متفرق مضامین

خطبات محمود

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قبل از خلافت بعض خطبات

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عالی مقام آپ کے متعلق پیشگوئی سے ظاہر ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی فراست نے آپ کے اسی عالی مقام کے باعث اپنی بیماری کے ایام میں آپؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی موجودگی میں نماز عید اور متعدد مرتبہ نماز جمعہ پڑھانے کا موقع ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے 5؍اکتوبر 1910ء کوعیدالفطر پڑھائی ۔یہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی عید الفطر کی آخری امامت تھی۔ اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کوئی عیدالفطر نہیں پڑھائی۔ باقی سالوں میں آپؓ کی موجودگی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ساری نمازِ عیدالفطر پڑھائیں۔ 1911ء میں نماز عیدالاضحی کی امامت بھی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قبل از خلافت ان خطبات جمعہ میں سے اکثر ابھی خطبات محمود میں شائع نہیں ہوئے، اس مضمون میں انہی خطبات جمعہ کو نقل کیا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر خطبہ جمعہ کی تاریخ مذکور نہیں صرف ’’گذشتہ جمعہ‘‘ کے ساتھ خطبہ شائع شدہ ہے۔ عیدالفطر 1912ء کا خطبہ بھی خطبات محمود میں ابھی تک شامل نہیں ہوا، وہ بھی یہاں درج کیا جارہا ہے۔

خطبہ عیدالفطر

13؍ستمبر 1912ء بروز جمعۃ المبارک

’’کامیابی کی راہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حصول کا علم حاصل کر کے اُس کے واسطے پوری کوشش اور محنت کی جائے۔ مثال میں دیکھنا چاہیے کہ کس محنت شاقہ سے کوئی ایم اے بنتا ہے، زمیندار کن مصائب کو اٹھانے کے بعد غلہ کاٹتا ہے، باغبان کی محنت اور بھی لمبا وقت چاہتی ہے تاکہ وہ کسی درخت کا پھل کھا سکے۔ یہ مشاہدہ اور پختہ قاعدہ ہے۔ یہی حال عید کا ہے، سحری کا اٹھنا، دن بھر کی بھوک پیاس اور ترک لذات، ایک ماہ کے بعد عید ہے۔ عید ایک حکیمانہ سبق دیتی ہے کہ محنت اور مشقت اور ریاضت کے بعد ایسا خوشی کا دن مل سکتا ہے۔ اگر دنیا میں معزز و ممتاز ہونا چاہتے ہو اور آخرت میں با مراد بننا چاہتے ہو تو ریاضت و محنت کرو۔ آج مسلمانوں کے پاس خوشی منانے کی کون سی بات ہے، نہ عزت، نہ سلطنت، نہ حکومت، نہ دینی محبت، نہ اسلامی شعور۔ یہ زمانہ مسلمانوں کے واسطے ہر جگہ ایسا ہے جیسا اہل تشیع کے واسطے محرم کے دن۔ یہ تو سوگ اور ماتم کے دن ہیں کیونکہ ہر طرف سے مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ رہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے خدا کو چھوڑا، خدا نے ان کو چھوڑا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سستی کو چھوڑ دیں، اپنے وقت کو عمدگی سے حصول مطلب میں لگائیں۔ پہلے مسلمانوں کی تاریخوں کا مطالعہ کریں تاکہ ان کو وجوہات ترقی معلوم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اسلام کو سمجھیں، اُس پر عمل کریں اور دوسروں کو پہنچائیں۔ آمین۔ ‘‘

(بدر 3؍اکتوبر 1912ء صفحہ 2کالم 3)

خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ستمبر 1911ء قادیان بعنوان اختلاف سے بچنے کی ایک راہ

(نوٹ: خطبہ جمعہ کے ساتھ تاریخ مذکور نہیں لیکن اخبار بدر 5؍اکتوبر 1911ء صفحہ 6پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی موجودگی میں حضرت مصلح موعودؓ کی امامت نماز عید اور خطبہ عید کا ذکر ہے جس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے وعظ کا ذکر ہے جس میں حضورؓ نے عید سے گذشتہ جمعہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ جمعہ کے متعلق فرمایا کہ

’’میں نے اس خطبہ کی بہت قدر کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں وہ اپنے اندر نکاتِ معرفت رکھتا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ بہت سے شریف الطبع لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہوگا…..‘‘

حضرت خلیفہ اوّلؓ کے وعظ کا مضمون حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ جمعہ کے متعلق ہی ہے اور عید جو کہ 25؍ستمبر 1911ء بروز سوموار ہوئی، سے گذشتہ جمعہ مورخہ 22؍ستمبر کو ہی بنتا ہے۔ ناقل)

’’تم اپنے اصلی کام اشاعت دین اور تبلیغ اسلام میں مصروف رہو تو تمہیں باہمی جھگڑوں کے واسطے فرصت ہی کہاں ہے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ جب تمہاری ترقی ہوگی اور بڑےبڑے ملک فتح ہوجائیں گے تو فساد بھی بڑھیں گے اور بیرونی دشمنوں کو قابو کرنے سے رک کر جب تمہارے جری اور جوشیلے لوگ گھر میں بیٹھ رہیں گے تو اُن کے جوش پھر اپنوں پر ہی اُترنے لگیں گے اور خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ اس مرض سے بچنے کا علاج اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ۔

تم میں ایک گروہ کو چاہیے جو مخلوق کو اسلام کی دعوت دینے میں مصروف رہے۔ خیر سے مراد اسلام ہے۔ وہ لوگ تبلیغ کے کام میں لگے رہیں۔ قومی ترقی کے وقت اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی طرف زیادہ توجہ دلائی ہے۔ خدا سے ڈرتے رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ترقی ہوتی ہے ورنہ گرتے دیر نہیں لگتی۔ مکان بنانے کے واسطے تو انجنیئر، نقشہ نویس، مستری اور لائق معماروں کی ضرورت ہے پر گرانے کے واسطے کسی کی بھی ضرورت نہیں۔ ایک معمولی مزدور گرادے گا۔ قویٰ کو نیکی کی راہ پر لگایا جائے تو انسان آپس کے جھگڑوں سے بچ جاتا ہے۔ جن دنوں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان جنگ تھی ساٹھ اصحاب آپس میں مشورہ کر کے نکل آئے کہ چلو کہیں اسلام کی تبلیغ کریں، اس جھگڑے سے ہم نے کیا لینا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انہیں توفیق دی اور اس قلیل جماعت نے ملک افغانستان کو فتح کیا اور اُن کو مسلمان بنایا۔ اِس وقت اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک شیرازے میں باندھ دیا ہے اور اس وقت وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی پاک صحبتوں سے فائدہ اُٹھایا، اگر ان لوگوں کے نور سے کوئی شخص اپنا چراغ نہیں جلاتا تو وہ بہت بد قسمت ہے، بڑے بڑے لوگ جماعت میں پیدا ہوں گے مگر ایسے پاک لوگ پھر کہاں ملیں گے، اس وقت کو غنیمت جانو، اس نصیحت کی قدر کرو اور اپنی ذمہ داری کو پہچانو۔ کہتے ہیں شبلی بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوئے تھے، بادشاہ نے ایک شخص پر خوش ہوکر اُسے خلعت فاخرہ پہنائی۔ اُس شخص کو عین دربار میں ناک صاف کرنے کی ضرورت ہوئی مگر اُس کے پاس اور کپڑا نہ تھا اُس نے اپنی طرف سے بادشاہ کی نظر بچا کر اُسی خلعت کے دامن سے ناک کو صاف کیا مگر بادشاہ نے دیکھ لیا اور سخت ناراض ہوکر فوراً خارج کر دیا۔ شبلی کی چیخ نکل گئی اور ان پر وجد طاری ہوا کہ مجھے بھی شاہِ حقیقی نے ایک خلعت عطا کی تھی مگر میں نے اُس کی قدر نہ کی۔ فوراً وہاں سے اُٹھ کر حضرت جنید بغدادی کے پاس گئے اور بیعت کر کے صفائی قلب میں مشغول ہوئے۔

تمہارے واسطے اللہ تعالیٰ نے بہت نیک سامان مہیا کر دیے ہیں۔ کیسا بدقسمت ہے وہ جس کے سامنے کھانا چُنا گیا مگر وہ نہیں کھاتا حالانکہ وہ اس کا سخت محتاج ہے۔ اس وقت کی قدر کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں

امروز قوم من شناسد مقام من

روزے بگریہ یاد کند وقتِ خوشترم

(بدر 19؍اکتوبر 1911ء صفحہ 2)

خطبہ جمعہ بعنوان نعمت دعا کے عجائبات

’’دنیا میں کسی مطلب کے حصول کے واسطے جس قدر کوشش، محنت، عقل، زر ایک انسان خرچ کر سکتا ہے اُسی قدر دوسرا بھی کر سکتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک قاضی، مفتی یا جج کے پاس کوئی شخص باوجود سچا نہ ہونے کے اپنی تدابیر سے ناجائز فائدہ اٹھا لائے اور اپنے بالمقابل فریق کو نقصان پہنچا سکے لیکن جو شخص ظاہری سامانوں کی بجائے خدا کی طرف جھکتا ہے اور اُس سے استقلال سے دعا مانگتا ہے اُسے کوئی شے ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ بڑے بڑے اٹل کام دعا کے ذریعہ سے ٹل جاتے ہیں، تعجب ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم الشان ہتھیار کے استعمال سے غفلت کی اور ایسی ذلت میں گرے۔ ‘‘

(بدر 12؍اکتوبر 1911ء صفحہ 2 کالم 3)

خطبہ جمعہ بعنوان نماز باجماعت

’’گزشتہ خطبہ جمعہ میں حضرت میاں صاحب نے ان لوگوں کو جو نماز باجماعت سے غافل ہیں، ہوشیار کرنے کی کوشش فرمائی۔ فرمایا: قرآن شریف میں تو نماز باجماعت کا حکم ہے جو لوگ مسجد میں نہیں آتے ان پر تو یہ حسن ظن بھی مشکل ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہوں۔ ‘‘

(بدر 26؍اکتوبر 1911ء صفحہ 2)

خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مارچ 1912ء

’’وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا

فرمایا کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہر کوئی اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے، اس کے ماتحت اور جمیع متعلقین و وابستگان اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں اور اسی کے اعتقادات و خیالات کو وہ اختیار کر لیں اور وہ لوگ جو اس سے نفع اُٹھاتے ہیں وہ اس کے احکامات کو پورے طور پر مانیں اور فرمانبرداری کریں۔ اس خواہش کے ماتحت جو ایک فطرتی خواہش ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں اور اس کی پسندیدہ باتوں کو اختیار کر کے اپنا دستور العمل بناتے ہیں تو وہ ان پر دوسروں سے زیادہ مہربانی فرماتا ہے اور اگر اس کے ماتحت اور متعلقین اس کے احکام کے خلاف کریں تو اس کا اپنا عمل بھی بدل جاتا ہےاور بجائے مہربانی کے ناراضگی اور کم توجہی اختیار کر لیتا ہے مثلاً اگر ایک طالب علم اپنے اُستاد کی فرمانبرداری اور متابعت نہیں کرتا تو استاد اس طالب علم سے کبھی خوش نہیں ہو سکتا اور وہ طالب علم استاد سے ان فیوض کو حاصل نہیں کر سکتا جو بصورت مطیع اور فرمانبردار ہونے کے اس کو پہنچ سکتے تھے۔ ایسا ہی اگر کوئی ایک شخص اپنے گاؤں کے نمبردار کے خلاف مرضی چلاتا ہے تو وہ آرام سے رہنے کی توقع نہیں کر سکتا۔ علیٰ ھذا القیاس کسی دفتر کا کلارک اپنے ہیڈ کلارک اور اعلیٰ افسر سے ناچاقی رکھتا ہے تو اسے فائدہ کہاں پہنچ سکتا ہے۔ اس لطیف قاعدہ کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر بیان فرمایا ہے کہ کفار نے اپنے رسولوں کو کہا کہ یا تو آپ ہمارے مذہب میں لوٹ آئیں و اِلّا تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے۔

یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مرسل آتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت ایک کس مپرسی اور گمنامی کی سی حالت ہوتی ہے۔ وہ ایک معمولی انسان ہوتے ہیں، ان کا جمع جتھا کوئی نہیں ہوتا بلکہ وہ تنہا و یکتا ہوتے ہیں، ان کو حکومت سے کوئی حصہ اس وقت نہیں دیا جاتا۔ اس میں سرّ یہ ہے کہ اگر مامور و مرسل بادشاہوں میں سے ہوں تو پھر لوگ اس کی قہری حکومت کی وجہ سے اس کو تسلیم کر لیں مگر اس سے وہ غرض جو زندہ ایمان اور معرفت الٰہی کی ہوتی ہے، پوری نہیں ہو سکتی۔ یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ ایک کس مپرس گمنام انسان اٹھتا ہے، اُٹھتا کیا ہے خدا تعالیٰ اُسے آپ اُٹھاتا ہے اور وہ خدا کا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا مدعی ہوتا ہے۔ اس حالت میں اس کی خطرناک مخالفت ہوتی ہےمگر وہ اس وقت اپنی کامیابی اور منکرین کی ناکامی اور نامرادی کی پیشگوئیاں کرتا ہےاور بالآخر خدا تعالیٰ اسے کامیاب کرتا اور اس کے منکرین کو خائب و خاسر رکھتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا کُھلا کُھلا ہاتھ اس کی تائید میں ظاہر ہو جاتا ہے اور اس سے ایمان اور معرفت الٰہی بڑھ جاتی ہے۔ غرض مامور ابتداءً معمولی حالت میں ہوتے ہیں اور ان کی مخالفت میں بڑے بڑے طاقتور اٹھتے اور پھر ذلیل ہوکر رہ جاتے ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کافر خدا کے مرسلوں کو اپنے زمانہ اور عہد میں اپنی طاقت اور جماعت پر بھروسہ کر کے کہتے ہیں کہ تم یا تو ہمارے آبائی مذہب میں آ جاؤ اور ہماری سوسائٹی اور قوم کے معتقدات اور قوانین کو مان لو ورنہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے جب منکرین اور مخالفین کی طرف سے اس شدت اور شوخی کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے مرسلوں پر وحی کرتا ہے کہ ہم ان منکروں کو یقیناً ہلاک کر دیں گے اور اپنے مرسلوں کو آباد کریں گےکیونکہ ان منکروں نے اپنے منہ سے فتویٰ دے دیا ہے کہ جو شخص کسی کی زمین میں رہتا ہو اُس کو مالک زمین کے خلاف نہیں کرنا چاہیے و اِلّا وہ وہاں سے نکال دیا جائے گا۔ چونکہ اصل زمین تو ہماری ہے (خدا کی) اس لیے اب یہ منکرین انبیاء ہمارے مرسلوں کو دکھ دے کر ہماری مرضی کے خلاف ہوکر یہاں نہیں رہ سکتے پس وہ وعدے کے موافق ہلاک ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ نہ کریں۔ پھر خدا تعالیٰ نے ایک اور عجیب گُر کامیابی کا بتایا ہےاور وہ یہ ہے کہ انعامات الٰہیہ اس شخص پر اُترتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہے۔

اب غور طلب امر یہ ہے کہ جن رسولوں کا اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے اس وقت تو ان میں سے کوئی موجود نہیں تو کیا اب اس آیت کا مضمون بیکار ہوگیا! نہیں ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے مامور بھیجتا ہے اس زمانہ میں بھی ایک مامور آیا اور اس کی مخالفت کرنے والوں نے عذاب الٰہی کا مزہ چکھا۔ علاوہ بریں خدا تعالیٰ کے ماموروں مرسلوں کی تعلیم کے جو شخص خلاف کرتا ہے و ہ گویا انہی کفار کا نمونہ ہوتا ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے جب کہ ہم اپنی ذرا سی نافرمانی کرنے والے سے ناراض ہوتے ہیں تو یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کی خلاف ورزی کرنے والوں سے خوش ہو۔ ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی زمین سے نکال دیے جاتے ہیں۔

سوچو اور غور کرو خدا تعالیٰ نے ہم پر کس قدر احسانات کیے ہیں، ہماری زندگی کی ضروریات اور سامان کس طرح پر اس نے مہیا کیے ہیں، اَبر، باد، سورج، چاند، دریا، سمندر اور دیگر اجرام ہمارے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اس نے محض اپنے فضل سے ہمیں پیدا کیا، ہم نے نہ زمین کی پیدائش میں، نہ آسمان کی پیدائش اور نہ دیگر کائنات کی پیدائش میں کوئی حصہ لیا پھر ان انعامات کے ہوتے ہوئے بھی اگر غفلت اور نافرمانی سے کام لیں تو خدا کی گرفت بڑی سخت ہوگی اور اس کا عذاب خطرناک۔ پس اس پر غور کرو اور غفلت چھوڑ کر اس کے پورے فرمانبردار بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو توفیق دے کہ ہم اس کے فرمانبردار ہوں اور اس کے غضب کے مورد نہ ہوں۔ آمین۔ ‘‘

(الحکم 21؍مارچ 1912ء صفحہ 6تا7)

خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 1912ء

’’شیطان انسان کے ورغلانے کے لیے مختلف قسم کی راہیں اختیار کرتا ہے اور جس طرح موقعہ پاتا ہے اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مثلاً جس کو دیکھتا ہے کہ غضب میں بڑھا ہوا ہے اس کو اسی راہ سے، جس میں بے صبری کا مادہ ہے اس کو اسی راہ سے۔ کسی میں بے وفائی کا مادہ ہے اس کو اسی راہ سے، کسی کو دیکھتا ہے کہ طبیعت میں سختی زیادہ ہے پس اس کو اسی راہ سے۔ غرضیکہ جس جس میں جس جس قسم کی کمزوری ہوتی ہے اسی راہ سے ورغلاتا ہے۔ سب سے بڑا شیطان انسان کا نفس ہے، یہ طرح طرح سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ باہر سے دشمن آوے تو اس کے دفعیہ کے لیے تدابیر بھی انسان کر سکتا ہے لیکن اپنے نفس کے دھوکوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے، صوفیاء نے اسی لیے کہا ہے کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن نفس ہے کیونکہ اس کے پھُسلانے کے طریقے پیچ در پیچ ہیں۔ عبادت میں بھی لوگوں کو بہک جانے کا موقعہ ملتا ہے مثلاً سورج کے طلوع کے وقت کوئی نماز پڑھے اور یہ سمجھے کہ میں تو خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں، اس میں کیا حرج ہے یا مثلاً عید کے دن روزہ رکھے مگر یہ دونوں منع ہیں۔ عبادت کے ابتدا بھی سخت ہوتے ہیں بعض شخص نوافل کے لیے فرائض کو قضا کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں نماز با جماعت کی سخت تاکید ہے حتیٰ کہ جنگ کے وقت بھی جبکہ بڑی سختی کا وقت ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے جماعت کو ضروری ٹھہرایا ہے، شمولیت کے ایسے شد و مد کے حکم کو لوگوں نے غیر ضروری سمجھ لیا۔ نماز باجماعت بڑی ہی ضروری چیز ہے۔ ممکن ہے لوگ کئی مرتبہ جمعوں کے خطبوں میں اسی جماعت والی بات کو مجھ سے سن کر کہیں کہ بار بار کیوں دوہراتے ہو۔ لیکن یہ مرض چونکہ عام طور پر پایا جاتا ہے اس لیے مجھے بار بار اس کی تاکید کرنی پڑتی ہے بعض لوگ نماز باجماعت کو اس لیے ترک کر دیتے ہیں کہ انہیں رکوع و سجود میں خشوع و خضوع کے لیے کافی موقعہ علیحدگی میں ملتا ہے اور جماعت کی نماز میں لمبے لمبے رکوع اور سجود نہیں ہو سکتے اور بعض وقت جو دعاؤں کے لیے جوش پیدا ہوتا ہے وہ رک جاتا ہے۔ یہ بھی میرے نزدیک نفس کا ایک وسوسہ ہے۔ سب سے زیادہ متقی انسان، سب سے زیادہ معرفت کو سمجھنے والا انسان وہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا، وہ جماعت کے ساتھ پڑھتا ہے اور اسی کی ہدایت فرماتا ہے۔ کوئی کہے کہ چونکہ نبی کریمﷺ خود امام ہوتے تھے اس لیے وہ اپنا جوش نکال لیتے ہوں گے لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں۔ نبی کریمﷺ جماعت کے ساتھ ہلکی سورتیں پڑھا کرتے تھے بلکہ اگر کسی کو سن لیتے تھے کہ لمبی جماعت پڑھاتا ہے تو اس پر ناراض ہوتے تھے۔ پھر ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ وہ دوسروں کے پیچھے ہی نماز پڑھتے تھے اور ان نمازوں میں کوئی لمبے رکوع و سجود نہ ہوتے تھے۔ پھر بہت بہت دیر تک بعض اوقات بیٹھ کر امام کا انتظار کیا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت ناساز ہوتی اور گھر میں نماز پڑھنے کا موقعہ ہوتا تو گھر میں بھی جماعت کے ساتھ پڑھتے۔ پھر آج کل بھی دیکھو حضرت خلیفۃ المسیح بیمار ہیں تو اُنہوں نے گھر میں جماعت کا سلسلہ شروع کر دیا اور اکثر دوسرے اشخاص ہی پڑھاتے ہیں اور آسان نماز ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں نماز میں مزا نہیں آتا۔ یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے، نماز میں مزا آنے کی شرط قرآن و حدیث میں کہاں ہے؟ نماز کے ادا کا حکم ہے ہم کو حکم بجا لانا چاہیے، اس کی ضرورت نہیں کہ مزے تلاش کرتے پھریں۔ خدا تعالیٰ کے منشاء کے اوپر چلنے کا نام اطاعت و فرمانبرداری ہے، ذوق کے پیدا کرنے کا نام فرمانبرداری نہیں، اپنے نفس کے مزے کو اطاعت پر ترجیح دینا غلطی ہے۔ پھر میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ مسجد میں اس لیے نہیں آتے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے بعض امور پر گفتگو کرنے سے منع کیا ہے اور لوگ وہ سلسلہ کلام شروع کر دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایک حکم کی تعمیل میں خدا تعالیٰ کے دوسرے حکم کو چھوڑ دینا کیسی غلط راہ ہے اور مسجد میں آکر باتیں کرنا جائز ہی نہیں، اور کون ہے جو کسی کو باتیں کرنے پر مجبور کرے۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتے، جب اس وقت ان سے کوئی ایسے تذکرے نہیں کرتا یا ایسے تذکروں کے خوف سے وہ گھروں سے باہر نکلنا نہیں چھوڑ دیتے تو اس قسم کے وسوسوں سے اس حکم ربّانی کو کیوں چھوڑتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام اور نبی کریمﷺ کے طرز عمل کے موافق احکام کی بجا آوری میں کوشش کریں اور بدیوں اور غفلت کو چھوڑ کر نیکی کی طرف متوجہ ہوں۔ آمین‘‘

(الحکم 14؍اپریل 1912ء صفحہ 4)

خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مارچ 1912ء

’’موقعہ شناسی ایک ضروری اور مفید امر ہے، بچے، جوان، بوڑھے مقدمہ والے ملازم سب اپنے کاموں اور غرضوں کے پورا کرنے کے لیے موقعہ کا لحاظ رکھتے ہیں جس کے ساتھ گفتگو کرنی ہو اس کی حالت دیکھ کر اس کے مطابق کام کیا جاتا ہے اور مناسب موقعہ بات کی جاتی ہےاور حاکم کے غضب کے وقت احتیاط کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرنا کس قدر ضروری ہے۔ جس وقت خدا کسی قوم پر ناراض ہوتا ہے اُس وقت اس قوم کے لوگوں کو کس قدر ہوشیاری اور احتیاط مطلوب ہے جو ایسے وقت میں بے پرواہی کرتا ہے اس پر عذاب سخت آتا ہے۔ یہ زمانہ بھی ایسا ہی زمانہ ہے، اللہ تعالیٰ کے غضب کے نشان ظاہر ہیں، لڑائیاں، زلازل، طوفان، وبا ہر طرح کے ابتلا نمودار ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے شریروں کی جڑ کاٹ دی جائے، یہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی علامات نہیں بلکہ اسی ناراضگی کا اظہار ہے جو کھوٹے کھرے کو الگ کرنا چاہتا ہے۔ جب خدا کی نصیحت کو انسان بھلا دیتا ہے تو اُسے ڈھیل دی جاتی ہے اور وہ خوش ہو جاتا ہے کہ میں مزے میں ہوں مگر اس کے واسطے عذاب نزدیک ہے۔ حقیقی حکومت دنیا میں خدا ہی کی ہےاور سب کچھ اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھانے کے چار راہ ہیں، ترک گناہ، نیکیوں کا زیادہ اختیار کرنا، صدقہ، دعا۔ اپنی حالت میں تغیّر کرو اور نیکی اختیار کرو تا کہ خدا تم پر راضی ہو۔ ‘‘

(بدر 11؍اپریل 1912ء صفحہ 2کالم 1)

خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍مئی 1912ء بر موضوع ’’آنحضرتؐ کے احسانات‘‘

’’بعض وجود ایسے بابرکت، ہمدرد اور مُحسن ہوتے ہیں کہ ان کے واسطے دل بے اختیار محبت سے بھر جاتا ہے۔ ماں اور باپ بچے کے ساتھ کس کس رنگ میں محبت کرتے اور اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بادشاہ اپنی رعایا کو ظالموں، دغابازوں، فریب کرنے والوں اور چوروں سے بچاتے ہیں۔ نتیجہ ایسی شفقت کا یہ ہوتا ہے کہ شاگرد اپنے استاد کے لیے، بیٹا اپنے باپ کے لیے اور رعایا اپنے بادشاہ کے لیے جان تک بے دریغ قربان کر دیتے ہیں۔ یہ سب احسان کا کرشمہ ہے لیکن ایک انسان دنیا میں ایسا گزرا ہے جس کی شفقت، پیار اور احسان والدین، دوست، استاد، بادشاہ سب سے بڑھ کر ہم پر ہیں، اُس مبارک انسان کا نام ہے محمد (ﷺ )۔ ہم موجود بھی نہ تھے جبکہ اُس مقدس انسان نے ہمارے لیے، اِن آنے والی نسلوں کے واسطے دعائیں کیں اور ان کے واسطے تمام بھلائیوں کا قانون عطا کیا۔ بے اختیار دل سے اُس کے واسطے درود نکلتا ہے، فالحمد للّٰہ رب العالمین۔ اگر اُس کے حکموں کو مانا جاتا تو کوئی قیدی نہ ہوتا، کوئی دکھ نہ پاتا، کوئی شراب پی کر گلی کوچوں میں ذلیل نہ ہوتا۔ میں نے اِس سفر میں بہت سے نظارے دیکھے ہیں جنہوں نے مجھے آنحضرتﷺ پر درود شریف پڑھنے کے لیے بےاختیار کر دیا۔ ہندوؤں کے مندروں میں فحش تصاویر امریکہ تک کے لوگ آکر دیکھتے اور ہنستے ہیں لیکن مسلمانوں کی مساجد میں کوئی ایسی بات نہیں جو ان کو شرمندہ کرے۔ گنگا و جمنا کے کنارے جو کچھ ہندو کر رہے ہوتے ہیں اس حالت میں گرنے سے ہمیں اُسی پاک رسولؐ نے بچایا جس نے بڑے دکھ اٹھا کر پاک تعلیم کو دنیا میں قائم کر دیا لیکن وہ تو پاک ہدایت بڑی شفقت (اغلبًا مشقت ہوگا۔ ناقل) اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ چکا ہے اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سُرخرو ہوکر جاویں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ہمیں ایسا ہی بناوے اور اپنے فضل و کرم سے اس پاک تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دیوے، آمین ثم آمین۔ ‘‘

(بدر 16؍مئی 1912ء صفحہ 2 کالم 3)

خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍مئی 1912ء

’’آیات إِنَّ اللّٰـهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ ….. وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيْلً

ا پارہ پانچ رکوع پندرہ (سورۃ النساء آیات 117 تا 123۔ ناقل) پڑھ کر فرمایا: انسانی دماغ ایسا ہے کہ جو اس کے ہاتھ میں آوے اس میں اختراع ایجاد کرتا ہے۔ شیر، کبوتر، مینا وغیرہ جس طرح قدیم ایام میں رہتے تھے وہی حال آج ان کا ہے مگر انسان دن بدن ترقی کرتا ہے، پہلے درختوں کے سائے میں رہتا تھا، پھر محلات بنائے، پہلے پیدل چلتا تھا پھر جانور قابو کیے، اب ریل گاڑی اور ہوائی جہاز بنائے۔ پہلے درختوں کی چھال اس کا لباس تھا اب اعلیٰ درجہ کے نئے قسم کے کپڑے بنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہر معاملہ میں ایجاد و اختراع انسان کا روزانہ کام ہے جو اس کے قبضے میں آیا اس کو اس نے اپنی اصلی حالت پر رہنے نہ دیا مگر یہ ایجادات جہاں مفید ہیں مُضر بھی ہیں۔ ایجادوں نے طبّی فوائد کے ساتھ لڑائی اور جنگ کے ذرائع بھی پیدا کر دیے، یہ ایجاد تو دنیوی رنگ کے ہیں مگر سب سے عجیب ایجادات انسانی وہ ہیں جو اس نے مذہب کے متعلق کیے، ذرا سی بات مذہبی لے کر بال کی کھال کھینچتے ہوئے بات کو کہیں کا کہیں تک لے جانا، ہر ایک مذہب میں ایجادیں ہوئیں اور مذاہب کی شکل کچھ کی کچھ بنتی چلی گئی یہاں تک کہ قرآن شریف کے گو الفاظ محفوظ رہے مگر اس کے معانی اور مطلب کے متعلق عجیب در عجیب ایجادات کی گئی ہیں، قرآن شریف تو گویا چھوٹ ہی گیا۔ حدیث شریف پڑھائی جاتی ہے مگر ایسے رنگ میں جو حقیقت سے دُور ہے، ہر ایک امر میں اتنے پہلو نکالے جاتے ہیں کہ دین ایک پہیلی بن گیا ہے جو گویا کہ صرف فلسفی لوگوں کے واسطے ہے اِن لوگوں کے دین کا وہ حال ہے کہ پاؤ بھر دودھ میں دس سیر نجاست ملا دی جاوے۔ اب مذہب وبالِ جان ہوگئے ہیں، ہزاروں قیود لگ گئے ہیں، یہ مذہبی ایجادات ہیں مگر ان میں سب سے زیادہ خوفناک ایجاد یہ ہے کہ خدا بھی نئے بنائے گئے ہیں۔ رام، مسیح، عبدالقادر، حسین جو جس کو پسند آیا اُس کو خدا بنایا گیا۔ ان کے بھروسے پر گندے سے گندے اعمال کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے شفیع ہیں، ان کی قربانی ہمارے واسطے کافی ہے۔ اس میں ایسا غلو ہوا ہے کہ عمل اٹھ گیا یہ شرک کا نتیجہ ہے اور خدا گویا اُن کے نزدیک محض بے کار ہے اور اس کا ضرر رساں نتیجہ یہ ہے کہ بعض لوگ ایسی حالت دیکھ کر بالکل دہریہ ہوگئے، جتنے خدا پیش ہوئے محض محتاج اور ناکارہ ثابت ہوئے تو لوگوں کی طبیعت کا میلان دہریت کی طرف ہوا۔ مَیں سنا کرتا تھا کہ لوگ قبر پر سجدہ کرتے ہیں مگر اس سفر میں مَیں نے ایسے لوگوں کو دیکھا اور مجھے سخت حیرت ہوئی کہ خدا کے واسطے جو جو خاص عبادت کے نشان تھے وہ سب مخلوق کو دیے گئے۔ بہت سی گندی ایجادات ہیں مگر سب سے بدتر ایجاد شرک ہے اِسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک معاف نہیں ہوتا۔ ہر ایک گناہ کرنے والا ایک گناہ کرتا ہے مگر بغاوت کرنے والا تمام گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ خود بادشاہ کا انکار کرتا ہے۔ نجاست میں گر کر آدمی بچ سکتا ہے مگر آگ میں گر کر کون زندہ رہ سکتا ہے۔ شرک ایک آگ ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو بچاوے، آمین۔ ‘‘

(بدر 23؍مئی 1912ء صفحہ 1، 2)

خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اپریل 1912ء بعنوان

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ

(بمقام امین آباد پارک لکھنؤ۔ یہ خطبہ حضرت مرزا کبیر الدین احمد صاحبؓ نے نوٹ کر کے بھجوایا)

’’بعد تلاوت سورۂ فاتحہ فرمایا کہ ہر شے کو فنا لگی ہوئی ہے۔ کل وہ قلعہ جس میں آہنی دروازے لگے ہوئے تھے اور اس پر پہرہ بھی تعینات تھا، دیواروں پر لڑائی کا سامان بھی بنا ہوا تھا جس سے مخالف کو اندر جانا مشکل تھا لیکن آج جو اُن کو دیکھا جاتا ہے تو اُن کی دیواریں ٹوٹی پڑی ہیں بلکہ بعض جگہ تو دو چار پتھر آپس میں ملے ہوئے پڑے دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ بھی کسی دیوار کا نشان ہے یہاں پر بھی کوئی دیوار ہوگی۔ اس جگہ اب پہرہ بھی نہیں ہوتا جس سے آدمی آسانی سے اندر جا آسکتا ہے۔ اسی طرح لکھنؤ بھی بڑا عیش پسند تھا، اس میں بڑے بڑے عیاش تھے مگر آج اُن عیش پسند نوابوں کا پتہ بھی نہیں ملتا بلکہ اُن کی بجائے دوسرے لوگ اُن کے خاندانوں سے نسبت دے کر اپنے کو نواب بنائے ہوئے ہیں پس فنا ہر شے کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی ہے۔ دیکھو بابل اور مدین یہ دو بڑے زبردست شہر تھے جن کو آج کوئی نہیں جانتا لیکن لنڈن کو جو ایک چھوٹی سی بستی تھی اس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ غرض فنا ہر شے کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی ہے۔

مدت ہوئی کہ ہم حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام) سے سنا کرتے تھے کہ لکھنؤ میں بھی ہماری کچھ جماعت ہے مگر ہم اس قدر مدّت کے بعد بھی اس کو بڑھتا ہوا نہیں دیکھتے، جتنی سنتے تھے اُتنی ہے، اگر کوئی باہر کا آگیا تو آگیا ورنہ سلسلہ بڑھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کا بظاہر سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی اندرونی کمزوری ایسی ہے جس سے وہ ترقی نہیں کرتی کیونکہ جب کسی لیمپ کی روشنی صاف نہیں ہوتی تو معلوم کرتے ہیں کہ لیمپ کی چمنی خراب ہے تو پھر ایسی حالت میں چمنی کی درستی سے تیز روشنی کی کوشش کرتے ہیں پس تم بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ دعائیں کیا کرو تا تمہاری وہ اندرونی کمزوری تم سے دور ہوجاوے کیونکہ جب ہم آسمان سے دھوپ آتے ہوئے نہیں دیکھتے تو جانتے ہیں کہ آسمان پر ابر یا خسوف کسوف یعنی سورج گرہن اور چاند گرہن ہے اِسی واسطے گرہن کی نماز رکھی گئی ہےکہ تا تم اس میں دعا کرو کہ الٰہی آسمان سے یہ ظلمت دور کر اور ہم کو وہی روشنی پہنچا جو تو ہم کو سورج اور چاند سے پہنچایا کرتا ہے۔ اگر تم ایسی کوشش نہ کرو گے تو تمام ہوجاؤ گے کیونکہ فنا ہر شے کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ دیکھو جب کسی مکان کی کوئی اینٹ گر جاتی ہے تو بجائے اُس کے دوسری اینٹ اس خیال سے لگا دیتے ہیں کہ تا وہ عمارت گِر کر منہدم نہ ہو جاوے اِسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ۔

اسی طرح اگر تمہارے سلسلہ کی اشاعت نہ ہوگی تو ایک ایک دو دو ہوکر ایک نہ ایک دن تم سب مر جاؤ گے اِسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِِ۔

یعنی یہی ایک بڑا کام ہے کہ تم ہر ایک لوگوں کو نیک راستہ کی طرف بلایا کرو تا کہ خدا کی مرضی کے موافق تم میں ترقی ہوتی رہے کیونکہ ہم میں فنا لگی ہوئی ہے۔ ہاں تم دیکھتے ہو کہ پانی کتنی اچھی چیز ہے جو ہمیں پیاس میں ٹھنڈک دیتا ہے اور اگر ہمارے پاخانہ لگ جاتا ہےتو اس نجاست کو ہمارے کپڑے سے دور کر دیتا ہے لیکن جب بھی پانی کسی کنویں میں بند ہوتا ہے اور اس میں نیا پانی نہیں آتا اور اس کے سوتے بند ہوجاتے ہیں تو وہی پانی سڑ کر خراب اور بدبودار ہوجاتا ہے۔ پس اگر تم

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِِ

کی طرف کوشش نہ کرو گے اور اپنے میں دوسروں کو نہ ملاؤ گے تو ایک نہ ایک دن تم سب کے سب تمام ہوجاؤ گےغرض ہر شخص تم میں کارِ دعا اور تبلیغ میں لگا رہے تا کہ برکت ہو۔ ‘‘

(بدر 30؍مئی 1912ء صفحہ 2کالم 2، 3۔ الحکم 14/7 مئی 1912ء صفحہ 3)

خطبہ جمعہ 6؍ستمبر 1912ء مسجد اقصیٰ قادیان

’’دنیاوی لحاظ سے یورپ کے لوگ دوسرے ملکوں میں راحت کے سامان پھیلاتے ہیں اور مفید و مبارک بنتے ہیں تو ان کو ملک پر ملک مل رہا ہے، مسلمان نہ دنیوی آرام کسی کو پہنچاتے ہیں نہ دین خود سیکھتے اور دوسروں کو سکھاتے ہیں، اس واسطے دکھ پر دکھ اٹھا رہے ہیں۔ یوروپین فائدہ کا ایک ادنیٰ نمونہ گھڑی ہے، بعض دفعہ عین ضرورت کے وقت جب الارم والی گھڑی مجھے جگا دیتی ہے تو گھڑی بنانے والے کے حق میں بے اختیار نیک دعا دل سے نکلتی ہے۔ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے عصا کی تعریف میں دونوں باتیں بیان کی ہیں آپ اس پر ٹیک کرتا ہوں اور بکریوں کا اس میں فائدہ ہے۔ بغیر اس کے کہ کوئی شے اپنے اور دوسروں کے واسطے مفید ہو نبی اس کو اپنے پاس نہیں رکھتا۔ ‘‘

(بدر 19؍ستمبر 1912ء صفحہ 2 کالم 3)

خطبہ جمعہ (اغلبا ً4؍اکتوبر 1912ء)بمبئی برمکان حضرت زین الدین محمد ابراہیم صاحبؓ

(حضرت مصلح موعودؓ 1912ء میں عازم سفر حج ہوئے، آپ 26؍ستمبر کو قادیان سے روانہ ہوئےاور مورخہ 16؍اکتوبر کو بمبئی بندرگاہ سے جہاز پر سوار ہوئے۔ اس دوران دو جمعہ آئے ایک 4؍اکتوبر اور دوسرا 11؍اکتوبر۔ یہ خلاصہ خطبہ اغلباً 4؍اکتوبر کے جمعہ کا ہے کیونکہ 17؍اکتوبر کے بدر میں شائع ہوا ہے لہذا بمبئی سے بذریعہ ڈاک قادیان پہنچنے اور اخبار کے لیے کتابت وغیرہ میں چھ دن سے زائد کا عرصہ درکار ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ خلاصہ حضرت عبدالمحی عرب صاحب نے بھجوایا تھا جو حضورؓ کے رفیق سفر تھے۔ خلاصہ خطبہ عربی زبان میں تھا جس کو اخبار بدر نے اردو کے ساتھ شائع کیا ہے۔ )

’’عرب عبدالمحی صاحب بمبئی سے تحریر فرماتے ہیں:

’’والیومحضرت میاں صاحب صلی بنا الجمعۃ فی مکان زین الدین صاحب و قال فی خطبتہٖ إِنَّ اللّٰـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ الیٰ آخر الآیۃ۔ فقال المراد بالعدل الفرائض، والاحسان النوافل، و ایتاء ذی القربیٰ ترک رجا الخیر و خوف الشر۔ و قال لا بُدّ من العمل الصالح لِأنّ تارک العمل لا نجو بمحمدؐ فکیف نجو بغلامہٖ‘‘

ترجمہ: آج حضرت میاں صاحب نے زین الدین محمد ابرہیم صاحب کے مکان پر خطبہ جمعہ میں آیت قرآن شریف

إِنَّ اللّٰـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ….

الخ پڑھ کر فرمایا:عدل سے مراد فرائض اور احسان سے مراد نوافل ہیں اور ایتاء ذی القربیٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان خیر کی امید،شر کے خوف سے غنی ہوکر خدا کی عبادت کرے۔ اور فرمایا کہ عمل صالح کا ہونا ضروری ہے۔ اگر عمل صالح کے بغیر حضرت نبی کریمﷺ کا ماننا نجات نہیں دے سکتا تو آپؓ کے غلام کا خالی ماننا بغیر عمل صالح کس کام آوے گا۔ ‘‘

(بدر 17؍اکتوبر 1912ء صفحہ 4 کالم 2، 3)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button