متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپؑ کی تحریرات و سیرت کے آئینہ میں

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 185)

کسی بھی انسان کی سیرت کا بیان ایک مشکل اور کٹھن کام ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ آپ اس کی مکمل شخصیت کی تصویر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ بیان اس وقت اور مشکل ہوجاتا ہے جب یہ کسی ایسی اعلیٰ و اکرم شخصیت کے متعلق ہو جو تمام دنیا کے لیے رحمت ہے، جو فخر انسانیت ہے، جس کے لیے رب کریم نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے یعنی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس محبت اور خوبصورتی سے اپنی تحریرات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی ہے اس کی مثال ہمیں کہیں اور نہیں ملتی کیونکہ ایک سچا عاشق ہی اپنے محبوب کی خوبیوں کو اس خوبصورتی سے بیان کرتا ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ میں اپنے معشوق کی محبت عیاں ہورہی ہوتی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی سچا عاشق نہیں۔ آپ علیہ السلام کی محبت اور عقیدت کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے کر سکتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیو نکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خد ا ہمیں اسلام پر موت دے ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔ ‘‘

( چشمہ معرفت، رو حانی خز ائن جلد 23 صفحہ459)

عشق رسولؐ کی بے مثال گواہی

یقیناً ہر مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور آپؐ کی سیرت طیبہ کو بیان کرکے اظہار محبت کرنے کواپنی خوش قسمتی اور باعث ثواب سمجھتا ہے۔ اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے زیادہ بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپؑ نے ہمیشہ یہی فرمایا کہ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے وہ نبی کریمؐ کی سچی محبت اور کامل متابعت کے فیض سے ہی ملا ہے۔ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے سچے عاشق تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؑ کو بذریعہ رؤیا ’’ھذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘کی سند حاصل ہوئی۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598، حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہُنر سے اِس نعمت سے کامل حصّہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیرالوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اُس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصّہ پا سکتا ہے۔ اور مَیں اِس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذّت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّٰی اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (آل عمران:32)

یعنی اُن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے۔ جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوّتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے ا ور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اُس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مَرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے۔ تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی خدا ایسے دل پر اُترتا ہے اور اُس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتا ہے۔ یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 64تا65)

درود شریف کی برکات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؐ پر درود بھیجنے کی برکات کے حوالے سے فرماتے ہیں :

’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خداتعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں۔ وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں۔ جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے۔

وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ۔ (المائدہ :36)

تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں۔ اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں۔

’’ھٰذَا بِمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ131 حاشیہ)

درود کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں۔ لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقۂ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے پس جو فیضان شخص مَدْعُولَہٗ پرہوتا ہے وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والے کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتے ہیں۔ ‘‘

(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ 535مکتوب بنام میر عباس علی شاہ، مکتوب نمبر18)

متابعت و محبت حضرت خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات

اپنی ایک تحریر میں حضورؑ فرماتے ہیں :

’’خداوند کریم نے اُسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے۔ اور علوم لُد نیّہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرا رمخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کر دیا ہے اور بار ہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اورمخاطبات بیُمنِ متابعت و محبت حضرت خاتم الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ‘‘

جمال ہم نشیں درمن اثرکرد

وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1صفحہ645تا646حاشیہ نمبر11)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ و ارفع مقام

آنحضرتﷺ کے مقام اور مرتبے کے حوالے سے آپؑ کی یہ تحریرات ملاحظہ کریں۔ فرماتے ہیں :

’’پس میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے( ہزار ہزار درود اورسلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر ِقدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہوچکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی۔ اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کاواقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، رو حانی خز ائن جلد 22 صفحہ118تا119)

آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔ (الاحزاب:57)۔

اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر توجانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا۔ صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء۔ سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صِدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصّوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں۔ اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں۔ کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور یقیناً سمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آ گئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیزہوتا ہے۔ اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرتﷺ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے؎

محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں

کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی

ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ وہ نہ تھکا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصّہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے۔ اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفّاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیّت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا۔ لیکن افسوس !کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو۔ ‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ301تا303)

اللہ تعالیٰ سے بے پناہ محبت

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌعَلیٰ رَ بِہٖ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 524، ایڈیشن1988ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ا خلا ق فا ضلہ

حضور اقدس علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ا خلاق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’…ہا ں جو اخلا ق فا ضلہ حضر ت خا تم الا نبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شر یف میں ذکر ہے وہ حضر ت مو سیٰؑ سے ہزارہا درجہ بڑ ھ کر ہے کیو نکہ اللہ تعا لیٰ نے فر ما د یا ہے کہ حضر ت خاتم الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم تما م ا ن اخلا ق فا ضلہ کا جا مع ہے جو نبیوں میں متفر ق طو ر پر پا ئے جا تے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فر ما یاہے

اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔

تو خلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے سا تھ جس چیز کی تعر یف کی جائے وہ عر ب کے محا ورہ میں اس چیز کے ا نتہا ئے کما ل کی طرف ا شا رہ ہو تا ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جا ئے کہ یہ در خت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہو گا کہ جہا ں تک در ختوں کے لئے طو ل و عر ض ا ور تنا وری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حا صل ہے۔ ایسا ہی اس آ یت کا مفہو م ہے کہ جہا ں تک اخلا ق فا ضلہ و شما ئل حسنہ نفس ا نسا نی کو حا صل ہو سکتے ہیں و ہ تما م ا خلا ق کا ملہ تامہ نفس محمدی میں مو جو د ہیں۔ سو یہ تعر یف ا یسی ا علیٰ در جہ کی ہے جس سے بڑ ھ کر ممکن نہیں۔ ‘‘( براہین احمدیہ حصہ چہارم، رو حا نی خز ا ئن جلد 1صفحہ 606بقیہ حا شیہ در حاشیہ نمبر3)

اظہار سچائی کے لیے مجدد اعظم

’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی۔ ‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ206)

بنی نوع انسان کا بے نظیر ہمدرد

’’اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو!اُٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں …اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسولؐ کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے۔ کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو…‘‘

(تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ 306تا307)

جلال اور جمال دونوں کے جامع نبیؐ

’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلال اور جمال دونوں کے جامع تھے۔ مکہ کی زندگی جمالی رنگ میں تھی اور مدینہ کی زندگی جلالی رنگ میں۔ اور پھر یہ دونوں صفتیں امت کے لئے اس طرح پر تقسیم کی گئیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جلالی رنگ کی زندگی عطا ہوئی اور جمالی رنگ کی زندگی کے لئے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ٹھہرایا۔ ‘‘

(اربعین نمبر 4، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 443)

اعلیٰ درجہ کی پاک اور پر حکمت تعلیم دینے والا

آپؑ فرماتے ہیں :

’’مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے۔ مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے۔ مجھے سمجھا یا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پرحکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کےذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘‘

(اربعین نمبر1، روحانی خزائن جلد 17صفحہ345)

کوہ ِوقا ر انسان

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گزری اس میں جس قدر مصائب و مشکلات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آئیں ہم تو ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ دل کانپ اُٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ حوصلگی، فراخدلی، استقلال اور عزم و استقامت کا پتہ چلتا ہے۔ کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے۔ وہ مقصد کے ادا کرنے میں ایک لمحہ بھی سست اور غمگین نہیں ہوا۔ وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکیں۔ ‘‘

(الحکم 30؍جون1901ءصفحہ3)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہو نے کی شا ن کی جو تعر یف حضر ت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فر ما ئی ہے اصل تو وہ شا ن ہے۔ حضر ت مسیح مو عو د علیہ السلام فر ما تے ہیں :

’’…ا ما نت سے مرا د ا نسان کا مل کے وہ تما م قو یٰ اور عقل ا ور علم اور دل اور جا ن اور حوا س اور خو ف اور محبت اور عز ت اور و جا ہت اور جمیع نعما ء رو حا نی و جسما نی ہیں۔ جو خدا تعالیٰ انسان کا مل کو عطا کر تا ہے۔ اور پھر انسا ن کا مل بر طبق آیت

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَ دُّواالْاَ مٰنٰتِ اِلیٰ اَھْلِھَا (النساء:59)

اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے۔ یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے…اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُ مّی صادق مصدو ق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پا ئی جا تی تھی۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحا نی خزا ئن جلد پنجم صفحہ 161تا162)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عا جزی و ا نکسا ری

حضر ت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فر ما تے ہیں کہ

’’د یکھو ہما رے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی کا میا بیاں ا گرچہ ا یسی تھیں کہ تما م ا نبیا ئے سا بقین میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعا لیٰ نے جیسی جیسی کا میابیاں عطا کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی فرو تنی ا ختیا ر کر تے گئے۔ ایک دفعہ کا ذ کر ہے کہ ا یک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضو ر پکڑ کر لا یا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے د یکھا تو وہ بہت کا نپتا تھا اور خو ف کھا تا تھا۔ مگر جب وہ قر یب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا یت نر می اور لطف سے در یا فت فر ما یا کہ تم ا یسے ڈرتے کیوں ہو ؟آخر میں بھی تمہا ری طر ح ایک ا نسا ن ہی ہو ں۔ ‘‘

(ملفو ظا ت جلد 5صفحہ 548ا یڈیشن1988ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی اور قناعت پسندی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر سادہ ماحول کا نقشہ ایک حدیث کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے کہ

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضرت عمرؓآپؐ سے ملنے گئے، ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضرت عمرؓ اند ر آئے تو آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے، حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑا ہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کو دیکھ کر رو پڑے۔ آپؐ نے پوچھا اے عمر! تجھ کو کس چیز نے رُلایا ؟ عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ و قیصر تو تنعّم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خدا تعالیٰ کے رسول اور دو جہاں کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر ! مجھے دنیا سے کیا غرض ؟میں تو اس مسافر کی طرح گزارا کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ51ایڈیشن1988ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور بہادری

ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’دشمن غار پر موجود ہے اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشان پا یہاں تک ہی آکر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گزر اور دخل کیسے ہوگا مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے۔ کبوتر نے انڈے دیئے ہوئے ہیں اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں۔ اور آپؐ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں۔ لیکن آپؐ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیق صادق صدیقؓ کو فرماتے ہیں

لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔

یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خداتعا لیٰ کے وعدوں پربھروسہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ250تا251، ایڈیشن1988ء)

انسان کاملﷺ

حضرت مسیح موعودؑ سرتاج الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمالِ تام کا نمونہ علماًو عملاً و صدقاً وثباتاًدکھلایا اور انسانِ کامل کہلایا…وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں …‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچہ آل محمدؐ است

(اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ 1884ء)

میری جان اور دل محمدﷺ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک نبی اکرمﷺ کی آل کے کوچہ پر قربان ہے۔

جب ہم سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ مبارکہ پر نظر ڈالتےہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپؑ کی ساری زندگی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزری ہے۔ چنانچہ آپ کے ایک صحابی حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ اپنی ایک روایت میں حضرت مسیح موعودؑ کےاخلاقِ حسنہ کا نہایت ہی پیارے انداز سے ذکر کرنے کے بعدآپ کے اخلاق کے متعلق کیا ہی پیارا لکھتے ہیں کہ

’’اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ

’’کَانَ خُلُقُہُ قُرْآنُ‘‘

تو ہم حضرت مسیح موعودؑ کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ

’’کَانَ خُلُقُہُ حُبَّ مُحَمَّدٍ وَ اَتْبَاعُہٗ علیہ الصّلٰوۃ و السلام‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 827روایت نمبر975)

ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا

حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کی پہلی بیوی سے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپؑ حضور کی زندگی میں جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیعت کی۔ آپ کے قبول احمدیت سے پہلے زمانہ کی بات ہے کہ اُن سے ایک دفعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق و عادات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس پر فرمایا کہ

’’ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اگر کوئی شخص آنحضرتؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سُرخ ہوجاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دُہرایا۔ ‘‘

(سیرت طیبہ از مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ28تا29)

کیا مَیں آنحضرتﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا!

حضرت بانی جماعت احمدیہ کے فرزند قمر الانبیاءحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں :

’’ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی کچھ طبیعت ناساز تھی اور آپؑ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت امّاں جان نوراللہ مرقدہا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا۔ حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے حج کو چلنا چاہیےاس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصوّر میں حضرت مسیح موعود ؑکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھےحضرت ناناجان کی بات سُن کر فرمایا

’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا؟‘‘

یہ ایک خالصتاً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشقِ رسولؐ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کس سچےمسلمان کوخواہش نہیں مگر ذرا اُس شخص کی بےپایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لاکر بندہونی شروع ہوجاتی ہیں۔ ‘‘

(سیرت طیبہ، از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 30تا31)

محبوبؐ کے لیے غیرت

حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ

’’…ایک بات جو میں نے خاص طور پر دیکھی کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم )کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرا سی بھی بات کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتےتھے۔ مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو بار بار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان کرتے تھے کہ جب دسمبر1907ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لئے بھیجا۔ مگر آریوں نے خلافِ وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سخت بد کلامی سے کام لیا۔ اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اٹھ کر آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرتِ دینی سے کام نہ لیا۔ جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اٹھ کر آنا چاہیے تھا۔ ‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل جلد نمبر1صفحہ201روایت نمبر196)

محب کی امتی عورت کی داد رسی

اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت (قوم خانہ بدوش ) آلے بھولے یعنی مٹی کے کھلونے بیچنے والی آئی اس نے آواز دی۔ ’’لَونی آلے بھولے‘‘۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضور علیہ السلام اور اما ں جان ان دنوں دن کو مکان کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے۔ حضورؑ کھانا کھا کر ٹہل رہے تھے کہ اس عورت نے آواز دی۔ ’’لَو نی آلے بھولے‘‘ابھی میں نے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ پھر بولی کہ میں سخت بھوکی ہوں مجھے روٹی دو۔ صفیہ کی اماں جو حضور کی خادمہ تھی اس وقت کھانا کھلایا کرتی تھی۔ انہوں نے دو روٹیاں سلطانو کو دیں کہ ان پر دال ڈال کر اس کو دے دو۔ سلطانی مغلانی بھی حضور علیہ السلام کے گھر میں آنکھوں سے معذور اور غریب ہونے کی وجہ سے رہتی تھی۔ اس نے جب دال ڈال کر اس سائلہ کو دی تو اس عورت نے جلدی سے ٹوکرا زمین پر رکھ کر روٹی ہاتھ میں لی اور جلدی سے ہی ایک بڑا لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالنے کے لیے منہ اوپر کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اونچا کیا۔ مکان کی پکی عمارت اس کو نظر آئی تو لقمہ اس کے ہاتھ میں تھا اور سخت بھوکی منہ اوپر کو کیے ہوئے اس نے پوچھاکہ’’ یہ کس کا گھر ہے کہیں عیسائیوں کا تو نہیں ‘‘۔ سلطانو نے کہا کہ ’’تو کون ہے؟ ‘‘ اس نے کہا کہ ’’ میں مسلمان امت رسول دی۔ ‘‘حضورؑ ٹہلتے ہوئے یہ بات سُن کر کھڑے ہو گئے فرمایا ’’ اس کو کہہ دو۔ یہی مسلمانوں کا گھر ہے۔ ‘‘پھر تین بار فرمایا کہ’’اس کو کہہ دو کہ یہ خاص مسلمانوں کا گھر ہے۔ ‘‘پھر ایک روپیہ اپنی جیب سے نکال کر اس کو دیا اور اس کے اس فعل سے کہ باوجود سخت بھوک ہونے کے اس نے جب تک تحقیق نہیں کر لی کہ یہ خیرات مسلمانوں کی ہے اس کو نہیں کھایا۔ آپ بہت خوش ہوئے۔

(سیرت المہدی جلد دوم، حصہ پنجم، روایت1476، صفحہ 263)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مداح اور آپؐ کی سیرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند چیدہ چیدہ اقتباسات و واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کیے گئے جن سے نہ صرف ہمیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ آپؐ کے سچے عاشق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے پناہ محبت اور عقیدت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کوپورا کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی عظمت کو اس دنیا میں پھیلانے والے بنیں۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button