متفرق مضامین

حضرت مصلح موعودؓ …عظیم روحانی مصلح کی حیثیت سے

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

وہ مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کر ے گا

حضرت مصلح موعودؓ کی پچاس سے زائد علامات اور خصوصیات تمام کی تمام اس بابرکت وجود کی زبردست قوت اصلاح اور انقلاب انگیز شخصیت کی غماز ہیں۔ لیکن درج ذیل جملہ نمایاں طور پر اس موعود کے روحانی مصلح ہونے کا اعلان عام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا‘‘

یہ تزکیہ نفس کا وہ مضمون ہے جو ہر مامور من اللہ کا بنیادی اور حقیقی فریضہ ہے۔ اپنے آقا ومطاع کے طفیل مصلح موعودؓ کو وہ خاص طاقت عطا فرمائی گئی تھی جس کی مدد سے آپ نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کے دلوں کو پاک کیا اور انہیں خدائے واحد کا والہ وشیدا بنا دیا۔ آئیے اس کے چند پہلو اور واقعاتی شہادتیں ملاحظہ کریں۔

محبت الٰہی کا آئینہ

تزکیہ نفس کرنے والے کے لیے خدا کی طرف سے تزکیہ یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس پہلو سے جب ہم مصلح موعود کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دل ایک مصفّیٰ اور شفاف آئینہ تھا جس میں خدا کی تجلیات ا ور اعلیٰ صفات جھلکتی تھیں۔ آپ کی روح کو ہر غیر اللہ سے کلی طور پر پاک کر دیا گیا تھا۔ 11سال کی عمر میں نماز پر کاربند رہنے کا وعدہ کیا اور ساری عمر اسے نبھایا(سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ97) بچپن میں رات کو لمبے لمبے سجدوں کی واحد دعا یہ تھی کہ اے خدا مجھے میری زندگی میں دین کو زندہ کر کے دکھا۔ (سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ151) جوانی میں 4,4گھنٹے نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد8صفحہ486) 17سال کی عمر میں ایک فرشتے نے آپ کو سورہ ٔفاتحہ کی تفسیر سکھائی ا ورآپ کے قلب میں بیج کی طرح قرآن کے علوم نقش کر دیے جن کے آپ ساری عمر حسب حالات دریا بہاتے رہے اور دنیا بھر کوقرآنی علوم میں مقابلہ کا چیلنج دیتے رہے مگر کوئی مقابل پر نہ آیا۔ (تاریخ احمدیت جلد4صفحہ66) آپ کے الہامات اور کشوف پر مشتمل ضخیم کتاب ’’رؤیا و کشوف سیدنا محمود ‘‘موجود ہے۔

آپ نے 200سے زائد کتب ورسائل تحریر فرمائے جنہوں نے لاکھوں دلوں کو پاک کر کے خدائے لَمْ یَزَل کا عاشق بنا دیا۔ آپ نے اپنی کتب تعلق باللہ، عرفان الٰہی، ذکر الٰہی، منہاج الطالبین، تفسیر کبیر، فضائل القرآن میں وہ نادرموتی پروئے کہ روحانی بیماروں کے لیے شفا کامستقل سامان کر دیا۔ آپ کے خطبات جمعہ، تقاریر، کتب اور دیگر نصائح 60سے زیادہ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ مجالس سوال و جواب اور خطوط اس کے علاوہ ہیں۔

سرفروشوں کی جماعت تیار کی

آپ کے علم وعرفان نے محض دماغوں کو فتح نہیں کیا بلکہ دلوں میں محبت الٰہی اور خدمت دین کی ایسی لو لگائی کہ وہ جاںنثار اپنا تن من دھن لے کر آپ کے اشارہ ابر وپر قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ نے اپنے دَورخلافت میں 100سے زائد تربیتی ا ور روحانی تحریکات جاری فرمائیں۔ نمازوں کا عشق جگایا، تہجد کے لیے بیدارکیا، قرآن کے معارف سنائے۔ الہامات او رغیبی خبروں سے ایمانوں کو جلا بخشی۔ یہی وجہ تھی کہ جب 1923ء میں آپ نے تحریک شدھی کے مقابلہ کے لیے 150؍سرفروشوں کی تحریک کی تو 1500؍خدام نے لبیک کہا۔ جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکیل، صحافی اور زندگی کے متعدد پیشوں سے تعلق رکھنے والے معززین سرفہرست تھے جو اپنے تمام اخراجات خود برداشت کرتے، کھانے خود پکاتے، میلوں پیدل چلتے، کئی کئی وقت فاقے کرتے۔ چلچلاتی دھوپ میں سرپر سامان اٹھا کرسفر کرتے اور دین کی خدمت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے۔

ہندوؤں نے ایمان پر ڈٹی رہنے والی مائی جمیا کی فصل کاٹنے سے انکار کر دیا تو یہی بی اے اور ایم اے وکیل اورڈاکٹر جنہو ں نے کبھی زرعی آلات کو ہاتھ نہ لگایا تھا درانتیاں لے کر فصل کاٹنے لگے۔ ہاتھ زخمی کر لیے پاؤں چھلنی کر لیے مگر دین کی غیرت کا حق ادا کر دیا۔ تزکیہ نفس اسے ہی تو کہتے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ354تا355)

ایک بنگالی نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بوڑھا ہوں اور میرے بیٹے راجپوتانہ میں تبلیغ کے لیے شاید اس لیے وقف نہ کر رہے ہوں کہ مجھے تکلیف ہو گی مگر خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میرے 10بیٹے ہوں اور وہ سارے کے سارے خدمت دین کرتے ہوئے مارے جائیں تب بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا بلکہ میں خود بھی خدا کی راہ میں مارا جائوں تو میرے لیے عین خوشی کاموجب ہو گا۔

(الفضل 15؍مارچ 1923ء)

اس احمدی عورت کو بھی یاد کریں جس نے دشمن کے حملہ کے دن اپنے چاروں چھوٹے بچوں کو تیار کیا اور انہیں عید کے دن کی طرح اچھے کھانے کھلائے اور کہا کہ اب جاؤاور احمدیت پر قربان ہو جاؤ۔ اور جس طرح میں نے تمہاری عید بنائی تم میری عید بنا دو۔

(الفضل 8؍مئی 1983ء)

حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب کو 1924ء میں کابل میں شہید کیا گیا۔ انہوں نے قید خانہ سے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ جوں جوں اندھیرا بڑھتا ہے خدا میرے لیے نور کو روشن تر کرتا جاتا ہے۔ دعا کریں کہ اس عاجز کا ذرہ ذرہ دین پر قربان ہو جائے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ476)

اس واقعہ شہادت کے بعد حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے حضور کی خدمت میں خط لکھا کہ حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت سے جو جگہ خالی ہوئی ہے مجھے موقع دیں کہ اس جگہ کو پر کروں اور دین کا پیغام پہنچاتے ہوئے قربانی پیش کروں۔

(خالد دسمبر 1985ء صفحہ181)

دنیا کی محبت سرد کر دی

روحانی احیا اور دنیا کی محبت سرد ہونے کا ایک ثبوت جماعت احمدیہ کی عظیم مالی قربانیاں ہیں۔ جن کی بنا حضرت مسیح موعودؑ نے ڈالی اور جن پر ایک عالیشان عمارت حضرت مصلح موعودؓ نے تعمیر کی جس کا ہر کمرہ احمدیوں کے پر خلوص مال سے لبریز ہے۔

حضورؓ نے 52سالہ دَور میں 56بڑی بڑی مالی تحریکات کیں اور ان میں سے ہر ایک کا دامن چھلکا پڑتا ہے۔ تحریک جدید اپنے وقت کا بہت بڑا مطالبہ تھا جس کی مالیت 27؍ہزار تھی مگر جماعت نے ایک لاکھ روپیہ پیش کر دیا۔ ایک پٹھان عورت حضورؓ کی خدمت میں دو روپے لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ دوپٹہ دفتر کا ہے یہ پاجامہ دفتر کا ہے۔ یہ جوتی دفتر کا ہے۔ میر ا قرآن بھی دفتر کا ہے۔ میری ہر ایک چیز مجھے بیت المال سے ملا ہے۔

(الفضل 21؍فروری 1923ء)

حضور نے مسجد فضل لندن کے لیے 7؍جنوری 1920ء کو چندہ کے لیے تحریک کی اور تھوڑ ےعرصےمیں بہت سا روپیہ جمع ہو گیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار ’’تنظیم امرتسر‘‘عبدالمجید قرشی صاحب نے لکھا:

تعمیر مساجد کی تحریک6؍جنوری 1920ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی۔ اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع واطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ 10؍جون تک ساڑھے اٹھہتر ہزار روپیہ نقد اس کارِ خیر کے لئے جمع ہو گیاتھا کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثاروفدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4صفحہ253)

وقف زندگی اور تبلیغ کا نظام

مصلح موعود کے متعلق یہ پیشگوئی بھی تھی کہ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ اس کی تعبیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ حضورؓ نے جماعت میں وقف زندگی کا ایک مستقل نظام جاری فرمایاجس پر لبیک کہتے ہوئے سینکڑوں نوجوانوں نے دیارغیر میں ڈیرے ڈال دیے۔ اور بعضوں نے تو وہیں پر قبروں کی جگہ حاصل کی۔

آپؓ کے زمانہ میں 46؍ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہوئے جو آج 213؍کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مشن کی تاریخ لازوال قربانیوں اور عظیم مصلح کی پر شوکت قیادت کا نشان ہے۔

حضرت مولانا نذیر احمد صاحب علی سارے افریقہ کے مشنری انچارج تھے۔ 1945ءمیں قادیان آئے تو آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ نوجوانوں کو ہماری قبریں آوازیں دیں گی کہ آؤ اور اس ملک کو فتح کرو جس پرہم نے چند گز قبر کی شکل میں قبضہ کر لیا ہے۔

(الفضل27؍نومبر1945ء)

چنانچہ وہ سیرالیون میں ہی دفن ہوئے اور ان کی قبر نوجوانوں کو مہمیز لگاتی رہتی ہے۔

سپین میںحکومتی پابندیوں،نامساعدحالات،مالی دشواریوں کے باوجود کرم الٰہی صاحب ظفر نے عطر بیچ کر دین کا جھنڈا سر بلند کیا۔ یہی حال تمام مربیان کا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد نازک حالات میں فرانس اور کئی دوسرے مشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر مجاہدین نے ا س عزم کا اظہار کیا کہ وہ مرکز پر بوجھ ڈالے بغیر دعوت الیٰ اللہ کا کام جاری رکھیں گے۔

(تاریخ احمدیت جلد12صفحہ22)

روس میں حضرت مولانا ظہور حسین صاحب نے شدید اذیتوں، قید وبند کی صعوبتوں کے باوجود دعوت الیٰ اللہ کی مشعل جلائے رکھی۔ تاشقند کی جیل میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد نے احمدیت قبول کی اور جیسے جیسے وہ جیل سے چھوٹتے گئے شہر میں ایک معقول تعداد میں جماعت بن گئی اور روسی حکومت اس نوجوان مظلوم پُر جوش مربی سے خوفزدہ ہو گئی۔

(مجاہد بخارا مولوی ظہور حسین از کریم ظفر ملک صفحہ64,60)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ شمع ایمان جلانے کے لیے 1920ء میں امریکہ کی بندرگاہ فلاڈلفیا پہنچے تو شہر میں داخلہ کی اجازت نہ ملی اور ایک مکان میں نظر بند کر دیے گئے جہاں کئی انگریز بھی تھے۔ آپ کی دعوت الیٰ اللہ سے دو ماہ کے اندر 15؍افراد احمدی ہو گئے۔ اور متعلقہ افسر نے خوفزدہ ہو کر آپ کو ملک میں داخلہ کی اجازت دے دی۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ250)

یہی وہ وقت تھا جب حضرت مصلح موعودؓ نے ہندوستان میں امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’امریکہ میں ایک دن

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ

کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی۔‘‘

(الفضل 15؍اپریل 1920ء)

حضرت مصلح موعودؓ کی عاجزانہ دعاؤں اور آپ کے سرفروشوں کی جدوجہد سے آج امریکہ میں ایک منظم، مخلص اور فدائی جماعت موجود ہے۔

شام میں 1927ء میں حضرت مولانا جلال الدین صاحبؓ پر خنجر سے قاتلانہ حملہ ہوا۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ525)

ماریشس میں حضرت حافظ جمال احمد صاحب نے 21؍ برس تک دعوت اسلام پہنچانے کے بعد 27؍دسمبر 1949ء کو وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ191)

بہت سے ممالک ایسے تھے جہاں مبلغ بھیجنے کے بعد جماعت انہیں واپس بلانے کی استطاعت نہ رکھتی تھی۔ وہ جوان تھے اور اپنی کم عمر بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور مدتوں بعد جب واپسی کی تو فیق ملی تو بیویوں کے بال چاندی سے بھر چکے تھے اور بچے اپنے باپوں کو پہچاننے سے قاصر تھے۔ یہ عظیم حوصلہ، قربانی اور موت کے منہ میں جانتے بوجھتے ہوئے چھلانگ لگا دینا کسی پر جوش مصلح ا ور دلوں میں اتر جانے والی محبت الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔

تبلیغ حق کے لیے حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر جامعہ احمدیہ کی شکل دی اور سینکڑوں مربیان آپ کے زمانہ میں میدان عمل میں پہنچ گئے۔ دنیا فتح کرنے کے لیے آپ لاکھوں مبلغین کے اندازے لگاتے تھے۔ آج وقف نو کی سکیم اس مشن کو پورا کرنے میں ممد ہے۔ ایک جامعہ احمدیہ آج 14؍جامعات کی شکل میں حضور کی عظمت پر شاہد ہے۔

313 سر فروش

تقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک فرمائی کہ ہم قادیان کسی صورت میں مکمل طور پرنہیں چھوڑیں گے اور ایسے جانبازوں کی ضرورت ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر قادیان میں ٹھہرجائیں اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کریں۔ حضورؓ نے اپنے ایک بیٹے سمیت 313؍احمدیوں کا وہاں ٹھہرنے کے لیے انتخاب فرمایا۔ چنانچہ 16؍نومبر 1947ء سے وہاں عہد درویشی کا آغاز ہوا۔ ان احمدیوں نے جس ایمان، استقامت اور فدائیت کا مظاہرہ کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار ریاست نے لکھا:

’’یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں خونریزی کا بازار گرم تھا۔ مسلمانوں کا مسلمان ہونا ہی ناقابل تلافی جرم تھا۔ مشرقی پنجاب کے کسی ضلع کے مقام پربھی کوئی مسلمان باقی نہ رہا وہ یا تو پاکستان چلے گئے یا قتل کر دئیے گئے تو…قادیان میں چند درویش صفت احمدی تھے … جنہوں نے اپنے مقدس مذہبی مقامات چھوڑنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے ننگ شرافت لوگوں کے ننگ انسانیت مظالم برداشت کئے اور جن کو بلاخوف تردید مجاہد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور جن پر آئندہ کی تاریخ فخر کر ے گی۔ کیونکہ امن اور آرام کے زمانہ میں تو ساتھ دینے والی تمام دنیا ہوا کرتی ہے۔ ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہئے جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے شعار پر قائم رہیں اور موت کی پرواہ نہ کریں۔ اب بھی…قادیان کے درویشوں کے اسوۂ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت و احترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہئے۔‘‘

(مرکز احمدیت قادیان۔ صفحہ280)

عظیم قوت قدسیہ

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے عظیم مصلح ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی قوت قدسیہ اور تربیت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے آپ کے دو بیٹوں کواور ایک نواسے (وہ بھی تو بیٹا ہی ہے) کو منصب خلافت پر فائز فرمایا ا ور آپ کو معلوم تاریخ میں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔ ہمارے علم میں کوئی ایسا فرد نہیں جس کے ایک سے زیادہ جسمانی بیٹے یکے بعد دیگرے خلافت حقہ کے مظہر بنے ہوں۔ آپ نے خد ا سے اطلاع پا کریہ بھی خبر دی تھی کہ میر ے بعد خدا میرے دو بیٹوں کوحضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی طرح ان عظیم مناصب پرفائز کر ے گا۔

(عرفان الٰہی، انوار العلوم جلد4صفحہ288)

آپؓ نے نظام خلافت کو بھی ٹھوس بنیادوں پر قائم کر دیا اس کی ظاہری حفاظت کے لیے آپ نے تقریر و تحریر سے بے تحاشا کام لیا۔ جماعت سے بار بار عہد لیے۔ ذیلی تنظیموں کے پروگرام کا حصہ بنایا۔ مجلس انتخاب خلافت کو معین شکل میں قائم کر کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دیا۔ آپ کے بعد 3 خلفا٫کا انتخاب اس پر گواہ ہے۔

خدا کے فضل سے ناصرؒ میں بھی وہی روشنی تھی طاہرؒ میں بھی وہی نور تھا جس کا اوّلین مظہر اس زمانہ میں مسیح موعو دؑ تھا اورجس کی ایک بلند تر شاخ محمودؓ کے وجود میں ظاہر ہوئی۔ آج آپ کے ایک نواسے حضرت مسرور اید ہ اللہ انہی راستوں پر چل کر دنیا کی اصلاح اور تزکیہ میں مشغول ہیں۔

اصلاح کا دائمی نظام

حضرت مصلح موعودؓ کی اصلاحی قوتوں کا ایک دائمی ثبوت یہ ہے کہ آپ نے جماعت میں اصلاح اور تزکیہ کے 2مستقل نظام قائم فرمائے۔ ایک صدر انجمن احمدیہ میں نظارتیں اور دوسرا ذیلی تنظیموں کاقیام۔ ان کے اجرا سے قبل حضورؓ نے انسانی جسم کے فطری نظام کا مطالعہ کرنے کے لیے فزیالوجی اور اناٹومی کی کئی کتب پڑھیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بکثرت متبادل راستے تجویز کر رکھے ہیں۔ مثلاً اگر ایک شریان بند ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری شریان لے لیتی ہے۔

(سوانح فضل عمر جلد 2صفحہ127)

اسی اصول کے مطابق آپؓ نے صدر انجمن احمدیہ میں نظارتیں قائم کیں جو نظام کی نمائندہ ہیں اور دوسری طرف ذیلی تنظیمیں جو عوام کی نمائندہ ہیں۔ آپؓ ان کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’یا د رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دارومدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہو سکتی۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا۔ ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہو گا۔ خداتعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے…یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے جو درحقیقت پر تو ہیں تقدیر اور تدبیر کے۔ کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام سوتا ہے ا ور عوام جاگتے ہیں۔ اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے۔ وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں۔ جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے ا ور عوام بھی بیدا ر ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زما نہ ہوتا ہے۔ وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے۔ ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرادیتی ہے۔ ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف۔ اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پراس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں یا عوام سو جاتے ہیں ا ور نظام جاگتا ہے اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں تب آسمان سے خدا تعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔ یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے۔ جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا۔ پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اور ہمارے عوام بھی بیدار رہیں اور درحقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ خدا کا مسیح ہم میں ابھی قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے۔ اس لئے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہو نا چاہئے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں۔ مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس لئے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے۔ تاخدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جائے۔ غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تا کہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے۔ اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دور رہے۔‘‘

(الفضل17؍نومبر1943ء)

پس خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جماعت احمدیہ کی چار دیواری میں جو خلافت کی چھت کے نیچے کام کر رہی ہیں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ خدام جوش اور امنگ کی علامت ہیں۔ اور قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اور انصار حکمت اور تجربہ کے مظہر ہیں۔ اسی طرح لجنہ سلیقہ اور ترتیب کی نمائندہ ہے۔ اور ان چاروں تنظیموں کے درمیان مسابقت کی ایک دوڑ جاری ہے جو جماعت کو مسلسل آگے بڑھائے جا رہی ہے۔

مختلف تنظیموں سے صحیح فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ان کی کامیابی اور موثر رہ نمائی اور اس کے شاندار نتائج۔ یہ ایسے واضح حقائق تھے جن سے اپنے تو اپنے غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بدنامی کی حد تک شہرت یافتہ مجلس احرار کا ترجمان ’’زمزم‘‘ جماعت کی اس قابل رشک تنظیم کا ذکر کرتے ہوئے بصد حسرت ویاس لکھتا ہے:

’’ایک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں کہ جن کی تنظیم در تنظیم کی تنظیمیں ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ آوارہ منتشر اور پریشان ہیں۔ ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ محدودو محصور اور مضبوط اور منظم ہیں۔ ایک حلقہ احمدیت ہے۔ اس میں چھوٹا بڑا زن ومرد۔ بچہ بوڑھا۔ ہر احمدی مرکز نبوت پر مرکوز ومجتمع ہے۔ مگر تنظیم کی ضرورت اوربرکات کا علم واحساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع ومانع تنظیم پربس نہیں۔ اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے۔ عورتوں کی مستقل جماعت لجنہ اماء اللہ ہے۔ اس کا مستقل نظام ہے۔ سالانہ جلسہ کے موقعوں پر اس کا جداگانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے۔ خدام الاحمدیہ نوجوانوں کا جدا نظام ہے۔ پندرہ تا چالیس سال کے ہر فرد جماعت کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے۔

چالیس سال سے اوپر والوں کا مستقل ایک اور حلقہ ہے۔ انصار اللہ جس میں چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں۔ میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف اس قدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اٹھنے اور منظم ہونے کا وقت نہیں آیا؟ تم نے ان متعدد مورچوں کے مقابلہ میں کوئی ایک بھی مورچہ لگایا؟ حریف نے عورتوں تک کو میدان جہاد میں لاکھڑا کیا… میرے نزدیک ہماری ذلت ورسوائی اور میدان کشاکش میں شکست وپسپائی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے‘‘

(سوانح فضل عمر جلد2صفحہ51)

اسی طرح لجنہ کے متعلق تحریک سیرت کے مشہور لیڈر عبدالمجید قرشی نے اپنے اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر میں لکھا:

’’’لجنہ اماء اللہ قادیان ‘ احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے۔ اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاح مجالس قائم کی گئی ہیں۔ اور اس طرح پر ہر وہ تحریک جومردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے۔ عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے۔ عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ ماءاللہ کی جس قدر کا ر گزاریاں اخبار میں چھپ رہی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پرجوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی۔ جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا‘‘

(تاثرات قادیان صفحہ173)

لجنہ کےرسالہ ماہنامہ ’’مصباح‘‘ کوپڑھ کر ایک آریہ سماجی اخبار ’’تیج‘‘ کے ایڈیٹر نے یہ لکھا :

’’میرے خیال میں یہ اخبار ا س قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے۔ اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عورتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بند رہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کر تیں فی الفور دور ہو جائے گی اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ عورتیں باوجود اسلام کے (نعوذباللہ۔ ناقل) ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کر رہی ہیں۔ اور ان میں مذہبی اخلاص اورجوش کس قدر ہے ہم استری سماج قائم کر کے مطمئن ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جووہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے۔ مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ احمدی خواتین ہندوستان، افریقہ، عرب، مصر، یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہیئے۔ چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگا دی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندہ سے ہی پوری کی جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ( دراصل ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ۔ ناقل) جمع کر دیا۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 2صفحہ383)

الغرض حضرت مصلح موعودؓ نے ہر پہلو سے دنیا کی اصلاح اور تربیت کے سامان کیے۔ جو ابدالآباد تک اس مقدس وجود کی یاد دلاتے رہیں گے۔ اور ایک وقت دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی عظیم پیشگوئی کا مصداق مصلح موعود درحقیقت ایک عظیم مصلح تھا جس کی برکات اور جس کے جاری کردہ نظام نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔

اس نے ایک حدیث میں پڑھا کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو خانہ کعبہ پر حملہ کرے گا تو اس نے کہا کہ قبل اس کے کہ کوئی افریقی کعبہ پر حملہ کرے ہم کیوں نہ افریقیوں کو اسلام کا عاشق زار بنا دیں۔ اور پھر افریقہ میں احمدیت کا ایسا پودا لگایا جو آج سارے افریقہ میں لہلہا رہا ہے۔ اس نے امریکہ میں کلمہ طیبہ کا ڈنکا بجا دیا۔ اس نے دہریہ روس کو اسلام کا نور پہنچایا۔ اس نے عیسائیت کے گڑھ انگلستان میں خدا کے گھروں کی بنیاد ڈالی۔ اس نے قرآن کے معارف عام کیے اس نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے ترانے ہر ملک میں گائے۔ اس نے دعا کے معجزے قدم قدم پر دکھائے اس کے الہام آج بھی پورے ہو رہے ہیں۔ خدا اس کی روح پر ہزاروں ہزار برکتیں نازل فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button