تعارف کتاب

کتب مینار (قسط اوّل)

(اواب سعد حیات)

شاعر مشرق نے اپنی ایک نظم میں مسلمان نوجوانوں سےمخاطب ہوکر علم کے موتی یعنی ان کے آبا واجداد کی کتابوں کی مشرقی ممالک میں کمیابی اور مغربی ممالک میں بحفاظت موجودگی کا تذکرہ کیا تھا۔

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

بلاشبہ میراث ایک توجہ، دیوانگی اور پیار مانگا کرتی ہے۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مقدس اصحاب، السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کی تصنیفات کے تعارف کے سلسلہ کی پہلی قسط پیش کی جاتی ہے۔ یقیناً ان مردان خدا نے نہایت بلند بخت کے مسیح دوراں کو دیکھا، اس کو قبول کیا، اس سے فیضیاب ہوئے اور اس سلطان القلم کے سلطان نصیر بنے۔ ان صحابہ کی بعض کتب ایسی تھیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نگاہوں سے گزریں، اور بعض کا ذکریا خلاصہ مضامین حضور علیہ السلام نے سنا، یوں بلاشبہ یہ تصنیفات ایک امتیازی خصوصیت کی حامل اور قابل قدر شے ہیں۔ جن کے مندرجات اپنے دلائل، بیان اور ندرت خیال کے باعث ایک قیمتی اثاثہ اور اگلی نسلوں کے لیے لازمی طور پر محفوظ کیا جانے والا خزانہ ہے۔

’’حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ؑنے کیا اصلاح اورتجدید کی‘‘

مصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ

جماعت احمدیہ کے اولین اخبا ر الحکم نےاپنے10؍اکتوبر 1906ءکے شمارہ کے صفحہ7پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا کتاب کا دیباچہ نقل کیا، اس میں ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کو پڑھا اور 26؍فروری 1899ء کو مسجد مبارک میں احباب جماعت سے فرمایاکہ

’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سب دوست اسے ضرور پڑھیں۔ اس لئے کہ اس میں بہت سے نکات لطیفہ ہیں۔ اور یہ نمونہ ہے ایک شخص کی قوت تقریر کا، اور اسی منوال پر مخصوصاہماری جماعت کو مقرر بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 194، مطبوعہ 2008ء)

مسلمانوں کے لیڈر اور مسیح موعودؑ کے مقرب خادم، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے 13؍نومبر 1898ء کو مجمع عام کے سامنے مذکورہ بالا عنوان پر ایک لیکچر دیا تھا جسے مطبع مفید عام پریس سیالکوٹ نے استفادہ عام کے لیے 100صفحات پر شائع کیاتھا۔

یہ لیکچر مولوی عبدالکریم صاحب نے نزلہ اور تیز بخارکی حالت میں قریباً اڑھائی گھنٹہ میں مکمل کیاتھا کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کی پیدا کردہ اصلاح اور تجدید کسی مختصر وقت میں مکمل ہونے والا مضمون ہرگز نہ ہے، تب اس تقریر کو مولوی محمد فیروز الدین صاحب فیروز ڈسکوی فن زود نویسی میں کمال مہارت دکھاتے ہوئے ساتھ ساتھ ضبط تحریر میں لائےاور لیکچرکے بعد مولوی عبدالکریم صاحبؓ تو قادیان تشریف لے گئے اور مولوی فیروز الدین صاحب نے تقریر کومناسب کتر و بیونت اور ترتیب و ترکیب کے بعد تحریر کے لبادہ میں آراستہ کیا۔

اس لیکچر میں بیان کیا گیا کہ کس طرح اور کن حالات میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے تن تنہا اصلاحی ذمہ داریوں کا آغاز فرمایا اور زمانہ میں پھیلے ہوئے عام شکو ک و شبہات کا خاتمہ فرمایا۔ کیونکہ تیرھویں صدی ہجری تک امت مسلمہ میں دین کے اساسی امورمثلاً دعا، وحی و الہام، رویاء وکشوف، ملائکۃ اللہ، قرآن کریم کی لفظی و معنوی بے نظیری اور من جانب اللہ کلام ہونے کے دلائل ہی اپنوں کی بے توجہی سے معرض خطر میں پڑچکے تھے، تب جری اللہ نے مامور ہوکر بیک وقت نصرانیوں، دہریوں، برہموؤں، آریوں، سکھوں اور جینیوں کے عقائد باطلہ کے جواب میں مدلل لٹریچر پیدا کیا اور دین اسلام کے اندر فرقہ فرقہ ہوکر عجیب و غریب عقائد کے اسیر ہونے والوں کے لیے لاجواب اور غیر مسبوق اصول اور ضوابط عطافرمائے کہ دین نکھر کر دین کے طور پر نظر آنے لگا اور جگ ہنسائیوں کا تماشہ ختم ہونے لگا۔ الغرض آپ علیہ السلام نے زمانہ کو اس کی خطرناک غلطیوں سے آگاہ اور متنبہ کرکے اہل اللہ کی شناخت اور ان کے دشمنوں کی بیخ کنی کے لیے جامع اور مانع اصول اور معیار مہیافرمادیے۔

یہ کتاب حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی سوانح عمری کی بھی چند جھلکیاں مہیا کرتی ہے، کیونکہ مولوی صاحب نے الگ سے اپنے حالات زندگی تیار نہیں کیے تھے۔ دیباچہ میں لکھا ہے کہ میں نے مارچ 1888ءمیں بیعت کا شرف پایا، جو یقینا ًسہو کتابت ہے، بیعت 1889ء میں ماہ مارچ میں ہوئی تھی، مولوی صاحب نے لکھا کہ 1891ء میں مجھے مستقلاً قادیان میں رہائش رکھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربت میں رہ کر نشانات اور واقعات کی عینی روئیت کی توفیق ملی۔

اس کتاب کے دیباچہ میں اور متن میں بھی مثالوں کے بیان میں اس وہم کا جواب بھی دیا ہے کہ کس طرح سید احمد بریلوی شہید اور سر سید احمد خان کے سامنے حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام کے تجدیدی کارنامے، تفسیر اور فہم قرآن اور پیداکردہ اصلاح خارق عادت اور عظیم الشان ہے۔ کیونکہ آپ علیہ السلام مامور من اللہ اور آسمانی مائدہ سے سرفراز تھے۔

لیکچر کے آغاز میں مجدد اور تجدیدپر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اسلام میں سلسلہ تجدید کی حقیقت بتاکر اس بابت عام پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے۔ آغاز اسلام سے مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی درمیانی صدیوں میں ظاہر ہونے والے مجددین کے کارناموں کا احاطہ کرکے حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے تجدیدی کارناموں کا ذکر کیاگیاہے اور اس ضرورت حقہ کا بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح کے حالات تھے، اور وہ کونسا لازمی اور لَابُدَّ مِنْہٗ وقت آن پہنچا تھا کہ چودھویں صدی میں تجدید دین کے واسطے مسیح و مہدی کا ظہور ہو۔

اس کتاب میں آگے جاکر موجودہ زمانہ میں کسی آسمانی مصلح کی حقیقی اور سچی ضرورت کو ثابت کرنے والے اندرونی اور بیرونی مصائب کا مثالوں کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے کہ کس طرح مسلم امت شدید مسائل کا شکار تھی اور کس نوع کے رقیق اور دجالی حملے اغیار کی طرف سے زوروں پر تھے۔ عیسائی پادریوں کے جھوٹ اور دھوکے سے لبریز لٹریچر کی جھلکیاں پیش کرکے مرتدین اور دشمنان دین کی فریب کاریوں کا بیان کیا گیا ہے۔

اس سب کے مقابل پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عاجزانہ مساعی کا بتایا گیا کہ مباحثہ امرتسر جسے خود عیسائی کیمپ نے جنگ مقدس کا نام دیاتھا، وغیرہ برپاہوئے تا کسرصلیب کا مشن مکمل ہو۔

فاضل لیکچرر نے تردید نصاریٰ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیداکردہ لٹریچر سے ابھرنے والے واضح مسئلہ وفات مسیح کے اثرات کا جامعیت سے بیان کیا کہ کس طرح یہ وفات ثابت کرکے آپ نے اپنوں اور غیروں کے صدیوں سے رائج عقائد کا قلع قمع فرمایا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیش کردہ آہنی دلائل سے ہندوستان کا بچہ بچہ آگاہ ہوکر مسلح ہوگیا تھا کہ اسلام پر حملہ آور ہونے والے چھپنے کی جگہ تلاش کرنے لگے۔

اس کتاب میں بتایا گیا کہ اسلام پر دوسرا رکیک حملہ آریوں کی طرف سے کیا گیا تھا جو عیسائیوں سے کاسہ لیسی کرکے اسلام، بانی اسلام اور مقدسین کے خلاف نہایت گندے اور پراز اہانت و توہین لٹریچر کا سیلاب لائے بلکہ دیگر دشمنان اسلام سے بڑھ کر تکلیف دہ اور خطر ناک دشمن ثابت ہوئے۔ یوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس گروہ دشمنان کے مقابل پر بھی فتح نصیب جرنیل ثابت ہوئے جنہوں نے دلائل اور براہین کے ساتھ ساتھ پر جلال و ہیبت آسمانی نشانوں سے ان سفہاء کا مقابلہ کیا۔

الغرض اس کتاب میں حسن بیان سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کارناموں کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے اور استفادہ کرنے والوں کو ان امور پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کا وسعت مطالعہ، جزئیات بیانی، سلاست اور انتخاب الفاظ اس کتاب کے مطالعہ سے عیاں ہے۔ یقیناً آپ اپنے امام ہمام کے سلطان نصیر تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button