متفرق مضامین

’’وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا‘‘

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

انگریزی دور میں مسلمانان کشمیر کا فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا کہ کشمیر کی فضا ئیں سسکیاں بھرتی تھیں اور آسمان اُوس روتا تھا ۔ انگریزوں نے ریاست کشمیر کو پہلی Angle-Sikh جنگ کے اختتام پر راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75 لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض فروخت کر دیا ۔1891ء میں مسلمان کشمیر کی کل آبادی کا 93 فیصد تھے لیکن کوڑی کوڑی کے محتاج تھے ۔ آتش چنار شیخ عبداللہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک نوجوان مزدور اپنی بہنوں کو تو روٹی کھلاتا رہا خود صرف آٹے کا چھان کھا کر گزارا کرتا رہا اور ایک دن چکرا کے گرا اور مر گیا ۔

ریشم کی فیکٹریوں کے مزدور ریاست کی آمدنی میں 33 فیصد حصہ ڈالتے لیکن ان کی تنخواہ 8آنہ یومیہ سے زیادہ نہ تھی۔ اگر ہڑتال کرتے تو انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ۔

(Ashima chargota (2)… International Journal , Vol 2 …..10 Oct 2016)

1929ء میں Sir Albion Banner ji نے جو کہ کشمیر میں وزیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے اس ظلم و زیادتی کو دیکھتے ہوئے استعفٰے دے دیا اور سخت ترین الفاظ میں ظلم و جبر کی مذمت کی ۔

(freedom in Kashmir , 1954 page 133)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ 1909ء سے ریاست کشمیر کے دورے پر تشریف لے جارہے تھے۔ ایک موقع پر جب آپ کو پونچھ کے ایک سرکاری عہدے دار نے بتایا کہ ایک بار اسے قلیوں کی ضرورت تھی اور اس نے متعلقہ افسر کو لکھ دیا اور اس کو قلی بھجوا دیئے گئے وہ تمام لوگ باراتی تھے اور دلہا بھی ان میں شامل تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔

(الفضل 24 ستمبر 1931ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ 15 جون 1929ء کو کشمیر کے دورے پر تشریف لے گئے انہوں نے کشمیریوں کو مفید مشورےدیے۔

(تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 387)

ایک ہندو اخبار ملاپ نے اس پر اعتراض اٹھائے ۔ جولائی 1931 ءکو مسلمانان کشمیر اٹھ کھڑے ہوئے جب ایک شخص عبدالقدیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ لوگ جیل کے باہر اکٹھےہو گئے اور پولیس نے ان پر فائر کھول دیا جس کے نتیجہ میں 9 لوگ مارے گئے اور کئی زخمی ہوگئے ۔

(Iam Copland, Islam andPolitical Mobilization in Kashmir, 1931.-.1934..page231, ) ۔۔ (1981)

اس موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ مظلوم کشمیریوں کے لیے جدوجہد کا وقت آگیا ہے۔ آپ نے 16 جون 1931ء میں ایک مضمون تحریر فرمایا جو روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا جس آپ نے بیان فرمایا : مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں تمام مسلمانان ہندوستان کو متحد ہو جانا چاہیے اور یہ بات ریاست اور گورنمنٹ کو معلوم ہو جانی چاہیے کہ ہم متحد ہیں۔ اس کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جس میں کشمیر، پنجاب اور ہندوستان کے مختلف حصوں سے لیڈروں کو دعوت دی جائے کہ وہ شرکت کریں تاکہ کوئی مستقبل کے لیے حکمت عملی وضع کی جاسکے۔ چنانچہ اس تجویز کی روشنی میں 25 جولائی 1931ء کو نواب ذوالفقار علی خان کی رہائش گاہ فیئر ویو شملہ میں ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں سر فضل حسین، علامہ اقبال، خواجہ حسن نظامی، شیخ رحیم بخش ، ایک دیوبندی عالم مولوی میرک شاہ اور اللہ رکھا ساغر بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر مولانا عبدالحامد بدایونی صاحب جنہوں نے بعد میں 1944ء میں احمدیوں کو مسلم لیگ سے خارج کرنے کی قرارداد پیش کی تھی اس موقع پر فرماتے ہیں کہ’’ کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے لہٰذا ہم احمدیوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ (Ayesha Jalal, Self and Sov)

اس موقع پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی صدارت کے لیے علامہ اقبال نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا اور خواجہ حسن نظامی صاحب نے تائید کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےیہ عہدہ صدارت علامہ اقبال کے اصرار پر قبول کیا ۔ آپ اس کے لیے رضا مند نہیں تھے ۔ چنانچہ آپ نے عہدہ صدارت قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ ہماری جدوجہد پرامن اور قانون کے دائرے میں ہو گی ۔ آپ نے وائسرائے لارڈ ولنگڈن سے یکم اگست 1931ء کو ملاقات کی اور وائسرائے نے آپ سے وعدہ کیا کہ چھ ماہ کے اندر وہ صورتحال کا جائزہ لے کر کوشش کریں گے کہ مسلمانان کشمیر کو ان کے حقوق مل سکیں ۔ اس کے بعد آپ نے مسلمانوں کی تمام جماعتوں کے لیڈروں کو دعوت دی یہاں تک کے آپ نے احراریوں کے لیڈر چوہدری افضل حق صاحب کو بھی خط لکھا اور انہیں اس مقصد کے لیے کام کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے انہیں یہاں تک یقین دہانی کروائی کہ اگر وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں تو آپ استعفیٰ دینے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ (الفضل 24 ستمبر 1931ء صفحہ 4)

لیکن مجلس احرار نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بقول عائشہ جلال ان کی مہاراجہ کشمیر سے کوئی ڈیل ہو چکی تھی اور بقول شیخ عبداللہ وہ کشمیر کے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے تھے سرکاری مہمان کی حیثیت سے۔(آتش چنار) بقول چودھری غلام عباس انہوں نےاس وقت کشمیر میں جتھے بھیجنے کی تحریک چلائی ہماری مخالفت کے باوجود جب اس کے لیے فضا سازگار نہ تھی (بحوالہ کشمکش) احرار دراصل اس طرح کی مہم چلا کر راجہ کو مارشل لا ء لگانے کا موقع فراہم کررہے تھے تاکہ کشمیریوں پر مزید ظلم و ستم کر سکے۔

اس کی وجہ کیا تھی اس مسئلہ پر مشہور محقق آئی ایچ قریشی صاحب روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

Because the extremist section of Hindu Community would not have liked any action that might injure the interests of the Hindu raja . And, of course, the Qadianis could not be permitted to build up an influence in the state. Hence the Ahrar were asked to take up the issue. It was a Godsend for them, because they were feeling that their popularity was on the wane and Kashmir would be a good issue to gain some popularity

(I H Qureshi, Ulema in Politics, Dehli, 1998, page 319)

اس کے علاوہ کانگریس یہ بھی سمجھتی تھی کہ آل انڈیا کمیٹی کی پشت پر انگریز ہیں ۔

The Congress leadership suspected that the British were at the back. The Congress did not want a British backed agitation to succeed at the popular level because of its likely repurcussion on the attitude of Kashmiris towards the Congress.

(I H Qureshi, Ulema in Politics, page 319)

اس کے علاوہ مجلس احرار بھی سمجھتی تھی کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے ۔

(مولانا عزیز الرحمن، در حدیث دیگراں 1975ء، دہلی صفحہ 352 )

حیرت ہے کانگریس جو کہ ریاستوں کے عوام کی ترجمانی کی بھی دعویدار تھی لیکن اسے کشمیریوں کی حالت زار کی کوئی فکر نہیں تھی ۔انہوں نے احراریوں کو بھی فریب دیا لیکن برٹش انڈیا آفس لائبریری کا ریکارڈ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ انگریز بھی احمد یہ جماعت کی مظلوم کشمیریوں کی حمایت پر ناخوش تھے اور جماعت کو منع کر رہے تھے۔ ایک موقع پر مولوی فرزندعلی صاحب نے B J Glancyکو جو گورنمنٹ انڈیا کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے آگاہ کیا کہ پنجاب کے گورنرہمیں کشمیریوں کے معاملات میں مداخلت سے منع کر رہے ہیں۔ B J Glancy نے کہا کہ یہ صائب مشورہ ہے اور اس بات کی رپورٹ اس طرح کر رہے ہیں ۔

Moulvi Sahib on my questioning him said that H E the Governer of The Punjab had advised him that the Ahmadiyya Community refrain from any participaton in Kashmir affairs. I said that I thought that this advice was extremely sound. There were many inflammable elements in Kashmir.

( ریکارڈ انڈیا آفس برٹش لائبریری)

اسی وجہ سے ناراض ہو کر پنجاب کے انگریز گورنر ایمرسن نے احراریوں کا رخ قادیان کی طرف موڑ دیا لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کامیابیاں حاصل کیں۔ اس سلسلہ میں لندن احمدیہ مشن نےکشمیریوں کی حالت زار کو اخبارات میں اس طرح اجاگر کیا کہ اخبارات کا رویہ بدل گیا اور وہ کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے لگے۔ مولوی فرزند علی صاحب اطلاع دیتے ہیں لندن کے متعدد بااثر اور باوقار اخبارات مثلاً مارننگ پوسٹ، سنڈے ٹائمز ، ڈیلی ٹیلی گراف وغیرہ میں مسلمانان کشمیر کے متعلق ہمدردانہ مضامین شائع ہوتے ہیں جن میں ریاست کے وزیراعظم کی برطرفی کاعام مطالبہ اور نظم و نسق میں اصلاحات کی پرزور تائید کی گئی۔ آج کے ٹائمزمیں یہ حقیقت بے نقاب کی گئی ہے کہ کشمیر کے متعلق ہندو اخبارات میں بالکل جھوٹی خبریں شائع ہوئی ہیں ۔

( 10 فروری 1932 ءصفحہ 1 )

یہ جناب خان صاحب موصوف کی ان مسائی کا نتیجہ تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت انہوں نے لندن کے متعدد اخبارات کو مسلمانان کشمیر کی حمایت میں آواز اٹھانے پر آمادہ کرنے کے لیے کیں۔

( الفضل 21 فروری 1932 ء)

جناب خان صاحب نے جس ہندو پراپیگنڈے کے متعلق حوالہ دیا اس کو لندن ٹائمز نے 16 فروری 1932ء کو اپنی اشاعت میں بے بنیاد قرار دیا ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے نامساعد حالات کے باوجود جو گراں قدر خدمات سرانجام دیں اس کا اعتراف سابق صدر آزاد کشمیرچودھری غلام عباس اپنی سوانح حیات میں یوں کرتے ہیں۔

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی معرفت ہماری شکایات سمندر پار کے مسلمانوں میں بھی زبان زد ہر خاص و عام ہوگئیں ۔ اس نزاکت حال کے پیش نظر حکومت کشمیر کے لئے ہماری شکایات کو ٹالنا اور بزور طاقت کچلتے چلے جانا مشکل ہوگیا ۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پیہم اصرار کے باعث حکومت ہند کا معاملا ت کشمیر میں دخل انداز ہونا ناگزیر ہوگیا ۔ نومبر 1931ء کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر کو مجبوراً مسلمانانِ ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا ۔

(چودھری غلام عباس، کشمکش، اردو اکیڈمی لاہوری دروازہ ، صفحہ 111 اور 112 )

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button