خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ مارچ 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

بیس دن تک فسادی زبانی طور پر یہ کوشش کرتے رہے کہ حضرت عثمانؓ خلافت سے دستبردار ہوجائیں۔ حضرت عثمانؓ ان فسادیوں کو سمجھاتے رہے اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ مجھ سے بیزار ہیں مگر جب مَیں نہ رہوں گا تو یہ خواہش کریں گےکہ کاش! عثمان کی عمر کا ایک دن ایک سال سے بدل جاتا

الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعاؤں کی مکرر تحریک

چار مرحومین مکرم مولوی محمد نجیب خان صاحب نائب ناظر دعوت الیٰ اللہ جنوبی ہند قادیان، مکرم نذیر احمد خادم صاحب ابن چودھری احمد دین صاحب چٹھہ، الحاج ڈاکٹر نانا مصطفیٰ اوٹی بواٹنگ صاحب آف گھانا اور مکرم غلام نبی صاحب ابن فضل دین صاحب ربوہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ مارچ 2021ء بمطابق 05؍امان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 05؍ مارچ 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عثمانؓ کے خلاف جو فتنہ اٹھا تھااس کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ طبری کے حوالوں کی روشنی میں اپنا تجزیہ اور نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ محمد بن ابو بکر،محمد بن حذیفہ اور عمار بن یاسریہ تین اشخاص باغیوں کی باتوں میں آکران کے ساتھ مل گئے تھے باقی اہلِ مدینہ میں سے کوئی صحابی یا غیر صحابی ان مفسدوں کا ہمدرد نہ تھا۔ بیس دن تک فسادی زبانی طور پر یہ کوشش کرتے رہے کہ حضرت عثمانؓ خلافت سے دست بردار ہوجائیں۔ حضرت عثمانؓ ان فسادیوں کو سمجھاتے رہے اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ مجھ سے بیزار ہیں مگر جب مَیں نہ رہوں گا تو یہ خواہش کریں گےکہ کاش! عثمان کی عمر کا ایک دن ایک سال سے بدل جاتا۔بہرحال بیس دن کے بعد ان لوگوں کو خیال ہوا کہ جلد کوئی فیصلہ کرنا چاہیےایسا نہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آجائیں اور ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنی پڑے۔ اس وقت مدینے کا انتظام عملاً ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے مصر کی فوجوں کے سردار غافقی کو اپنا سردار بنا رکھا تھا۔ کوفے کی فوج کا سردار اشتر اوربصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جبلہ یعنی وہی ڈاکو جسے اہلِ ذمہ کا مال لوٹنے پر حضرت عثمانؓ نے نظربندی کی سزا دیے جانے کا حکم دیا تھا غافقی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ غافقی کے سردار بنائے جانے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اس فتنے کی جڑ مصری تھے جہاں عبداللہ بن سبا کام کر رہا تھا۔مسجدِ نبوی میں غافقی ہی نماز پڑھاتا اور صحابہ اپنے گھروں میں مقیّد رہتے یا مجبوراً اس کے پیچھے نماز ادا کرتے۔ ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کےمحاصرے کے ساتھ دیگر لوگوں پر بھی سختیاں شروع کردیں چنانچہ مدینہ دارالامن سے دارالحرب ہوگیا۔اہلِ مدینہ کی عزت و ناموس خطرے میں تھی اور کوئی شخص اسلحے کےبغیرگھر سے نہ نکلتا تھا۔ جب ان لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھرپانی تک جانے سے روک دیا تو آپؓ نے حضرت علیؓ،طلحہؓ اور زبیرؓ نیز امہات المومنین کو پیغام بھجوایا ۔ جس پر سب سے پہلے حضرت علیؓ آئے اور آپؓ نے ان مفسدوں کو سمجھایا لیکن ان پر حضرت علیؓ کی نصائح کا کوئی اثر نہ ہوا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہوجائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے۔ یہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریمﷺ کا وصی اور حقیقی جانشین قرار دیتے تھے۔ پس یہ جواب ثابت کرتا ہے کہ یہ مفسد حضرت علیؓ کی حمایت یا اہلِ بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلے تھے بلکہ یہ لوگ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے آئے تھے۔ امہات المومنین میں سے سب سے پہلےامِّ حبیبہ تشریف لائیں مگر آپؓ کے ساتھ ان مفسدوں نے نہایت بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ جب حضرت امِّ حبیبہؓ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی خبر مدینے میں پھیلی تو حضرت عائشہؓ نے اسی وقت حج کا ارادہ کرلیا۔ بعض لوگوں نے آپؓ کو روکنا چاہا تاکہ فتنے کے تدارک میں عائشہؓ مدد دے سکیں تو آپؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! مَیں اپنی عزت خطرے میں نہیں ڈال سکتی کیونکہ یہ رسول کریمﷺ کی عزت ہے۔

حضرت عثمانؓ کو جب یہ محسوس ہوا کہ یہ لوگ نرمی سے نہیں مان سکتے تو آپؓ نے تمام والیانِ صوبہ جات کے نام ایک خط روانہ کیا۔اسی طرح حج پر آنے والے لوگوں کے لیے بھی ایک خط بھجوایا جس میں آپؓ نے فرمایا کہ یہ مفسد جو اسلام میں فتنہ ڈالنے میں مشغول ہیں انہیں یہ بھی پروا نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ حضرت عثمانؓ نے آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں بیعت اور اطاعت کا مفہوم واضح کرنے کے بعد فسادیوں کے ناجائز مطالبات کا بھرپور تجزیہ فرمایا۔

فسادیوں نے حضرت عثمانؓ کو تنگ کرنےاور اشتعال دلانے کےلیےرات کے وقت آپؓ کے گھرمیں پتھرتک پھینکے۔ صحابہ کو حضرت عثمانؓ کے پاس جمع ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی حضرت علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ کی اولاد اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت رات اور دن آپؓ کے گھر کی حفاظت کیا کرتی۔ حضرت علیؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے جلیل القدر صحابہ جو عوام پر اخلاقی اثر رکھتے تھے اپنے اوقات لوگوں کو سمجھانے پر صَرف کرتے۔ حضرت علیؓ تو تمام کام چھوڑ کر رات دن حضرت عثمانؓ کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپؓ کی تکالیف دُور کرنے کےلیے کوشاں رہتے۔ تین ہزار کا لشکر حضرت عثمانؓ کے گھر کے دروازے پرپڑا رہتا اورحضرت عثمانؓ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کی حفاظت کی کوشش کرنے والےصحابہ کو اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے سے روکتے رہتے۔ حضرت عثمانؓ یہی نصیحت فرماتے کہ ان لوگوں سے تعارض نہ کرو، آپؓ چاہتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے صحابہ کی وہ جماعت جس نے رسول اللہﷺ کی صحبت پائی ہے وہ آئندہ فتنوں کو دُور کرنے کے لیے محفوظ رہے۔

دوسری جانب حج کے موقعے پر جب حضرت عثمانؓ کا دل دہلا دینے والا پیغام سنایا گیا تو حجاج نے فیصلہ کیا کہ وہ حج کے بعد مصری مفسدوں اور ان کے ساتھیوں کےخلاف جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے۔ مفسدوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے جب اس کا عِلْم ہوا تو وہ سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔اس گھبراہٹ میں تب اور بھی اضافہ ہوگیا جب انہیں یہ خبر ملی کہ شام،کوفہ اور بصرہ میں حضرت عثمانؓ کے خطوط موصول ہونے کےبعدان مفسدوں کےخلاف جہاد کے فتوے دیے جارہے ہیں۔ غرض ان خبروں کےباعث باغیوں نے سخت گھبراہٹ میں حضرت عثمانؓ کے گھر پر حملہ کرکے بزور اندر داخل ہونا چاہا۔ صحابہ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی، جب حضرت عثمانؓ کو اس لڑائی کا عِلْم ہوا تو آپؓ نے صحابہ کو لڑنے سے منع کیا۔ صحابہ نے اس وقت حضرت عثمانؓ کو اکیلا چھوڑدینا ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے ہوئے لوٹنےسے انکار کردیا۔ حضرت عثمانؓ صحابہ کو اپنے گھر کے اندر لے گئے اور دنیا سے بےرغبتی کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد کی وصیت کی اور گھروں کو لوٹ جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت علیؓ ،حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور دیگر عظیم المرتبت صحابہ کو بلوا کر باغیوں کی موجودگی میں انتہائی پُراثرانداز میں خطاب فرمایا اور اہلِ مدینہ کو قسم دی کہ وہ آپؓ کی خاطر اپنی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ حضرت عثمانؓ کے اس حکم نے صحابہ میں بڑا اختلاف پیدا کردیا،ان میں سے بعض اس معاملے میں عثمانؓ کی اطاعت کرنے کو آپؓ سے غداری گمان کرتے تھے۔ حضرت علیؓ،طلحہؓ اور زبیرؓ کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمانؓ کی ڈیوڑھی پر ڈیرے جمائے رکھے۔ باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے دروازے کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کرکے آگ لگادی تو صحابہ تلواریں تھامے مقابلے کے لیے باہر نکلے۔ صحابہ و مخلصین کی قلیل جماعت نے باغیوں کا بھرپور مقابلہ کیا اکثر محافظ مارے گئے یا زخمی ہوئے لیکن ایک قلیل گروہ برابر دروازے کی حفاظت کرتا رہا۔

حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ ذکر آئندہ جمعے جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد پاکستان اور الجزائر کے احمدیوں کے لیے ایک بار پھر دعا کی تحریک کرتے ہوئےفرمایا کہ پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کی درخواست ہے۔الجزائر میں بھی دوبارہ کیس کُھل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور مخالفین کی جانب سے پیدا کردہ سختیوں کو جلد دُور فرمائے۔ آمین

خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اورنمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

1۔ مکرم مولوی محمد نجیب خان صاحب نائب ناظر دعوت الیٰ اللہ جنوبی ہند قادیان۔ آپ 14؍ فروری کو وفات پاگئے تھے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

2۔ مکرم نذیر احمد خادم صاحب ابن چودھری احمد دین صاحب چٹھہ۔آپ مکرم منیر بسمل صاحب ایڈیشنل ناظر اشاعت کے بھائی تھے۔ مرحوم 6؍ فروری کو وفات پاگئے تھے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

3۔ الحاج ڈاکٹر نانا مصطفیٰ اوٹی بواٹنگ صاحب آف گھاناجو الحاج چوچو کے نام سے معروف تھے۔ مرحوم نے 17؍ جنوری کو ستّر برس کی عمر میں وفات پائی۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم کو بطور نیشنل سیکرٹری جائیداد گیارہ سال خدمت کا موقع ملا۔

4۔ مکرم غلام نبی صاحب ابن فضل دین صاحب ربوہ۔ مرحوم مکرم ضیاء الرحمٰن صاحب طیّب مربی سلسلہ گابون کے والد تھے۔ آپ 2؍ فروری کو وفات پاگئے تھے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button