کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰى کی لطیف تفسیر

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت آپ سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ ارشاد ہوا

اَوَلَمْ تُـؤْمِنْ(البقرۃ:261)

کیا تو اس پر ایمان نہیں لاتا؟ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا یہی جواب دیا بَلٰی۔ ہاں میں ایمان لاتا ہوں مگر اطمینانِ قلب چاہتا ہوں۔ لیکن آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا سوال نہ کیا اور نہ ایسا جواب دینے کی ضرورت پڑی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے ہی سے ایمان کے انتہائی مرتبہ اطمینان اور عرفان پر پہنچے ہوئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ اَدَبِیْ۔

تو یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے۔ ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی ایک خوبی اس سے پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا کہ

اَوَلَمْ تُـؤْمِنْ

تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس پر ایمان نہیں رکھتا بلکہ یہ کہا کہ ایمان تورکھتا ہوں، مگر اطمینان چاہتا ہوں۔

پس جب ایک شخص ایک شرطی اقتراح پیش کرے اور پھر یہ کہے کہ میں اطمینانِ قلب چاہتا ہوں۔ تو وہ اس سے استدلال نہیں کرسکتا۔ کیونکہ شرطی اقتراح پیش کرنے والا تو ادنیٰ درجہ بھی ایمان کا نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب[سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ فقرہ یوں ہونا چاہیے ’’بلکہ وہ تو ایمان اور تکذیب کے درمیانی مقام پر ہے۔‘‘لفظ ’’درمیانی ‘‘ چھوٹا ہوامعلوم ہوتا ہے۔ (مرتب)] کے مقام پر ہے اور تسلیم کرنے کو مشروط بہ اقتراح کرتا ہے۔ پھر وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ میں ابراہیمؑ کی طرح اطمینانِ قلب چاہتا ہوں۔ ابراہیمؑ نے تو ترقیٔ ایمان چاہی ہے انکار نہیں کیا اور پھر اقتراح بھی نہیں کیا بلکہ احیاء موتیٰ کی کیفیت پوچھی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ اس مُردہ کو زندہ کرکے دکھا یا یُوں کر اور پھر اس کا جواب جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے وہ بھی عجیب اور لطیف ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو چار جانور لے ان کو اپنے ساتھ ہلالے۔ یہ غلطی ہے جو کہا جاتا ہے کہ ذبح کر لے کیونکہ اس میں ذبح کرنے کا لفظ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہلالے جیسے لوگ بٹیر یا تیتر یا بلبل کو پالتے ہیں اور اپنے ساتھ ہلالیتے ہیں پھر وہ اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں اور اُ س کے بلانے پر آجاتے ہیں۔ اس طرح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو احیاء اموات سے انکار نہ تھا بلکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مُردے خدا کی آواز کس طرح سنتے ہیں اس سے انہوں نے سمجھ لیا کہ ہر چیز طبعاً اور فطرتاً اللہ تعالیٰ کی مطیع اور تابع فرمان ہے۔ …

سب انبیاءؑ کے وصفی نام آنحضرتؐ کو دیئے گئے

…میں قرآن شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ کے جامع تھے۔ اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے۔ قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے چنانچہ فرمایا

فِیْھَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینۃ:4)

اور

مَا فَرَّطْنَا فِيْھَا(الانعام:32)۔

ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کی اقتدا کر۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ امر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک امر تو تشریعی ہوتا ہے جیسے یہ کہا کہ نماز قائم کرو یا زکوٰۃ دو وغیرہ اور بعض امر بطور خَلق ہوتے ہیں جیسے

يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِيْمَ (الانبیاء:70)۔

یہ امر جو ہے کہ تو سب کی اقتدا کر یہ بھی خلقی اور کونی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کمالات جوجمیع انبیاء علیہم السلام میں متفرق طور پر موجود تھے اس میں یکجائی طور پر موجود ہوں اور گویا اس کے ساتھ ہی وہ کمالات اور خوبیاں آپ کی ذات میں جمع ہوگئیں۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ 112۔ 114۔ ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button