حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (قسط پنجم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(5) اگر ايک ہي دفعہ سارا قرآن نازل ہوتا تو ايک حصہ ميں دوسرے حصہ کي طرف اشارہ نہيں ہو سکتا تھا۔ مثلاً قرآن کريم ميں يہ پيشگوئي تھي کہ ہم محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو دشمنوں کے نرغے سے نکال کر صحيح و سلامت لے جائيں گے۔ اگر ايک ہي دفعہ سارا قرآن نازل ہو جاتا تو جب رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو مدينہ لے جايا گيا اس وقت يہ نہ کہا جاسکتا کہ ديکھو اسے ہم دشمنوں کے نرغہ سے بچا کر لے آئيں ہيں۔ يہ اسي صورت ميں کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ايک حصہ نازل ہوتا جس ميں رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو صحيح و سلامت لے جانے کي پيشگوئي ہوتي۔ پھر جب يہ پيشگوئي پوري ہو جاتي اس وقت وہ حصہ اترتا جس ميں اس کے پورا ہونے کے متعلق اشارہ ہوتا۔

(6)ميرے نزديک ايک اَور اہم بات يہ ہےکہ قرآن کريم کے متعلق يہ اعتراض کيا جانا تھا کہ کسي اَور نے بنا کر ديا ہے۔ چنانچہ قرآن کريم ميں اس اعتراض کا ذکر بھي آتا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡکُ ۣافۡتَرٰٮہُ وَ اَعَانَہٗ عَلَیۡہِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ(الفرقان :5)

يعني کافر کہتے ہيں کہ يہ تو صرف ايک جھوٹ ہے جو اس نے بنا ليا ہے۔ اور اس کے بنانے پر ايک اور قوم نے اس کي مدد کي ہے۔ اگر قرآن اکٹھا ملتا تو مخالف يہ کہہ سکتے تھے کہ کسي نے بنا کر يہ کتاب دے دي ہے۔ اب کچھ حصہ مکہ ميں نازل ہوا کچھ مدينہ ميں۔ مکہ والے اگر کہيں کہ کوئي بنا کر ديتا ہے تو مدينہ ميں کون بنا کر ديتا تھا۔ پھر قرآن مجلس ميں بھي نازل ہوتا، اس وقت کون سکھاتا تھا۔ پھر قرآن سفر ميں بھي نازل ہوتا۔ ايسا کون شخص تھا جو ہر لڑائي ميں شامل ہوا، کوئي بھي نہيں۔ غرض قرآن سفر اور حضر ميں رات اور دن ميں، مکہ اور مدينہ ميں، مجلس اور عليحدگي ميں نازل ہوا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں کا جواب ہو گيا کہ قرآن کوئي اور انسان بنا کر آپ کو نہيں ديتا تھا۔ ورنہ اگر اکٹھي کتاب نازل ہوتي تو کہا جاتا کہ کوئي شخص کتاب بنا کر دے گيا۔ جسے سنا ديا جاتا ہے مگر اب جب کہ موقع اور محل کے مطابق آيات اترتي رہيں تو کوئي نہيں کہہ سکتا تھا کہ ہر موقع پر کوئي بنا کر دے ديتا ہے۔ پس قرآن کا ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اترنا ثبوت ہے

لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ

کا۔

جمع قرآن پر اعتراضات

ايک اعتراض جمع قرآن کے متعلق کيا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو يہ کہتے ہيں کہ قرآن اپني اصلي صورت ميں محفوظ نہيں وہ اپنے اس دعويٰ کے ثبوت ميں يہ بات پيش کرتے ہيں کہ

(1)محمد (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کو جس قدر کام ہوتے تھے اور جس طرح وہ لڑائيوں اور شورشوں ميں گھرے ہوئے تھے ايسي حالت ميں انہيں قرآن صحيح طور پر کہاں ياد رہ سکتا تھا۔

(2) کہا جاتا ہے کہ عربوں کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ مگر يہ غلط ہے۔ صحيح بات يہ ہے کہ ان کا حافظہ اچھا نہيں ہوتا تھا جو اس سے ظاہر ہے کہ ان کي ان نظموں ميں اختلاف ہے جو پہلے شاعروں کي ہيں۔ کوئي کسي طرح بيان کرتا ہے اور کوئي کسي طرح۔ اس سے معلوم ہوا کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے ورنہ اختلاف کيوں ہوتا۔

(3) قرآن رسول کے زمانہ ميں پورا نہيں لکھا گيا۔ اگر پورا لکھا جاتا تو حافظوں کے مارے جانے پر قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ کيوں ظاہر کيا جاتا۔

(4) قرآن ميں آتا ہے۔

الَّذِیۡنَ جَعَلُوا الۡقُرۡاٰنَ عِضِیۡنَ (الحجر:92)

يعني وہ لوگ ايسے ہيں جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ليا۔ کہتے ہيں اس سے معلوم ہوا کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي زندگي ميں ہي قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پيدا ہو گئے تھے۔

(5) رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم چونکہ خود پڑھے لکھے نہ تھے اس لئے انہوں نے قرآن لکھنے کے لئے کاتب رکھے ہوئے تھے اور وہ جو چاہتے لکھ ديتے۔

(6) لکھا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ ميں قرآن کے پڑھنے ميں بڑا اختلاف ہو گيا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں ميں قرآن کے متعلق اختلاف موجود تھا۔

(7) حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوبکر رضي اللہ عنہ کے وقت کے قرآن کي جتني کاپياں تھيں وہ جلوا دي تھيں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان ميں اختلاف تھا اس قرآن سے جو عثمانؓ نے لکھوايا۔ اگر اختلاف نہيں تھا تو ان کو کيوں جلوايا گيا۔

(8) قرآن کريم کي اصليت پر صرف زيد گواہ ہے۔ مگر اس کا تو فرض تھا کہ قرآن لکھے۔ اس پر بھروسہ کس طرح کيا جا سکتا ہے۔

(9) اگر حضرت ابوبکرؓ کے وقت کے قرآن کي کاپي درست تھي تو پھر حضرت عثمانؓ کے زمانہ ميں دوبارہ لکھوانے کي کيا ضرورت تھي۔ يہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کي کاپيوں کو غلط سمجھا گيا۔

(10) حضرت عثمانؓ پر الزام لگايا گيا ہے کہ جب وہ خليفہ ہوئے تو بہت سے قرآن تھے۔ ليکن جب وہ فوت ہوئے تو پيچھے صرف ايک قرآن چھوڑا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختلاف والے قرآنوں کو جلا ديا گيا تھا۔

مخالفين کے اعتراضات کے جوابات

اب ميں ان اعتراضوں کا جواب ديتا ہوں۔

پہلا اعتراض يہ کيا جاتا ہے کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو اتنے کاموں اور شورشوں ميں قرآن کريم ياد کس طرح رہ سکتا تھا۔ يہ ايسا سوال ہے کہ اس کا ايک ہي جواب ہو سکتا ہے اور وہ يہ کہ ايک واقعہ کو کس طرح جھٹلايا جا سکتا ہے۔ جب واقعہ يہ ہے کہ قرآن کريم آپ کو ياد رہا اور شب و روز نمازوں ميں سنايا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کيا جا سکتا ہے۔ مجھے ياد ہے ايک دفعہ ميرے سامنے پروفيسر مارگوليتھ نے يہ اعتراض کيا کہ اتنا بڑا قرآن کس طرح ياد رہ گيا۔ ميں نے کہا۔ محمد صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپﷺ کے سپرد ساري دنيا کي اصلاح کا کام کيا گيا تھا؟ آپﷺ اسے کيوں ياد نہ رکھتے۔ ميرے ايک لڑکے نے گيارہ سال کي عمر ميں قرآن ياد کر ليا ہے۔ اور لاکھوں انسان موجود ہيں جنہيں سارے کا سارا قرآن ياد ہے۔ جب اتنے لوگ اسے ياد کر سکتے ہيں تو کيا وہي نہيں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔

دوسرا اعتراض يہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا حافظہ اچھا نہ تھا،کيونکہ وہ پراني نظموں ميں اختلاف کرتے ہيں۔ اس کے متعلق اول تو ميں کہتا ہوں کہ يہ شتر مرغ والي مثال ہے۔ ايک طرف تو کہا جاتا ہے کہ عربوں کو پرانے قصيدے ياد ہوتے تھے جن ميں اختلاف ہوتا تھا۔ اور دوسري طرف مارگوليتھ کہتا ہے کہ پرانے زمانہ ميں قصيدے تھے ہي نہيں يوں ہي بنا کر پہلے لوگوں کي طرف منسوب کر ديئے گئے ہيں۔ گويا جس پہلو سے اسلام پر اعتراض کرنا چاہا۔ وہي سامنے رکھ ليا۔ اصل بات يہ ہے کہ عربوں کے ايسے حافظے ہوتے تھے کہ مشہور ہے ايک بادشاہ نے اعلان کيا کہ جس شاعر کو ايک لاکھ شعر ياد نہ ہوں وہ ميرے پاس نہ آئے۔ اس پر ايک شاعر آيا اور اس نے آکر کہا۔ ميں بادشاہ سے ملنے کے لئے آيا ہوں۔ اسے بتايا گيا کہ بادشاہ سے ملنے کے لئے ايک لاکھ شعر ياد ہونے ضروري ہيں۔ اس نے کہا۔ بادشاہ سے جا کر کہہ دو۔ وہ ايک لاکھ شعر اسلامي زمانہ کا سننا چاہتا ہے يا زمانہ جاہليت کا۔ عورتوں کے سننا چاہتا ہے يا مردوں کے۔ ميں سب کے اشعار سنانے کيلئے تيار ہوں۔ يہ سن کر بادشاہ فوراً باہر آگيا اور آکر کہا کيا آپ فلاں شاعر ہيں۔ اس نے کہا۔ ہاں ميں وہي ہوں۔ بادشاہ نے کہا۔ اسي لئے ميں نے يہ اعلان کيا تھا کہ آپ ميرے پاس آتے نہ تھے۔ ميں نے خيال کيا کہ شايد اس اعلان پر جوش کي وجہ سے آپ آ جائيں۔ پس يہ کہنا غلط ہے کہ عربوں کے حافظے اچھے نہ تھے۔ رہي يہ بات کے شعروں ميں اختلاف ہے۔ اس کے متعلق ياد رکھنا چاہئے کہ وہ لوگ جو شعر ياد رکھتے تھے وہ انہيں الہامي کتاب کے شعر سمجھ کر نہيں ياد کرتے تھے بلکہ ان کا مطلب اخذ کر ليتے تھے۔ مگر قرآن کو تو خدا کا کلام سمجھ کر ياد کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس کا ايک لفظ بھي آگے پيچھے نہ کرتے تھے۔ پھر شعر جو وہ ياد کرتے تھے وہ استادوں سے پڑھ کر ياد نہ کرتے تھے بلکہ جس سے سنتے ياد کر ليتے۔ اور ہر شخص اس قابل نہيں ہوتا کہ صحيح الفاظ ہي ياد کرائے۔ ليکن اسلامي تاريخ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن لکھنے کے متعلق اور قرآن ياد کرنے کے متعلق خاص قواعد مقرر تھے اور قرآن ياد کرانے کے لئے چار آدمي مقرر تھے۔ اور اس ميں اتني احتياط کي جاتي تھي کہ ايک دفعہ نماز ميں حضرت عليؓ نے پڑھنے والے کو لقمہ دے ديا۔ تو انہيں منع کيا گيا اور کہا گيا کہ آپ اس کام کے لئے مقرر نہيں۔ غرض قرآن کريم کے بارہ ميں اتني احتياط کي گئي تھي کہ چار آدمي اس کام کے لئے مقرر تھے حالانکہ قرآن جاننے والے ہزاروں تھے۔ اس کے مقابلہ ميں شاعروں کي طرف سے کونسے لوگ مقرر تھے جو شعر ياد کراتے تھے۔ امراء القيس نے کسے مقرر کيا تھا کہ اس کے اشعار لوگوں کو ياد کرايا کرے۔ مگر قرآن ياد کرانے کے متعلق تو استاد در استاد بات چلي آ رہي ہے۔

سوم۔ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا۔ جیسا کہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم ﷺلکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو۔ جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریمﷺکے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے۔ حضرت عمرؓ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ قرآن محفوظ نہیں۔ اس لئے انہوں نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓ سے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ

اِنِّیْ اَرَی اَنْ تَاْمُرَ جَمْعَ الْقُرْاٰنِ

میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپؓ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں۔ یہ نہیں کہا کہ آپؓ اس کی کتابت کرالیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو۔ چنانچہ فرمایا اَجْمَعُہٗ اسے ایک جگہ جمع کر دو۔ یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو۔ غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا۔ لکھنے کا سوال نہ تھا۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button