یادِ رفتگاں

درویش صفت، عاجز اور شفیق بزرگ محترم محمد انور قمر صاحب کی یاد میں

(حافظ میم الف جمالی۔ مربی سلسلہ)

خاکسار کے سسر اور پھوپھامحترم محمد انور قمر صاحب ماہ ستمبر 2020ءمیں ایک ایکسیڈنٹ میں بقضائے الٰہی خدا کو پیارے ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا کچھ تعارف اور حالات زندگی بغرض دعا الفضل کے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

محمد انور قمر صاحب محترم حکیم محمد افضل صاحب کے بیٹے تھے اور آپ کا تعلق اوچ شریف ضلع بہا ول پور سے تھا۔ مرحوم چھ بھائی تھے جن میں سے بڑے بھائی مکرم محمد اکرم عمر صاحب مرحوم مربی سلسلہ تھےاور چھوٹے بھائی مکرم محمد اعظم طاہر صاحب راہ مولیٰ میں شہید ہوئے۔ اسی طرح ایک بھائی جماعتی مخالفت کی وجہ سےہجرت کر کے شہداءکے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہیں۔ اوچ شریف میں قیام کے دوران آپ کو قائد مجلس خدام الاحمدیہ اوچ شریف کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ اسی طرح 1984ء میں 22؍ دن محض للہ اسیر رہنے کی سعا دت حا صل ہوئی۔ اگست 2018ء میں شدید مخالفت کی وجہ سے اپنے آبائی شہر اوچ شریف کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہنا پڑا تو جماعتی ہدایت پر اپنا تمام کاروبار وغیرہ چھوڑ کر ربوہ منتقل ہو گئے جہاں آٹھ ماہ تک دارالضیافت میں مقیم رہنا پڑ ا پھر اس کے بعد نظام جماعت کی رہ نمائی میں ایک اور مکان میں منتقل ہوگئے۔ یہاں شکران نعمت کے طور پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مشکل اور پریشانی کے اس تمام عرصہ میں خدا تعالیٰ کی پیاری جماعت کے بابرکت نظام نے ہر طرح سے مرحوم کے خاندان کی مدد کی اور خیال رکھا۔

مرحوم رشتہ میں تو میرے پھوپھا تھے اور بعد میں ان سے خاکسار کا دامادی کا رشتہ بھی قائم ہوا تاہم وہ سسر کم اور دوست زیادہ تھے۔ خاکسار کاان سے بچپن سے ملنا جلنا تھا اور میں نے انہیں بہت سی خو بیوں کے مالک پایا۔ ہمیشہ سچ بولتے اور سچ کا ساتھ دیتے تھے چاہے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور یہ ایسی نیکی ہے جو انہیں دوسرے بہت سے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ بہت سادہ مزاج تھے۔عاجزی وانکساری ان کےمزاج کا حصہ تھا۔ کسی سے کتنی بڑی لڑائی کیوں نہ ہو جائے ایک میسج سے ہی فوراًدل صاف کر لیتے اور صلح میں پہل کرتے۔ کبھی دنیا داری سے مرعوب نہیں ہوئے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر بہت توکل تھا۔ توکل کرتے ہوئے تمام بچوں کے رشتے چھو ٹی عمر میں کر دیے۔ غریبوں کے ہمدرد تھے۔بہت کم منافع پہ کاروبار کیا اور اپنی چادر میں رہتے ہوئے گھر کے اخراجات چلائے اور بچوں کو تعلیم بھی دلوائی۔ طبیعت میں مزاح تھا لیکن مزاح میں بھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔ ہمیشہ سب کا خیال رکھتےاور اگر انجانے میں کسی کی ناراضگی کا علم ہوتا تو فوراً معذرت کرلیتے اور منا لیتے۔ اپنے دامادوں سے بیٹوں کی طرح پیار کرتے اورہر داماد یہی سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دوستوں جیسا ماحول ہوتا۔ کوئی بھی کام کرنا ہوتا تو دامادوں سے بیٹوں کی طرح مشورہ ضرور کرتے۔ پھرمہمان نوازی کی صفت بھی آپ کی ذات میں نمایاں تھی۔ حسب توفیق مہمان کی عزت و تکریم اور مہمان نوازی کرتے اور مہمان آنے پہ بہت خوشی کا اظہار کرتے۔ ہر کسی کو مخلصانہ مشورہ دیتے ۔انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ جو کوئی آپ سے ملتا آپ کے اخلاق کا معترف ہوجاتا۔

2018ءکے جلسہ سالانہ قادیان پر ہم دونوں ایک ہی دن پہنچےاورہم نے ساتھ ساتھ مارکی میں بستر لگائے۔ ان دنوں قادیان میں شدید دھند اور سردی تھی۔ خاکسار تو پہلے بھی جا چکا تھا لیکن ان کا ولولہ اور مسیح پاک کی بستی کے مقدس مقامات دیکھنے کا شوق دیدنی تھا۔ بیماری کی وجہ سے پاؤں اور ٹانگ سوجی ہوئی تھی اور چلنا مشکل تھا لیکن محبت میں سرشار ہونے کی وجہ سے اپنی تکلیف کی پروا نہ کی۔ سب سے پہلے مسجد مبارک گئے اورنوافل ادا کیے۔ بیت الدعا میں نوافل کا دو دفعہ موقع ملا، پھر بہشتی مقبرہ جا کے دعا کی اورسارے مقدس مقامات دیکھے اور بہت دعائیں کیں۔ پاؤں میں تکلیف کے باوجود روزانہ مسجدمبارک میں نوافل ادا کرتے، بہشتی مقبرہ دعا کے لیے جاتےپھر ظہر وعصر مسجد مبارک میں ادا کرتے جس کے بعد مسجد نور اور دوسرے مقدس مقامات دیکھنے چلےجاتے۔ یوں روزانہ 10کلو میٹرتک پیدل چل لیتے۔ پھر جلسہ کے ایام میں جلسہ گاہ وقت سے پہلے پہنچتے اور جلسہ کا تمام وقت آخری تقریر تک جلسہ گاہ میں رہتےاور کوئی ایک تقریر بھی ضائع نہ کرتے اور رات کو پھر تقاریر اور جلسے کی کارروائی پر تبصرہ کرتے اور لطف اندوز ہوتے۔ قادیان سے واپس آنے کا دل نہیں تھا اورکہتے تھے مجھے اسی روحانی ماحول میں رہنے دیں لیکن جماعتی نظام کی اطاعت میں اداس دل کے ساتھ واپس آئے۔

اپنی وفات سے قبل تقریباًڈیڑھ ماہ میرے پاس رہے اور جس دوران اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو ان کی خدمت کا موقع دیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انہوں نے ہماری خدمت کی۔ اس عرصہ میں مسجد میں میرے ساتھ نمازیں ادا کرتے پھر روز ایک دعا مجھ سے یاد کرتےاور یوں کافی دعائیں یاد کر لیں۔ رات کو ان دعاؤں کا ورد کرتے اور ان کا ترجمہ بھی پوچھتے۔ نماز کے بعد گھر آ کے کہتے نماز کے بعد دل کو بہت سکون ملتا ہے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے۔ بچے جس چیز کی فرمائش کرتے اسے مہیا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔

مورخہ2؍ستمبر 2020ء کی صبح نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد سیر کے لیے نکلے جہاں ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایکسیڈنٹ کے بعد جب لوگ جمع ہوئے تو بلا خوف سب کو بتایا کہ میں احمدی ہوں اور ربوہ سے میرا تعلق ہے۔ ان کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ان کے گھر نہ پہنچنے پر ہم نے ان کی تلاش شروع کی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ جب مجھے ان کے ایکسیڈنٹ کا علم ہوا تو اس وقت ایکسیڈنٹ پر سات گھنٹے گزر چکے تھے لیکن بے رحم پولیس نے میرے وہاں پہنچنے تک ڈاکٹرز کو کوئی طبی امداد نہیں دینے دی۔ جب میں وہاں پہنچا تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر موقع پر موجود پولیس والوں کوکہہ رہا تھا کہ قادیانی ہے تو کیا ہوا انسان تو ہے، ہمیں treatmentکرنے دیں۔ اس تمام عرصہ میں پانی مانگتے رہے لیکن کسی نے پانی تک نہیں پلایا۔ میں نے جاتے ہی پانی پیش کیا تو بہت پانی پیا۔ پھر پولیس نے اپنی کارروائی پوری کی جس کے بعد ڈاکٹرز کو مرہم پٹی کی اجازت دی گئی۔ ابتدائی معمولی فرسٹ ایڈ کے بعد ڈاکٹرنے مخالفت دیکھتے ہوئے ملتان نشتر ہسپتال میں ریفر کر دیا جہاں پہنچنے پرتقریباً 10 گھنٹے بعدtreatmentشروع ہوئی۔ لیکن مرحوم اس تمام تکلیف کے باوجود بہت ہمت اور حوصلہ سے مجھے تسلیاں دیتے رہے۔ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے آپ کے جسم میں خون کی بہت کمی ہو گئی تھی۔ 4بوتلیں خون کی لگیں پھر کچھ حالت بہتر ہوئی۔ مرحوم نے اس تمام تکلیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کیا اور کسی پر بوجھ نہ بنے۔ پھر خدائی تقدیر غالب آئی اور دل کا ایک والو بند ہونے اور اندرونی چوٹوں کی شدت کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکے۔ وفات کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ابتدائی طبی امداد کا بہت دیر تک نہ ملنا بھی ہے جس سے ان کو جماعتی مخالفت کی وجہ سے محروم کر دیا گیا۔ یوں ان کی وفات کے اس حادثہ میں بھی دین کی خاطر قربانی کا ایک پہلو موجود ہے۔

وفات سے قبل آخری رات مسلسل دعائیں کرتے رہے اور آخر میں یہی کہتے رہے کہ اب اللہ میرے تمام درد ختم کرتا جا رہا ہے۔ یوں میرے پھوپھا اور سسر محمد انور قمر صاحب اپنی وفات سے دس منٹ قبل تک ہم سے باتیں کرتے ہوئے مورخہ 7؍ستمبر 2020ء کو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔

وفات سے کچھ دن پہلے ان کے ماموں زاد بھائی رانا مظفر صاحب نے خواب دیکھا کہ ان کی والدہ آئی ہیں اور کہتی ہیں میں انور کو لینے آئی ہوں اور پھر کچھ دن بعد وہ لے کر چلی گئی ہیں۔ اسی طرح میرے ہم زلف مکرم عاطف احمد نے بھی خواب دیکھا کہ ہماری چھت ایک دھماکے سے اڑ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں سمجھا کہ میرےوالد صاحب بیمار ہیں شاید انہیں کچھ ہوا ہو۔ تاہم یہ خواب بھی ان کی وفات کی صورت میں پورا ہوا اور ہمارے سر سے ہمارے والد کا سایہ اٹھ گیا۔

مرحوم نے تریسٹھ برس عمر پائی اور ربوہ میں تدفین ہوئی۔ کورونا وائرس کے ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے جنازہ میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد شامل ہوئے۔ لواحقین میں بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا اعجاز احمدشامل ہیں۔ سب بچے شادی شدہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ مر حوم سے بخشش کا سلوک فرمائے، انہیں اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button