متفرق مضامین

حلال و طیب اشیاء کے بارے میں قرآنی آیات کا مجموعہ (قسط دوم۔ آخری)

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

مال غنیمت میں سے حلال اور طیب کھانے کا ذکر

فَکُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (الانفال:70)

پس جو مالِ غنیمت تم حاصل کرو اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

مومنین کو جنت میں طیب گھر وں کے ملنے کا وعدہ

وَعَدَ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍؕ وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔ (توبہ :72)

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اسی طرح بہت پاکیزہ گھروں کا بھی جو دائمی جنتوں میں ہوں گے۔ تاہم اللہ کی رضا سب سے بڑھ کر ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

طیب اور ناپاک برابر نہیں ہو سکتے

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔ (المائدہ:101)

تُو کہہ دے کہ ناپاک اور پاک برابرنہیں ہوسکتے خواہ تجھے ناپاک کی کثرت کیسی ہی پسند آئے۔ پس اے عقل والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

طیب مومنین کو خبیث سے علیحدہ کرنے کا ذکر

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ حَتّٰی یَمِیۡزَ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِؕوَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطۡلِعَکُمۡ عَلَی الۡغَیۡبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجۡتَبِیۡ مِنۡ رُّسُلِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَلَکُمۡ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔ (آل عمران:180)

اللہ ایسا نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر تم ہو یہاں تک کہ خبیث کو طیّب سے نتھار کر الگ کر دے۔ اور اللہ کی یہ سنّت نہیں کہ تم (سب) کو غیب پر مطلع کرے۔ بلکہ اللہ اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ لِیَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَسَیُنۡفِقُوۡنَہَا ثُمَّ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ حَسۡرَۃً ثُمَّ یُغۡلَبُوۡنَ۔ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی جَہَنَّمَ یُحۡشَرُوۡنَ۔ لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۔ (الانفال:37تا38)

یقیناً وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے روکیں۔ پس وہ اُن کو (اسی طرح) خرچ کرتے رہیں گے پھر وہ (مال) اُن پر حسرت بن جائیں گے پھر وہ مغلوب کر دیئے جائیں گے۔ اوروہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جہنم کی طرف اکٹھے کرکے لے جائے جائیں گے۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور خبیث کے ایک حصہ کو دوسرے پر ڈال دے پھر اس سارے کو (ڈھیر کی صورت میں ) تہ بہ تہ اکٹھا کر دے پھر اسے جہنم میں جھونک دے۔ یہی لوگ ہیں جو گھاٹا کھانے والے ہیں۔

پانی نہ ہونے کی صورت میں طیب مٹی سے تیمم کرنے کی اجازت

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ ؕ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔ (المائدہ:7)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کی طرف جانے کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو دھو لیا کرو اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں تک۔ اور اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں بھی دھو لیا کرو۔ اور اگر تم جنبی ہو تو (پورا غسل کرکے) اچھی طرح پاک صاف ہو جایا کرو۔ اور اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی حوائج ِ ضروریہ سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے تعلق قائم کیا ہو اور اس حالت میں تمہیں پانی نہ ملے تو خشک پاکیزہ مٹی کا تیمم کرو اور اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لیا کرو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے لیکن چاہتا ہے کہ تمہیں بہت پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم شکر کیا کرو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا۔ (النساء:44)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو۔ یہاں تک کہ اس قابل ہو جاؤ کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اور نہ ہی جُنبی ہونے کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ) یہاں تک کہ نہالو سوائے اس کے کہ تم مسافر ہو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا مسافر ہو یا تم میں سے کوئی طبعی حوائج سے فارغ ہوا ہو یا تم نے عورتوں سے تعلق قائم کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو خشک پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ سو تم اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مسح کرو۔ یقیناً اللہ بہت درگزر کرنے والا (اور) بہت بخشنے والا ہے۔

طیب مُلک وہ ہے جس کا سبزہ اُس کے رب کے حکم سے پاک نکلتا ہے

وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ۔ (الاعراف:59)

اور پاک مُلک (وہ ہوتا ہے کہ) اس کا سبزہ اس کے ربّ کے اِذن سے (پاک ہی) نکلتا ہے اور جو ناپاک ہو (اس میں ) کچھ نہیں نکلتا مگر ردّی (چیز)۔ اسی طرح ہم نشانات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کی خاطر جو شکر کیا کرتے ہیں۔

کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ کے ساتھ

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ۔ (ابراھیم:25)

کیا تو نے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمۂ طیّبہ کی ایک شجرۂ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔

مومن مرد اور عورت کوحیات طیبہ کی صورت میں زندہ کیے جانے کا ذکر

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ (النحل:98)

مرد یا عورت میں سے جو بھی نیکیاں بجالائے بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اُسے ہم یقیناً ایک حیاتِ طیّبہ کی صورت میں زندہ کردیں گے اور انہیں ضرور اُن کا اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے جو وہ کرتے رہے۔

جنّتیوں کا جنّت میں طیب قول کی طرف رہ نمائی کرنے کا تذکرہ

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّ لُؤۡلُؤًا ؕ وَ لِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ۔ وَ ہُدُوۡۤا اِلٰی الطَّیِّبِ مِنَ الۡقَوۡلِۚۖ وَ ہُدُوۡۤا اِلَی صِرَاطِ الۡحَمِیۡدِ۔ (الحج:24تا25)

یقیناً اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں انہیں سونے کے کڑے اور موتی پہنائے جائیں گے اور اُن میں اُن کا لباس ریشم ہوگا۔ اور پاک قول کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے گی اور صاحبِ حمد (اللہ) کی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے گی۔

طیب عورتیں طیب مردوں کے لیے اور طیب مرد طیب عورتوں کے لیے

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ۔ (النور:27)

نا پاک عورتیں نا پاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ یہ لوگ اُس سے بری الذمہ ہیں جو وہ کہتے ہیں۔ اِنہی کے لئے مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے۔

گھروں میں داخل ہوتےوقت سلام کا طیب تحفہ بھیجنے کا حکم

لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَعۡمَامِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ عَمّٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخۡوَالِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ خٰلٰتِکُمۡ اَوۡ مَا مَلَکۡتُمۡ مَّفَاتِحَہٗۤ اَوۡ صَدِیۡقِکُمۡؕ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا جَمِیۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًاؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُیُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۔ (النور:62)

اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ لولے لنگڑے پر حرج ہے اور نہ مریض پر اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اُس (گھر) سے جِس کی چابیاں تمہارے قبضے میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ تم پر کوئی گناہ نہیں خواہ تم اکٹھے کھانا کھاؤ یا الگ الگ۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پر اللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیات کو کھول کر بیان کرتا ہے تا کہ تم عقل کرو۔

سبا قوم کے مرکز کو طیب شہر قرار دیا گیا

لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ ۬ؕ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ بَلۡدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ۔ (سبا :16)

یقیناً سبا (قوم) کے لئے بھی ان کے مسکن میں ایک بڑا نشان تھا۔ دائیں اور بائیں دو باغ تھے۔ (اے قومِ سبا!) اپنے ربّ کے رزق میں سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ (سبا کا مرکز) ایک بہت اچھا شہر تھا اور (اس شہر کا) ایک بہت بخشنے والا ربّ تھا۔

طیب کلمات کا، اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہونے کا ذکر

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا ؕ اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَمۡکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ مَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ۔ (فاطر:11)

جو بھی عزت کا خواہاں ہے تو اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے۔ اُسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ لوگ جو بُری تدبیریں کرتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر ضرور اَکارت جائے گا۔

طیب چیزوں کو دنیا میں ہی ختم کردینے والے کے لیے عذاب کا ذکر

وَ یَوۡمَ یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا ۚ فَالۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَفۡسُقُوۡنَ۔ (الاحقاف:21)

اور یاد کرو وہ دن جب وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ تم اپنی سب اچھی چیزیں اپنی دنیا کی زندگی میں ہی ختم کر بیٹھے اور ان سے عارضی فائدہ اٹھا چکے۔ پس آج کے دن تم ذلّت کا عذاب دئیے جاؤ گے بوجہ اس کے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور بوجہ اس کے کہ تم فسق کیا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں طیب گھروں کا وعدہ

تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَ یُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔ (الصف:12تا13)

تم (جو) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

کشتیوں کو چلانے والی ہواؤں کے لیے طیب کا لفظ استعمال ہواہے

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ۔ (یونس:23)

وہی ہے جو تمہیں خشکی پر بھی چلاتا ہے اور تری میں بھی یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ خوشگوار ہواؤں کی مدد سے اُنہیں لئے ہوئے چلتی ہیں اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں تو اچانک سخت تیز ہوا انہیں آ لیتی ہے اور موج ہر طرف سے اُن کی طرف بڑھتی ہے اور وہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ گھیر لئے گئے ہیں، تب وہ اللہ کو پکارتے ہیں دین کو اُسی کے لئے خالص کرتے ہوئے کہ اگر تو ہمیں اس سے نجات دےدے تو یقیناً ہم شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے۔

نیک لوگ جو جنّتی ہوتے ہیں اُن کوبھی طیب کہا گیا ہے

جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ لَہُمۡ فِیۡہَا مَا یَشَآءُوۡنَ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡزِی اللّٰہُ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰٮہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ۔ (النحل:32تا33)

ہمیشہ رہنے والے باغات ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کے لئے ان میں وہی کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ اسی طرح اللہ متقیوں کو جزا دیا کرتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں وہ (انہیں ) کہتے ہیں تم پر سلام ہو۔ جنت میں داخل ہو جاؤ اُس کی بنا پر جو تم عمل کرتے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button