تاریخ احمدیت

حضرت مصلح موعودؓ کی شاندار تصنیف ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘

27؍ فروری 1922ء: ولی عہد سلطنتِ برطانیہ کے دورۂ ہندوستان کے موقع پر اسلام کا بے نظیر تحفہ

شہزادہ ویلز (جو بعد کو ایڈورڈ ہشتم بنے اور 1936ء میں انگلینڈ چرچ سے اختلاف کر کے تخت سے دستبردار ہو گئے اور ڈیوک آف وِنڈسر کہلائے) دسمبر 1921ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے برطانیہ کے ولی عہد کو اسلام کا بے نظیر تحفہ پیش کیا۔ یعنی ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔جسے آپ کی تجویز (الفضل9؍ جنوری 1922ء صفحہ 9)کے مطابق جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار سے زائد افراد نے ایک ایک آنہ فی کس جمع کر کے شائع کیا اور 27؍فروری 1922ء کو لاہور میں احمدیہ وفد کے ذریعہ ایک مرصع رو پہلی کشتی میں شہزادہ معظم کے سامنے پیش کیا۔

[اس کتاب کا انگریزی ترجمہ آنریبل چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ اسے چھپوانے کے لیے خود بمبئی تشریف لے گئے (الفضل 27؍ فروری 1922ء)۔ چودھری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے 1943ء میں اس کا عربی ترجمہ بھی کبابیر (فلسطین) سے شائع کیا۔]

حضورؓ نے اس کتاب میں ولی عہد برطانیہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی برکات ہمیشہ کے لئے جاری ہیں اور ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اب بھی مسیحی دنیا اسلام اور مسیحیت کا اثر دیکھنے کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اچھے درخت میں اچھے پھل لگا کر دکھا دے گا……آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں۔ جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لئے بعض مشکل امور کے لئے دعا مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کے لئے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرے۔ مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لئے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کرلیا جائے پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور ہرگز نہ کریں گے کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں۔ تو پھر اے شہزادہ آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کر دی ہیں‘‘۔

شہزادہ ویلز نے اس لاثانی تحفہ کو نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ ادا کیا۔بلکہ یکم مارچ 1922ء کو لاہور سے جموں تک کے سفر میں اسے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے اور جیسا کہ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا۔ اسی طرح ان کے ایڈی کانگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا۔

اخبار ’’ذوالفقار‘‘ (24؍ اپریل 1922ء) نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ

’’ہم خلیفہ ثانی کی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے…… تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرور رشک کریں گے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں۔ اس واسطے اس تحفہ کو دیکھ کر ہم عش عش کر اٹھے۔ اس تحفہ میں فاضل مصنف نے سنتِ رسولﷺ پر پورا پورا عمل کیا ہے۔ دعوتِ اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے کسی فرقہ کا کوئی فرد یا موجودہ زمانے کا کوئی شورش پسند اخبار حسد اور بغض کی راہ سے اس تحفہ پر کوئی حملہ کرے…… ہمیں اس تحفہ میں کوئی ایسا مقام دکھائی نہیں دیا کہ جس میں خوشامد سے کام لیا گیا ہو۔ ہاں بعض مقامات ایسے ہیں جس میں مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے ابتداء سے آخر تک مختصر سے حالات لکھے ہیں لیکن وہ واقعات امن پسندی اور حکومت کی وفاداری کا اظہار ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ بد امن اور شورش پسند فرقہ کو کبھی خدا دوست نہیں رکھتا اور تباہ اور برباد کر دیتا ہے‘‘۔

(’’ذوالفقار‘‘ 24؍ اپریل 1922ء بحوالہ الفضل 8 مئی 1922ء صفحہ7)

اسی طرح پنجاب کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے 18؍ اپریل 1922ء کی اشاعت میں اس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ

’’یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے…… قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے۔ خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہوسکتی۔ جو مذہب میں اور خاص کر ہندوستان اور برطانیہ کے بے شمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘(بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ282 از سید طفیل محمد شاہ صاحب مرحوم)

بیرونی دنیا پر بھی اس کتاب نے گہرا اثر ڈالا۔ اور مغربی ممالک میں تو اس نے تبلیغ اسلام کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ چنانچہ وی آنا (دارالخلافہ آسٹریا) کے ایک پروفیسر نے جو تین زبانوں کا ماہر تھا اسے پڑھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ اور افسوس کیا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے ورنہ دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرتا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے امریکہ سے لکھا کہ اس کتاب نے امریکہ کو بہت متاثر کیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امریکہ کے علمی تقاضوں کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے۔

مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ میں بھی اس کا اثر ہوا۔ چنانچہ نیروبی کے اخبار ’’لیڈر‘‘ (23 نومبر 1922ء) نے کہا۔

’’گو میں عیسائی نہیں مگر عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور ان کے لٹریچر کو خوب سمجھتا ہوں لیکن جو کچھ مجھے اس کتاب سے حاصل ہوا ہے اور جو میں نے حظ اٹھایا ہے اسے بیان نہیں کرسکتا۔ اس کتاب کا لکھنے والا گو مسلمان ہے لیکن شبہ غالب ہے کہ وہ عیسائیوں میں سالہا سال تک رہا ہے اور ان کے لٹریچر کو اس نے غور سے پڑھا ہے ورنہ یہ بہت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کوایسی پتہ کی باتیں اس دھڑلے سے سنائے آج تک کوئی ایسی کتاب میری نظر سے نہیں گذری جو مذہبی بنیاد پر لکھی گئی ہو اور تعصب سے مبرا رہی ہو اس شان کی یہ پہلی کتاب ہے۔‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 292-293)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button