متفرق مضامین

’’نور آتا ہے نور‘‘

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

آج سے 137 سال قبل جب انسانیت ضلالت اور گمراہی کی ظلمات میں بھٹک رہی تھی اور اللہ سے جو نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ہے کوسوں دور، نور علم و عرفان سے محروم، جہالت کی تاریکی میں ٹھوکریں کھا رہی تھی۔جب نور ایمان اور نوراسلام دنیا سے اٹھ چکا تھا۔نور قرآن مہجور ہو چکا تھا۔ اور جب دنیا نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منہ موڑنے کے نتیجہ میں انواع و اقسام کی ظلمات میں مستور تھی۔ان ظلمات کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو آسمانی نور دے کر بھیجا اور اپنے الہام میں اس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

’’تو جہاں کا نور ہے‘‘

چنانچہ دنیا پر مسلط ہر قسم کی ظلمات کو اٹھانے کے لیے وہ جہاں کا نور دنیا میں ظاہر ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ

میں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

اس نے کہا:

’’اس تاریکی کے زمانے کا نور میں ہوں۔جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئےہیں۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ13)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے عز و جل سے تائید حاصل کرنے کے لیے اور اس کام میں اس کی مدد و نصرت چاہتے ہوئے رحمت کا ایک نشان مانگا۔سو اللہ تعالیٰ نے آپ کی اشاعت ِانوار ِالٰہی کی اس شدید خواہش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ کی متضرعانہ دعاؤں کو سنا اور اپنے الہام میں آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:

’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی … دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند

مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعُلَاء۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔

جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔‘‘

(اشتہار 20؍فروری 1886ء)

حضورعلیہ السلام نے اس عظیم الشان بشارت کا ذکر اپنی نظم میں با یں الفاظ فرمایا:

بشارت دی کہ اِک بیٹا ہے تیرا

جو ہو گا ایک دِن محبوب میرا

کروں گا دُور اُس مَہ سے اندھیرا

دکھاؤں گا کہ اِک عالَم کو پھیرا

بشارت کیا ہے اِک دل کی غذا دی

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

چنانچہ پیشگوئی کےعین مطابق 12؍جنوری 1889ء کو ’’نور آتا ہے نور‘‘کا مصداق وہ موعود لڑکا پیدا ہوا جسے خداتعالیٰ نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا تھا۔ جو خود بھی نور تھا اور اس زمانہ کے نور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی اور روحانی ہر دو لحاظ سے تعلق ہونے کی وجہ سے نور علی نور کا مصداق تھا۔جو زندہ رہنے والا، اسلام کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچانے والا اور رسول کریم ﷺ کی شان اور آپ کی عظمت کو بلند کرنے والا تھا۔اس موعود فرزند کا اسم گرامی بشیر الدین محمود احمد تھا۔

٭…٭…٭

’’نور آتا ہے نور‘‘کےالفاظ میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے ذاتی کمالات و استعدادات ،آپ کی پاک اورنورانی فطرت ،اور عظیم الشان روحانی مقام کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔اور یہ الہامی الفاظ اس محاورہ قرآنی کے عین مطابق ہیں جو سورۂ نور میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

یَکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ۔ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌ۔(سورۃ النور :36)

یعنی قریب ہے کہ اس کا تیل خواہ اسے آگ نہ بھی چھوئی ہو بھڑک اٹھے۔ یہ چراغ بہت سے نوروں کا مجموعہ (معلوم ہوتا)ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف براہین احمدیہ میں نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌکی تشریح و تفسیر میں فرمایا:

’’نور فائض ہوا نور پر۔(یعنی جب کہ وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نورِآسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہو گیا۔اور اُس نور کے وارد ہونے سےوجود ِبا جُود خاتم الانبیاءکا مجمع الانوار بن گیا۔پس اس میں یہ اشارہ فرمایا کہ نور وحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے۔ تاریکی پر وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ فیضان کےلئے مناسبت شرط ہے۔ اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں۔ بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہےاو رحکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا۔ ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نو ر ہے اسی کواو ر نور بھی دیا جاتا ہے۔ اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا۔جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کانور پاتا ہے۔اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے ۔اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے ا س کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے…

پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ جب تک نور قلب و نور عقل کسی انسان میں کامل درجہ پر نہ پائے جائیں تب تک وہ نور وحی ہر گز نہیں پاتا‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّ ل صفحہ195تا198)

مندرجہ بالا آیت قرآنی ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر اور پیشگوئی مصلح موعودؓ کے الفاظ’’ نور آتا ہے نور‘‘ کی روشنی میں حضرت المصلح الموعودؓ کا ارفع و اعلیٰ مقام اور بھی نمایاں ہوجاتا ہے۔

٭…٭…٭

مامور زمانہ حضرت مہدی علیہ السلام نے قرآنی انوار کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اور نور اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت چاہی تھی اور اس سے رحمت کا ایک نشان مانگا تھا۔سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ رحمت کا نشان عطا کرتے ہوئے اور اشاعتِ انوارِ الٰہی کے لیے آپ کے اس اضطراب اور بے چینی کو دیکھ کر آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’’نور آتا ہے نور‘‘۔اے میرے بندے! تجھے گھبرانے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم نے یہ ارادہ کر رکھا ہے کہ اب نور توحید ساری دنیا پر غالب آئے۔ اس لیے ہم تیری ذریّت و نسل میں سے کئی نورانی وجود کھڑے کریں گے جو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ہم نور پر نور ظاہر کرتے چلے جائیں گے حتی کہ دنیا اپنی آنکھوں سے

اَشرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا

کا نظارہ دیکھ لے گی۔

٭…٭…٭

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’یہ ایک عظیم پیشگوئی ہےجو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍مارچ 2011ءصفحہ5)

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھی اس مضمون کی تائید کرتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہُ رَجُلٌ اَوْ رِجَالٌ مِنْ اَبْنَاءِ فَارِسِ

کہ اگر نور ایمان دنیا سے اٹھ جائے اور دنیا ظلمات میں گھر جائے تو بھی ابنائے فارس میں سے کچھ ایسے وجود کھڑے ہوں گے جو الٰہی تائید سے ثریا سےایمان کو واپس لائیں گے اور اس نور کے ذریعہ سے کفر اور الحاد کی ظلمات کافور ہوں گی۔

٭…٭…٭

’’نور آتا ہے نور‘‘کے مبارک الہامی الفاظ میں نور کے مسلسل اور بلا انقطاع ظاہر ہوتے چلے جانے کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہے۔ یعنی اس نور کا ایک دفعہ ہی نہیں بلکہ کئی مرتبہ ظہور ہو گا اور ہوتا چلا جائے گا۔اور ایک کے بعد دوسرا نورانی وجود ظاہر ہو کر نورِ توحید، نورِ اسلام، نورِ قرآن اور نورِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا بھر میں اشاعت اور غلبہ کا موجب بنے گا۔

چنانچہ26؍مئی 1908ء کوجب حضرت مسیح و امام مہدی علیہ السلام کی وفات ہوئی اور وہ نور ظاہری طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا اور جماعت مادی لحاظ سے کچھ عرصہ کے لیے تاریکی میں چلی گئی۔ شدید بے چینی و اضطراب کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ اب کیا ہو گا؟ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ اور سورۃ النور میں مذکور آیت استخلاف اور اس پیشگوئی میں دیے گئے وعدۂ رحمت کے عین موافق حضرت مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ذریعہ نورِ خلافت دنیا میں ظاہر ہوا اور آپ کے ذریعہ سے وہ خوف جو عارضی ظلمات کے نتیجہ میں پیدا ہوا تھا جاتا رہا۔

پھر جب حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓنے وفات پائی تو جماعت ایک دفعہ پھر مادی طور پر تاریکی میں چلی گئی۔ ادھر جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہو گئے تھے جن کی وجہ سے اس تاریکی میں اور بھی اضافہ ہوا۔ مگر اس موقع پر بھی ’’نورا ٓتا ہے نور‘‘کا الہام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانی ؓکے نورانی وجود کے نتیجہ میں یہ تاریکیاں بھی چھٹ گئیں۔

پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ذریعہ جماعت مومنین صالحین نے انوار خلافت سے فیض حاصل کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں مومنین صالحین سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب بھی ان پر خوف و حزن کی حالت آئے گی وہ ان کے سینوں کو نو ر خلافت سے منور کر کے ہرقسم کی ظلمات سے پاک کر دے گا اور ان کے خوف کے حالات کو امن سے بدل دے گا۔ جیسا کہ فرمایا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِم۪ۡ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ……(النور:56)

یعنی اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا۔ اور جو دین اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔…

پھرایسا ہی واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر ظہور میں آیا اور خلافت رابعہ کے ظہور سے خوف کے اندھیرے دُور ہوئے اور انوارِاسلام کی عالمگیر اشاعت کی آسمانی مہم میں غیر معمولی تیزی آئی ۔

اور جب حضرت مرزا طاہر احمدخلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی تو ’’نور آتا ہے نور‘‘کے خدائی وعدہ کےمطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو خلافت کے منصب جلیلہ پر متمکن فرما کر اپنے نور کی ایک اور تجلّی کو ظاہر فرمایا۔ اور اشاعت انوارِ اسلامی اور اشاعت انوارِقرآنی اور اشاعتِ انوارِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر مبارک آسمانی مہم نئی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نہایت کامیابی سے آگے بڑھنے لگی اور مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ الحمد للہ۔

ا لغرض ہم نے دیکھا کہ خلافت اولیٰ سے لے کر اب تک جماعت کو کئی کٹھن مراحل میں سے گزرنا پڑا۔اسے متعدد مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا اور کئی دفعہ خوف کے گہرے بادل چھائے۔مگر اُس صادق الوعدخدا نے اس نور خلافت کے ذریعہ جماعت کو ہر قسم کے پریشان کن حالات سے نجات دی۔ غم کے بادل چھٹ گئے۔اور نور خلافت دلوں کی تاریکی کو دور کر کے سینوں کو منور کرتا رہا۔

غرضیکہ وہی نور جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا تھا اس کا ظہور کبھی نور الدین کی صورت میں ہوا اور کبھی مصلح موعود کی صورت میں ۔ کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی ذات انور کی صورت میں اور کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی صورت میں اور آج یہی نورِ خلافت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات پُر نور کی صورت میں دنیا بھر میں اپنی روشنی اور چمک دکھا رہا ہے اور ’’نور آتا ہے نور‘‘کے الفاظ میں جو نشان رحمت حضرت مہدی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ہم آج بھی اس نور کے جلووں کا مشاہدہ کرتے اور اس کے نتیجہ میں ظلمات کو کافور ہوتا دیکھتے ہیں اور ہماری دعا ہے کہ

بڑھتا رہے یہ نور خلافت خدا کرے

٭…٭…٭

نور کی مزید تشریح اور وضاحت کے لیے جب ہم قرآن مجید کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نور سے مراد تین وجود ہیں۔

اوّل :اللہ کی ذات جیسے فرمایا:

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (النور:36)

اللہ نور ہے آسمانوں کا بھی اور زمین کا بھی۔

اس میں کسے شک ہو سکتا ہے کہ اس عالم کی ہر شے میں اسی کے نور کا ظہور ہے۔ وللّٰہ در القائل

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا

بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

ادھر جب ہم پیشگوئی مصلح موعود کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مصلح موعود کی آمد کو اپنی آمد، آپ کے نزول کو اپنا نزول اور آپ کے ظہور کو اپنا ظہور قرار دیا ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ سے نورِ توحید کا غلبہ اور جلال الٰہی کا ظہور مقصود تھا۔ چنانچہ فرمایا:

’’ مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعُلَاء۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔

جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔‘‘

(اشتہار20؍فروری1886ء)

دوسرے خودقرآن مجید کو بھی نور کا نام دیا گیا ہے۔ جیسے فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا (النساء:175)

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک کھلی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (نہایت) روشن نور اتارا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا… (التغابن:9)

پس اے لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور (یعنی قرآن) پر بھی جو ہم نے اتارا ہے…

مامور زمانہ نے فرمایا:

نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَ جلیٰ نکلا

پاک وہ جس سے یہ اَنوار کا دریا نکلا

از نور پاک قرآں صبحِ صفا دمیدہ

بر غنچہ ہائے دلہا باد صبا وزیدہ

ایں روشنی و لمعاں شمس الضحیٰ ندارد

و ایں دلبری و خوبی کس در قمر نہ دیدہ

قرآن مجید کلام اللہ ہے اور مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں کلمۃ اللہ قرار دیا اور آپ کی ا ٓمد کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔‘‘

پھر علم بھی اک نور ہے اور جیسا کہ کسی نے کہا :

اِنَّ الْعِلْمَ نُور مِنْ اِلٰہ

وَنُورُ اللّٰہِ لَا یُعطیٰ لِعاصی

کہ علم اللہ کی طرف سے ایک نور ہے اور اللہ کا نور گنہگاروں کو نہیں دیا جاتا۔

حقیقی اور سچا اور کامل علم وہی ہے جو قرآن مجیدمیں ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

اَنْزَ لَہٗ بِعِلْمِہٖ

کہ اس نے اسے اپنے علم پر مشتمل اتارا ہے۔

اور قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو مخزن علوم ہونے کی وجہ سے منبع انوار ہے اور اس کے علوم کی وسعت اور گہرائی تک رسائی ا لْمُطَھَّرُوْن سے ہی خاص ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کو اس نور سے بھی پُر فرما دیا۔ جیسا کہ اس نے خود اپنے الہام میں آپ سے متعلق فرمایا:

’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘

سوم :قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نور کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۃ النور میں مذکور نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٌ کے الفاظ میں بھی اشارہ موجود ہے۔ اور سورۂ مائدہ میں فرمایا:

قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (المائدۃ:16)

تمہارے لئے اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب آچکی ہے۔

و نعم ما قال المسیح الموعود فی مدح النبی ﷺ

عجب نوریست در جان محمؐد

عجب لعلیست در کان محمدؐ

زِ ظلمت ہا دلے آنگہ شود صاف

کہ گردد از محبان محمدؐ

ادھر اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود میں آپ کی آمدکی غرض یہ بتلائی:

’’تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔‘‘

الغرض اللہ تعالیٰ نے حضرت المصلح الموعودؓ کو نور قرار دیا۔ آپ کی بعثت کی غرض انہی تینوں قسم کے انوار کی اشاعت اور غلبہ تھا۔ خود حضورؓ نے فرمایا:

’’…خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کےمقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔‘‘

(الموعود،انوارالعلوم جلد17صفحہ614)

نور فرقان کو دنیا میں پھیلانے کےلیے،نور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے اور نور توحید و نورِاسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کے لیے آپ نے جو سعی و کوشش کی وہ کسی بھی اہل نظر سے مخفی نہیں۔ آپ کا بچپن سے لےکر وفات تک کا ایک ایک لمحہ الٰہی انوار کی اشاعت کے لیے گزرا۔آپ نے نہ صرف اپنےملک میں ان انوار جلیلیہ کے پھیلانے کا بندوبست کیا بلکہ ساری دنیا میں ان انوار کو غالب کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام شروع فرمایا۔اس سلسلہ میں آپ نے متعدد تحریکات جاری فرمائیں اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا لوگ جو نور قرآن سے محروم اور خدا اور رسول ؐ کے انوار سے بے بہرہ تھے۔ ان کے دل ان انوار سے روشن ہو گئے۔اور وہی جو کبھی کفر و شرک اور دہریت کی ظلمات میں بہکتے تھے آج ان کی یہ حالت ہے کہ

نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ۔

ان کا نور ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑ رہا ہے اور وہ ہر دم یہی کہتے ہیں

رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَاۚاِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔

اے ہمارے رب ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے۔ یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔وہی جو کبھی خدا کے منکر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے اب دن میں سینکڑوں مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور ان کی زبانیں ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں۔ و للّٰہ در القائل

نور شاں یک عالمے را در گرفت

تو ہنوز اے کور در شورو شرے

لیکن جہاں یہ نور دنیا میں ظاہر ہوا وہاں بہت سے لوگوں نے اس نورِ خدا کو بجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنے منصوبوں میں ناکام رہے ۔کیونکہ اس نے فرمایا تھا:

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاھہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ (التوبہ:32)

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے کے سوا دوسری ہر بات سے انکار کرتا ہے خواہ کفار کو کتنا ہی برا لگے۔

خود حضورؓ نے جب اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تو آپ نے واشگاف الفاظ میں فرمایاکہ

’’دنیا اپنا زور لگا لے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں …اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں۔پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں نا کام رہیں گی۔ اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا۔اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اَتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا۔ اور س وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے۔‘‘

(الموعود،انوارالعلوم جلد17صفحہ614)

آج یہی آسمانی مہم خلافت خامسہ کی بابرکت سیادت میں نہایت کامیابی سے منزل بہ منزل آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللّٰھم زد وبارک۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button