم دیں گے چلا گیااو رترقی دےدی اور دوسرے ماہ مزید ترقی دے دی۔

(ماخوذ ازاصحاب احمد جلد 2صفحہ198تا199)

مجھے دوپاؤنڈ دے دے

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں :

’’جب میں ہندوستان سے انگلینڈ کے لئے روانہ ہواتو پاسپورٹ کی روسے راستہ میں فرانس نہیں اتر سکتاتھا لیکن میرا بڑا دل چاہتاتھاکہ فرانس میں اتروں۔ اس کا ذکر میں نے افسر جہاز سے کیا۔ اس نے کہا تم فرانس میں صرف اس صورت میں اتر سکتے ہوجب تمہارے پاس اتنا خرچ ہو۔ جب میں نے اپنے سرمایہ کو دیکھا تومعلوم ہوا کہ جس قدر کپتان کہتاہے کہ خرچ ہوگا۔ میرے پاس اس سے دوپونڈ کم تھے۔ میں نے سوچاکسی سے یہ رقم قرض لے لوں مگر جہاز میں میر ا کوئی بھی شناسانہ تھا۔ کس سے لیتا؟آخرجب بالکل مایوس ہوگیاتو میں نے دعاکی کہ اے زمین وآسمان کے مالک۔ اے خشکی اور تری کے خالق!توہر چیز پر قادرہے اور تجھے ہر قسم کی قدرت اورطاقت حاصل ہے۔ تو جانتاہے کہ مجھے اس وقت دوپونڈ کی ضرورت ہے تومجھے یہ دوپونڈ دے دے۔ خواہ آسمان سے گر ایاسمندر سے نکال دے۔ مگر دے ضرور۔ میں نے بہت الحاح اور زاری کے ساتھ خد اسے دعامانگی اور دعامانگنے کے بعد مجھے پختہ یقین ہوگیا کہ مجھے دوپونڈ ضرور مل جائیں گے۔ مگر میری سمجھ میں نہ آتاتھاکہ بالکل اجنبی جگہ اور بالکل اجنبی آدمیوں میں یہ دوپونڈ کس طرح ملیں گے؟یہ جنگِ یورپ کازمانہ تھا۔ جہاز چلتے چلتے یکدم ایک ایسی جگہ ٹھہرگیا جہاں پہلے کبھی نہیں ٹھہر اتھامیں نے اس خیال سے کہ جنگ کا زمانہ ہے ممکن ہے اس جگہ ہمارے کچھ احمدی دوست ہوں کپتان جہاز سے کہاکہ مجھے خشکی پر جانے کی اجازت دیں لیکن اس نے صاف انکار کردیااورکہاآپ یہاں ہرگز نہیں اتر سکتے۔ ہم تو ویسے ہی یہاں محض سمندر کی حالت معلوم کرنے کے لئے اتفاقًا کھڑے ہوگئے ہیں ورنہ اس سے پہلے یہاں آج تک کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔ تھوڑی دیر میں مَیں نے دیکھاکہ ایک کشتی جہاز کی طرف آرہی ہے میں نے کپتان سے کہاکہ یہ کشتی یہاں کیوں آرہی ہے۔ جب یہاں اترنے کی اجازت ہی نہیں؟کپتان نے کہامجھے پتہ نہیں کہ کیوں آرہی ہے پاس آئے توحالات کا علم ہو۔ جب کشتی جہاز کے قریب آ ئی تو میں نے پہچانا کہ اس میں ہمارے بھائی حاجی عبدالکریم صاحب تھے۔ انہوں نے کسی طرح سن لیاتھاکہ میں فلاں جہاز سے انگلستان جارہاہوں اورفلاں وقت جہاز یہاں سے گزرے گا۔ ان کو معلوم تھاکہ جہاز یہاں نہیں ٹھہرے گاپھر بھی وہ ساحل پر آ گئے تھے لیکن جب جہاز جزیرہ کے سامنے آکر اچانک ٹھہر گیاتووہ فورًا کشتی لے کر جہازکے پاس آگئے۔ کپتان نے ان کو دریافتِ حال کے لئے اوپر آنے کی ا جازت دے دی خیروہ مجھ سے ملے اورادھر ادھر کی باتوں کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو یہ کہہ کر دوپونڈ میری جیب میں ڈال دیے کہ مجھے کچھ مٹھائی آپ کے ساتھ کے لئے لانی چاہئے تھی مگر مجھے تواس کاوہم بھی نہ تھا کہ جہاز ٹھہر جائے گا اور میں آپ سے مل سکوں گا۔ اس لئے یہ دوپونڈ مٹھائی کے ہیں رکھ لیں۔ ‘‘

(لطائف صادق صفحہ65تا66)

ان میں سے کوئی بھی نہ مرا

مکرم محمداحمدصاحب تحریرفرماتے ہیں :

’’علاقہ کپورتھلہ میں ایک گاؤں شیرانوالی ہے۔ اس جگہ مسمی مہتاب احمدی رہتاتھا۔ ایک سال اس گاؤں میں طاعون پڑا اس نے کوٹھے پر کھڑے ہوکر آوازدی کہ اے لوگو!جس نے طاعون سے بچنا ہے وہ میرے گھر میں داخل ہوجائے۔ اس آواز پر بہت سے غیر احمدی مسلمان اس کے گھر آ گئے۔ اور اس نے دعاکی کہ اے اللہ تعالیٰ تواورتیر امسیح سچاہے توان کو طاعون سے بچالے۔ خداکی قدرت جولوگ اس کے گھرمیں آئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ مرا۔ اورنہ بیمارہوا اورلوگ بہت مرے۔ ‘‘

(رجسٹرروایات نمبر1صفحہ213)

نہ گھبرامیں رب تیرا غفوررحیم ہوں

حضرت مولانا محمدابراہیم صاحب بقاپوریؓ اپنی انشراح صدری کاواقعہ تحر یر فرماتے ہیں :

’’9 جنوری1958ءکا واقعہ ہے کہ میں انفلوئینزا میں مبتلا تھا کہ کچھ گھبراہٹ کے کلمات منہ سے نکل گئے گومیں خداتعالیٰ کے پا س جانے کے لئے تیا رتھا۔ اتنے میں اونگھ آگئی۔ غنودگی میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوتاہوں۔ اور ایسا نظر آتاہے جیسے پہاڑمیں سرنگیں ہوتی ہیں۔ اسی قسم کی ایک سرنگ ہے جس کے باہرکے سرے پر میں ہوں اور اندر اللہ تعالیٰ جلّ شانہ سفید شاہانہ لباس میں ملبوس نورانی منبر پرجلوہ افروز ہیں۔ میرے گھبراہٹ کے کلمات سن کر فرماتے ہیں ’’نہ گھبر امیں رب تیر ا غفور رحیم ہوں ‘‘یہ سنکر میری آنکھ کھل گئی توگھبراہٹ دور ہوچکی تھی اور طبیعت میں بشاشت پیدا ہوچکی تھی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ ‘‘

(حیات بقاپوری جلدسوم صفحہ144)

پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا

حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’بعدحضورؑ کی پاک صحبت کی برکت سے یہی فائدہ ہوا کہ ایک روز بعدنماز تہجد خاکسار سجدہ میں دعائیں کررہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہوئی جوایک کشفی رنگ تھا ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا۔ جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت کوزہ پانی کا بھر اہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت کارد (چھری )تھی۔ مجھے کہنے لگا کہ میں تمہاری اندرونی صفائی کے لئے آیا ہوں۔ اس پر میں نے کہا کہ بہت اچھا۔ آپ جسطرح چاہیں صفائی کریں۔ چنانچہ اس نے پہلے چھری سے میرے سینہ کوچاک کیا۔ کوزہ کے مصفیٰ پانی سے اس کو خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیداہوئی۔ جب وہ چلے گئے تومیں نے خیال کیا کہ اب میں نے توصبح کی نماز اداکرلی ہے اور میر ا بدن چیر ا ہوا ہے۔ نماز کس طرح ادا کرسکوں گا اس لئے پاؤں کوہلا نا شروع کیا۔ توکوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔ حالت بیداری پیدا ہوگئی اس کے بعد نماز فجر اداکی۔ اس کے بعد حضور کی فیض محبت سے بہت روحانی فوائد حاصل ہوئے جو قبل اس کے کبھی نہیں ہوئے۔

(رجسٹرروایات نمبر 12 صفحہ 322، 323)

تاریخی حیثیت اختیارکرگیا

مکرم بشیراحمدرفیق صاحب تحریر کرتے ہیں :حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ اپنی قبولیت دعاکے واقعات بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک اہم دعاجس کی قبولیت کا آپ نے مجھ سے بھی ذکر کیایوں ہے فرمایا۔ کہ جب میں اقوام متحدہ کے ساتویں سیشن کاصدر منتخب ہوا تومیرے دل میں اس بات پرتشویش پیداہوئی کہ میں نے تواسمبلی کے قواعد وضوابط کا مطالعہ بھی نہیں کیا۔ جبکہ افغانستان کے سفیر متعینہ اقوام متحدہ دن میں کئی کئی بار پوائنٹ آف آرڈر اٹھانے میں مشہورتھے۔ اور باربارصدر کو قواعد کی طرف متوجہ کرکے ان کو آگے نہیں چلنے دیتے تھے۔ حضرت چودھری صاحب نے فرمایامیں نے بڑی تضرع سے اپنے مولیٰ سے دعا کی خدایاایسے معاملات میں اپنی قدرت کا جلوہ دکھاکر میری مدد فرما۔ حضرت چودھری صاحب بعدمیں بہت جذباتی اندازمیں فرمایاکرتے تھے کہ میرے مولیٰ نے میری تضرعات کویوں شرف قبولیت بخشا کہ میری صدارت کے دوران ایک سال کے عرصہ میں ایک بھی پوائنٹ آف آرڈرنہیں اٹھایاگیا اوریوں یہ سیشن اس لحاظ سے بھی ایک تاریخی حیثیت اختیارکرگیا۔

(چندیادیں صفحہ51، 52)

اللہ تعالیٰ کو ایسا دیکھا گویا وہ قریب آگیا ہے

حضرت مولانا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوریؓ بیان فرماتے ہیں :

’’یکم جولائی 1938ءمحمد اسحٰق کو میڈیکل سکول امرتسر میں داخل کروا نے کے لئے میں اُس کے ہمرا ہ گیا، تو معلوم ہوا کہ سکول میں داخل ہونے کیلئے کئی ایف۔ اے اور بی۔ اے پاس طالب علم آئے ہوئے ہیں اور بڑے بڑے امیروں کے لڑکے بڑے بڑے آدمیوں کی سفارشیں لے کر آئے ہیں۔ اس سے مجھے سخت گھبراہٹ ہوئی، اور درخواستیں کرنے والے طالب علم200تھے اور میرا سوائے خداوند کریم مسبّب الاسباب کے کوئی سفارشی نہ تھا اس لئے بڑے قلق اور کرب کے ساتھ رات کو دعا کر کے سو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور محمد اسحٰق کے داخلے کے متعلق مجھے تسلی دیتے ہیں کہ عزیز داخل ہو جائےگا۔ آپ ایک نوجوان خوبصورت مضبوط انسان کی شکل میں متمثل ہیں جس کی عمر32,30 سال ہوگی۔ صبح میں نے عزیز کو تسلی دی اور میں اُس کےساتھ گیا۔ فیض اللہ چک کے ایک احمدی طالب علم عطاءالرحمٰن کو جو دوسرے سال کا طالب علم تھا، میں نے کہا کہ مجھے ایسی جگہ کھڑا کرو جہا ں سے میں انٹرویو کرنیوالوں کو دیکھ سکوں۔ چنانچہ اُس نے اُن کے کمرے کے پیچھے ایک کھڑکی کے پاس کھڑا کر دیا، جہاں سے میں نے دیکھا کہ تین چار افسر بیٹھے انٹر ویو کر رہے ہیں اور کسی کوفِٹ اور کسی کو اَن فِٹ کرتے جاتے ہیں۔ جب محمد اسحٰق کمرہ میں داخل ہوا، اُس وقت میں نے رقت سے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ایسا دیکھا گویا وہ قریب آگیا ہے اور مجھ پر ربودگی طاری ہو گئی۔ محمد اسحٰق کی نظر درست ثابت ہوئی، لیکن جب کپڑے اُتار کر دیکھاتو کہا، یہ کمزور ہے اور اسے فیل کر دیا۔ اُس وقت محمد اسحٰق بھی رو پڑا، اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا ! اب تیری قدرت دکھانے اور مجھ پر رحم فرمانے کا وقت ہے۔ چنانچہ اُسی وقت دوسرے ڈاکٹر نے پھر محمد اسحٰق کو واپس بلا لیا اور کہا کہ نہیں اسے لے لو، چنانچہ اُسے لے لیا گیا۔ اُس وقت جن لوگوں نے مجھے دعا کرتے دیکھا، وہ کہنے لگے کہ اس شخص نے دعا کر کے اپنے بیٹے کو داخل کر وا لیا ہے۔ ‘‘

(حیات بقا پوری حصہ اول صفحہ198)

خدا کے نور کی تجلّی

حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے فرماتے ہیں کہ1925ءمیں ملکانہ کے علاقہ میں نگلہ کھنو ضلع ایٹہ اپنے ہیڈ کوارٹر میں تھا۔ رمضان شریف کے روزے رکھ رہا تھا اور بیس رمضان المبارک بعد نماز عصر وہاں کی مسجد میں اعتکاف بیٹھ گیا۔ جب ستائیسویں روزے کی گذشتہ شب نماز تہجد ادا کررہا تھا تو دعا ئے قنوت پڑھنے کے بعد مجھ پر کھڑے کھڑے ہی غنودگی طاری ہوگئی اور اسی حالت میں مجھے نور نکلتا ہوادکھائی دیا وہ ایسا خوشنما تھا کہ جس کی سفیدی میں کچھ سبز رنگ کی جھلک تھی۔ وہ اتنا تیز ہوگیا کہ اگر اس نور میں کچھ اور تیزی آجاتی تو میں بے ہوش ہو کر گر جاتا اور معاً بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا’’بس بس بس …‘‘اس مسجد کا ایک محافظ میرا کھانا گھر سے لایا ہوا تھا ’’بس بس بس…‘‘کے میرے یہ الفاظ سن کر وہ بےتاب ہوگیا کہ مولوی صاحب کو کیا ہوگیا ہے؟ جب اس نے پردہ اٹھاکر اندرمجھے دیکھا تو میں سجدہ میں جاچکا تھا۔ ذرہ ہوش قائم ہونے پر میں سجدہ میں گیا تھا۔ سلام پھیرنے پر اس نے پوچھا کہ مولوی صاحب آپ یہ ’’بس بس بس…‘‘کس کو کہہ رہے تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ میاں صاحب میری بڑی مدت سے خواہش تھی اور میں دعا کیا کرتا تھا کہ مولا کریم جب ہم دعا کرتے ہیں تو کس چیز کو سامنے رکھیں۔ آپ نے اپنے کسی بندے (یعنی حضرت موسیٰؑ )کو تو اپنا نور دکھا کر اور اس کا جلوہ دکھا کر اپنا آپ اس پر ظاہر کیا جس کو وہ برداشت نہ کر سکا اور کسی کو انجیر کے درخت سے اپنے وجود کا اظہار کر کے دکھایا (یعنی حضرت عیسیٰؑ پر) تو میرے مولا اگر آپ ہمیں بھی ایسی تجلی دکھادیں تو آپ کا کوئی حرج نہیں اور ہمارا ایمان بڑھ جائے گا۔ لہٰذا ایک مدت کی دعا کے بعد آج خدا تعالیٰ نے یہ تجلی دکھا کر ظاہر کر دیا ہے کہ میں صرف نور ہی نور ہوں جو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ واقعی خدا کے پورے نور کو یہ فانی وجود برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی لئے وہ اپنے پیارے بندوں سے من وراءحجاب ہی باتیں کرتا رہا۔ یہ نور دیکھ کر میرے دل کو اتنی فرحت پہنچی کہ آج بھی جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہی مزا حاصل ہو رہا ہے۔ میں نے دعائیں کرتے ہوئے اس لاثانی نور کو سامنے رکھتے ہوئے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

(ماخوذ ازمیری یادیں حصہ اول صفحہ237تا238)

جس کے ساتھ خدا بولتانہیں وہ مسلمان نہیں

حضرت خیردین صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں :

’’میں نے ایک دفعہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیراقرب پانے کے لئے کون سا طریق اچھا ہے؟ توخاکسار کو اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیاکہ ہماراقرب شامل کرنے کے دوطریق ہیں۔ یاچندہ دویا تبلیغ کرو۔ یہ دوطریق ہم کو پسند ہیں۔ تومیں نے عرض کی کہ اے اللہ تعالیٰ میں تو اتنا پڑھا ہوانہیں۔ میں تبلیغ کس طرح کروں؟ اللہ تعالیٰ نے پھرجواب دیااورفرمایاکہ قرآن شریف توتم کوہم نے پڑھادیاہے۔ جب یہ فقرہ جنابِ الٰہی نے فرمایا تومجھے اس وقت یہ آیت حل ملی کہ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ کیونکہ جب میں اپنے گاؤں میں تھاتواس وقت مجھے جناب حضرت مسیح موعودؑ خواب میں ملے تھے اور فرمایا تھا کہ تم قادیان آجاؤ۔ ہم تمہیں قرآن شریف پڑھادیں گے۔ اب دیکھئے کہ وعدہ تومسیح موعودؑ نے کیامگر جواب اللہ تعالیٰ نے دیاکہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیاہے۔ سوخاکسار دیکھ رہاہے کہ اپنی قابلیت کے مطابق اب خداتعالیٰ کے فضل سے جوقرآن شریف پڑھناچاہے اسے پڑھا سکتاہوں۔ چنانچہ آج کل مہمان خانہ میں صبح کے وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قرآن شریف ترجمہ کے ساتھ پڑھاتاہوں۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہاتھا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھادیا توساتھ یہ بھی فرمایاتھاکہ تم نے عادوثمود کے قصے قرآن شریف میں نہیں پڑھے؟ ایک رکوع پڑھا اورلوگوں کو سنادیا کہ نبیوں کی نافرمانی کرنے والوں کا کیاحال ہوتاہے۔ اسی طرح ….جناب الٰہی نے یہ فرمایاکہ تم گھی بہت کھایاکرو۔ تومیں نے عرض کیا گھی کھانے سے کیامراد ہے؟ تو جنابِ الٰہی نے تیسرے دن جواب دیاکہ گھی کھانے سے ہماری مراد بہت دعا کرنا ہے۔ یہ فقرے پنجابی زبان میں عنایت فرمائے۔ کہ ’’جس گھر میں دعاہوتی ہے وہ گھر موجوں میں رہتاہے‘‘۔ پھریہ بھی آواز سنی کہ جس کے ساتھ خدا بولتانہیں وہ مسلمان نہیں۔ کیامیرے جیسا آدمی یہ دعویٰ کرسکتاہے کہ یہ میری طاقت سے ہیں بلکہ صاف معلوم ہوجائے گا کہ یہ نورنبوت سے ہے چنانچہ میں حضرت اقدس کاہی فقرہ دہرا دیتا ہوں :

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نورخداجس سے ہوادن آشکار‘‘

(رجسٹر روایات نمبر7صفحہ155)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ایسے لوگ عطا فرماتا رہا ہے اور فرما رہا ہے جو ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے لوگوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہے ہیں اور بن رہے ہیں۔ …

پس آج روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہر احمدی کو دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی عبادتوں کے ذریعہ سے خداتعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑ کر ان برگزیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو روشن ستاروں کی طرح آسمان پر چمک رہے ہیں۔ جنہوں نے پہلوں سے مل کر دنیا کے لئے ہدایت کا موجب بننا ہے اور آسمانی بادشاہت کو پھر سے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ ہر دل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنی ہے۔ ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’پیر بنو۔ پیر پرست نہ بنو‘‘ اور ’’ولی بنو۔ ولی پرست نہ بنو۔ ‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خاتم الاولیاء اور خاتم الخلفاء کی پیروی کرتے ہوئے اپنی عبادتوں کو سنوارتے ہوئے، قبولیت دعا کے نظارے دیکھتے چلے جائیں ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍ستمبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍ستمبر2006ءصفحہ8تا9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button