الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم پروفیسر سید سلطان محمود شاہد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 2013ء میں مخلص خادم سلسلہ اور معروف ماہر تعلیم محترم پروفیسرڈاکٹر سیّد سلطان محمود شاہد صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ نے 3؍مارچ 2013ءکو ربوہ میں بعمر90سال وفات پائی اور آپ کی تدفین آپ کے آبائی گاؤں شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ میں واقع آپ کے خاندانی قبرستان میں ہوئی۔

محترم شاہ صاحب 16؍اکتوبر 1923ءکو اپنے آبائی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت سید سردار احمد شاہ صاحبؓ نے آپ کو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وقف کردیا تھا۔ آپ نے .B.Sc تک تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں حاصل کی۔ اس کے بعد 1946ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے کیمسٹری میں .M.Scکرنے کے فوراً بعد آپ قادیان حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضورؓ نے آپ کا تقرر بطور لیکچرار کیمسٹری تعلیم الاسلام کالج میں کردیا۔ آپ تعلیم الاسلام کالج کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ ہجرت کے بعد پہلے لاہور اور پھر ٹی آئی کالج کی ربوہ منتقلی کے بعد وہاں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ 16سال کالج یونین کے انچارج رہے۔ 1956ء میں آپ لندن چلے گئے اور 1958ء میں یونیورسٹی آف لندن سے آرگینک کیمسٹری میں Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ربوہ واپس آکر ٹی آئی کالج میں بطور پروفیسر 1963ء تک پڑھاتے رہے۔ 1963ء میں آپ دوبارہ لندن گئے اور 1964ء میں لندن یونیورسٹی سے ہی پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔ رائل انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سوسائٹی کے فیلو بھی بنے۔ پھر آپ واپس ربوہ تشریف لائے اور 1964ء تا 1978ء تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں پروفیسر، شعبہ کیمسٹری کے ہیڈ اور کچھ عرصہ تک انچارج پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ٹی آئی کالج ربوہ کے علاوہ جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں سائنس بلاک کی تعمیر آپ کی زیرنگرانی ہوئی۔ 1979ء میں آپ کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے گورڈن کالج راولپنڈی میں ٹرانسفر کردیا گیا۔ بعدازاں گورنمنٹ ڈگری کالج ننکانہ صاحب کے پرنسپل مقرر ہوئے جہاں سے اکتوبر 1986ء میں ریٹائر ہوئے۔

ربوہ کے تعلیمی اداروں کے سرکاری تحویل میں جانے کے بعد اُن کے مسائل کو دیکھتے ہوئے آپ نے ربوہ میں ناصر کنڈر گارٹن اور ناصر پبلک سکول جیسے ادارے بنائے۔ پھر ریٹائرمنٹ کے بعد الہدیٰ ماڈل کالج بنایا جسے 1998ء تک چلاتے رہے۔ اس طرح آپ کی تعلیمی خدمات نصف صدی کے لگ بھگ محیط ہیں۔

محترم ڈاکٹر صاحب نہایت سادہ اور ہمدرد طبیعت کے مالک تھے۔ بہت سے ضرورتمند طلباء کی مختلف طریقوں سے مدد کرتے تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں۔ ہر ایک کے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک کرتے۔ مخلصانہ مشورے دیتے اور طلباء کے مسائل ذاتی دلچسپی لے کر حل کرواتے۔

قیام پاکستان کے بعد آپ سیکرٹری اصلاح و ارشاد جماعت لاہور مقرر ہوئے۔1956ء تا 1958ء لندن قیام کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے ابتدائی قائد مقرر ہوئے۔ اسی دوران سیکرٹری مال جماعت لندن کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 6؍مئی2013ءمیں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے قلم سے محترم ڈاکٹر سید سلطان محمود شاہد صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

ڈاکٹر سید سلطان محمود شاہد صاحب ایک نیک نفس، متواضع، مخلص، نا فع الناس اور متوکّل وجود تھے۔آپ کا لج کے قدیمی اساتذہ میں سے تھے اور قادیا ن کے زمانہ سے کا لج کے سٹاف پر آگئے تھے۔ پھر ربوہ میں تو کالج کے قومیائے جانے تک سٹاف پر رہے اور اسی جرم کی سزابھی پائی مگر ان کے پائے استقلال میں کو ئی لغزش نہیں آئی۔

ہم نے آپ کو کالج میں داخل ہو نے کے پہلے کے زمانے سے جاننا شروع کیا کیونکہ آپ کی سائنس کی درسی کتابیں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل تھیں۔ تعلیمی حلقوں میں ایس ایم شاہد کا نام بڑا نا م تھا اور سارے پنجاب میںواحد یونیورسٹی میں ان کی درسی کتابیں سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں ۔ہم نے پہلی بارآپ کو ربوہ میں دیکھاتوذرایقین نہ آیا کہ یہ وہی مشہور و معروف پروفیسر ہے جس کی کتابیں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں۔ہم نے یہ دیکھاکہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان سا آدمی ننھی منی بیٹی کی انگلی پکڑے سبزی خرید رہا ہے۔ کوئی اکڑفوں اس میں نہیں کہ مشہور پروفیسر ہے۔

قبلہ شا ہ جی اپنے لباس کی طرف سے لا پرواتھے۔ جو ملا پہن لیا  محلّے میں توآپ کا یہی چلن تھا البتہ کا لج میں بشرٹ اور پتلون پہنتے تھے۔کبھی کبھارسوٹ بھی زیب تن فرماتے تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کا لج میں سے سب سے پہلے شاہ جی ہی لندن گئے۔ واپس آئے تو خیال تھا کہ ڈاکٹرایس ایم شاہد اب تو سوٹ بوٹ میں ملبوس رہا کریں گے ۔مگر نہیں، شاہ جی وضع دار تھے اپنی وضع پر قائم رہے۔ اپنے خرچ پر پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے۔ وہاں ولایت میں بھی مشن ہائوس سے رابطہ استوار رکھا اور باقاعدہ وقت دیتے رہے۔

کا لج کے سٹاف میں آپ خاصے سینئر سٹاف ممبر تھے۔کبھی کبھار پر نسپل کی قائمقامی کرنا پڑتی توپرنسپل کی کر سی پر یو ں بیٹھتے جیسے زبردستی بٹھائے گئے ہیں ۔کا لج کے قومیائے جانے کے بعد شاہ جی پر بہت سختیوں کے زمانے آئے، اِدھر اُدھر تبادلے اور ان کے مرتبے سے فروتر جگہوں پر تعیناتی ہوتی رہی مگر جھیل گئے۔حالانکہ پنجاب کے سینئر ترین اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں آپ نے سکول کی بنیاد رکھی اور اس کو محکم ادارہ بنا دیا ۔ایک انٹرکالج بھی۔یہ ادارے کسی مالی منفعت کے لیے نہیں کھولے گئے۔ ان کے اندر کا م کرنے کی جو لگن اور کچھ کر گزرنے کی جو دُھن تھی یہ سب اس کا کر شمہ تھا کہ ضعیف العمری میں بھی چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔

شاہ جی طبیعت کے دھیمے تھے۔ جو نیئر سٹاف سے بات کرتے وقت تو لہجہ اَور زیادہ مر بیانہ اور دوستانہ ہو جاتا تھا ۔ طلبا ء تو ان کے ساتھ یک گونہ بے تکلّفی بھی برت لیتے تھے مگر ان کے ماتھے پر کبھی کوئی شکن نہ آتی۔یو نین کے انچارج بھی رہے۔ طلباء کے بارے میں سختی کا رویہ کبھی نہ اپناتے۔اگر کو ئی طالب علم کسی قصور کے سلسلہ میں ان کے سامنے پیش ہو تا تو پہلے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرتے کہ ’بَلّی !تم نے یہ کا م کیوں کیا؟‘ بَلّی کا پنجابی لفظ بڑا پیار آمیز ہے جس میں باپ کی شفقت بھی شامل ہے بڑے بھائی کا پیارا ور سر پر ست کی سر زنش بھی۔ پھر بڑے پیار سے اسے سمجھاتے اور وہ شرمندہ ہو کر معافیاں مانگنے لگتا ۔ ہم نے شاہ جی کو جرمانوں سے اصلاح کر تے نہیں دیکھا پیار سے بے راہ رووں کو سیدھی را ہ پر لاتے دیکھا ہے۔ سائنس ہم نے پڑھی نہیں اس لیے ان سے یا ان کی درسی کتب سے استفادہ کا موقع نہیں ملا۔ ہاں ان سے طلباءکو رام کرنے کا ہنر سیکھا ہے۔ بچوں کو محبت دوگے تومحبت پائو گے۔

شاہ جی سے ہمارے تعلقات محلّہ داری کے رہے یا سینئر سٹاف کے، یو نین کے ناطے سے بھی۔ ادب کا بڑا صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ مضمون وغیرہ بھی لکھتے تھے مگر ان کا میدان اَور تھا۔ کالج کے میگزین ’’المنار‘‘ میں قبلہ شاہ جی کا ایک مضمون چھپا جو مددگار کارکن شادیؔ کے بارے میں تھا۔ شادیؔ کو معلوم ہوا تو وہ آگ بگولہ ہونے لگا کہ شاہ جی کو ہمت کیسے ہوئی کہ وہ میرے بارے میں ’’لکھیں‘‘۔ وہ پر انے خیالات کا اَن پڑھ آدمی تھا۔اس کو ناراض کر نے کو اتنی بات ہی کا فی تھی کہ کسی نے اس کے بارے میں لکھاہے اور وہ چھپا ہے۔ اس کا خیال تھاکہ چھپتی وہی بات ہے جو اچھی نہ ہو۔ ہم نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ شاہ جی نے تمہاری بہت تعریف کی ہے۔ اس کا جواب تھا کہ کا غذکالا کر کے میرامنہ کا لا کر نے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس معاملہ نے بہت طول کھینچا ۔ شاہ جی کئی دن شادی سے منہ چھپاتے پھرے۔ پھر ایک دن حضرت پر نسپل صاحب نے شادیؔ کا غصہ رفع کیا اور شاہ جی کا قصور معاف کر وایا مگر شادیؔ کا دل بہت بعد کو جاکر صاف ہوا۔

سرگودھا بورڈ کے سینئر ممتحن اور پر چے بنانے والے شاہ جی بھی تھے اور ہم بھی۔ آپ تو اتنے سینئر تھے کہ امتحانی مراکز کی انسپکشن کے لیے بھیجے جاتے۔ آپ بسوں پر سفر کر تے ہو ئے مراکز میں جا پہنچتے۔ کسی کو سان گمان بھی نہ ہو تا کہ یہ سادہ سے لباس میں خراماں خراماں آنے والا شخص انسپکٹر ہے۔ ایک بار اپنے ہی کالج کے امتحانی مرکز کے انسپکٹر بھی مقررہوئے۔ فیصل آباد کے ایک کیمسٹری کے استاد امتحانی مرکز کے نگران تھے۔ انہوں نے آپ کو دیکھا تو سمجھا ازراہ مروّت اپنے کیمسٹری کے رفیق کا ر کو ملنے آئے ہیں۔ مگر جب آپ نے آکر ریکارڈ مانگاتو و ہ حیران رہ گئے ۔ شاہ جی نے پورا پورا معائنہ کیا اور کوئی رُورعایت روانہیں رکھی۔

عملی امتحانات میں شاہ جی طلبا ء پر مہربان رہتے تھے۔ فرماتے تھے ہماری ایک آدھ نمبر کی خِست سے بچے کی ڈویژن متأثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے فراخدلی کا مظاہرہ کر تے مگر ناجائز رعایت نہ کر تے تھے، نہ اپنے کالج میں آنے والے ممتحنوں سے اپنے طلباء کے لیے ناجائز رعایت کی توقع رکھتے تھے۔

تعلیم الاسلام کالج ربوہ اُن کالجوں میں تھا جو ہمیشہ سے پو سٹ گریجوایٹ کلاسوں کے شروع کر نے میں دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ عر بی، فزکس اور کیمسٹری تین مضامین ایسے تھے جن میں پو سٹ گریجوایٹ کلاسوںکے آغازکے انتظامات ہو رہے تھے۔ نئے کیمپس میں فزکس کے ساتھ اوپر کی منزل کیمسٹری کی پوسٹ گریجوایٹ کلاسوںکے لیے بنائی گئی تھی ۔ یو نیورسٹی یا حکومت کی جانب سے جتنے بھی کمیشن کالج کی مو زونیت کے معائنہ کے لیے آتے تھے ان میں عربی، فزکس اور کیمسٹری تینوں مضامین کے ماہرین شامل ہوتے تھے اور ہر کمیشن کی متفقہ رپورٹ یہی ہو تی تھی کہ کالج میں مناسب عمارت، تربیت یافتہ سٹاف، لائبریری اور لیبارٹریاں موجود ہیں اور تینوں مضامین کا سٹاف اپنے مر تبہ میںاعلیٰ درجہ کا ہے۔عر بی اور فزکس کی کلاسیں شروع ہو گئیں مگر کیمسٹری کی کلا سوں میں کوئی روک پڑگئی اور پھر کالج قومی تحویل میں آگیا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صرف تعلیم الاسلام کالج ہی ایسا ادارہ ہے جس کو محض تعصب کی بنا پر قومی تحویل سے رہا نہیں کیا جاتا ورنہ کئی ادارے واپس کیے جا چکے ہیں۔بہرحال محترم شاہ جی کا اٹھ جانا صرف کالج کے طلباء کے لیے ہی نہیں پاکستان کے نظام تعلیم کے لیے ایسا صدمہ ہے جسے مدتوںبھلایا نہیں جاسکے گا۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button