متفرق مضامین

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ…چند سوالات

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

قرآن کریم کا یہ اسلوب اور طریق کار ہے کہ وہ یہودونصاریٰ سمیت منکرین و مخالفین انبیاء سے ان کے عقائد و اعمال کے متعلق معقولی بنیادوں پر سوالات کرکے انہیں حق کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ان سوالات کا ایک نمونہ سورۃ الواقعہ میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتا ہے کہ یہ جو منی کا قطرہ تم گراتے ہو اس سے اولاد تم تخلیق کرتے ہو یا ہم تخلیق کرتے ہیں؟ جو کاشت کاری تم کرتے ہو اس سے فصل تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟ وہ پانی جو تم پیتے ہو اسے بادلوں سے تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ وہ آگ جو تم روشن کرتے ہواسے تم جلاتے ہو یا ہم جلاتے ہیں؟ وغیرہ۔ اسی اسلوب کی پیروی میں غیراحمدی علماء اور عوام سےچند معقولی سوالات کیے جارہے ہیں جن کا مقصد انہیں ملزموں کی طرح کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر جرح کرنا نہیں بلکہ یہ توقع ہے کہ وہ ان کے جوابات دے کر یا کم از کم ان پر غور و فکر کرکےحق و باطل میں فرق جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی متنبہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے علماء انہیں قرآن و سنت اور عقل و فہم کی مخالف سمت اور ڈگر پر بہکائے لیے جارہے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

…ھَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕلَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۫ۖفَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ۔ (فاطر:4)

کیا اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے؟ کوئی معبود نہیں مگر وہ۔ پس تم کہاں اُلٹے پِھرائے جاتے ہو۔

یہ عام تجربے کی بات ہے کہ غیراحمدیوں کی طرف سےسیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ نبوت کی تردید میں سورۃ الاحزاب کی آیت خاتم النبیین کے بعد سب سے زیادہ جو آیت یا اس کا ایک حصہ پیش کیا جاتا ہے وہ سورۃ المائدہ کی مندرجہ ذیل آیت ہے:

…اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ…(المائدۃ:4)

آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لئے دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔

یہ آیت پیش کرکے مخالفینِ احمدیت یہ استنباط کرتے ہیں کہ چونکہ نبی اکرمﷺ کی بعثت کے ذریعے دین اسلام اکمل ہوچکا ہے اس لیے ان کے بعد کسی رسول اور نبی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اس استنباط و استدلال پر متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات غیراحمدی علماء اور عوام کے ذمے ہیں۔ انہی جوابات سے معلوم ہوگا کہ آیا ان کا یہ استدلال ان کے قرآن و سنّت کے فہم اور علم پر مبنی ہے یا اس کی بنیاد محض احمدیت کی مخالفت پر ہے۔

٭…الیوم کا کیا مطلب ہے؟

٭…اکمل کا کیا مطلب ہے؟

٭…دین کسے کہتے ہیں؟

٭…نعمت سے کیا مراد ہے؟

٭…اتمام کا کیا مطلب ہے؟

٭…کیا یہ اتمام نعمت صرف نبی اکرمﷺ اور مسلمانوں پر ہی ہوا یا اس سے پہلے بھی کسی اور نبی اور اس کی قوم پر ہوچکا ہے؟

٭…اکمال و اتمام میں کیا فرق ہے؟

٭…دین کے ساتھ اکمال اور نعمت کے ساتھ اتمام کا کیوں ذکر ہوا؟

٭…اکمالِ دین کی تعریف کیا ہے؟

٭…یہ ایک دعویٰ ہے کہ دین اسلام کا اکمال کردیا گیا ہے۔ اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے؟

٭…یہ آیت نبی اکرمﷺ پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی جس کے بعد نبی اکرمﷺ تقریباً تین ماہ زندہ رہے۔ اگر اکمال کا یہ مطلب ہے کہ دین میں اب کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی تو کیا اس آیت کے نزول کے بعد کوئی اور آیت یا وحی نازل نہیں ہوئی؟ اگر نازل ہوئی تو کیا وہ دین کا حصہ نہیں ہے؟ اس عرصہ کے دوران نبی اکرمﷺ نے جو اعمال کیے یا جو اقوال ارشاد فرمائے کیا وہ دین کا حصہ نہیں ہیں؟

٭…کتب احادیث نبی اکرمﷺ کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد مرتب ہونی شروع ہوئیں۔ اسی طرح کتب فقہ بھی اسی عرصہ میں لکھی گئیں۔ کیا یہ کتب بھی دین کا حصہ ہیں؟ اگر ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس روز وہ آیت نازل ہوئی تھی اُس روز دین کا اکمال نہیں ہوا تھا؟

٭…کیا نبی اکرمﷺ کی دنیا میں آمد کا یا آپﷺ کی بعثت کا صرف یہی ایک مقصد تھا کہ ان کے ذریعے دین کا اکمال اس صورت میں ہوجائے کہ بقول غیراحمدی دوستوں کے نبوت کا سلسلہ ختم ہوجائے؟

٭…اگرآپ کے نزدیک اسلام کا اکمال ہو چکا ہے تو پھر آپ کی سیاست، معیشت، رسومات اور معاشرت مغربی اور روایتی غیراسلامی بنیادوں پر کیوں ہیں؟ کیا ایک مکمل دین ان تمام موضوعات پر کوئی تعلیم پیش نہیں کرتا جس بنا پر آپ کو غیرمسلموں سے یہ سب تعلیمات مستعار لینی پڑیں۔ یا اگر پیش کرتا ہے تو کیا، نعوذ باللہ وہ تعلیمات ناقص ہیں یا پھر آپ کے خیال میں وہ آج کے دَور میں ناقابل عمل ہیں؟

٭…اگر آپ کے نزدیک دین اسلام کا اکمال اس صورت میں ہو چکا ہے جیسا کہ آپ زعم فرماتے ہیں تو پھر آپ کے علماء و دانشوروں سمیت ہر طبقے کے لوگ معترف کیوں ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان، مسلمان ممالک اور معاشرے دینی، اخلاقی اور روحانی زوال کا شکار ہیں؟

٭…کیا یہ خلافِ عقل نہیں کہ کسی مریض کے مرض میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے، اس کے سرہانے پڑی دوا کامل ہو اور خود مریض اور اس کے لواحقین اس دوا کے کامل ہونے کا اعتراف کرتےرہیں لیکن اسے استعمال نہ کریں؟

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، غیراحمدی علماء اور ان کی اندھادھند پیروی کرنے والے عوام قرآن و سنت کے علم و فہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض احمدیت کی مخالفت میں یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام ہر طرح سے مکمل ہوچکا ہے اس لیے ہمیں کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ غیراحمدی علماء اور عوام دونوں سے مندرجہ بالا سوالات کرکے انہیں ان پر غوروفکر کی دعوت دی جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل و دماغ کو روشن کرے، انہیں بصیرت اور شرح صدر عطا فرمائے اور وہ اپنے آبا و علماء کی اندھی پیروی اور احمدیت کی مخالفت، نفرت اور تعصب سے اپنے سینوں کو صاف کرتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں خداداد عقل و فہم استعمال کرتے ہوئے ان سوالات پر غور کریں اور درست نتیجے تک پہنچنے کی توفیق پائیں۔ آمین!

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(الاعراف:90)

اے ہمارے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور تُو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button