بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 8)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مورخہ 13؍دسمبر2020ء میں آنحضورﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف روایات پر غور و خوض فرمانے اور اس بارے میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ملاحظہ فرمانے کے بعد اس مسئلہ پر رہ نمائی فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضورانورنےفرمایا:

جواب: آنحضورﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کےو قت حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں تاریخ و سیرت اور تفسیر و حدیث کی کتب میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ کے ساتھ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر6؍سال سے لےکر16؍سال اور رخصتی کے وقت9؍سال سے 19؍سال تک لکھی گئی ہے۔

اگرچہ صحاح ستہ کی روایات جن میں صحیح بخاری کی روایات بھی شامل ہیں، میں حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت چھ سال اور شادی کے وقت نو سال بیان ہوئی ہے۔ لیکن اگر ان روایات کو درایت و روایت کے اصولوں پر پرکھا جائے تو حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارہ میں مروی یہ روایات ثقاہت کے معیار سے نیچی ٹھہرتی ہیں۔

اس حوالہ سے صحاح ستہ میں بیان21؍روایات میں سے 14؍روایات ہشام بن عروہ سے مروی ہیں اور باقی روایات ابو عبیدہ، ابو سلمہ اور اسود سے مروی ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ تاریخ و سیرت کے اس نہایت مشہور اور اہم واقعہ کو کسی جلیل القدر صحابی نے بیان نہیں کیا۔

حضرت عائشہؓ کی کم عمری میں شادی سے متعلق روایت پہلی بار 185ہجری میں منظر عام پر آئی جبکہ اس مضمون کی اکثر روایات کے روای ہشام اور عروہ کو وفات پائے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ مزید یہ کہ ہشام بن عروہ جن کی زندگی کا زیادہ عرصہ مدینہ میں گزرا،اورمدینہ کے نامور محدث، امام مالکؒ ان(ہشام بن عروہ) کے ایک مایہ ناز شاگرد تھے، اس کےباوجود آپ کی تالیف کردہ کتاب موطا امام مالک میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں ہشام بن عروہ جبکہ نابینا ہو چکے تھے، حافظہ کمزور ہو گیا تھا، (جرح و تعدیل کے ماہرین کے مطابق) انہیں وہم اور نسیان کے امراض لاحق ہو چکے تھے اس وقت جب وہ کوفہ چلے گئے تو وہاں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ روایت بیان کی اور جس شخص سے روایت بیان کی اس نے بھی ان کی وفات کے بعد قریباً چالیس سال کا مزید انتظار کیا اور پھر اس روایت کی بیان کیا تا کہ کسی قسم کی تائید و تردید کا سوال ہی نہ اٹھ سکے۔

پس مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام کا یہ روایت بیان نہ کرنا اور ان کی وفات کے کئی سال بعد تالیف ہونے والی کتاب میں اس کا بیان اس روایت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ امکان ہے کہ خاندان اہل بیت اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہؓ کے کردار کو نشانہ بنانے کی خاطر یہ روایت گھڑی گئی ہو۔ تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ زوجہ مطہرہ جس کے بارے میں حضورﷺ کا فرمان تھا کہ اس سے دین سیکھو، اس کی حضورﷺ سے کم عمری میں شادی جبکہ وہ ابھی سہیلیوں اور گڑیوں سے کھیلتی تھیں نیز ابھی وہ اپنے بچپن میں ہی تھیں کہ حضورﷺ کی وفات ہو گئی، اس سے کیا دین سیکھا جا سکتا ہے؟

پھر صحیح بخاری جس میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں، خود اس کے اندر حضرت عائشہؓ کے نکاح کے بارے میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تین سال بعد حضورﷺ نے مجھ سے شادی کی۔ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہؓ حضورﷺ کے مدینہ جانے سے تین سال پہلے فوت ہوئیں۔ پھر حضورﷺ دو برس یا اس کے قریب قریب ٹھہرے اور پھر حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا۔

پس باوجود اس کے کہ احادیث جمع کرنے والوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیا ہے لیکن پھر بھی اس میں غلطی اور ظن کا پہلو بہرحال موجود ہے کیونکہ یہ کام حضورﷺ کی وفات کے قریباً ڈیڑھ دو سو سال بعدشروع ہوا جبکہ مسلمانوں کے کئی فرقے بن چکے تھے اور کئی قسم کے اختلافات ان میں پیدا ہو چکے تھے۔ چنانچہ اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیگر معاملات کی اصلاح کی طرح اس مسئلہ کا بھی نہایت احسن انداز میں حل فرمایا۔ حضورؑ فرماتے ہیں :

’’گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے بر خلاف، آنحضرتﷺ کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا۔ گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 472،471ایڈیشن 1984ء)

حضرت عائشہؓ کی عمر کے مسئلہ کا جب ہم ایک دوسرے زاویہ سےجائزہ لیتے ہیں تو تاریخ و سیرت کی کتب میں ہمیں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی چاروں اولاد (حضرت عبداللہ، حضرت اسماء، حضرت عبدالرحمٰن اور حضرت عائشہ )حضورﷺ کی بعثت سے قبل پیدا ہو چکے تھے اور سیرت نگاروں کی مرتب کردہ ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں حضرت عائشہؓ کا نام بھی شامل ہے، اگر حضرت عائشہؓ کی پیدائش نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی تھی تو آپ کا نام ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں کیسے شامل ہو گیا؟

مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماءؓ حضرت عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں اور ہجرت کے وقت حضرت اسماءؓ کی عمر 27؍سال تھی۔ اس حساب سے بھی حضرت عائشہؓ کا سن پیدائش 4قبل نبوت بنتا ہے۔ اور اگر آپ کا نکاح ہجرت سے تین سال قبل ہوا تھا تو اس وقت آپ کی عمر 14؍سال بنتی ہے۔

غزوہ احد جو کہ 2 ہجری میں ہوا اس کے بارے میں صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ اور حضرت ام سلیمؓ پانی کی مشکیں اپنی پیٹھوں پر لاد کر لا تیں اور لوگوں کو پانی پلاتی تھیں۔ اگر حضرت عائشہؓ کی عمر اتنی ہی چھوٹی تھی کہ وہ ایک کم سن بچی تھیں تو وہ اپنی پیٹھ پر پانی سے بھری مشکیں لاد کر کس طرح دوڑدوڑ کر میدان جنگ میں زخمیوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی سرانجام دے سکتی ہیں۔ پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ 2ہجری میں آپ کی عمر اتنی بہرحال تھی کہ آپ میدان جنگ میں اس قسم کا بھاری کام کر سکتی تھیں۔

تاریخ کی کتب میں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ حضرت عائشہؓ کی آنحضورﷺ سے شادی سے پہلے جبیربنمطعمسے منگنی ہوئی تھی۔ اس وقت میں آپ کی منگنی کا ہونا بتاتا ہے کہ آپ کی عمر چھ سال نہیں تھی، خصوصاً اس لیے بھی کہ جب حضورﷺ کی طرف سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو حضرت عائشہؓ کےلیے رشتہ کا پیغام ملا تو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جبیر بن مطعم سے حضرت عائشہؓ کی رخصتی لینے کے بارے میں دریافت کیا۔ اس طرف سے انکار پر وہ رشتہ ختم ہو گیا اور پھر حضورﷺ سے حضرت عائشہؓ کا نکاح عمل میں آیا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ کا جبیر بن مطعم سے رخصتی کا کہنا ثابت کرتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر اس وقت چھ سال ہر گز نہیں تھی بلکہ آپ اس وقت بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے محققانہ انداز کے مطابق حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارہ میں مروی روایات کا بنظر غور جائزہ لینے کے بعد جو نتیجہ نکالا ہے اس کے مطابق آپ نے شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر تیرہ چودہ سال قرار دی ہے اور یہی درست عمر ہے۔ اس لحاظ سے آنحضورﷺ کی وفات کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اکیس بائیس سال بنتی ہےجو دینی علم کے حصول کی تکمیل اور آگے لوگوں کو تعلیم دینے کی بہترین عمر بنتی ہے۔

اس زمانہ کے حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عائشہؓ کی آنحضورﷺ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی نو برس عمر کے متعلق روایات کو کلیۃً ردّ فرما یا ہے۔ چنانچہ ایک معانداسلام پادری فتح مسیح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اول تو نو برس کا ذکر آنحضرتﷺ کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ ‘‘

(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 377)

اسی طرح ایک اور جگہ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں :

’’حضرت عائشہؓ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سرو پا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں۔ ‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 64)

پس خلاصہ کلام یہ کہ ایسی تمام روایات جن میں شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال بیان ہوئی ہے محل نظر ہیں۔ ان روایات میں یا تو راویوں کو سہو ہوا ہے یا بعد میں آنے والے راویوں نے اپنی طرف سے ان میں اضافہ کر دیا ہے۔ تاریخ و سیرت کی کتب پر غور کرنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی شادی کے وقت ایک معقول عمر تھی، جس عمر میں قریش عموماً اپنی بچیوں کی شادیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شادی اس وقت عرب کے ماحول میں نہ تو کوئی خاص قابل ذکر استثنا لیے ہوئے تھی اور نہ ہی ایسی قابل اعتراض کیفیت اس میں تھی کہ منافقین و کفار اس پر اعتراض یا طعن و تشنیع یا حیرت و استعجاب کی انگلی اٹھاتے۔

سوال:اسی طرح ایک اور مسئلہ کہ’’ اگر امام کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو کس طرح نماز پڑھنی چاہیے ؟‘‘کے بارے میں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رہ نمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جواب: احادیث میں اس بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ حضورﷺ کے اسوہ کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ سے مروی احادیث میں ذکر ہے کہ حضورﷺ اپنے اوائل زمانہ میں ایک مرتبہ گھوڑے سے گر گئے اور حضورﷺ نے نماز بیٹھ کر پڑھائی، صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپﷺ نے انہیں اشارہ سے بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا اور نماز کے بعد انہیں فرمایا کہ امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے پس جس طرح وہ نماز پڑھے اسی طرح تم نماز پڑھو۔

لیکن حضورﷺ کی آخری بیماری میں جس میں آپ کا وصال ہوا، آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ کو نماز کی امامت کا ارشاد فرمایا اور پھرجب حضورﷺ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تو آپ نماز کےلیے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکرؓ کے بائیں جانب بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت ابو بکرؓ اس نماز میں حضورﷺ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکرؓ کی اقتدا کر رہے تھے۔

دراصل لوگ بھی حضورﷺ کی ہی اقتدا کر رہے تھے۔ لیکن علالت کی وجہ سے حضورﷺ چونکہ بلند آواز میں تکبیر وغیرہ نہیں کہہ پا رہے تھے، اس لیے حضرت ابوبکرؓ مکبر کے طور پر حضورﷺ کی آواز آگے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔

یہاں یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضورﷺ کا حضرت ابو بکرؓ کے بائیں طرف بیٹھنا بتاتا ہے کہ حضورﷺ اس نماز میں امام تھے، کیونکہ امام بائیں طرف ہوتا ہے اور مقتدی دائیں طرف۔ چنانچہ اس بارےمیں بھی ہمیں حضورﷺ کی سنت ملتی ہے کہ ایک موقع پر جب کہ حضورﷺ تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے تو حضرت ابن عباسؓ بعد میں نماز میں شامل ہو کر آپﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہو گئے تو حضورﷺ نے انہیں سر سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کر لیا۔

حضرت امام بخاری نے اپنے استاد حمیدی کا اس بارے میں قول درج کیا ہے کہ حضورﷺ کا پہلا ارشاد یہی تھا کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں۔ لیکن بعد میں حضورﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور آپ کی اقتدا میں صحابہ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا ارشاد نہیں فرمایا۔ اور چونکہ حضورﷺ کے آخری فعل سے سند لی جاتی ہے اور حضورﷺ کا آخری فعل یہی ہے کہ اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں :

’’چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے۔ اس لئے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا۔ اسی طرح نماز بھی کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا۔ رسول کریمﷺ کا ابتداء میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں لیکن بعدمیں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نما زپڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہو کر ہی نما زادا کریں۔ پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نما زنہیں پڑھا سکتا اس لئے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہو کر نما زادا کریں۔ ‘‘

(روز نامہ الفضل لاہور03؍جولائی 1951ء صفحہ 3)

پس اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔

سوال:ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صحیح بخاری کی شرح میں عورتوں کے بھی مردوں کی طرح نماز باجماعت کےلیے مسجد میں ا ٓنے کو فرض قرار دیا ہے۔ حضور بھی خواتین کو اس طرف توجہ دلائیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍نومبر 2018ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اپنی اس شرح میں سورۃ الاحزاب کی آیت وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ سے عورتوں کےلیے مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ ان کی ذوقی تشریح ہے جو اسلام کے چودہ سو سالہ تعامل، احادیث نبویہﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تشریحات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قیام نماز کی مختلف تشریحات بیان فرمائی ہیں جن میں مسجد میں پانچ وقت حاضر ہو کر نماز باجماعت ادا کرنا بھی شامل ہے لیکن یہ تشریح صرف مردوں کےلیے ہے۔ عورتوں کےلیے قیام نماز کا مطلب اپنے گھروں میں وقت مقررہ پر پانچ نمازوں کو کامل شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ لیکن اگر کوئی خاتون مسجد میں آ کر ان نمازوں کی ادائیگی کرنا چاہے تو اسلام نے اسے منع بھی نہیں کیا جیسا کہ عہد نبویﷺ میں خواتین مساجد میں آکر نمازیں ادا کیا کرتی تھیں۔ لیکن حضورﷺ نے خواتین کےلیے زیادہ یہی پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ان نمازوں کی ادائیگی کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :

صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ)

یعنی عورت کی نماز اپنے کمرے میں اپنے گھر سے بہتر ہے اور اپنی کوٹھڑی میں اس کی نماز اپنے کمرہ میں نماز سے بہتر ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:

لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان)

یعنی اگر نبی کریمﷺ کے سامنے یہ صورت حال ہوتی جو عورتوں نےاب نئی پیدا کرلی ہے تو آپؐ ان کو مسجد آنے سے ضرور روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیاگیا تھا۔

پس احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کےلیے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں بھی صحن یا کھلی جگہ جہاں پر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے وہاں وہ نماز نہ پڑھے۔ گویا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھے۔ کجایہ کہ اسے یہ کہا جائے کہ مسجد میں جاکے نماز پڑھو۔ اس لیے عورت کےلیے گھر میں نماز پڑھنا بہر حال بہتر ہےاور اس کےلیے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔

اُس زمانہ میں چونکہ عورتیں مردوں کے پیچھے نماز پڑھتی تھیں۔ مرد آگے ہوتے تھے۔ اور ان کےلیے آجکل کی طرح باقاعدہ کوئی Enclosureتو ہوتا نہیں تھا اس لیے ہوسکتا ہے کہ مرد آتے جاتے عورتوں کو دیکھ لیتے ہوں تو اس وجہ سے بھی انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ اس صورت میں ایسی احادیث اگر چہ اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں لیکن آجکل بھی عورتوں کےلیے بہتر یہی ہے کہ وہ مسجدوں میں جانے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔ کیونکہ پہلے بیان کردہ دو احادیث واضح طور پر اس کی تائید کرتی ہیں کہ عورتیں گھروں میں نماز پڑھیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button