سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

1860ء تا 1867ء

سیالکوٹ کا زمانہ

…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……

مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان ،بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں

(حصہ سوم)

لالہ بھیم سین

سیالکوٹ کایہ ذکر نامکمل رہے گا اگرہم ایک اَورشخصیت کا ذکرنہ کریں۔ اوروہ ہیں محترم لالہ بھیم سین صاحب۔ یہ ہندوعقیدہ سے وابستہ تھے۔

آپ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ سیالکوٹ کی علمی ادبی محفل اور قانونی دنیامیں ان کا نام تھا۔ بعدازاں ان کے بیٹے کنورسین نےتو ہندوستان بھرمیں شہرت پائی۔ لالہ بھیم سین صاحب فارسی اورعربی کے بھی عالم تھے۔ لالہ صاحب سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے۔ ان کےنانا مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرااسسٹنٹ تھے اور اس زمانہ میں لالہ بھیم سین صاحب بٹالہ میں ہی اپنے نانا کے ہاں تھے جب کچھ دیرکے لیے حضرت اقدسؑ بٹالہ میں اپنے استاذ محترم مولوی گل علی شاہ صاحب سے پڑھاکرتے تھے۔ یہیں مولوی محمدحسین بٹالوی اور لالہ بھیم سین صاحب بھی انہی مولوی صاحب سے پڑھنے لگے اوریوں انہیں بھی حضرت اقدسؑ کے ہم مکتب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اور حسن اتفاق یہ ہے کہ جب حضرت اقدسؑ ملازمت کے سلسلہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو لالہ صاحب کے ساتھ دوستی اوررفاقت کا یہ تعلق اورمضبوط ہوتاچلاگیا۔ وہاں جو علمی ومذہبی مجالس ہوتیں ان میں لالہ صاحب بھی شریک ہواکرتے۔ جب سیالکوٹ سے حضرت اقدسؑ واپس تشریف لے آئے تواس زمانہ میں قانون کا ایک امتحان ہواتھا جس میں حضرت اقدسؑ بھی شریک ہوئے [ایک روایت کے مطابق آپؑ نےتو امتحان دیاہی نہ تھا۔ مؤلف]اور لالہ صاحب بھی شریک ہوئے یہ ایک قسم کا وکالت کا ہی امتحان تھا اور اس میں پاس ہونے کے بعد امیدوارکو وکالت کی پریکٹس کی اجازت مل جایاکرتی تھی۔ لالہ صاحب نے یہ امتحان پاس کرنے کےبعد وکالت شروع کردی اور وکالت میں نام کمایا، انہوں نے اپنے ایک بیٹے لالہ کنورسین کو بھی وکالت کی اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے انگلینڈبھیجا اوران کے یہ صاحبزادے لاہورلاء کالج کے پرنسپل بھی رہے اوربعدازاں ریاست ہائے کشمیرجودھ پورالوروغیرہ میں چیف جسٹس وجوڈیشل منسٹرکے عہدوں پر فائزرہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ ڈیرہ دون میں رہائش پذیرہوگئے۔ 1944ء کے ایک خط کے مطابق ان کا پتہ درج ذیل تھا: ’’کنورکنج‘‘ لکشمی ایونیو ڈیرہ دون،

Rai KanwarSain M.A. Bar-at-Law “KanwarKunj” Lakshmi Avenue, Dehra Dun.

حضرت اقدسؑ جو کہ عہددوستی کوایک قیمتی جوہرسمجھتے تھے اور الحب فی اللّٰہ کے تحت قائم ہونے والے تعلقات میں وَ لَیْسَ فُؤَادِی فی الْوِدَاد یُقصِّرکے داعی تھے ایسے تعلقات کو کبھی بھی منقطع کرنے والے نہ تھے۔ اورپھرتعلق بھی وہ جو قَدْغَرَسْنَاہُ فی الصبا کامصداق ہو۔ حضرت اقدسؑ کا لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی اوررفاقت کا تعلق آخر دم تک قائم رہا۔ اورانہوں نے بھی اسے خوب نبھایا۔

محترم لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی اور رفاقت کے تعلقات کی نسبت سیالکوٹ کے انہی دنوں کے ایک چشمدیدراوی اور رفیق مجلس شمس العلماء محترم سیدمیرحسن صاحب بیان کرتے ہیں :

’’حضرت مرزا صاحب1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔ چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے۔ اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے۔ آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔ لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے۔ اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لیے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا۔ پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے۔ اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 149)

محترم لالہ بھیم سین صاحب کے انہی تعلقات کاذکرکرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کے فرزندارجمندحضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:

’’لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹی کے ساتھ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بہت اچھے تعلقات تھے حتّی کہ آخری ایام میں بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکبھی کچھ روپے کی ضرورت ہوتی تھی تو ان سے بطور قرض منگا لیتے تھے چنانچہ وفات سے دو تین سال قبل ایک دفعہ حضرت صاحب نے لالہ بھیم سین صاحب سے چند سو روپیہ بطور قرض منگوایا تھا۔ حالانکہ اپنی جماعت میں بھی روپیہ دے سکنے والے بہت موجود تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)

یہ روایت سیرت المہدی کی روایت نمبر 149 ہے۔ اس روایت کو درج کرنے کے بعد حضرت اقدسؑ کے صاحبزادے قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب سے ابتداءً ملازمت سیالکوٹ کے زمانہ میں حضرت صاحب کے تعلقات پیدا ہوئے اور پھر یہ رشتہٴ محبت آخر دم تک قائم رہا۔ لالہ صاحب حضرت صاحب کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی روایت ہے کہ جن ایام میں جہلم کا مقدمہ دائر ہوا تھا۔ لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت صاحب کو تار دیا تھا کہ میرے لڑکے کو جو بیرسٹر ہے اجازت عنایت فرما ویں کہ وہ آپ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے مگر حضرت صاحب نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس لڑکے کی خدمات لالہ صاحب نے پیش کی تھیں ان کا نام لالہ کنور سین ہے جو ایک لائق بیرسٹر ہیں اور گذشتہ دنوں میں لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور آجکل کسی ریاست میں چیف جج کے معزز عہدہ پر ممتا ز ہیں۔ نیز حضرت خلیفة المسیح ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جو چھت گرنے کا واقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب موصوف امتحان مختاری کی تیاری میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ شریک تھے۔ چنانچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو کر مختار بن گئےمگر آپ کے لئے چونکہ پردہ غیب میں اور کام مقدر تھا اس لئے آپ کو خدا نے اس راستہ سے ہٹا دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب کی کامیابی کے متعلق بھی حضرت صاحب نے خواب دیکھا تھاکہ جتنے لوگوں نے امتحان دیا ہے ان میں سے صرف لالہ بھیم سین صاحب پاس ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر149)

محترم لالہ بھیم سین صاحب سے دوستی کایہ تعلق حضرت اقدسؑ نے بھی آخرتک نبھایا۔ سیالکوٹ سے قادیان منتقل ہونے کے بعد ایک بار 1877ء میں آپؑ سیالکوٹ تشریف لائے تو لالہ بھیم سین صاحب کے ہاں ہی قیام فرمایا۔ جیساکہ سیرت المہدی روایت نمبر 150میں بیان ہوا ہے:

’’ایک دفعہ 1877ء میں آپ تشریف لائے۔ اورلالہ بھیم سین صاحب کے مکان پرقیام کیااوربتقریب دعوت حکیم میرحسام الدین صاحب کے مکان پرتشریف لائے۔‘‘

( سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)

محترم لالہ بھیم سین صاحب کا حضرت اقدسؑ سے قرآن پڑھنا

محترم لالہ بھیم سین صاحب جیساکہ عرض کیاہےکہ خودفارسی اورعربی کے عالم تھے۔ حضرت اقدسؑ نے اسی سیالکوٹ کے زمانے میں لالہ صاحب کوقرآن کریم بھی پڑھایا تھا۔ تذکرہ کے ایڈیشن چہارم کے سب سے آخری صفحہ پراس کی تفصیل موجود ہے:

(مرزاغلام اللہ صاحب انصارساکن قادیان فرماتے ہیں )۔ ’’میرے بھائی مرزانظام الدین صاحب نے ذکرکیا کہ جن دنوں حضرت صاحبؑ سیالکوٹ میں نوکرتھے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے حضرت صاحبؑ پڑھایابھی کرتے تھے۔ آپؑ وہاں بھیم سین وکیل کوجوہندوتھا قرآن شریف پڑھایاکرتے تھے اوراس نے تقریباً چودہ پارہ تک قرآن حضرت صاحبؑ سے پڑھا تھا۔ ‘‘(تذکرہ صفحہ 694)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button