نماز

بچوں کو دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے سزا دینے سے کیا مراد ہے؟

سوال:ایک دوست نے آنحضورﷺ کے ارشاد کہ ’’بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو‘‘کے متعلق حضور کی خدمت اقدس میں رہ نمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 02؍فروری 2019ء میں درج ذیل جواب عطافرمایا:

جواب:اسلام کی تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اعتدال پر مبنی تعلیم ہے۔ آنحضورﷺ کا یہ ارشاد بھی اپنے اندر اسی اعتدال کو سموئے ہوئے ہے کہ عبادت جو کہ ہر انسان کی پیدائش کا اوّلین مقصد ہے، بچپن سے ہی اس پر زور دیا جائے اور بچوں کو اپنے نمونہ کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ تین سال کی مسلسل تلقین اور نصائح کے بعد بھی اگر بچہ اس کی پابندی نہ کرے تو اسے ایک وقت تک مناسب سزا دینے کا حکم ہے۔ لیکن یہ سزا ایسی نہیں ہونی چاہیے جس میں سزا دینے والے کی طرف سے اس بچہ کے ساتھ ایک دشمنی کا رنگ ہو یا انسان یہ تصور کرے کہ اس سزا کے نتیجہ میں وہ ضرور اس بچہ کو نماز کا عادی بنا سکتا ہے۔ بلکہ اس سزا میں بھی یہ امر ہی پیش نظر ہونا چاہیے کہ تربیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتی ہے، جس کے حصول کا اصل ذریعہ دعا ہی ہے۔ اور جو سزا دینے کی راہ اختیار کی جا رہی ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے رسول کے حکم پر اختیار کی جا رہی ہےتا کہ بچہ اس سے عبرت پکڑ کر نماز کی طرف راغب ہو جائے۔ پھر جب بچہ Mature ہو جائے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ کر اچھے بُرے کی سمجھ اس میں پیدا ہو جائے تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے اس کےلیے صرف دعا اور وعظ و نصیحت کے طریق کو اپنانا چاہیے۔ ایسی ہی سزا کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور برد بار اور با سکون اور باوقار ہو تو اسے البتہ حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچہ کو سزا دے یا چشم نمائی کرے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 4۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button