اختلافی مسائل

کیا پھر شیخ الکل فی الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی بھی انگریز کے ایجنٹ تھے؟

مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے ہندوستان میں انگریز کے خلاف جہاد نہ کرنے کا فتویٰ دیا تھا جو فتاویٰ نذیریہ میں درج ہے

مخالفین احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حوالے سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی تعلیم دے کر اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اگر انگریزوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی تعلیم دینا خلاف اسلام اقدام ہے تو ملاحظہ ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مسلک اہل حدیث کے ایک بہت بڑے عالم کا فتویٰ۔

جناب سید نذیر حسین دہلوی(پیدائش: 1805ء وفات 13؍اکتوبر 1902ء) تحریک اہل حدیث کے نامور رہ نما اور مصلح تھے۔ بھارت میں تحریک اہل حدیث کی تشریح میں ان کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ مسلک اہل حدیث میں انہیں بلند مقام حاصل ہے۔ آپ نے ساٹھ سال دہلی میں حدیث شریف پڑھائی اس لیے آپ کو شیخ الکل فی الکل کا لقب دیا گیا۔ جماعت اہل حدیث کے ہزاروں شیوخ الحدیث آپ کے شاگرد ہیں۔ حدیث شریف پڑھانے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے علاوہ حجاز، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، نجد، شام، حبش، افریقہ، تیونس، الجزائر، کابل، غزنی، قندھار، سمرقند، بخارا، داغستان، ایشیائے کوچک، ایران، خراسان، ہرات، چین، سری لنکا و دیگر ممالک سے طلبہ حدیث شریف پڑھنے کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔

ان کے فتاویٰ ’’فتاویٰ نذیریہ ‘‘کے نام سےشائع شدہ ہیں۔ اس کے ٹائٹل پر لکھا ہے ’’حضرت شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ کے مکتوبہ ومصدقہ فتاویٰ کا بینظیر مجموعہ ‘‘

اس کے صفحہ 282پر جہاد کےمتعلق ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے کہ ’’جاننا چاہیے، کہ جہاد فرض کفایہ ہے، صرف ان لوگوں پر جو تندرست ہیں اور محتاج نہیں ہیں بلکہ غنی ہیں، اندھے اور بیمار اورمحتاج پر فرض نہیں ہے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے

لَیۡسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الۡمَرۡضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یَجِدُوۡنَ مَا یُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ؕ مَا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ مِنۡ سَبِیۡلٍ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

اور فرض عین اس وقت ہوتا ہے جب کفار مسلمانوں کو آکر گھیر لیں

الا ان یکون النفیر عاما فحینئذ یصیر من فروض الاعیان لقولہ تعالیٰ انفروا خفافا وثقالا الاٰیۃ ۔

مگر جہاد کی کئی شرطیں ہیں۔ جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہو گا۔

اوّل یہ کہ مسلمانوں کا کوئی امامِ وقت و سردار ہو۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں ایک نبی کا انبیاء سابقین سے قصہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی امت نے کہا کہ ہمارا کوئی سردار اور امامِ وقت ہو تو ہم جہاد کریں۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَ لْآیۃ۔

اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بغیر امام کے نہیں کیونکہ اگر بغیر امام کے جہاد ہوتا تو ان کو یہ کہنے کی حاجت نہ ہوتی کَمَا لَا یخفٰی اور

شَرَائع مِنْ قَبْلِنَا

جب تک اس کی ممانعت ہماری شرع میں نہ ہو، حجت ہے۔

کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی الْمَعَاصِرِ بِالْاُصُوْلِ۔

اور حدیث میں آیا ہے کہ امام ڈھال ہے، اس کے پیچھے ہو کر لڑنا چاہئے اور اس کے ذریعہ سے بچنا چاہئے۔

عنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَآءِہٖ وَ یُتْقٰی بِہٖ۔

الحدیث رواہ البخاری و مسلم۔ اس سے صراحتًا یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاد امام کے پیچھے ہو کر کرنا چاہئے بغیر امام کے نہیں۔

دوسری شرط (یہ)کہ اسباب لڑائی کا مثل ہتھیار وغیرہ کے مہیا ہو جس سے کفار کا مقابلہ کیا جاوے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰ خَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ اَلآیۃ۔

(ترجمہ)۔ اور سامان تیار کرو ان کی لڑائی کے لئے جو کچھ ہو سکے تم سے، ہتھیار اور گھوڑے پالنے سے اس سے ڈراؤ اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمنوں کو قال الامام البغوی فی تفسیر ھذہ الاٰیۃ الاعداد اتخاذ المشی بوقت الحاجۃ من قوۃ ای من الا لات التی تکون لکم قوۃ علیھم من الخیل والسلاح انتھی یعنی قوت کے معنی ہتھیار اور سامانِ لڑائی کے ہیں اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے

یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثَبَاتًا اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا(ترجمہ)۔

اے ایمان والو!اپنا بچاؤ پکڑو، پھر کوچ کرو جدا جدا فوج یا سب اکٹھے قال الحافظ فحی السنۃ فی تفسیر ہ تحت ھذہ الاٰیۃ ای مدتکم والاتکم من السلاح انتھی یعنی حذر سے مراد آلہ لڑائی کا ہے مثلاًہتھیار وغیرہ کا مہیا ہونا ضروری ہے اور حدیثوں سے بھی اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بے ہتھیار کے کیا کرے گا۔

تیسری شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قلعہ یا ملک جائے امن ہو کہ ان کا ماویٰ و ملجا ہو چنانچہ قرآن کے لفظ مِنْ قُوَّۃٍ کی تفسیر عکرمہ نے قلعہ کی ہے۔

قَالَ عِکْرمۃ اَلْقُوَّۃُ اَلْحُصُوْنُ اِنْتَہٰی مَا فِی الْمَعَالِمِ التَّنْزِیْلِ لِلْبَغْوِیِّ

اور حضرتﷺ نے جب تک مدینہ میں ہجرت نہ کی اور مدینہ جائے پناہ نہ ہوا جہاد فرض نہ ہوا، یہ صراحۃً دلالت کرتا ہے کہ جائے امن ہونا بہت ضروری ہے۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر اتنا ہو کہ کفار کے مقابلہ میں مقابلہ کر سکتا ہو یعنی کفار کے لشکر کے آدھے سے کم نہ ہو۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے

اَلۡـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنۡکُمۡ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا ؕ فَاِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ اَلۡفٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَیۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ

(ترجمہ )اب بوجھ ہلکا کیا اللہ نے تم سے اور جانا کہ تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر ہو تم میں سے سو صابر غالب رہیں گے دو سو پر اور اگر ہو ں تم سے ایک ہزار غالب ہوں دوہزار پر حکم سے اللہ کے اور اللہ ساتھ صبر کرنے والوں کے ہے یہ آیت صاف کہتی ہے کہ اپنے سے دگنے سے مقابل ہو، دگنے سے زیادہ سے نہیں۔

پس جب یہ بات بیان ہوچکی تو میں کہتا ہوں اس زمانہ میں ان چار شرطوں میں سے کوئی شرط بھی موجود نہیں ہے تو کیونکر جہاد ہوگا۔ ہرگز نہیں ہوگا علاوہ بریں ہم لوگ معاہد ہیں، سرکار سے عہد کیا ہے پھر کیوں کر عہد کے خلاف کر سکتے ہیں، عہد شکنی کی بہت مذمت حدیث میں آئی ہے عن انس ان رسول اللّٰہ قال لکل غادر لواء یوم القیامۃ یحرف بہ رواہ الشیخان عن ابن عمران ان رسول اللّٰہ قال ان الغادر ینصب لہ لواء یوم القیامۃ فیقال ھذہ غدرۃ فلان بن فلان رواہ الشیخان اور اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں بخوف تطویل کے ترک کی گئی ہیں فقط‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد سوم، کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ 282تا 284ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور )

یہ اکیلے سید نذیر حسین صاحب کافتویٰ نہیں تھا بلکہ اس جواب کے بعد ان علماء کی ایک فہرست دی گئی ہے جنہوں نے اس جواب کی توثیق کی تھی:محمد نذیر حسین، سید محمد ابو الحسن، محمد عبد السلام، محمد یوسف، محمد عبد الحمید، محمد عبد الصمد خان، المعتصم بحبل اللہ الاحد البرکات حافظ محمد، محمد عبد الخالق، محمد اسحٰق، عبد الغفور، محمد سعید البنارسی، ابو الفضل محمد عبد السلام نصیر آبادی، وصیت علی۔(فتاویٰ نذیریہ جلد سوم، کتاب الامارۃ والجھاد صفحہ 284ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور )

اس کے بعد انگریز حکومت کے حوالے سے اس وقت کے ہندوستان میں جہاد کے جائز ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کریں۔

’’سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندوستان میں جہاد جائز ہے یا نہیں بینوا توجروا

الجواب :ارباب شریعت غرا پر مخفی نہیں کہ شرط مباح جہاد کے واسطے دو امر لابدی ہیں، ایک فقدان امن وامان وعہدو پیمان درمیان اہل اسلام ومقابلین کے، دوم وجدان شوکت وقوت وقدرت سلاح و آلات جہاد پر اور ہندوستان میں شوکت وقوت اور قدرت سلاح و آلات مفقود ہے اور ایمان وپیمان یہاں موجود، پس جب کہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت اور معصیت کا ہوگا فاذا فات الشرط فات المشروط سید محمد نذیر حسین ‘‘

(فتاویٰ نذیریہ جلد سوم، کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ 284، 285ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور )

اس فتوے اور جواب کو بغور پڑھیں۔ چار شرائط بیان کرتے ہیں (1)امام وقت کا ہونا (2)لڑائی کے اسباب یعنی ہتھیار وغیرہ کا مہیا ہونا(3)جائے امن کا ہونا (4)لشکر کی تعداد کافروں سے کم از کم نصف ہو۔ ان چاروں شرائط کے بعد لکھتے ہیں کہ کوئی ایک بھی شرط پوری نہیں ہوتی اور جہاد اس وقت نہیں ہوتا جب تک یہ چاروں شرائط پوری نہ ہوں۔ پھر دوسرے سوال کے جواب میں واضح رنگ میں کہہ دیا کہ ملک میں امن وایمان ہے۔ حکومت کے ساتھ عہد وپیمان ہے۔ ہتھیار وغیرہ بھی نہیں تو اس صورت میں جہاد کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور جہاد کرنا گناہ کی بات ہے۔

آج کل کے مولویوں کے طرز استدلال کے مطابق کیا اس طرح کا فتویٰ اور جواب لکھنے کے بعد سید نذیر حسین دہلوی صاحب انگریزوں کے ایجنٹ نہیں ثابت ہوتے؟ان کے اس وقت کے ہندوستان اور دیگر مسلم ممالک میں بے شمار شاگرد موجود تھے اور ان کے لیے یہ فتویٰ حرف آخر تھا۔

(مرسلہ:ابن قدسی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button