حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

پیشگوئی مصلح موعود اور ہماری ذمہ داریاں

پیشگوئی مصلح موعود کی عظمت، دنیا کی علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لیےحضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات کے تراجم کی ضرورت، احباب جماعت کو اس علمی خزانہ کے مطالعہ کی تلقین، حضرت مصلح موعودؓ کی ایک دعا

پیشگوئی مصلح موعود کی عظمت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے۔ اس لئے اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ اور پھر اس لئے بھی کہ گو جماعتی طور پر جہاں آزادی ہے وہاں تو جلسے بھی ہو جاتے ہیں۔ مختلف موضوع ہیں۔ پیشگوئی کے مختلف پہلو ہیں۔ اُن کو مختلف مقررین بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان میں تو ویسے ہی جلسوں پر پابندی ہے۔ اُن کے لئے بھی یہ موضوع ایسا ہے کہ نئی نسل کے لئے بھی ضروری ہے۔ نوجوانوں کو بھی اس بارے میں علم ہونا چاہئے۔ نئے آنے والوں کو بھی علم ہونا چاہئے۔ پھر صرف نئے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ انسان کی طبیعت میں جو اتار چڑھاؤ رہتا ہے اُس کی وجہ سے بعید نہیں کہ بعض بڑی عمر کے لوگ بھی اتنا زیادہ اس موضوع کو نہ جانتے ہوں۔ اس پر غور نہ کیا ہو اور آج اُن کی طبیعت اس طرف مائل ہوئی ہو۔ بہر حال اس وجہ سے یہ موضوع چاہے کچھ حد تک ہی ہو، بیان کرنا ضروری ہے۔ باتوں کو بار بار دہرائے جانے سے نئے ہوں یا پرانے ہوں، اُن کے علم اور ایمان اور عرفان میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جماعت جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی سے نئے ملکوں میں، نئی جگہوں پر پھیل رہی ہے۔ وہاں جو مقررین ہیں یا جومعلمین مقرر ہیں، اُن کو ہر بات کااتنا علم نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئیاں ہیں ان کا نہ صحیح طرح سے علم ہے، نہ اتنی گہرائی میں جا کر بیان کر سکتے ہیں۔ تو اس پہلو سے بھی مَیں نے اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا، گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک بیٹا عطا فرمائے گا جو مصلح موعود ہو گا اور اس کی تفصیل میں آپ نے اس کی بہت ساری خصوصیات بیان فرمائی تھیں۔ لیکن یہ پیشگوئی تو آنحضرتﷺ نے یہ الفاظ بیان فرما کر چودہ سو سال پہلے بیان فرما دی تھی کہ

یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْض فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ

کہ عیسیٰ ابن مریم جب زمین پر نزول فرما ہوں گے تو شادی کریں گے اور اُن کی اولاد ہو گی۔

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الرقاق باب نزول عیسیٰ الفصل الثالث حدیث نمبر 5508دارالکتب العلمیۃ ایڈیشن2003ء) (الوفاء باحوال المصطفیٰؐ لابن جوزی مترجم محمد اشرف سیالوی صفحہ 843ناشر فرید بک سٹال لاہور)

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، عیسیٰ ابن مریم کی وضاحت آنحضرتﷺ نے دوسری احادیث میں فرمائی ہے کہ وہ کون ہیں ؟ بخاری کی حدیث ہے۔مسلم نے بھی اور حدیثوں کی کتب نے بھی اس کو درج کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ، اور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ۔

کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تمہاری کیا حالت ہو گی جب ابن مریم مبعوث ہو گا جو تمہارا امام اور تم میں سے ہوگا۔ اور پھر یہ بھی روایت میں ہے کہ یہ تم میں سے ہونے کی وجہ سے تمہاری امامت کے فرائض بھی سرانجام دے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا… حدیث 392، 394)

پھر ایک حدیث میں ہے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ عیسیٰ ابن مریم کا زمانہ پائے گا اور وہی امام مہدی اور حَکم و عدل ہو گا جو صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا۔ یہ مسند احمد کی حدیث ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر3صفحہ نمبر479مسند أبی ھریرۃ حدیث نمبر9312عالم الکتب بیروت1998ء)

پس یہ پیشگوئی جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے گو تفصیل کے ساتھ آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اب دوبارہ کی لیکن اس کی بنیاد تو آج سے چودہ سو سال بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ پہلے سے آنحضرتﷺ کی پیشگوئی پر ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں اور اللہ تعالیٰ کے آپ پر انعامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑائی کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ تو آپ کے آقا و مطاع، سید و مولا حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں۔ آپﷺ کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہیں۔ یہ تائیدی نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے یہ درحقیقت آنحضرتﷺ کی شان بلند کرنے کے لئے ہیں۔ اسلام کا زندہ خدا اور زندہ رسول ہونے کی دلیل کے طور پر یہ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے کروائی ہیں۔ پس احمدیت اسلام سے کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھ کر دنیا میں آنحضرتؐ کا عاشق کوئی نہیں ہے۔ …‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍فروری2011ء)

حضرت مصلح موعودؓ کے علمی کارنامے اور ہماری ذمہ داریاں

آپؓ کے علمی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا کو نیا انداز دینے والے ہیں جس کا دنیا نے اقرار کیا…۔ معاشی، اقتصادی، سیاسی، دینی، روحانی سب پہلوؤں پر آپ نے جب بھی قلم اٹھایاہے یا تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، یا مشوروں سے امتِ مسلمہ یا دنیا کی رہنمائی فرمائی تو کوئی بھی آپ کے تبحرِ علمی اور فراست اور ذہانت اور روحانیت سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ مصلح موعودؓ تھے، دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا، جس میں روحانی، اخلاقی اور ہر طرح کی اصلاح شامل تھی۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کا باون سالہ دورِ خلافت تھا اور آپ نے خطباتِ جمعہ کے علاوہ بے شمار کتب بھی تحریر فرمائی ہیں۔ تقاریر بھی فرمائیں، جن کو جب تحریر میں لایا گیایا لایا جا رہا ہے تو ایک عظیم علمی اور روحانی خزانہ بن گیا ہے اور بن رہا ہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن جو آپ کی وفات کے بعد قائم کی گئی تھی، خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے قائم فرمائی تھی۔ وہ آپ کاسب مواد جو ہے کتب کی صورت میں شائع کر رہی ہے اور آج تک اس پر کام ہو رہا ہے۔ …

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام زبانوں کو چند زبانوں میں جمع کر کے ہمارے لئے کام آسان کر دیا ہے۔ بے شمار زبانیں ہیں لیکن چند مشہور زبانوں نے تقریباً دنیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ آپ کی مراد تھی کہ اردو عربی کے علاوہ انگلش، جرمن اور فرنچ زبانیں جو ہیں وہ مختلف علاقوں میں تقریباً دنیا میں اکثربولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ تو اگر ان میں ترجمہ ہو جائے تو نوّے فیصد آبادی تک ہمارا پیغام پہنچ سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی بعض کتب کا ترجمہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی بہت سی کتب ایسی ہیں جن کا دنیا کی علمی، روحانی پیاس بجھانے کے لئے دنیا تک پہنچنا ضروری ہے۔ …حضرت مصلح موعود کی ان کتابوں کے ترجمے نہ ہونے کی وجہ سے، بعض لوگوں نے سرقہ بھی کر لیا۔ آپ کی کتب لے کے نقل کر لیں۔ اپنے نام سے ترجمہ کر کے شائع کر دیں۔ چنانچہ ابھی مجھے عربی ڈیسک کے ہمارے ایک مربی صاحب نے بتایا کہ منہاج الطالبین جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک ایسی کتاب ہے جو اخلاقیات اور تربیت پر ایک معرکۃ الآراء کتاب ہے، اس سے مواد لے کر ایک صاحب نے اس کو عربی میں اپنی کاوش کے نام سے شائع کر دیا جن کو اردو بھی آتی تھی۔ جبکہ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’مَیں نے اس مضمون پر غور کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جدید مضمون میری سمجھ میں آیا ہے جس نے اخلاق کے مسئلے کی کایا پلٹ دی ہے‘‘۔

(منہاج الطالبین انوار العلوم جلد 9صفحہ 179مطبوعہ ربوہ)

پس آپ کے کام کو دیکھ کرحضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اَور روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اصل میں تو یہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اصلاح کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں۔

پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍فروری2011ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کام کرنے والے ہوں صرف جلسہ مصلح موعود منانے والے ہی نہ ہوں۔ اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور صرف اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم جلسے منا رہے ہیں۔ حقیقی طور پر ہم اس مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں، اس کام کو آگے بڑھانے والے ہوں جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور جس کے لیے آپ نے بیشمار پیشگوئیاں بھی فرمائیں اور مصلح موعود کی پیشگوئی بھی ان میں سے ایک پیشگوئی ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍فروری2020ء)

حضرت مصلح موعودؓ کے علمی کارناموں کا ایک جائزہ

آپ کے کاموں کے سلسلے میں بھی صرف ایک بات کا یہاں مختصر ذکر مَیں کر دیتا ہوں کہ پیشگوئی میں الفاظ ہیں کہ علوم ِظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور آپ کے جو کام ہیں ان کی ایک جھلک جو ہے مَیں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب لیکچرز اور تقاریر کا مجموعہ انوار العلوم کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ بہت ساری جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ جو اردو پڑھنا جانتے ہیں ان کو پڑھنا چاہیے ویسے بعض کتابوں کے انگریزی ترجمے بھی ہو رہے ہیں۔ اس وقت انوار العلوم کی چھبیس (26)جلدیں شائع ہو چکی ہیں ان چھبیس جلدوں میں کل چھ سو ستر (670) کتب لیکچرز اور تقاریر آچکی ہیں۔ خطبات محمود کی اس وقت تک کل انتالیس (39) جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1959ء تک کے خطبات شائع ہو گئے ہیں۔ ان جلدوں میں 2367خطبات شامل ہیں۔ تفسیر صغیر دس سو اکہتر (1071) صفحات پر مشتمل ہے۔ تفسیر کبیر دس (10) جلدوں پر محیط ہے اس میں قرآن کریم کی انسٹھ (59) سورتوں کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ تفسیر کبیر کے دس جلدوں کے صفحات کی کل تعداد پانچ ہزار نو سو سات (5907) ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے درس القرآن جو کہ غیر مطبوعہ تفسیر تھے وہ ریسرچ سیل نے کمپوز کرنے کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن کے سپرد کر دیے ہیں۔ اس کے 3094 صفحات ہیں۔ اس کے بعد اب ریسرچ سیل کو مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات اور فرمودات سے تفسیر قرآن اکٹھی کی جائے جس پر کام شروع کیا گیا ہے اور اب تک نو ہزار (9000) صفحات پر مشتمل تفسیر لی جا چکی ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍فروری2020ء)

حضرت مصلح موعودؓ کی تحریرات پڑھنے کی تلقین

اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خدا داد علم، ذہانت اور فراست عطا فرمائی تھی اُس کے بہت سے پہلو ہیں۔ خلافت سے پہلے بھی آپ کی تحریرات اور تقریریں علم و معرفت سے بھری ہوئی ہیں۔ آپ کی کتب، تقریریں اور مضامین انوار العلوم کے نام سے کتاب میں، مختلف جلدوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ … اسی طرح آپ کے خطباتِ جمعہ ہیں یہ بھی بہت سے ہیں۔ …فضل عمر فاؤنڈیشن جو آپ کے کام کو، خطبات کو، تقاریر کو جمع کرنے کے لئے، پھیلانے کے لئے بنائی گئی تھی وہ ان تقاریر اور مضامین وغیرہ کے ترجمے بھی مختلف زبانوں میں کروا رہی ہے اور انشاءاللہ تعالیٰ انگریزی میں توبعض کتابوں کے شاید جلد ہی مہیا ہو جائیں، کچھ موجود بھی ہیں۔ اور پھر باقی زبانوں میں بھی ہوں گے۔ کچھ عربی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں اور شائع بھی ہو چکے ہیں۔ … بہرحال ایک خزانہ ہے جو آپ نے اپنی زندگی اور 52سالہ دورِ خلافت میں جماعت کو دیا۔ لیکن اس کی اشاعت چندہزار کی تعداد میں ہوتی ہے۔ جو احباب خریدتے ہیں وہ بھی شاید ہی تفصیل سے پڑھتے ہوں۔ اور پھر اب لاکھوں نومبائعین اور نئی نسل ایسی ہے جو اردو میں نہ پڑھ سکتی ہے، نہ اُن کی زبان میں اُنہیں مہیا ہے۔ جو مہیا ہے وہ بھی جیسا کہ میں نے کہا بہت تھوڑی تعداد میں ہے۔ اس لئے نئی نسل کی اکثریت اور نومبائعین کو آپ کے اندازِ تحریر و تقریر کا پتہ ہی نہیں۔ نہ ہی آپ کے علم و معرفت کا کچھ اندازہ ہے۔ بلکہ میری عمر کے لوگ جو پیدائشی احمدی ہیں اور مجھ سے چند سال بڑے بھی، اُن کو بھی آپ کے اندازِ خطیبانہ اور تقریروں کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم یہ مجموعے اور خزانے پڑھیں تو تبھی ہم آپ کی علمی وسعت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے کی جو پیشگوئی تھی اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اور اپنے علم میں بھی، جیسا کہ مَیں نے کہا، اضافہ کر سکتے ہیں۔ ویڈیو آڈیو کی اُس زمانے میں ایسی سہولت نہیں تھی۔ آپ کے دورِ خلافت کے آخری سالوں میں لوپ (Loop) پر ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ ایک دوجو تقریریں تھیں ان کی جو ریکارڈنگ کی گئی اس میں آواز امتدادِ زمانہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک اتنی اچھی نہیں رہی۔ اور آپ کا جو انداز تھا، یہ ریکارڈنگ اس کی اصل شان و شوکت نہیں رکھتی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍فروری2013ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے علم و عرفان کا جو خزانہ ہمیں دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو پڑھنے کی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے اور جیسا کہ آپ کے مضامین کے عنوانات کی عمومی فہرست میں مَیں نے بتایا ہے مختلف نوع کے جو مضامین ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُن سے بھی استفادہ کرنے کی توفیق دے اور ہم اپنا علم و عرفان بڑھانے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍فروری 2014ء)

حضرت مصلح موعودؓ کی ایک دعا

حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے ’تشحیذ الاذہان‘میں اپنی ایک دعا کا ذکر کیا ہے جو 1909ء میں آپؓ نے لکھا۔ اس مضمون میں رمضان کی برکات کا ذکر کرنے کے بعد آپؓ نے لکھا کہ

’’میں رسالہ تشحیذ الاذہان کے لئے اپنی میز میں سے ایک مضمون تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایک کاغذ ملا جومیری ایک دعا تھی جو میں نے پچھلے رمضان میں کی تھی۔ مجھے اس دعا کے پڑھنے سے زور سے تحریک ہوئی کہ اپنے احباب کو بھی اس طرف متوجہ کروں۔ نامعلوم کس کی دعا سنی جائے اور خدا کا فضل کس وقت ہماری جماعت پر ایک خاص رنگ میں نازل ہو۔ میں اپنا دردِ دل ظاہر کرنے کے لئے اس دعا کو یہاں نقل کر دیتا ہوں کہ شاید کسی سعید الفطرت کے دل میں جوش پیدا ہو اور وہ اپنے رب کے حضور میں اپنے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جائے جو کہ میری اصل غرض ہے۔ وہ دعا یہ ہے۔

’’اے میرے مالک میرے قادر خدا۔ میرے پیارے مولیٰ میرے رہنما۔ اے خالق ارض و سماء۔ اے متصرفِ آب و ہوا۔ اے وہ خدا جس نے آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک لاکھوں ہادیوں اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ اے وہ علی و کبیر جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول مبعوث کیا۔ اے وہ رحمان جس نے مسیح سا رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں پیدا کیا۔ اے نور کے پیدا کرنے والے، اے ظلمات کے مٹانے والے! تیرے حضور میں، ہاں صرف تیرے ہی حضور میں مجھ سا ذلیل بندہ جھکتا اور عاجزی کرتا ہے کہ میری صدا سن اور قبول کر کیونکہ تیرے ہی وعدوں نے مجھے جرأت دلائی ہے کہ مَیں تیرے آگے کچھ عرض کرنے کی جرأت کروں۔ میں کچھ نہ تھا تو نے مجھے بنایا۔ میں عدم میں تھا تو مجھے وجود میں لایا۔ میری پرورش کے لئے اربعہ عناصر بنائے اور میری خبر گیری کے لئے انسان کو پیدا کیا جب میں اپنی ضروریات کو بیان تک نہ کر سکتا تھا۔ تو نے مجھ پر وہ انسان مقرر کئے جو میری فکر خود کرتے تھے۔ پھر مجھے ترقی دی اور میرے رزق کو وسیع کیا۔ اے میری جان! ہاں اے میری جان! تو نے آدم کو میرا باپ بننے کا حکم دیا اور حوا کو میری ماں مقرر کیا۔ اور اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو جو تیرے حضور عزت سے دیکھا جاتا تھا، اس لئے مقرر کیا کہ وہ مجھ سے ناسمجھ اور نادان اور کم فہم انسان کے لئے تیرے دربار میں سفارش کرے اور تیرے رحم کو میرے لئے حاصل کرے۔ میں گناہگار تھا تو نے ستاری سے کام لیا۔ میں خطا کار تھا تو نے غفاری سے کام لیا۔ ہر ایک تکلیف اور دکھ میں میرا ساتھ دیا۔ جب کبھی مجھ پر مصیبت پڑی تُو نے میری مدد کی اور جب کبھی میں گمراہ ہونے لگا تُو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ باوجود میری شرارتوں کے تُو نے چشم پوشی کی۔ اور باوجود میرے دور جانے کے تُو میرے قریب ہوا۔ میں تیرے نام سے غافل تھا مگر تُو نے مجھے یاد رکھا۔ ان موقعوں پر جہاں والدین اور عزیز و اقرباء اور دوست و غمگسار مدد سے قاصر ہوتے ہیں تُو نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا اور میری مدد کی۔ میں غمگین ہوا تو تُو نے مجھے خوش کیا۔ میں افسردہ دل ہوا تو تُو نے مجھے شگفتہ کیا۔ میں رویا تو تُو نے مجھے ہنسایا۔ کوئی ہو گا جو فراق میں تڑپتا ہو، مجھے تو تُو نے خود ہی چہرہ دکھایا۔ تُو نے مجھ سے وعدے کئے اور پورے کئے اور کبھی نہیں ہوا کہ تجھ سے اپنے اقراروں کے پورا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہو۔ میں نے بھی تجھ سے وعدے کئے اور توڑے مگر تُو نے اس کا کچھ خیال نہیں کیا۔ میں نہیں دیکھتا کہ مجھ سے زیادہ گنہگار کوئی اور بھی ہو اور میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ مہربان تُو کسی اور گنہگار پر بھی ہو۔ تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ ‘‘اللہ تعالیٰ کو فرماتے ہیں ’’تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ جب میں تیرے حضور میں آ کر گڑگڑایا اور زاری کی تُو نے میری آواز سنی اور قبول کی۔ میں نہیں جانتا کہ تُو نے کبھی میری اضطرار کی دعا ردّ کی ہو۔ پس اے میرے خدا! میں نہایت درد دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دعا کو سن اور میری پکار کو پہنچ۔ اے میرے قدوس خدا! میری قوم ہلاک ہو رہی ہے اسے ہلاکت سے بچا۔ اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو مجھے ان سے کیا تعلق جب تک ان کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں۔ مجھے ان سے کیا غرض؟ سو اے میرے ربّ! اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کو جوش میں لا۔ اور ان کو پاک کر دے۔ صحابہ کا سا جوش و خروش ان میں پیدا ہو۔ اور وہ تیرے دین کے لئے بے قرار ہو جائیں، ان کے اعمال ان کے اقوال سے زیادہ عمدہ اور صاف ہوں۔ وہ تیرے پیارے چہرہ پر قربان ہوں اور نبی کریمؐ پر فدا۔ تیرے مسیح کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں اور اس کی پاک اور سچی تعلیم ان کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اے میرے خدا! میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھ۔ ان میں بڑے بڑے بزرگ پیدا کر۔ یہ ایک قوم ہو جائے جو تُو نے پسند کر لی ہو۔ اور یہ ایک گروہ ہو جس کو تُو …اپنے لئے مخصوص کر لے۔ شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا رہے۔ اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کر، مبارک کر۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ ‘‘

(سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 309 تا 312)

یہ دعا جیسا کہ میں نے کہا 1909ء کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی خلافت کے وقت میں جبکہ آپؓ کی عمر صرف 20 سال تھی، اس وقت بھی آپؓ کے دل میں دین کے لئے اور قوم کے لئے ایک درد تھا۔ اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے آپ کی روح پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور آپؐ کے غلام صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے رات دن ایک کر کے اور اپنے عہد کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئی اور ہمیں آپ کی اس درد بھری دعا کو سمجھنے اور کرنے اور احمدی ہونے کے مقصد کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍فروری2019ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button