عدت

بیوہ کا دورانِ عدت گھر سے باہر نکلنا

سوال:ایک خاتون نے بیوہ کے عدت کے دوران لجنہ کے پروگراموں میں شامل ہونے، نماز باجماعت کےلیے مسجد میں آنے اور عزیزوں کے گھروں میں جانے کے بارے میں مسائل دریافت کیے۔ نیز لکھا ہے کہ بڑی عمر کی عورتوں کےلیے عدت کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 02؍فروری 2019ء میں ان امور کے بارے میں درج ذیل رہ نمائی فرمائی۔ حضور انورنے فرمایا:

جواب: بیوہ کی عدت کے احکامات میں تبدیلی کے حق میں آپ نے اپنے خط میں جو طلاق کے بعد نکاح والی دلیل (کہ قرآن کریم کے مطابق طلاق کے بعد عدت پوری ہونے پر پہلے شوہر سے نکاح صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی دوسرے مرد سے شادی ہو اور پھر وہ طلاق دے ۔ لیکن اب دوسرے مرد سے شادی کے بغیربھی پہلے خاوند سے نکاح ہو جاتا ہے۔ پس جس طرح اس حکم میں نظر ثانی کی گئی ہے، اسی طرح خاوند کی وفات کے بعد کی عدت میں بھی عورت کی عمر کے لحاظ سےنظرثانی ہونی چاہیے) دی ہےوہ غلط ہے۔ نہ پہلے ایسا کوئی حکم تھا اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اپنی کم علمی کی وجہ سے طلاق کے بارے میں دو الگ الگ احکامات کو خلط ملط کر دیا ہے۔

اسی طرح بیوہ کی عدت کے بارے میں بھی آپ اسلامی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اسلام نے عورت کواپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنے کا حکم دیا ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی استثناء نہیں رکھا اور نہ ہی اس حکم میں عمر کی کوئی رعایت رکھی ہے۔ پس بیوہ کےلیے ضروری ہے کہ وہ عدت کا یہ عرصہ حتی الوسع اپنے گھر میں گزارے، اس دوران اسے بناؤ سنگھار کرنے، سوشل پروگراموں میں حصہ لینے اور بغیر ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔

عدت کے عرصہ کے دوران بیوہ اپنے خاوند کی قبر پر دعا کےلیے جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ قبر اسی شہر میں ہو جس شہر میں بیوہ کی رہائش ہے۔ نیز اگر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے تو یہ بھی مجبوری کے تحت آتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بیوہ کے خاندان کا گزارا اس کی نوکری پر ہےیا بچوں کو سکول لانے، لے جانے اور خریداری کےلیے اس کا کوئی اور انتظام نہیں تو یہ سب امور مجبوری کے تحت آئیں گے۔ ایسی صورت میں اس کےلیے ضروری ہے کہ وہ سیدھی کام پر جائے اور کام مکمل کر کے واپس گھر آ کر بیٹھے۔ مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی بس اتنی ہی حد ہے۔ کسی قسم کی سوشل مجالس یا پروگراموں میں شرکت کی اسے اجازت نہیں۔ پس شریعت میں نئی نئی چیزیں داخل کرنے اور نئی نئی بدعتیں پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button