متفرق مضامین

حضرت مصلحِ موعود رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارک میں احمدی خواتین کی زیورِ تعلیم سے آراستگی

(امۃ الباری ناصر)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں الہاماً بتایا گیا تھا کہ وہ علومِ ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔ یہ خاص عنایت آپؓ کی ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ اس اولوالعزم بیٹے نے علوم ظاہری وباطنی کے دریا بہادیے۔ تفسیر کبیر لکھتے ہوئے قرآنی آیت

وَکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ( النبا : 34)

پر غور فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا منصوبہ سمجھادیا۔ آیت مذکورہ کا مفہوم بیا ن فرماتے ہیں :

’’ کَوَاعِبَ اَتْرَابًا

میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہےکہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ ایسی برکتیں دے گاکہ جب وہ مقامِ مفاز میں پہنچیں گے تو ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کی عورتوں کا دینی معیار بھی اونچا ہوجائے گااور پھر وہ اس معیارمیں ایک دوسری کے برابر ہوں گی غرض کَوَاعِب میں ان کے معیار کے اونچا ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عورتوں کا دینی معیار بلند ہوگا اور سب میں جوش اور جوانی اور بلندی پائی جائے گی اور اَتْرَابٌ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی ترقی قومی ترقی ہوگی انفرادی نہیں یعنی سب میں یہ جوش ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہوگا یہ نہیں ہوگا کہ چند عورتوں میں تو جوش و خروش بے انتہا ہو اور باقی اپنے فرض سے غافل ہوں بلکہ سب عورتوں میں ملتا جلتا جوش و خروش پایاجائے گا اور وہ سب کی سب دین کی ترقی کے لئے ایک جیسی قربانی کریں گی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ 52)

آپؓ کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ یہ الٰہی بشارت کئی دفعہ اور کئی رنگ میں پوری ہوئی اور ہوتی رہے گی اس کا ایک ظہور جہالت کے زہر کی اسیر،رسوم و رواج کے قہر کی اسیر،صنفِ مضبوط کے جبر کی اسیر عورت کے حقوق دینے اور دلوانے کی صورت میں ہوا۔ اس عظیم کام کے لیے نسخۂ کیمیا آپ کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقوش پا میں ملا۔ اور وہ یہ تھا کہ طبقۂ اناث کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرکے اُن کو دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت دے کر فلاح و بہبود کے کاموں میں شریک کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو خلافت کی ردا پہنائی تو آپؓ نےاپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :

’’جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔‘‘

( تقریر فرمودہ12؍اپریل1914ءتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ25)

اللہ تبارک تعالیٰ نے آپؓ کو جلد جلد بڑھنے کی صلاحیت اور طاقت دی تھی۔ عورت ذات کی محرومیوں کو ان کے اسباب و عوامل کی تہ میں اتر کر سمجھا اور ان کاتدارک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس ہیرے کو تراش کے حسین تر بنا دیا۔ اسے معاشرے میں باعزت مقام دیا اور دلوایا۔ ہندوستان کے اس وقت کے حالات کو ذہن میں لائیں تو یہ کام کئی جہت سے مشکل تھا مگر آپؓ نے حکمت سے ہر رکاوٹ دور کی اور ایسی بنیادیں استوار کیں جن پر عورتوں کی ترقی کی مضبوط دیرپا اور خوب صورت عمارت کھڑی ہے۔ ایک عورت کی اعلیٰ تعلیم و تربیت سے کئی گھر سنور جاتے ہیں آہستہ آہستہ یہ روشنی پوری دنیا میں پھیل رہی ہے اور قوموں کے لیے برکت کا سامان بن رہی ہے۔ آپؓ نے یہ سارا کام ماں باپ سے بڑھ کر خیر خواہی شفقت اور محبت سے کیا۔

عورتوں کوعلم حاصل کرنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :

’’اپنی جماعت کی عورتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی کمزوریوں کے خیال کو چھوڑ کر دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوشش کریں وہ یاد رکھیں کہ محض جوش کام نہیں آتے جب تک اس کے ساتھ علم و ہنر نہ ہو میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بہتوں کے دل میں جوش ہے کہ وہ خدمتِ دین کریں مگر یہ جوش اُس وقت کام آئے گا جب علم و تربیت کے ساتھ ہو اگر تعلیم و تربیت ساتھ نہ ہو تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوگا پس اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی کام کریں تو علم حاصل کرو اور سیکھنے کی کوشش کرو علم تمہیں وہ قابلیت عطا کرے گا کہ تم کام کرنے کے طریق سے واقف ہوجاؤگی۔‘‘

(الفضل 5؍فروری 1925ء)

’’جب تک تعلیم نہ ہو خدا سے اُن کا اپنا معاملہ درست نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ ذمہ داریاں پوری ہوسکتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور خاندان اور اپنی قوم اور ملک کی طرف سے اُن پر عائد ہوتی ہیں ۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 223)

’’میں جانتا ہوں کہ اس وقت اسلام کے لئے سب سے زیادہ زبردست قلعہ عورتوں کے دماغوں میں بنایا جاسکتا ہے اور اس قلعہ کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی سکیم پورے طور پر اپنی دینی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے۔‘‘

(انوار العلوم جلد13صفحہ95)

’’عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشے کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آسکتا ہے لیکن اس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 375)

’’عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک ان کی تعلیم و تربیت اس طرح نہ ہو بلکہ مَردوں سے زیادہ نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی میں بہت روک رہے گی ان کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو ہیرارکھتا ہو مگر اس کے استعمال سے بے خبر ہو وہ اسے ایک گولی سمجھ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘

(انوار العلوم جلد 9صفحہ22)

’’سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں، مذہب سے اُن کا تعلق ہو، مذہب سے اُنہیں محبت ہو، مذہب سے اُنہیں پیار ہو جب اُن میں یہ بات پیدا ہوجائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھائیں گی اور اُن میں اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘

(الازہا ر لذوات الخمار صفحہ19)

لڑکیوں کی تعلیم پر ثواب

’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کے لیے برابر رکھی ہے۔ وہ تعلیم جو دنیا کی اغراض کے لئے حاصل کی جاتی ہے اُس کا ثواب نہیں ملتا۔ خدا تعالیٰ اُن نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اِس دنیا میں نہیں ملتا۔ ہاں عورتوں کے لئے تعلیم مکمل کرکے ثواب حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیاوی غرض کوئی نہیں ہوتی بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے۔ اس لئے عورتیں تعلیم حاصل کرکے ثواب حاصل کر سکتی ہیں ‘‘

(خطاب فرمودہ27؍دسمبر1938ء مطبوعہ الازہار لذوات الخمار صفحہ323)

لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کا اجر

’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم روزہ رکھتے ہو تم نمازیں پڑھتے ہو لیکن اس دنیا میں کہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لئے میں آخر میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا۔ تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو وہ پڑھ کر نوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں پہناتے ہیں تو تم نے ان کی تعلیم دلوانے کا بدلہ پا لیا لیکن جو لڑکی کی تعلیم پر تم خرچ کرتے ہو اس کا ثواب تمہیں اس دنیا میں نہیں ملتا اس لئے رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں وہ اُن کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے اور ان کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا تو لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کے لئے نہیں ۔‘‘

(خطاب فرمودہ27؍دسمبر1938ءمطبوعہ الازہار لذوات الخمار صفحہ323)

عورتوں کے لیے کتنی اور کیسی تعلیم

تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی ادارے، بڑے بڑے کالج یونیورسٹیاں اور لائبریریاں ہر ملک کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ بر صغیر میں انگریز راج کی وجہ سے تعلیم کا چرچا ہوا تھا۔ ترقی پسند کہلانے کی دوڑ میں انگریزی تمدن اپنانے اور انگریزی پڑھنے کا رواج بھی عام ہوا لیکن کردار سازی اور دینی تربیت کے پہلو کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتیجے میں مادر پدر آزاد قسم کی روش نے جنم لیا۔ اپنی جہالت کا دوش مذہب پر ڈال کر مذہب سے دوری کی علت پیدا ہوئی۔ عورت کی آزادی کو لباس اور مذہبی و معاشرتی حدود سے آزادی سمجھا گیا۔ جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی کہ اس کی رہ نمائی قرآن مجید اور صاحبِ قرآن مقدس ہستیاں کر رہی ہیں۔ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لائحہ عمل میں قرآن پاک سے محبت، اس کے اوامرو نواہی پر عمل اور اس کی نورانی تعلیم میں آئندہ نسلوں کی تربیت شامل ہے۔

جلسہ سالانہ1929ءمیں مستورات سے خطاب میں آپؓ نے پُر زور اور پُر سوز انداز میں خواتین کو تعلیم قرآن کے لیے بیدار کیا۔ فرما تے ہیں :

’’پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟

…تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہےاسی لیے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہےدیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔ قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں۔ قرآن ٹو نہ نہیں۔ یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہوگا۔ لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہر گزہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گے بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں، رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعودؑ کی کوئی کتاب ہوگی۔ تم میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجہ میں معلوم کی ہے۔ کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لیے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو۔ اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہے تو تم سے کس بات کی توقع ہوسکتی ہے؟‘‘

(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد11صفحہ 58)

نیز فرمایا:

’’عورتوں کے سکول ایسے ہوں کہ لکھائی پڑھائی یا حساب کی ابتدائی باتیں سکھا کر یکدم عورتوں کو جو دینی باتیں ہیں ان کی طرف لے جایا جائے قرآن شریف پڑھایا جائے مسائل سکھائے جائیں تاکہ بچوں کی تربیت کر سکیں امورِ خانہ داری سکھائے جائیں اس کے لئے ان کے لئے کتابیں لکھی جائیں ۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1922ء صفحہ63)

’’میں نہیں سمجھتا کہ سکندر یا تیمور کو ملک فتح کرنے کا اتنا شوق ہوگا جتنا کہ آج کل کے ماں باپ لڑکیوں کو اعلےٰ ڈگریاں دلانے کے شائق ہیں۔ یہ ایک فیشن ہوگیا ہے جو انگریزوں کی ریس اور تقلید میں ہے۔ اور اس فیشن کی رو جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ …پہلے جنون تھا جہالت کا اور اب جنون ہے موجودہ طریق تعلیم کا۔ حالانکہ یہ بھی ایک جہالت ہے۔ …آج کل عورتوں میں ڈگریاں پانے کا جنون پیدا ہو رہا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہم مہذب نہیں کہلاسکتیں جب تک کہ کوئی علمی ڈگری ہمارے پاس نہ ہو مگر یہ ان کی جہالت کا ثبوت ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنی جماعت کی عورتوں کو جہاں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دوں وہاں یہ بھی بتاؤں کہ کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔ ‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ1933ءانوارالعلوم جلد 13 صفحہ307 تا308)

پھر آپؓ نے فرمایا:

’’ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا۔ مرد تو ایسا علم سیکھنے کے لیے مجبور ہے کیونکہ اس نے روزی پیدا کرنی ہے۔ مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ علم نہیں یہ جہالت ہے۔ ‘‘

(مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد13صفحہ308تا309)

’’پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے؟ ہمیں علم دین کی ضرورت ہے۔ کوئی لڑکی اگر ایم۔ اے پاس کر لے اور اسے تربیت اولاد یا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے۔ ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے۔ جو حدیث پڑھے، قرآن کریم پڑھے، وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے۔ اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تاکہ وہ مدرس بن سکے یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ‘‘

(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد 13صفحہ311)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اس زمانے میں عورتوں کی تعلیمی حالت کا بخوبی اندازہ تھا فرماتے ہیں :

’’بہت سی عورتیں ہمارے پاس بیعت کرنے آتی ہیں جو کلمہ شہادت بھی نہیں پڑھ سکتیں۔ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ کتنا چھوٹا سا جملہ ہے اور خدا تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اس نے اس جملہ میں ساری شریعت کا خلاصہ رکھ دیا ہے لیکن عورتیں بہت سے فضول شعر تو یاد کر لیتی ہیں قصے اور کہانیاں جانتی ہیں مگر بہت ایسی دیکھی ہیں کہ جب انہیں کلمہ شہادت پڑھوایا گیا تو نہیں پڑھ سکتیں۔ پس عورتوں میں جہالت کمال کو پہنچ گئی ہے ۔‘‘

(مستورات میں خطاب 1915ء، الازہار لذوات الخمار صفحہ3)

عورتوں کی تعلیمی حالت بالعموم بہت کمزور تھی تاہم قادیان میں احمدی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہو چکا تھا۔ لڑکیوں کا ایک پرائمری سکول حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے سے جاری تھا حضرت ام المومنینؓ نے کمال مہربانی سے اپنے دونوں جانب کے نچلے دالان گرلز سکول کے لیے مرحمت فرمائے ہوئے تھے۔ یکم اپریل 1914ءکو مدرسۃ البنات کا سالانہ معائنہ ہوا۔ سکول کی قریباًساٹھ لڑکیوں میں سے دو چار ہی فیل ہوئیں چھوٹی چھوٹی بچیاں عمدہ طور سے قرآن شریف پڑھتی تھیں۔

(الفضل 6؍اپریل 1914ءصفحہ1)

اس مد رسہ کی کوئی مستقل عمارت نہیں تھی سکول مختلف مکانوں میں منتقل ہوتا رہتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ خواتین کو قرآن کریم کا درس دیتے تھے۔ آپؓ کی رحلت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو درسِ قرآن کا سلسلہ سورۃ المائدہ کے پہلے رکوع سے جاری فرمایا جہاں سے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے چھوڑا تھا۔ اس درس میں قریباً 100عورتیں حاضر تھیں۔ خواتین کو ترقی کی راہوں پر ڈالنے کے لیے آپؓ نے غیر معمولی اقدامات کیے۔

مدرسۃ البنات۔ نصرت گرلز سکول

آپؓ نے1919ء میں سکول کی نئی عمارت بنوا دی اُستانی سکینۃ النساء صاحبہ کو اس میں لمبے عرصے تک خدمت کی توفیق ملی۔

(لفضل 12؍مئی 1931ء)

1916ء میں پنجاب کے مختلف مقامات پر تیس پرائمری سکول کھولے گئے جن میں تین لڑکیوں کے لیے تھے۔

1925ءتک قادیان میں ایک ہی پرائمری سکول تھا پھر طالبات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے گرلز سکول کے دو حصے کر دیے گئے۔ ایک شہر میں اور دوسرا دارالفضل میں جو مڈل سکول تھا دونوں سکولوں میں طالبات کی تعداد 113؍تھی شہر والے سکول میں چھٹی اور ساتویں جماعت بھی تھی( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ189)شہر والا سکول پہلے پرائمری سے مڈل ہوا پھر ہائی سکول بنا۔

دینیات کلاسز

1936ء میں نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے دینیات کلاسز شروع کرائیں جس میں اردو انگریزی کے علاوہ قرآن کریم، احادیث، فقہ،اسلامی تاریخ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھانے کا انتظام تھا۔ 1940ء میں تعلیم میں ترقی کا ایک جائزہ ملاحظہ ہو۔ نصرت گرلز سکول قادیان سے اس سال اٹھارہ طالبات نے مڈل کا اور سات طالبات نے میٹرک کا امتحان پاس کیا جس میں محمودہ بنت نور محمد صاحب قادیان میں اول رہیں۔ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ(چھوٹی آپا ) اور صاحبزادی امۃ الودود صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ نے بی اے کا امتحان پاس کیا طالبات نصرت گرلز سکول کی تعداد 600رہی۔

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل 476)

خواتین کی تعلیم و تربیت میں اس تدریجی ترقی کا جائزہ خود حضورؓ کے الفاظ میں درج ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاص دلچسپی ہے میں نے اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراض بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں۔ میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لئے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں اس پر میں نے سمجھا کہ صرف ایک عورت کو تیار کرنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اگر وہ فوت ہوجائے تو دوسری تیار کرنے کے لئے چھ سات سال کا مزید عرصہ درکار ہوگا اس پر میں نے یہ انتظام کیا کہ طالبات چِکوں کے پیچھے بیٹھ کر اُستادوں سے تعلیم حاصل کریں اس پر قادیان میں اور باہر بھی اعتراض ہونے لگے کہ یہ اچھی تعلیم ہے کہ عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں لیکن میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کیونکہ ثابت ہے کہ رسول کریمﷺ کے زمانے میں ضرورت کے موقع پر مرد عورت ایک دوسرے سے پڑھتے پڑھاتے رہے ہیں۔ خود حضرت عائشہؓ صحابیوں اور نَو مسلموں کو رسولِ کریمﷺ کے کلمات طیبات سکھاتی رہی ہیں اور ہماری عورتوں کی عزت رسولِ کریمﷺ کے زمانہ کی عورتوں سے زیادہ نہیں ہوسکتی اور جو فعل ان کی عزت کے مطابق ہے اس سے ہماری عزت میں فرق نہیں آسکتا۔ پس میں نے اس سلسلہ کو جاری رکھا یہاں تک کہ پچھلے سال عورتوں کی کافی تعداد نے مولوی کا امتحان پاس کرلیا گویا وہ ڈگری حاصل کرلی جو عربی میں ایف اے کے برابر ہے اس کے ساتھ ہی میں نے پرائمری سکول کو مڈل تک پہنچا دیا اور چونکہ عربی کا امتحان دے کر انٹرنس بھی پاس کیا جاسکتا ہے اس لئے مولوی پاس عورتوں نے اور کچھ باقاعدہ سکول میں پڑھانے والیوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انٹرنس بھی پاس کرلیا اور اس سال سے قادیان میں عورتوں کے لئے کالج بھی جاری ہوچکا ہے امید ہے دو سال تک عورتیں ایف اے پاس کرلیں گی اور میرا منشاء ہے کہ اس طرح کم ازکم پندرہ سولہ عورتوں کو بی اے ایم اے تک تعلیم دلائی جا ئے تاکہ عورتیں خود دوسری عورتوں کو تعلیم دے سکیں ۔‘‘

(الفضل 29؍دسمبر1931ءصفحہ5)

1914ءمیں مستورات کو پہلی دفعہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں کچھ وقت کے لیے اپنا الگ پروگرام منعقد کرنے کا موقع ملا۔

لجنہ اماء اللہ کا قیام

1922ءمیں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا جس کے اوّلین مقاصد خواتین کی تعلیم و تربیت تھی۔ ابتدا میں اس میں شمولیت اختیاری تھی البتہ 1939ءمیں اس کا فیض عام کرنے کے لیےہر احمدی عورت کا اس میں شامل ہونا لازمی قرار دے دیا۔ یہ دنیا میں خواتین کی واحد تنظیم ہے جو قریباً سَو سال سے بین الاقوامی طور پر فعّال ہے۔ اور کئی قسم کے تعلیمی منصوبوں پر کام کرتی ہے۔

1923ءمیں حضرت مصلح موعودؓنے خواتین میں تین لیکچر دے کر 90سے زائد علوم کا تعارف کروایا تاکہ خواتین اپنے ذوق کے مطابق مضامین منتخب کر سکیں۔

مدرسۃ الخواتین

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے احمدی خواتین کی علمی ترقی سے متعلق سفر یورپ میں جو سکیم بنائی تھی اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 17؍مارچ 1925ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس دار میں مدرسۃ الخواتین کی بنیاد رکھی۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ518)

یہ ایک ٹیچرز ٹریننگ سکول کی حیثیت رکھتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عورتوں کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جائے تاکہ وہ معلمات بن سکیں۔ اس موقع پر افتتاحی خطاب میں حضورؓ نے فرمایا :

’’قادیان اُمُّ القریٰ ہے اس لئے جس طرح یہاں کے لوگ دین میں نمونہ ہوں گے اسی طرح یہ سکول علم میں دنیا کے لئے نمونہ ہوگا پس اس کی ابتدائی حالت سے گھبرانا نہیں چاہئے اپنے وقت پراس میں ترقی آئے گی اور اس قدر ترقی آئے گی کہ اب اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہوگا…ابلیسیت نہیں نکل سکتی جب تک علم کی طرف خاص توجہ نہ دی جائے اور وہ اسی وقت نکلے گی جب ہم عورتوں کی تعلیم کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے …آخیر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم پر ایسی برکتیں نازل کرے جو دین و دنیا اور عاقبت کے لئے مفید ہوں ۔‘‘

(الفضل 21؍مارچ 1925ءصفحہ8)

یہ مدرسہ میرا ایک علمی درخت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:

’’ہر ایک شخص جو اپنے ہاتھ سے کوئی پودا لگاتا ہے اُسے اُس پودے سے محبت ہوتی ہے خصوصاً ان پودوں سے جن کے متعلق اسے خیال ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس کے ذکر خیر کو جاری رکھ سکیں گے…میں اس مدرسہ کے لئے تڑپ رکھتا ہوں کہ جس غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے وہ پوری ہو یعنی استانیاں تیار ہوں جو اعلیٰ نسلوں کی تربیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرسکیں اور ہمارے مدرسہ کی نکلی ہوئی طالبات باقی تمام طالبات کو مات کردیں ۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 191)

سوا گھنٹے تک میں انہیں پڑھاتا ہوں

حضورؓ اپنی مصروفیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میں صبح ناشتے کے بعد مدرسۃ الخواتین میں پڑھاتا ہوں یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے اس میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چکیں ڈال کر مرد عورتوں کو پڑھاتے ہیں آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں۔ مولوی شیر علی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ۔ سوا گھنٹے تک میں انہیں پڑھاتا ہوں ۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ518)

اس مدرسہ کی طالبات سے آپؓ خاص شفقت سے پیش آتے۔ دو ذہین اور نمایاں قابلیت کی طالبات مکرمہ حبیب النساء صاحبہ اور مکرمہ مبارکہ بیگم بنت مولوی محمدابراہیم صاحب بقاپوری کی جواں عمری میں وفات کا آپؓ کو بہت صدمہ ہوا۔

قادیان میں لڑکیوں کی شرحِ خواندگی سَو فیصد

1929ءمیں قادیان سے بارہ لڑکیوں نے ’مولوی‘کا امتحان دیا۔ اس پر حضورؓ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ باقی سارے مسلمانوں میں سے جن کی تعداد ہماری جماعت سے بہت زیادہ ہے اتنی لڑکیاں چھوڑ اتنے لڑکے بھی شاید ہی اس امتحان میں شامل ہوں …قادیان میں ہماری جماعت کی قریباً سَو فیصدی لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد ان کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہوجائے۔‘‘

(الفضل 25؍جنوری 1929ء)

جماعت کے تعلیمی اداروں میں فیسیں اور اخراجات برائے نام تھے۔ طالب علم وسائل کی کمی سے تعلیم سے محروم نہیں رہتے تھے۔ مستحق بچوں کی فیسوں کا بوجھ جماعت خود اٹھا لیتی تھی۔

اولوالعزم کی اُڑان

حضورؓ فرماتے ہیں :

’’اگر تعلیم کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو انشاء اللہ دو تین سال میں ایسی اُستانیاں تیار ہوجائیں گی کہ ہم مڈل تک لڑکیوں کا سکول جاری کرسکیں گے۔ پھر مڈل تک تعلیم یافتہ لڑکیوں کو پڑھا کر انٹرنس تک کے لئے اُستانیاں تیار کرسکیں گے پھر ان سے لے کر اور اعلیٰ تعلیم دلا سکیں گے ابھی ہمیں ایسی اُستانیوں کی بھی ضرورت ہے جو لڑکیوں کو نرسنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم دے سکیں …یہ ابتدا ہے اگر کام جاری رہا اور اگر عورتوں نے ہمت کی تو بہت کچھ کامیابی ہوسکتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ان کی مدد کرے گا۔‘‘

(الازہا ر لذوات الخمار صفحہ189)

سیالکوٹ میں گرلز سکول

1925ءمیں خواتین احمدیہ سیالکوٹ نے مقامی چندہ جمع کرکے ایک مدرسہ بنات کی بنیاد ڈالی۔ خواتین احمدیہ سیالکوٹ میں بعض اچھی تعلیم یافتہ تھیں چنانچہ انہوں نے اپنی خدمات کو اپنی خوش قسمتی سے مفت پیش کیا۔

(الفضل 31؍مارچ 1925ء)

ماہنامہ مصباح کا اجرا

لجنہ کی ابتدائی ممبرات میں چند خواتین ایسی تھیں جن کی یہ خواہش تھی کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک الگ رسالہ جاری ہو۔ صف اوّل میں سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ ام داؤد تھیں پھر استانی سکینۃ النساء اہلیہ قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحب ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کے علاوہ اور بہنیں بھی وقتاً فوقتاً احمدی خاتون اور تادیب النساء میں لکھتی رہی ہیں۔ ’احمدی خاتون‘ایک رسالہ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے مستورات کے لیے جاری کیا تھا جس کا نام بعد میں حضرت مصلحِ موعودؓ نے ’تادیب النساء ‘ رکھ دیا تھا کچھ عرصہ بعد وہ بھی بند ہوگیا تو الفضل کے صفحات پر احمدی خواتین کے مضامین نظر آنے لگے۔ ایڈیٹر صاحب الفضل نے اعلان فرمایا کہ الفضل میں ایک صفحہ عورتوں کے مضامین کے لیے مخصوص کردیا جائے گا اس اعلان کے بعد الفضل کے صفحات پر نظر ڈالیں تو ہر پرچہ میں کسی نہ کسی خاتون کا مضمون نظر آتا ہے جس میں عورتوں کی ترقی کی کوئی نہ کوئی تجویز ہوتی۔

بعض خواتین ایک زنانہ اخبار کی ضرورت محسوس کررہی تھیں اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک ایسے رسالے کی منظوری عنایت فرمائی جو خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ہو۔ اس رسالہ کا نام مصباح رکھا گیا اور15؍دسمبر1926ء کو اس کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔

(ماخوذ ازمصباح جنوری1996ء)

یہ رسالہ شروع میں پندرہ روزہ تھا بعد میں ماہنامہ ہو گیا۔

تقسیم برصغیر سے پہلے اس کے لیے لکھنے والیوں میں مذکورہ بالا خواتین کے علاوہ ب۔ خ۔ ن صاحبہ، امتہ السلام اختر صاحبہ اور کئی دوسری لکھنے والی خواتین شامل تھیں۔

شروع میں ادارت کے فرائض مردوں کے پاس تھے لیکن 1947ء سے مکمل طور پر خواتین اس کے لیے کام کرنے لگیں۔

مصباح کے دَور ثانی کا آغاز ربوہ میں 1950ء میں ہوا۔ امتہ اللہ خورشید صاحبہ، امتہ الرشید شوکت صاحبہ، امتہ اللطیف خورشید صاحبہ اور سلیمہ قمر صاحبہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔

(ماہنامہ مصباح جنوری 1996ء)

امۃ الحئی لائبریری

حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہؓ کی یاد میں 1926ء میں قادیان میں لجنہ اماء اللہ کی تعلیمی ترقی کے لیے ایک لائبریری قائم کی۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے یکم نومبر1950ءکو ربوہ میں امۃ الحئی لائبریری قائم کی۔

ناصرات الاحمدیہ کا قیام

1945ءمیں سات سے پندرہ سال تک کی بچیوں کی تنظیم ناصرات الاحمدیہ کے نام سے بنائی جس کا مقصد نئی نسلوں کو تعلیم کے ساتھ تربیت کے مربوط منصوبے کے ساتھ منسلک کرنا تھا تاکہ کم عمری سے ان کے دل میں خدا کی محبت بیدار کی جائے، نیکی بدی کا فرق بتا کر اعلیٰ اخلاق کی بنیاد رکھی جائے۔ اس طرح وہ مستقبل میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہو جائیں۔

عمر رسیدہ خواتین کے لیے تعلیم بالغاں کا کام

’’1946ءمیں الیکشن ہونا تھا اور ہر بالغ عورت جو خواندہ ہو ووٹ ڈالنے کا حق رکھتی تھی قادیان میں خواندہ بالغ عورتوں کی فہرستیں بن رہی تھیں زیادہ سے زیادہ ووٹر ز حاصل کرنے کے لئے حضرت سیدہ ام داؤدؓ کی نگرانی میں ہنگامی بنیادوں پر خواتین کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام ہوا۔ قادیان اور اس کے نواحی دیہات میں خواتین نے نمایاں کام کیا۔‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 572)

گھر گھر قرآن کریم اور ابتدائی لکھنا پڑھنا سکھانے کا کام ہونے لگا۔ جو عورتیں گھر سے نہیں نکل سکتی تھیں ان کے گھروں تک معلمات پہنچ کر ان کو سکھاتیں۔ گھر کے مرد بھی منع نہ کرسکتے تھے پتا تھا کہ حضورؓ کی جاری کردہ سکیمیں ہیں تعرض کیا تو شکایت لگ جائے گی۔

ہجرت کے بعد لڑکیوں کی تعلیم

ہجرت کے وقت 1947ء میں نصرت گرلز ہائی سکول و مڈل سکول دونوں زنانہ ادارے قادیان میں موسمی تعطیلات تک بخیرو خوبی جاری تھے ہائی سکول میں طالبات کی تعداد 985تھی اور گرلز مڈل سکول میں 395طالبات تھیں۔ استانی امتہ الرحمٰن صاحبہ بی اے بی ٹی اور استانی امۃ العزیز صاحبہ علی الترتیب ہائی سکول اور مڈل سکول میں ہیڈ مسٹریس کے فرائض ادا کر رہی تھیں۔

(تاریخ احمدیت جلد10صفحہ405)

حضرت مصلحِ موعودؓ نے پاکستان آکر طالبات کا وقت ضائع نہ ہونے دیا۔ رتن باغ لاہور میں عارضی قیام تھا۔ سارا ملک ایک بحران سے گزر رہا تھا، جماعت کے پاس مالی وسائل بھی محدود تھے، تاہم تعلیم کا سلسلہ ایک کمرے میں جاری کر دیا گیا۔ رتن باغ اور اس کے گردو نواح میں مقیم بچیوں نے مکرمہ استانی کنیز بیگم کے زیر انتظام پڑھائی شروع کردی۔

جامعہ نصرت کی طالبات کو مکرمہ استانی محمدی بیگم صاحبہ نے پڑھا نا جاری رکھا۔

ربوہ پہنچ کر آپؓ نے مسجد، ہسپتال اور سکول ترجیحی بنیادوں پر بنوائے۔ جلسہ سالانہ کے لیے بنائی گئی بیرکوں کے گرد چاردیواری بنا کر سکول کی شکل دے کر 25؍اپریل 1949ءکو تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا گیا۔ ابتدا میں طالبات کی تعداد 80؍تھی۔ اس میں چنیوٹ سے بھی لڑکیاں پڑھنے کے لیے آتی تھیں۔ 1955ءمیں سکول کی اپنی وسیع عمارت تیار ہو گئی۔ سکول قابل محنتی اساتذہ کی مساعی سے تیزی سے ترقی کرتا رہا۔

(خلاصہ تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 122تا123)

جامعہ نصرت برائے خواتین ربوہ کا قیام

حضورؓ نے یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ سابقہ دینیات کلاسز کی بجائے ایک زنانہ کالج جامعہ نصرت کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ 14؍جون 1951ء کوآپؓ نے کالج کا افتتاح فرمایا۔ ابتدا میں کالج کے لیے کوئی عمارت میسر نہ تھی۔ تو آپؓ نے اپنی ایک کوٹھی میں ہی کالج جاری فرمادیا۔ 1952ءمیں لجنہ کے دفتر میں کلاسیں ہونے لگیں 1953ءمیں کالج کی عمارت تیار ہوگئی اس کے ساتھ ایک ہوسٹل بھی بنایا گیا جس میں نہ صرف پاکستان کے مختلف علاقوں سے بلکہ غیر ممالک سے بھی طالبات رہائش اختیار کرکے تعلیم حاصل کرنے لگیں۔

سیماب کی طرح تڑپنے والا دل

افتتاحی خطاب میں اس کے اغراض و مقاصد بیان فرماتے ہوئے آپؓ نے فرمایا :

’’طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اوراسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کردو اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں اور اخلاقِ فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں ۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ124)

اس کالج کے قیام سے آپؓ کے برسوں پہلے کے خوابوں نے حقیقت کا روپ دھارا کچھ عرصہ مرد پروفیسروں نے پڑھایا اس کے بعد آہستہ آہستہ کالج کی فارغ التحصیل طالبات نے ماسٹرز کرکے تدریس کا سارا کام سنبھال لیا۔ پرنسپل محترمہ فرخندہ شاہ صاحبہ اور ڈائریکٹریس حضرت چھوٹی آپا نے سالہا سال اس ادارے کی خدمت کر کے اس کو ممتاز مقام دلایا۔ حضرت چھوٹی آپا لکھتی ہیں کہ حضورؓ روزانہ آپ سے کالج کی رپورٹ لیتے۔

(خطابات مریم حصہ دوم صفحہ65)

1958ءمیں جامعہ نصرت کا حکومت کے ثانوی بورڈ سے الحاق ہوگیا۔ 1961ء میں بی اے کلاسز کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہوا۔

پرنسپل لاہور کالج برائے خواتین ڈاکٹر علی محمد صاحب نے کالج کے معائنہ کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار بایں الفاظ کیا :

’’ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے۔ عجب سماں ہے۔ پڑھنے والیاں اور پڑھانے والے ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں اس بے لَوث جذبہ کو دیکھ کر بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضا ربوہ میں ہی پائی جاتی ہے ۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد 13صفحہ338، تاریخِ لجنہ اماء اللہ جلددوم صفحہ252)

غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی جامعہ نصرت امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ نتائج کی شرح کامیابی ہمیشہ ہی یونیورسٹی اور بورڈ سے نمایاں بہتر رہی۔ نمایاں کامیابی پر تمغے اور وظائف کی حقدار قرار پانے والی طالبات کی تعداد بھی قابل رشک رہتی ہے یونیورسٹی اور بورڈ میں سر فہرست رہنے کے اعزاز بھی حاصل ہوئے۔

1955ء میں حضرت مصلح موعودؓ ہالینڈ تشریف لے گئے تھے وہاں انہیں جامعہ نصرت کے اچھے نتائج کا علم ہوا۔ آپؓ نے ایک خطاب میں فرمایا:

’’ابھی مجھے ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ امسال یونیورسٹی کے امتحانات میں نتائج صرف 22فیصد نکلے لیکن ہمارے ربوہ کی لڑکیوں کے کالج (جامعہ نصرت) کا نتیجہ تریسٹھ فیصد رہا۔ اور ان پاس ہونے والی طالبات میں سے اکثر وہ ہیں جن کی فیسیں میں خود ادا کرتا تھا وہ کالج کی فیس مہیا نہیں کرسکتی تھیں لیکن ہم نے ان کے اخراجات کو برداشت کیا اور اس طرح عورتوں کی تعلیم کو ترقی دی۔ اس سے پہلے قادیان ایک وقت میں عورتوں کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا وہاں پر کل تعلیم کا تناسب باسٹھ فیصد تھا لڑکوں کی تعلیم کا تناسب 90فیصد اور عورتوں کی تعلیم کا تناسب 100فیصد تھا لوگ کہتے ہیں کہ کوئی قوم پردے میں ترقی نہیں کرسکتی لیکن ہماری طرف دیکھو کہ ہماری بچیوں کو جو عورتیں پڑھاتی ہیں وہ بھی پردہ کرتی ہیں ۔‘‘

( خطبات محمود جلد 36صفحہ97)

تعلیم کے فروغ میں آپؓ کی بیگمات کا تعاون اور خدمات

آپؓ اپنی بیگمات کو خود پڑھاتے تھے تعلیم جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ آپؓ کے مزاج اور عزائم کو سمجھ کراحمدی خواتین کی معلمات بنیں اور تربیت کا کام کریں۔

حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ کےقرآن پاک کی تعلیم کے شوق نے حضرت صاحبؓ کو متاثر کیا۔ آپ ایک ذہین خاتون تھیں اورخدمتِ دین کے لیے انتھک کام کرنے کا جذبہ رکھتی تھیں۔ خواتین کی تعلیم و تربیت میں ممدو معاون تھیں۔ لجنہ اماءاللہ آپ کی تحریک پر قائم ہوئی۔ قادیان میں ایک تعلیمی انقلاب آگیا۔ جان مار کے کام کرنے کا جذبہ تھا۔ آپ کی وفات کا حضورؓ کو بہت صدمہ ہوا۔

حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ(ام طاہر) بھی ممد و معاون رہیں۔ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے شادی کے بارے میں حضورؓ نے فرمایا:

’’یہ شادی محض جماعت کے بعض کاموں کو ترقی دینے کے لیے کی جارہی ہے تو خدا تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لیے بھی مبارک کرے…پھر وہ اس کمزور اور متروک صنف کے لیے بھی جو عورتوں کا صنف ہےمبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سال سے تلف کیے جارہے ہیں۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 3صفحہ208)

حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ کے لیے فرمایاکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار فرما یا تھا کہ مسلمانوں کی دوسری زبان عربی ہونی چاہیے۔ ان کی مادری زبان عربی تھی عربی زبان رائج کرنے کی خاطر ایک طریق یہ بھی تھا کہ بچوں میں عربی کا چرچا ہو۔ مگر ان بیگمات کا عرصۂ حیات مختصر تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے ا س خواب کی تعبیر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ( اُم متین۔ چھوٹی آپا) کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔ تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔ آپ نےتیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضورؓ کی خوشنودی حاصل کی۔ حضورؓ نے1947ء کے بعد با لعموم اپنےخطوط، مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔ قرآن کریم اس جوڑے کا ہر آن ساتھی تھا۔

(گلہائے محبت صفحہ 95)

حضرت چھوٹی آپا بفضلِ الٰہی حضورؓ کی تربیت اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے خواتین کی بہت بڑی محسنہ بنیں۔ آپ کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ لجنہ اماء اللہ کو مضبوط قدموں پر کھڑا کرنا آپ کی انتھک مخلصانہ محنت کا نتیجہ ہے۔ آپ کی شاگرد خواتین زمین کے جس کنارے پر بھی گئیں علم و عمل کی خوشبو ساتھ لے کر گئیں۔ فجزاھا اللّٰہ تعالیٰ۔

خراجِ تحسین۔ خواتین کی شرحِ خواندگی سَو فیصد

’’خلاصۂ کلام یہ کہ اپنے باون سالہ دَور خلافت میں آپ نے ہندوستان کی پسماندہ عورت کو ایک ادنیٰ مقام سے اُٹھا کر ایک ایسے مقام پر فائز کر دیا جسے دنیا کے سامنے اسلام کی عظمت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور بعض امور میں وہ دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ اور آزاد ممالک کی عورتوں کے لیے بھی ایک مثال بن گئی قومی اور ملّی امور میں قربانیوں کی چند مثالیں پہلے گزر چکی ہیں عام تعلیمی معیار کو بھی دیکھیں تو احمدی عورت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیحؓ کے خلافت کے آخری ایام میں ایک موقع پر جب ربوہ کی مردم شماری کی گئی تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اگرچہ مَردوں میں سے ایک معمولی تعداد ناخواندگان کی بھی پائی گئی لیکن عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سَو فیصدی خواندہ نکلیں۔ ‘‘

(سوانح فضل عمرجلد دوم صفحہ377)

دور خلافت ثانیہ کی چند شاعرات، نثر نگار اورمقررات

مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے کراچی میں ایک تقریب میں خطاب کے دوران حضرت مصلحِ موعودؓ کا اپنی بہن کی شعر گوئی پر خوشی کے اظہار کا ذکر کیا:

’’حضرت مصلحِ موعودؓ جب پہلی دفعہ سفرِ یورپ سے واپس تشریف لائے اس سفر کے دوران حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے ان کے فراق میں اپنی سب سے پہلی نظم کہی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت والہانہ انداز میں جہاں سفر کی اور برکات کا ذکر فرمایا وہاں فرمایا کہ یہ بھی ایک عظیم برکت ہوئی ہے کہ ہماری بہن کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم الشان قوتیں اور استعدادیں شعرو سخن کی بخشی تھیں ان کا انکشاف اس سفر کے دوران ہوا ہے۔ ان کی زندگی میں میرے سفر کے دوران جو طوفان اٹھا اس سے ان کی زندگی میں نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔‘‘

(سیلاب رحمت صفحہ 87)

شعر گوئی کے معیار میں مرد اور عورت کا فرق نہیں ہوتا مگر حضورؓ جس طرح ایک ایک قدم پر رہ نمائی فرمارہے تھے کسی خاتون کا اپنی شاندار خداداد صلاحیتوں کے ساتھ اس طرح ابھر کر سامنے آنا بہت خوشکن بات ہے۔ آپ بلاشبہ اردو شاعرات کی سرخیل ہیں اور آپ کا ایک ہی مختصر سا مجموعہ کلام درعدن اپنی خوبیوں کی وجہ سے بے نظیر ہے۔ پھر محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کا کلام اس مقدس خاندان کی اعلیٰ روایات کا پاسدار ہے۔ حسن و خوبی میں کمال رکھتا ہے۔ خواتین کے پہلے جلسہ سالانہ میں اہلیہ صاحبہ مولوی عبید اللہ بسمل رام پوری کے اپنے اشعار سنانے کا ذکر ہے۔

تذکرہ شعرائے اردو میں قریباً تیس شاعرات کے نام ملتے ہیں جن میں شاکرہ بیگم صاحبہ اور فہمیدہ منیر صاحبہ نمایاں ہیں۔ یاد محمود کتاب میں گیارہ خواتین کا کلام شامل ہے۔

1912ء سے 1916ءتک جاری رہنے والے رسالہ ’احمدی خاتون‘ میں سب سے زیادہ محترمہ استانی سکینۃ النساء صاحبہ کے مضامین چھپے۔ ان کے علاوہ حضرت ام ناصرؓ، حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ، مکرمہ ہاجرہ صاحبہ اہلیہ چودھری فتح محمد سیال صاحب، مکرمہ ام عائشہ اہلیہ مولوی محمد احسان الحق صاحب، مکرمہ زہرہ بیگم اہلیہ مولوی محمد صاحب، محمودہ و حمیدہ صاحبہ بنت حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ، مکرمہ عزیزہ رضیہ بنت خلیفہ رشید الدین صاحب، مکرمہ سیدہ نعیمہ بنت سید حامد شاہ صاحب کے مضامین شائع ہوتے رہے۔

الفضل خاتم النبیینﷺ نمبر 31؍مئی 1929ء میں مضامین لکھنے والی خواتین میں بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔ حضرت سیدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔ محترمہ مریم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب، سیدہ فضیلت صاحبہ سیالکوٹ، افضل بیگم جوہی، محمودہ بیگم صاحبہ بنت سید غلام حسین صاحب، مبارکہ بیگم صاحبہ قادیان، اہلیہ صاحبہ چودھری علی اکبر صاحب، نذیر بیگم صاحبہ، محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکمل۔

(الفضل 31؍مئی 1929ء)

مصباح میں لکھنے والی خواتین میں ام داؤد صاحبہ اہلیہ میر محمد اسحٰق صاحب، زبیدہ خاتون صاحبہ لاہور، اہلیہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری، بشارت خاتون صاحبہ بنت شیخ مولا بخش صاحب لاہور۔ کرامت خاتون صاحبہ بنت شیخ مولا بخش صاحب لاہور۔ ( تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ201)

1940ء کی مجلس مشاورت میں حضورؓ نے فرمایا:

’’میں اس امر کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ بلکہ جامعہ کے طلباء سے ہماری لڑکیاں دینی معلومات میں زیادہ ہیں۔ میں نے ان میں سے بعض کے لکھے ہوئے مضامین دیکھے ہیں جو سلسلہ کے اچھے مصنفین کے ہم پایہ ہوتے ہیں۔ ‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ475)

خواتین کے جلسہ ہائے سالانہ میں تقاریر کرنے والی چند اولین مقررات

حرم حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ۔ حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ، مکرمہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ ملک کرم الٰہی صاحب، مکرمہ استانی ہاجرہ صاحبہ، مکرمہ اہلیہ صاحبہ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ، مکرمہ مریم بیگم اہلیہ صاحبہ حافظ روشن علی صاحبؓ، مکرمہ حمیدہ صاحبہ، مکرمہ ہمشیرہ صاحبہ حضرت پیر حامد شاہ صاحب، مکرمہ اہلیہ صاحبہ قاضی ظہور الدین اکمل صاحب، حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ، استانی میمونہ صوفیہ صاحبہ، مکرمہ سیدہ فضیلت صاحبہ، مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ نے مضامین سنائے۔

حضرت چھوٹی آپا بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے تقریر کرنے کے لیے موضوع کے بارے میں رہ نمائی مانگی تو فرمانے لگے’’ یہ بھی کوئی مشکل بات ہے قرآن پاک کھولو جس آیت پر سب سے پہلے نظر پڑے اس کے مطابق مضمون تیار کرلو میرا تو یہی طریق رہا ہے۔ ‘‘حضورؓ خود تقریر تیار کرنے کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ شروع میں جب خواتین نے خود لکھ کر ایڈریس پیش کیے تو آپؓ نے بہت تنقیدی نظر سے جائزہ لیا اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپؓ خواتین کی کامیابیوں پر خوش ہوتے اور انہیں بڑھاوا دیتے۔

راقم الحروف سب خواتین کی طرف سے شکرگزاری کے ساتھ دعا گو ہے کہ مولیٰ کریم ہمارے محسن کے درجات بلند فرماتا رہے اور ہمیں آپؓ کی توقعات سے بھی بڑھ کر دین دار اورفرماں بردار بیٹیاں بنائے۔ آمین اللّٰھم آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button