یادِ رفتگاں

میرے محسن حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ)

(قریشی دائود احمد ساجدؔ)

بہت عرصہ سے دل میں یہ خواہش تھی کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں اور محبتوں پرمشتمل مضمون تحریر کیا جائے لیکن حضرت ملک صاحب مرحوم کے مقام و مرتبہ اور اپنی کم مائیگی کی وجہ سے اپنا یہ شعربار بار آڑے آتا رہا۔

پھر اٹھا کر رکھ دیا میں نے قلم

داغ دامن چاق سینہ و گریباں دیکھ کر

کچھ روز قبل برادرم مجید سیالکوٹی صاحب کا حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی یادوں پر مشتمل مضمون پڑھ کر دوبارہ ہمت کی کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں کا تقاضا ہے کہ آپ کی یادوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا جائے۔ اس لیے چند بھولی بسری یادیں تازہ کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

خاکسار کا مئی 1974ء میں کالج میں ایف۔ اے کا آخری پیپر تھا ۔ اگلے روزپتہ چلا کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر کوئی واقعہ رونما ہوا ہے جس کے بعد پورے پاکستان خصوصاً پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ بڑا ہی پر آشوب دَور تھا۔ انہیں ایام میں خاکسار کے والد صاحب مرحوم کووکالت تعلیم ربوہ کی طرف سے ایک خط موصول ہوا کہ آپ نے دو سال قبل اپنے بیٹے داود احمد کو وقف کرنے کی درخواست دی تھی جو بعض وجوہات کی بنا پر منظور نہ ہوئی تھی لیکن اگر آپ اپنے بیٹے کو وقف کرنے کا ابھی بھی ارادہ رکھتے ہیں تو اُسے لے کر فلاں تاریخ کو وکالت تعليم ربوہ میں انٹرویو کےلیےآجائیں۔چنانچہ تاریخ مقررہ پر ہم ربوہ پہنچ گئے اور خاکسارانٹرویو میں شامل ہوا۔ اگلے روز جامعہ احمدیہ ربوہ میں انٹرویو کے بعد خاکسار کو داخلہ کی نوید سنائی گئی۔ خاکسار کو اپنے والد صاحب مرحوم کا خوشی سے تمتماتا چہرہ آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔انٹرویو کے بعد چونکہ گاؤں واپس جانا مشکل تھا اس لیے ہمارے امیر ضلع محترم چودھری محمد اسلم صاحب مرحوم( برادر اکبر محترم چودھری شاہ نواز صاحب مرحوم) نے از راہ شفقت ربوہ میں اپنے گھر سے چار پائی اور بستر کا انتظام کر دیا ۔فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

7؍ ستمبر1974ء کی ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر جس میں اس نے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جامعہ ہوسٹل میں سنی۔ یہ بہت نازک وقت تھا جب پاکستان کے مختلف شہروں میں احمدیوں کی مخالفت عروج پر تھی۔

ان حالات کے باعث جامعہ کے سالانہ امتحانات مقررہ وقت پر نہ ہو سکے۔ کچھ دنوں کے بعد طلباء کے امتحانات شروع ہوگئے۔ چونکہ ہماری کلاس نئے داخل ہونے والے طلباء پر مشتمل تھی اس لیے ہمارے امتحانات نہیں تھے۔ چنانچہ ہماری کلاس کویہ حکم تھا کہ جامعہ سے فارغ ہو کرکھانا کھانے کے بعد قصر خلافت میں ڈیوٹی کے لیے پہنچ جانا ہے۔ ہم حکم کی تعمیل میں فوراً مسجد مبارک لے جاتے تھے جہاں ہماری ڈیوٹی لگائی جاتی تھی۔ مکرم ناصر سعید صاحب مرحوم اور ایک اَور دوست محمد شان صاحب نئے نئے حفاظت خاص میں آئے تھے۔ چودھری محبوب احمد صاحب مرحوم عموماً ہماری ڈیوٹی لگایا کرتے تھے۔ خاکسار اوربرادرم مکرم اخلاق احمدانجم صاحب کو قصر خلافت کے باغ میں رات کے وقت کافی عرصہ ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ گو وہ بہت نازک دور تھا لیکن بڑا یادگار وقت تھا۔ جامعہ کےدیگر طلباء کے امتحانات ختم ہونے تک حالات کچھ بہتر ہوگئے تو ہماری ڈیوٹیاں لگنی بھی بند ہو گئیں۔

جامعہ احمدیہ کے پہلے سال کے اختتام پر امتحان دینے کے بعد رخصتوں پر خاکسار بھی اپنے گاؤں چلا گیا۔ خاکسار کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ جامعہ کا نتیجہ الفضل اخبار میں شائع ہوتا ہے۔ گو کہ ہمارے گھر میں الفضل اور دیگر تمام رسائل باقاعدہ آتے تھے۔ چونکہ خاکسار کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ہمارا نتیجہ بھی روز نامہ الفضل میں شائع ہوتا ہے اس لیے نتیجہ کا پتہ بھی نہ چلا۔ رخصتوں کے بعد جب واپس آیا تو پتہ چلا کہ خاکسار کی ترجمۃ القرآن میں کمپارٹمنٹ تھی اور چھٹیوں کے دوران کمپارٹمنٹ کے امتحانات ہو چکے ہیں۔ چونکہ خاکسار نے امتحان نہیں دیا تھا اس لیے مجھے فیل قرار دے کر دوبارہ درجہ ممہدہ میں رہنے دیا گیا۔ خاکسار نے مکرم پرنسپل صاحب حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کی خدمت میں درخواست دی کہ مجھے تو کمپارٹمنٹ کا علم نہیں تھا اس لیے مجھے ایک موقع دیا جائے لیکن انہوں نے فرمایا کہ اب تو نئی کلاسیں شروع ہو گئی ہیں اب ایسا ممکن نہیں۔ خاکسار نے دوبارہ درجہ ممہدہ میں جانا شروع کیا لیکن دل مطمئن نہ ہوتا تھا اور کئی دفعہ خاکسار کلاس کی بجائے لائبریری میں آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ ایک روز خاکسار لائبریری میں بیٹھا تھا کہ محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب مرحوم جو جامعہ میں پڑھاتے تھے لائبریری میں تشریف لائے اور خاکسار کو ادھر بیٹھے دیکھ کر پوچھا کہ آپ ادھر کیوں بیٹھے ہیں۔ خاکسار نے تمام قصہ ان کے گوش گزار کیا کہ لا علمی کی وجہ سے میں کمپارٹمنٹ کا امتحان نہیں دے سکا اور مجھے اب دوبارہ درجہ ممہدہ میں بیٹھنا پڑ رہا ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنی کلاس میں جائیں چنانچہ حکم کی تعمیل میں مَیں کلاس میں چلا گیا۔ تقریبا ًایک یا دو گھنٹے کے بعد مجھے جامعہ کے کارکن میجر نذیر صاحب بلانے آئے کہ پرنسپل صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ حاضر ہونے پر فرمایا کہ اگرچہ یہ جامعہ کی روایت نہیں کہ امتحانات کے بعد کسی انفرادی طالب علم کا امتحان لیا جائے۔ لیکن آپ کو موقع دیا جاتا ہے اور پاس ہونے کے لیے 85 فیصد نمبر لینے ضروری ہیں۔ نیز پرنسپل صاحب نے مکرم عبدالمغنی زاہد صاحب کو جو ہمارے ترجمۃ القرآن کے استاد تھے رقعہ لکھا کہ ان کا امتحان لیا جائے اور پاس ہونے کے لیے 85 فیصد نمبر لینے ضروری ہیں۔ الحمدللہ کہ خاکسار نے چند روز تیاری کی اور 90 فیصد کے قریب نمبر لے کر امتحان پاس کیا جس کے بعدخاکسار کو درجہ اولیٰ میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی پہلی شفقت تھی جسے آج بھی یاد کرکے ان کی اور مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے۔

اس کے بعد حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقت اور پیار کا سلسلہ بفضلہ تعالیٰ جاری رہا۔ کئی مواقع پر دفتر میں بلا کر چائے سے تواضع کرتے۔ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی شفقتوں کے کچھ واقعات بغیر کسی خاص ترتیب کے پیش ہیں۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم نے جامعہ میں جو اعلیٰ روایات قائم کی تھیں میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان روایات کو قائم رکھوں ۔گو بعض اوقات اس میں بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ خاکسار کو یاد ہے کہ درجہ ثانیہ میں ہم نے ربوہ سے خوشاب تک کا پیدل سفر کیا تھا جو کہ جامعہ کے کورس کا ایک حصہ تھا۔ اس سفر میں طلباء کو اشد ضرورت کے وقت استعمال کے لیے پانچ روپے پاس رکھنے کی اجازت ہوتی تھی لیکن پیدل سفر کی تکمیل کے بعد وہ دکھانے ہوتے تھے کہ میں نے یہ پیسے خرچ نہیں کیے۔ پیدل سفر کے تیسرے روز جب ہم خوشاب سے سرگودھا پہنچے تو حضرت ملک صاحب مرحوم طلباء کی حوصلہ افزائی کے لیے سرگودھا تشریف لائے تھے۔ گو کہ طلباء کو انہی اشیاء پر گزارہ کرنا پڑتا تھا جو سفر کے آغاز پر جامعہ سے ساتھ اٹھائی جاتی تھیں تاہم سرگودھا میں ملک صاحب مرحوم کی طرف سے سفر میں شامل تمام طلباء کو چند اشیاء خور و نوش دی گئیں جو کہ ہمارے لیے غنیمت اور حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقت کا اظہار تھا۔

ایک موقع پر ہماری کلاس نے اپنے ایک کلاس فیلو مکرم ملک محبوب احمد صاحب کی دعوت پر خوشاب کے قریب ان کے گاؤں ڈوھڈا جانے کا پروگرام بنایا لیکن سفر پر کیسے جایا جائے یہ ایک اہم مسئلہ تھا؟ چنانچہ خاکسار نے حضرت ملک صاحب مرحوم سے درخواست کی کہ اگر ہمیں انصار اللہ کے دفتر کی گاڑی دلوا دیں تو ہم پٹرول کی قیمت ادا کر دیں گے۔ مکرم ملک صاحب نے خاکسار کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا انتظام کر دیا اور ہمارا وہ سفر بہت یاد گار رہا۔ ملک محبوب احمد صاحب کے والد صاحب، بھائی اور دیگر عزیزوں نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا اور دعوت کے لیے بکرا ذبح کیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد ملک صاحب مرحوم نے خاکسار کو دفتر میں بلا کر کہا کہ انصاراللہ کے دفتر سے پٹرول کا بل آیا ہے حسب وعدہ اس کی ادائیگی کا انتظام کریں۔ جامعہ کے دوران اس دور میں معمولی وظیفہ اور حالات کے پیش نظر خاکسار کی کوشش کے باوجود رقم کا انتظام نہ ہو سکا۔ تقریبا ًایک ماہ کے وقفہ سے انصار اللہ والوں نے پھر رقم کا مطالبہ کیا۔ مکرم ملک صاحب نے خاکسار کو دوبارہ طلب کیا اور انصار اللہ کا بل ادا کرنے کا کہا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے کوشش کی ہے لیکن رقم کا انتظام نہیں ہو سکا جس پر آپ نےفرمایا کہ آجکل میرے مالی حالات بھی اتنے اچھے نہیں بہرحال ٹھیک ہے۔ خاکسار کو علم نہیں کہ بعد میں حضرت ملک صاحب مرحوم نے وہ رقم کب اور کیسے ادا کی لیکن بعد میں کبھی اس کا ذکر نہ کیا۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران خاکسار کی بائیں آنکھ میں زخم کی طرح کی کوئی چیز نمودار ہونی شروع ہو گئی جس کے باعث خاکسار کو تشویش لاحق ہوئی۔ خاکسار نے مکرم ملک صاحب مرحوم سے فضل عمر ہسپتال بھجوانے کی درخواست کی۔ مکرم ملک صاحب مرحوم نے خاکسار کو دفتر میں حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا اور ایک خط دے کر فرمایا کہ سرگودھا میں آنکھوں کے اس معالج کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ خاکسار سرگودھا میں اس معالج کے پاس چلا گیا۔ مکرم ملک صاحب مرحوم کا خط دیکھ کر وہ بہت شفقت سے پیش آئے۔ خاکسار کو علم نہیں کہ وہ معالج احمدی تھے یا نہیں لیکن بڑے نفیس اور وضع دار انسان تھے۔ بہر حال آنکھوں کا معائنہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ یہ ناخونہ کی ابتدا ہے چنانچہ انہوں نے ایک آئی ڈراپس دیا کہ یہ استعمال کریں امیدہےکہ یہ ادھر ہی رک جائے گا لیکن اگر مزید پھیلا تو پھر دیکھیں گے۔ انہوں نے نہ تو خاکسار سے کوئی فیس لی اور نہ ڈراپس کی رقم۔ خاکسار کو علم نہیں کہ حضرت ملک صاحب مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کے نام خط میں کیا لکھا تھا بہرحال خاکسار نے وہ ڈراپس کچھ عرصہ استعمال کیے۔ الحمدللہ کہ آج بھی ناخونہ کا نشان اتنا ہی ہے لیکن اس کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران ایک روز ربوہ میں طوفانی بارش ہوئی۔ ہر طرف پانی اور کیچڑ تھا اس لیے اکثر طلباء جامعہ نہ گئے بلکہ ہاسٹل میں اپنے کمروں میں آرام کرتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جامعہ کے دو کارکن میجر نذیر صاحب اور سلیم صاحب نے آکر ملک صاحب کا پیغام دیا کہ تمام طلباء جامعہ پہنچیں۔ چنانچہ طلباء تیار ہو کر جامعہ پہنچے۔ ملک صاحب مرحوم نے اسمبلی ہال میں سب کو اکٹھا ہونے کا ارشاد فرمایا اور تمام طلباء کے آنے پر مختصر خطاب میں فرمایا کہ میں ستر سالہ بوڑھا آدمی ہوں اگر میں سائیکل پر اپنے گھر سے آ سکتا ہوں تو آپ نوجوان ہوسٹل سے کیوں نہیں آسکے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جس مقصد کے لیے آپ نے زندگی وقف کی ہے اس میں تو شاید آپ کو دریا عبور کرنے پڑیں یا برف پوش پہاڑ سر کرنے پڑیں۔ اگر آپ اس معمولی بارش سے ڈر گئے تو میدان عمل میں کیسے کامیاب ہوںگے۔ پھر ہم سب کو اپنی اپنی کلاسوں میں جانے کا ارشاد فرمایا۔

حضرت ملک صاحب مرحوم طلباء کے لباس پر بھی بڑی توجہ دیتے تھے۔ کلاسز کے آغاز سے قبل صبح جامعہ گراؤنڈ میں اسمبلی اور حاضری ہوتی تھی جس کی نگرانی مکرم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم کرتے تھےاور اس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا کرتا تھا۔ ہر کلاس کے طلباء قطار بنا کر کلاس روم میں جاتے تھے۔ اکثر اوقات ملک صاحب مرحوم سامنے کھڑے ہو کر ہر طالب علم کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے اور اگر کسی کے لباس میں کمی ہوتی تو توجہ دلاتے حتی کہ اگر کسی کے جوتے کا تسمہ کھلا ہوتا تو اسے بھی قطار سے باہر نکال کر تسمہ باندھنے کا کہتے۔ بعض اوقات تاخیر سے آنے والے طلباء کو اسمبلی گراؤنڈ سے پہلے روک لیتے اور بعد میں سزا کے طور پر بھاگ کر جامعہ گراؤنڈ کا چکر لگانے کو کہتے۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران خاکسار نے ایک پُر کیف خواب دیکھا۔ خواب سے بیدار ہو کر خاکسار نے یہ خواب بعینہ حضرت ملک صاحب مرحوم کی خدمت میںلکھ دیا۔ کافی دنوں کے بعد ملک صاحب مرحوم نے خاکسار سے فرمایا کہ چھٹی کے بعد مجھے مل کر جانا چنانچہ خاکسار حاضر ہوا تو خواب کے حوالہ سے بعض نصائح فرمائیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔

جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران خاکسار اور خاکسار کے دوست ملک محبوب احمد صاحب نے جامعہ میں منعقدہ مشاعرہ میں حصہ لیا اور اپنی غزل پیش کرنے کی سعادت پائی۔ یہ خاکسا ر کی پہلی غزل تھی۔ مجلس علمی جامعہ کی طرف سے اس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر

چشم مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے

ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا

کا دوسرا مصرعہ بطور طرح دیا گیا تھا۔

چنانچہ خاکسار کی غزل کو بہت پذیرائی ملی۔ اور حاضرین نے دل کھول کر داد دی۔ ان داد دینے والوں میں حضرت ملک صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد خاکسار نے آپ کی خدمت میں خط لکھا کہ خاکسار اپنی شاعری میں ساجد تخلص رکھنا چاہتا ہے نیز دعا کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن خیال رکھنا ایسا نہ ہو کہ آپ کی شاعری میدان عمل میں آپ کے کاموں میں روک بنے۔ الحمدللہ کہ حضرت ملک سیف الرحمان صاحب مرحوم کی وہ دعا اس رنگ میں پوری ہوئی کہ آج تک اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی میری شاعری کو میرے جماعتی کاموں میں روک نہیں بننے دیا۔ فالحمدللہ علی ذالک۔

جامعہ میں تعلیم کے دوران آخری سال میں ہماری کلاس قدرے مختصر تھی اور صرف 13؍ طلباء پرمشتمل تھی۔ حضرت ملک صاحب مرحوم ہماری کلاس کے طلباء سے بہت شفقت فرماتے تھے جن میں سے برادران مکرم منیر جاوید صاحب(پرائیویٹ سیکرٹری) مکرم عبدالماجد طاہرصاحب(ایڈیشنل وکیل التبشیر) اورملک محبوب احمد صاحب کو تخصص کرنے کے بعد کچھ عرصہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھانے کی توفیق ملی۔ حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقتوں کی وجہ سے بعض دیگر کلاسوں کے طلباء ہماری کلاس کو ’شہزادوں کی کلاس‘ کہہ کر بلاتے تھے۔

ایک موقع پر ہم نے لالیاں کے قریب جنگل میں جسے غالباً ’چک بہادر‘ کہا جاتا تھا پکنک کا پروگرام بنایا اور اس میں شمولیت کے لیے حضرت ملک صاحب مرحوم کو بھی مدعو کیا۔ آپ نے ہماری دعوت کو بخوشی قبول کیا۔ ہم سب تو سائیکلوں پر لالیاں جنگل تک چلے گئے لیکن ملک صاحب مرحوم کے لیے ہم نےمنڈی (دارالرحمت)کے ایک دوست بابر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنی جیپ پر محترم ملک صاحب مرحوم کو لے آئیں۔ انہوں نے ہماری درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس کا انتظام کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ پکنک کے اختتام پر شام کو حضرت ملک صاحب مرحوم کو لینے کے لیے موصوف دوبارہ تشریف لائے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔

محترم ملک صاحب نے اس پکنک میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ بہت خوش نظر آتے تھے۔ ہم نے وہیں پر سالن تیار کیا اور لالیاں سے ایک تنور سے روٹیاں لگوائیں۔ ملک صاحب مرحوم نے وہیں ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ وہاں جنگل میں ہی ایک چھوٹا سا برساتی نالا بہتا تھا جس کی وجہ سے چھوٹے سے تالاب کی شکل میں پانی جمع رہتا تھا۔ اس میں مچھلیاں ہوتی تھیں۔ہم وہاں مچھلی کا شکار کرتے رہے اور ملک صاحب نے شام تک ہمارے ساتھ رہ کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ ایک بہت یاد گار پکنک تھی۔

جب ہم جامعہ کے آخری سال میں تھے تو جامعہ کی سالانہ کھیلوں کے انتظامات ہماری کلاس کے سپرد تھے۔ برادرم مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب مبلغ ڈنمارک کمیٹی کے انچارج تھے۔ ہم نے جامعہ بلڈنگ سے ہوسٹل کی طرف جانے والے راستہ اور جامعہ گراؤنڈ کے داخلی راستہ پر ایک گیٹ تیار کیا اور خاکسار اور برادرم ارشاد ملہی صاحب مبلغ امریکہ شام کے وقت چنیوٹ سے گلاب کے پھولوں کی تازہ پتیاں لے کر آئے جنہیں گیٹ کے درمیان جھنڈے میں لپیٹ دیا۔ اگلی صبح محترم ملک صاحب کھیلوں کے افتتاح کے لیے تشریف لائے اور جھنڈا لہرایا تو گلاب کی پتیاں آپ پر نچھاور ہوئیں۔ آپ نے اس نئی روایت کو بہت سراہا اور بہت محظوظ ہوئے کہ جامعہ میں ایسا طریق پہلی مرتبہ اختیار کیا گیا ہے۔

جامعہ کے آخری سال شاہد کلاس میں امتحانات کے بعد فراغت ہوتی تھی پھر بھی جامعہ میں حاضری ضروری ہوتی اور روزانہ کی ڈائری بھی لکھنی ہوتی تھی۔ڈائری سے یاد آیا کہ ایک روز محترم برادرم محمد الیاس منیر صاحب اسیر راہ مولا حال مبلغ جرمنی نے ڈائری میں غالب کا یہ شعر لکھا کہ

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے

دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

اس کے نیچے حضرت ملک صاحب مرحوم نے لکھا ’’ تماشا ہونے والا ہے کچھ دیر انتظار کریں۔‘‘

ایک دفعہ ہمارے کلاس انچارج مولانا مرزا نصیر صاحب کہیں گئے ہوئے تھے۔ فارغ وقت دیکھ کر خاکسار، ارشاد ملہی صاحب اور عبدالباسط صاحب آف انڈونیشیا چائے پینے کے لیے جامعہ کی کینٹین پر چلے گئے۔ اسی دوران ملک صاحب مرحوم ہماری کلاس میں تشریف لائے اور ہمیں غیر حاضرپا کر ہم تینوں کو پچاس پچاس روپے جرمانہ اور دس دن صبح کی نمازمسجد مبارک میں ادا کرنے کی سزا دی گئی۔ نمازوں کے بارے میں تو علم نہیں کہ کتنی مسجد مبارک میں ادا کیں لیکن جرمانے کی رقم ادا نہ کی۔

ہوا کچھ یوں کہ کچھ دنوں کے بعد برادرم مکرم عبدالباسط صاحب کی انڈونیشیا کے لیے روانگی تھی۔ ہم انہیں الوداع کہنے کے لیے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ محترم ملک صاحب مرحوم بھی وہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر مکرم عبدالباسط صاحب نے ملک صاحب سے درخواست کی کہ انہیں جو جرمانہ کیا گیا تھا چونکہ وہ ادا نہیں کرسکے اس لیے وہ معاف کر دیں۔ ملک صاحب مرحوم نے مسکرا کر فرمایا ٹھیک ہے۔ اس پر مکرم عبدالباسط صاحب نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ قریشی داؤد احمد اور ارشاد ملہی کا جرمانہ بھی معاف کر دیں۔ چنانچہ ملک صاحب نے از راہ شفقت ہمارا جرمانہ بھی معاف کر دیا۔ اس کے بعد ہم تین طلباء خاکسار، برادرم ارشاد ملہی صاحب اور برادرم مکرم ظفر احمد ناصر صاحب نے ملک صاحب سے اجازت طلب کی کہ ہم مکرم عبدالباسط صاحب کو الوداع کہنے کے لیے شیخوپورہ تک جانا چاہتے ہیں۔ آپ نے از راہ شفقت اس کی بھی اجازت دے دی۔ چنانچہ ہم تینوں شیخوپورہ تک ٹرین پر مکرم عبدالباسط صاحب کے ساتھ گئے اور وہاں سے بذریعہ بس رات کو واپس آ گئے۔

جامعہ احمدیہ کی روایات کے پیش نظر جامعہ ہوسٹل میں ہماری کلاس کی الوداعی دعوت ہوئی جس میں ملک صاحب مرحوم نے بھی شرکت کی ایک جونیئر طالبعلم نے الوداعی تقریر کی جس کے بعد کلاس سیکرٹری کے طور پر خاکسار نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی ایک غزل کے چند اشعار پیش کیے جنہیں دیگر احباب کے علاوہ ملک صاحب مرحوم نے بھی بہت پسند کیا اور داد دی ان میں سے دو اشعار یوں ہیں۔

وصل کا عہد رہا تجھ سے جدا ہونے تک

دل بھی آ پہنچا تیری یاد میں اب رونے تک

جب سے یہ علم ہوا اب کہ جدا ہوتے ہیں

سحر ہو جاتی ہے اکثر ہی مجھے سونے تک

چند روز کے بعد جماعت کے ایک بزرگ ہماری کلاس میں لیکچر دینے تشریف لائے۔ خاکسار سارے لیکچر کے دوران پچھلی سیٹ پر سویا رہا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے برادرم مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب نے کہا کہ آپ کا شعر کہ

سحر ہوجاتی ہے اکثر ہی مجھے سونے تک

تو چند روز قبل سنا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ بھی آج دیکھ لیا ہے۔

حضرت ملک صاحب مرحوم کی شفقتوں کے ضمن میں بھی کچھ یوں عرض کیا تھا۔

تیری شفقت کے سہارے دن کٹے تھے عیش میں

ان بہاروں کے نظارے خون گرمانے لگے

بوستاں میں بہت گھومے اور عنادل سے ملے

اب چمن کو چھوڑ کر اے باغباں جانے لگے

جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونےکے بعد بھی آپ سے مسلسل رابطہ رہا۔

خاکسار کا پہلا تقرر عنایت پور بھٹیاں ضلع جھنگ میں ہوا۔ رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں نماز تراویح کی ادائیگی کے بعد نماز وتر ادا کرتے تو ایک فیملی کے دو افراد دو وتروں کی ادائیگی کے بعد اونچی آواز میں دعا کی درخواست کرتے کہ احباب ہمارے لیے دعا کریں لیکن خاکسار کو اچھا نہ لگتا اور اس بارے میں انقباض تھا۔ رمضان المبارک کے بعد عید کی نماز ادا کی اور ربوہ آیا۔ اگلے روز مکرم ملک صاحب مرحوم کی خدمت میں سلام عرض کرنے حاضر ہوا۔ آپ نے حسب روایت کھانے کے لیے کچھ پیش کیا۔ خاکسار نے موقع غنیمت جان کر وتر کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ بہتر طریق یہ ہے کہ دو رکعت ادا کرنے کے بعد خاموشی سے تیسری رکعت ادا کی جائے اس دوران بولنا نہیں چاہیے۔

بعد میں دوران مطالعہ وتروں کی ادائیگی کے بارے میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد بھی پڑھا جس میں آپؑ نے فرمایا ہے کہ

’’ ایک طریق کہ جس طرح حنفی پڑھتے ہیں اور دوسرا طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اورایک رکعت چپکے سے اٹھ کر پڑھ لے۔‘‘

(تذکرۃ المہدی صفحہ 116)

کچھ عرصہ کے بعد حضرت ملک صاحب مرحوم مستقل طور پر کینیڈا تشریف لے گئے جس کے بعد ان سے ملاقات نہ ہوئی۔

آپ کی بیماری کی تشویش پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں التجا کی جس میں حضور رحمہ اللہ کی ملک صاحب مرحوم کے لیے محبت اور پیار کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔؎

یہ شجر خزاں رسیدہ مجھے ہے عزیز یا رب

یہ اِک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ملک صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔آپ کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button