8؍مارچ 1944ء: غلبہ اسلام کے لیے مزار حضرت مسیح موعودؑ پر حضرت مصلح موعودؓ کا چالیس روزہ دعاؤں کے خاص سلسلہ کا آغاز
حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے 7۔ امان/ مارچ 1944ء/ 1323ہش کو مسجد مبارک میں نماز مغرب پڑھانے کے بعد محراب میں کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا۔
’’ایک تجویز ذہن میں آئی ہے جو بیان کرنی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چالیس دن متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر جاکر اسلام کے غلبہ کے لئے دعا کی جائے۔ بعض خاص وجودوں کے ساتھ دعا کی قبولیت کو خاص تعلق ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں۔ پس جب ہم آنحضرتﷺ کے لئے دعا کرتے ہیں تو وہی دعا ہمارے حق میں بھی قبول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم وہاں جاکر دعا کریں جہاں وہ شخص مدفون ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے غلبے کے وعدے کئے ہیں اور ہم کہیں کہ اے خدا یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تو نے اسلام کے غلبے کے وعدے کئے اور اب تو ان وعدوں کو پورا کر۔ تو یہ دعا بہت جلد قبولیت حاصل کرلے گی۔ جماعت میں ایک نئی زندگی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس جگہ پر جاکر دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکایا جائے اور تا اسلام کو ایسی فوج میسر آجائے جو اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے۔
اللہ تعالیٰ کے ارادے تو بہت وسیع ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ جس حد تک میرے ارادے ہیں اگر جماعت میں اتنی ہی تبدیلی پیدا ہو جائے تو موجودہ لاکھ دو لاکھ سے ہی ہم نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جسمانی طور پر بھی دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہمارا مقصد روحانی فتح ہے جسمانی نہیں۔ لیکن جہاں تک طاقت کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں جسمانی فتح کے لئے بھی جس قدر ضرورت اخلاص اور عزم کی ہے اس قدر مقدار افراد کی نہیں ہے۔ پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ جتنے لوگ ہم کو مل چکے ہیں پہلے ان کے دلوں کو دوبارہ فتح کریں۔ پس جو دوست جاسکتے ہیں وہ عصر کے بعد میرے ساتھ جاکر دعا میں شامل ہوسکتے ہیں اور جو قادیان سے باہر ہیں وہ بامر مجبوری چالیس دن تک اس دعا میں عصر کے بعد اپنی اپنی جگہ شامل ہوسکتے ہیں خواہ مسجد میں، خواہ اپنے گھروں میں، خواہ دفتروں میں، خواہ بازار یا گزرگاہوں میں۔
ام طاہر احمد کے لئے میں نے چند دن جانا ہی تھا کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کسی کی وفات ہو جاتی ہے تو کچھ عرصہ کے لئے اس کی روح میں کچھ توحّش سا پیدا ہو جاتا ہے۔ پس اس توحش کو دور کرنے کے لئے اگر میت کے اعزّہ اور اقرباء قبر پر جاکر دعا کرتے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں اس سے مردہ کو اس دوسری زندگی میں سہولت میسر ہوسکتی ہے۔ پس میں نے سوچا کہ جب اس غرض سے میں کچھ دن متواتر مقبرہ میں جاؤں گا تو ساتھ ہی یہ دوسرا کام بھی شروع کر دیا جائے اور اسلام اور سلسلہ کی فتوحات کے لئے دعا کرنے کے لئے چالیس دن مقرر کرلئے جائیں تا خدا تعالیٰ کا فضل بھی نازل ہو اور ہمارے دلوں میں بھی تبدیلی ہو۔
پچھلے دنوں مجھ پر بہت بوجھ رہا لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ میں اس بوجھ کو اٹھا سکوں لیکن ام طاہر احمد کی وفات کے بعد میری طبیعت ناساز ہوگئی ہے…… پس اگر میں باہر ہوں یا بیمار ہوں تو جو مقامی امام ہو یا جس کو میں مقرر کردوں میری جگہ دعا کرائے۔ جتنے دن میں دعا نہ کرسکوں گا ان کی کمی بعد میں پوری کروں گا۔ اس طرح چالیس دن تواتر کے ساتھ ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے ناچیز وجودوں کو اس کی درگاہ کی بھینٹ چڑھا دیں۔ جماعت اللہ ہی سنبھالتا ہے۔ اللہ ہی دلوں کو فتح کرتا ہے لیکن انسان جب اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے تو باقی کام اللہ تعالیٰ خود کردیتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی قربانی اس طرح سے پیش کردے جس طرح ابراہیمؑ نے اسمٰعیل کو پیش کر دیا تھا جس کے نتیجے میں محمد رسول اللہﷺ جیسا وجود پیدا ہوا۔ آج بھی اگر ہم میں سے ہر شخص اسمٰعیلؑ بن جائے تو جلد ہی ناممکن بات ممکن ہو جائے گی۔ دنیا میں آج اس قدر غفلت ہے، اتنی دہریت ہے، اس قدر مادیت ہے۔ مذہب سے اس قدر بے اعتنائی ہے کہ ایک منٹ کے لئے بھی کوئی خیال نہیں کرسکتا کہ کوئی زبردست تبدیلی دنیا میں پیدا ہو جائے گی۔ پس آؤ! ہم اپنی گردنوں کو خدا تعالیٰ کے دروازہ پر جھکا کر خود اپنے ہاتھوں سے ان پر چھری پھیر دیں تاکہ محمد رسول اللہﷺ کی حکومت پھر دنیا میں قائم ہو جائے۔‘‘
اسلام کی فتح روحانی کے لیے ان دردمندانہ دعاؤں کا سلسلہ دوسرے دن 8۔ امان/ مارچ 1944ء/ 1323ہش سے شروع ہوگیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اس روز نماز عصر کے بعد خدام کی ایک کثیر تعداد کے ساتھ بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے۔اگلے روز حضور نے دعا کرنے سے قبل چار دیواری کے دروازہ میں کھڑے ہوکر یہ وضاحت فرمائی کہ
’’ہماری غرض یہاں آکر دعائیں کرنے سے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھ کر ہمارے اندر رقت پیدا ہو اور ہم خدا تعالیٰ سے عرض کریں کہ اے خدا! یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کردی۔ یہ وہ شخص ہے جس پر تُو نے الہامات نازل کئے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا احیاء ہوگا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی۔ اب یہ شخص فوت ہوچکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اس کے ساتھ محبت رکھتے اور اس کے غلاموں میں شامل ہیں۔ اس لئے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو ادا کریں اور ان وعدوں کو جو تو نے کئے پورا کرنے کے لئے اپنی جدوجہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں۔ مگر ہم کمزور ہیں۔ ہمارے اندر کئی قسم کی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو طاقت دے۔ ہمارے ناتوان ہاتھوں کو مضبوط بنا اور ہماری کوششوں میں ایسی برکت پیدا فرما کہ تیرے وعدے پورے ہوں اور تیرا دین دنیا پر غالب آجائے۔‘‘
(ماخوذ ازتاریخِ احمدیت جلد نہم صفحہ 627 تا 629)