نماز

عورتوں کےلیے قیامِ نماز کا مطلب اپنے گھروں میں وقت مقررہ پر پانچ نمازوں کو کامل شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے

سوال:ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے صحیح بخاری کی شرح میں عورتوں کے بھی مردوں کی طرح نماز باجماعت کےلیے مسجد میں ا ٓنے کو فرض قرار دیا ہے۔ حضور بھی خواتین کو اس طرف توجہ دلائیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍نومبر 2018ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اپنی اس شرح میں سورۃ الاحزاب کی آیت وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ سے عورتوں کےلیے مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ ان کی ذوقی تشریح ہے جو اسلام کے چودہ سو سالہ تعامل، احادیث نبویہﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تشریحات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قیام نماز کی مختلف تشریحات بیان فرمائی ہیں جن میں مسجد میں پانچ وقت حاضر ہو کر نماز باجماعت ادا کرنا بھی شامل ہے لیکن یہ تشریح صرف مردوں کےلیے ہے۔ عورتوں کےلیے قیام نماز کا مطلب اپنے گھروں میں وقت مقررہ پر پانچ نمازوں کو کامل شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ لیکن اگر کوئی خاتون مسجد میں آ کر ان نمازوں کی ادائیگی کرنا چاہے تو اسلام نے اسے منع بھی نہیں کیا جیسا کہ عہد نبویﷺ میں خواتین مساجد میں آکر نمازیں ادا کیا کرتی تھیں۔ لیکن حضورﷺ نے خواتین کےلیے زیادہ یہی پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ان نمازوں کی ادائیگی کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :

صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ)

یعنی عورت کی نماز اپنے کمرے میں اپنے گھر سے بہتر ہے اور اپنی کوٹھڑی میں اس کی نماز اپنے کمرہ میں نماز سے بہتر ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:

لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان)

یعنی اگر نبی کریمﷺ کے سامنے یہ صورت حال ہوتی جو عورتوں نےاب نئی پیدا کرلی ہے تو آپؐ ان کو مسجد آنے سے ضرور روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیاگیا تھا۔

پس احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کےلیے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں بھی صحن یا کھلی جگہ جہاں پر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے وہاں وہ نماز نہ پڑھے۔ گویا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھے۔ کجایہ کہ اسے یہ کہا جائے کہ مسجد میں جاکے نماز پڑھو۔ اس لیے عورت کےلیے گھر میں نماز پڑھنا بہر حال بہتر ہےاور اس کےلیے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔

اُس زمانہ میں چونکہ عورتیں مردوں کے پیچھے نماز پڑھتی تھیں۔ مرد آگے ہوتے تھے۔ اور ان کےلیے آجکل کی طرح باقاعدہ کوئی Enclosureتو ہوتا نہیں تھا اس لیے ہوسکتا ہے کہ مرد آتے جاتے عورتوں کو دیکھ لیتے ہوں تو اس وجہ سے بھی انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ اس صورت میں ایسی احادیث اگر چہ اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں لیکن آجکل بھی عورتوں کےلیے بہتر یہی ہے کہ وہ مسجدوں میں جانے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔ کیونکہ پہلے بیان کردہ دو احادیث واضح طور پر اس کی تائید کرتی ہیں کہ عورتیں گھروں میں نماز پڑھیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button