متفرق مضامین

قرآن کریم کی صبح درخشاں۔ حق کا سورج۔ انقلاب کا آفتاب (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

23سالہ نزول کی حکمت

قرآن کریم بجائے اکٹھا نازل ہونے کے 23سال میں تکمیل کو پہنچا ۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام رسالت کو قرآن پاک کی آیات پر تقسیم کریں تو روزانہ کی اوسط ایک آیت بنتی ہے اس میں کئی حکمتیں مد نظر تھیں :

1۔ یاد کرنے۔ لکھنے اور مطلب سمجھنے میں آسانی

2۔ قرآن کریم ایک بہت پُرشوکت اور پُرہیبت کلام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ جسمانی طور پر نہایت مشقت اٹھاتے تھے اور سردی کے موسم میں بھی پسینے سے شرابور ہو جاتے۔ قرآن نے اس وحی کو قول ثقیل قرار دیا ہے

إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا(المزمل:6)

اور فرمایا کہ اگر یہ قرآن پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتے۔

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (الحشر:22)

پس یہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تھا جس نے اس امانت کو اٹھا لیا اور حق ادا کردیا۔

اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ(احزاب:73)

3۔ مسلمانوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا جن میں مرد عورتیں اور بچے شامل تھے۔ یہ سارے لوگ مختصر قرآن سے مانوس ہوتے چلے گئے اور اس کے حافظ بنتے چلے گئے۔

4۔ قرآن میں بیسیوں پیشگوئیاں ابتدائی زمانہ کے متعلق بھی تھیں مثلاً ہجرت اور جنگوں میں دشمن کی شکست۔ یہ پیشگوئیاں جب پوری ہوتیں تو مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی اور خدا کا تازہ کلام ان کے ایمانوں میں اور بھی اضافہ کر دیتا۔

ترتیب نزولی اور کتابی کی حکمت

قرآن کے الفاظ و معارف کی حفاظت میں ترتیب خاص اہمیت رکھتی ہے۔ قرآن کریم کی ترتیب نزولی اور آج جس ترتیب سے قرآن ہے وہ مختلف ہیں اس میں گہری حکمتیں ہیں۔

1۔ آغاز میں جو لوگ قرآن کریم کے مخاطب تھے ان کے لیے سب سے ضروری امر توحید اور رسالت کی تعلیم تھی۔ پس سب سے پہلے ان آیات کا نزول ضرور ی تھا جن میں مشرکانہ خیالات کو مٹا کر توحید کو قائم کیا گیا ہو اور آہستہ آہستہ جب ایک جماعت اسلامی شریعت کے مطابق توحید اور رسالت کو سمجھ گئی تو انہیں اسلامی تمدن کے طریق اور دینی و معاشرتی اصولوں سے آگاہ کیا گیا۔ ابتدائی کچھ عرصے کے بعد آج تک قرآن کریم کے پڑھنے والے جو مسلمان ہوتے ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان کی خاطر وہ ترتیب اختیار کی گئی جو ان کے اخلاق اور کردار کی درستی میں معاون ثابت ہو۔

2۔ قرآن ان حالات کی ترتیب کے مطابق نازل ہو رہا تھا جو رسول اللہﷺ اور صحابہ کو پیش آتےتھے۔ مثلاً جب دشمن مکہ میں ظلم وستم کر رہا تھا تو صبر کی تعلیم تھی۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا پھر حسب حالات تلوار کے ساتھ دفاع کا حکم دیا۔ مکہ میں مسلمان جمعہ نہیں پڑھ سکتے تھے۔ مدینہ میں اس کا حکم ملا۔ اسی طرح عبادات میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوا۔ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ اجتماعی مسلم سوسائٹی کی ضروریات کے ساتھ زکوٰۃ کا نظام جاری ہوا۔ حج تو فتح مکہ کے بعد جاری ہوا۔

3۔ جنگوں میں پیش آمدہ حالات کے مطابق سورتیں نازل ہوئیں۔ منافقین کے فتنہ کے استیصال کے لیے احکام دیے گئے۔ حسب ضرورت تعدد ازواج اور وراثث کے احکام نازل ہوئے۔

4۔ دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اسلامی تعلیمات پر جو اعتراضات کرتے تھے ان کے جوابات دیے جاتے رہے۔

سنت کے ذریعے حفاظت قرآن

جو حکم نازل ہوتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کرکے دکھاتے اور صحابہ ؓکو اس پر قائم کرتے اس طرح سنت وجود میں آئی۔ اور حسب حالات بیسیوں یا سینکڑوں مسلمان گواہ بنتے چلے گئے۔ اس طرح یہ بھی معلوم ہو گیا کہ قرآن کے ان الفاظ کے معانی کیا ہیں۔ مثلاً صلوٰۃکا لفظ عربی زبان میں موجود تھا اور بہت سے معانی پر مشتمل تھا مگر

یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَاور کِتَابًا مَوْقُوْتًا

کے اصل معنی کیا ہیں اس کی وضاحت سنت رسولؐ سے ہوئی۔ صوم سے کیا مطلب ہے اور زکوٰۃ کا نصاب اور شرح کیا ہے۔ نکاح طلاق اور وراثت کے کیا مسائل ہیں۔ یہ سب آہستہ آہستہ 23سال میں اپنے کمال کو پہنچے۔ اور قرآن کریم کی لفظی حفاظت کے ساتھ ساتھ معنوی حفاظت کے لیے ایک طاقتور ہتھیار میسر آ گیا۔ جس کے سینکڑوں مسلمان شاہد تھے۔

مہاجرین کا کردار

قرآن کریم کی حفاظت اور پھیلاؤ میں ایک کردار ان مہاجرین کا بھی ہے جو حبشہ اور مدینہ کی طرف گئے۔ حبشہ کی طرف 5؍نبوی میں جانے والےقرآن کے کچھ حصے ساتھ لے کر گئے۔ چنانچہ حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں سورت مریم کی کچھ آیات تلاوت کیں۔ ان مہاجرین میں سے کچھ لوگ واپس آ گئے اور پھر حالات سازگار نہ پا کر پھر حبشہ چلے گئے اور یقیناًتازہ نازل شدہ آیات ساتھ لے گئے۔ اس طرح قرآن اہل مکہ کی دستبرد سے محفوظ ہو کر دوسرے خطہ میں چلا گیا۔

اسی طرح مدینہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صحابہؓ نے ہجرت شروع کر دی تھی۔ رسول اللہﷺ نے بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے انصار کو کچھ قرآن سنایا۔ بلکہ ان لوگوں کی تربیت کے لیے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا جو خود حافظ قرآن تھے۔ نمازوں کی امامت بھی کرتے تھے اور انہوں نے رسول اللہ ؐکی آمد سے پہلے جمعہ کا آغاز بھی کردیا تھا۔ بعض اور صحابہ دیگر قبائل سے بھی آئے اسلام قبول کیا کچھ قرآن سیکھا اور واپس چلے گئے۔ ان میں غفار قبیلہ کے ابو ذر غفاریؓ بھی تھے اور دوس قبیلہ کے ابو الطفیل عمرو دوسیؓ بھی تھے ۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے مقامات پر قرآن کا مختصر حصہ زبانی یاتحریری لے گئے اور وہاں قرآن کریم محفوظ ہوتا رہا۔

حاملین قرآن

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے بیشتر حافظ قرآن تھے اور ہزاروں ایسے تھے جنہیں قرآن کے متعدد حصے یا سورتیں زبانی یاد تھیں۔ رسول اللہﷺ صحابہؓ سے متعدد مواقع پر قرآن سنتے ان کے حفظ کا جائزہ لیتے اور پھر اس کے مطابق انہیں امیر یا امام الصلوٰۃ مقرر فرماتے۔ آپؐ نے ایک بڑے لشکر کا امیر ایک کم عمر نوجوان کو مقرر کیا۔ جسے زیادہ قرآن یاد تھا۔ (ترمذی کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ)ایک مرتبہ آپؐ نے ایک صحابی سے فرمایا: خدا نے مجھے تمہارا نام لے کر کہا ہے کہ تم مجھے قرآن سناؤ۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن)

جنگ احد کے بعد فرمایا۔ پہلے ان صحابہ کو دفن کرو جو قرآن کے حافظ اور زیادہ عالم تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ) ایک صحابی کو قرآن کی چند سورتیں یاد تھیں آپؐ نے وہی چند سورتیں حق مہر کے طور پر مقرر فرمائیں کہ بیوی کو سکھا دو۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب القرا٫ۃ عن ظہر الغیب) وفد ثفیف اسلام لایا تو آپؐ نے ایک کم عمر نوجوان کو سردار مقرر فرمایا جسے علم دین اور قرآن سیکھنے کا شوق تھا۔

(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 548 امر و فدثقیف)

یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ جن صحابہؓ نے قرآن کے ذاتی نسخے تیار کیے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کر ان کی تصدیق یا تصحیح بھی کرا لیتے تھے ان میں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی شامل تھے ۔جن صحابہ کی زبان اور حفظ قرآن پر رسول اللہﷺ کو مکمل اعتماد تھا ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا کہ ان سے قرآن سیکھا جائے۔

قرآن کریم کی تقسیم پاروں رکوع اور منازل میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک قرآن کریم 114 سورتوں کی شکل میں زبانی اور تحریری طور پر موجود تھا۔ بعد میں اس کو رمضان کی تراویح میں ایک ماہ میں ختم کرنے کے لیے 30 پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ پھر ہر پارہ کو ایک رکعت میں مناسب مضمون کی تلاوت کے لیے 8، 10آیات پر مشتمل رکوعوں میں تقسیم کیا گیا۔ ساتھ ساتھ ہر پارہ کو ربع۔ نصف اور ثلث وغیرہ میں تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح قرآن کی ایک ہفتہ میں تلاوت کے لیے 7 حصوں یعنی 7 منازل میں تقسیم کیا گیا۔ یہ سب چیزیں حفاظت قرآن میں مددگار ثابت ہو ئیں۔ کیونکہ چھوٹے حصے کی قراءت، تحریر اور حفاظت ایک بڑی مرتب کتاب کی نسبت آسان ہوتی ہے۔

قراءات سبعہ کی حکمت

رسول اللہ ؐکی بعثت کے وقت عرب کی زبان تو عربی تھی مگر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر عرب کے قبائل خصوصاً خانہ بدوش قبائل کی زبان میں مختلف قسم کے فرق تھے۔ اس میں اعراب، حروف، الفاظ اور محاورات کے فرق سبھی تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ قریش کے فرد تھے اور آپ کی ہی زبان میں قرآن نازل ہوا اس لیے ایک وسیع حکمت کے ماتحت آغاز میں متفرق قبائل کے اختلافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قریش کی زبان کے متبادل اپنی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور یہ سب کچھ خدا کی مرضی اور رہ نمائی کے مطابق ہوا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْه۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ حدیث نمبر 4608)

یعنی قرآن 7قراءتوں پر اتارا گیا ہے پس تمہیں جو سہولت ہے اس سے پڑھو۔ یہ 7کا عددکثرت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ بعض محققین اسے قراءات سبعہ یا عشرہ بھی کہتے ہیں۔

مگر جوں جوں اسلام پھیلتا رہا اور فتوحات کے بعد مدینہ میں مرکزی اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو حضرت عثمان غنیؓ کے زمانہ میں مرکزی قراءت قائم رکھ کر باقی قراءتوں کو ختم کر دیا گیا اور وہی آج تک محفوظ چلا آتا ہے۔ پس یہ اختلاف قراءات جسے مستشرقین حفاظت قرآن پر انگلی اٹھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ حفاظت قرآن کی سکیم کا ایک اہم حصہ تھاجس کی ایک مدت تک اجازت دی گئی۔ بعض مقامات پر یہ قراءات شاذہ اب بھی موجود ہیں اور قرآن کے معنی سمجھنے کےلیے تفسیر کا کام دیتی ہیں۔

عبارت قرآن

قرآن مجید کی اپنی عبارت ہی اس کی حفاظت کا ایک زبردست ذریعہ بن گئی چونکہ اس کی حفاظت کاذریعہ ابتدا میں حفظ بننا تھا اس لیے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلد یہ حفظ ہو سکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے۔

(ماخوذ ازفضائل القرآن نمبر 2، انوار العلوم جلد 11صفحہ 132)

قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تورات اور انجیل کا کوئی حافظ نہیں ملتا وہاں قرآن کے لاکھوں حافظ ہیں۔

(ماخوذازدیباچہ تفسیرالقرآن، صفحہ276تا277)

متعدد علوم کی ایجاد

قرآن کی لفظی و معنوی حفاظت کے لیے متعدد علوم ایجاد ہوئے۔ علم النحو۔ علم الصرف۔ علم معانی۔ علم بدیع۔ علم تفسیر القرآن اور ذیلی علوم۔ علم حدیث اور اس کے ذیلی علوم۔ علم فقہ اور اس کے ذیلی علوم۔ علم کلام۔ قرآنی جغرافیہ۔ قرآنی تاریخ انبیائے قرآن۔ علم موازنہ مذہب۔ حتیٰ کہ قرآن کی لغت بھی قرآن سے ترتیب دی گئی ہے۔ جیسے مفردات القرآن از امام راغب۔

ہر معاملہ میں قرآن کو رہ نما بنایا گیا۔ اس کی آیات ہی ہر حکم کی صحت کا معیار ٹھہریں۔ استنباط صحیح اور غلط دونوں طرح ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہے مگر قرآن کی ظاہری حفاظت کے لیے یہ بہت مفید ثابت ہوئے اور ان کتب میں قرآن کی سینکڑوں آیات درج کی گئیں۔ انہی سے سارا قرآن جمع کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجیدمیں ذکر ہونے والے انسانوں، مقامات، جانوروں وغیرہ پر بھی بیسیوں کتب لکھی گئیں۔ اس طرح علوم کے سمندر کے ساتھ ساتھ قرآنی حروف اور زبر زیر کی گنتی بھی کر لی گئی۔

پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے قرآن صدیوں ہاتھ سے لکھا جاتا رہا۔ اور سب جانتے ہیں کہ ہاتھ سے لکھنے اور ٹائپنگ کرنے میں بے شمار غلطیاں ہو جاتی ہیں اور ان کو نقل کرنے والے وہ غلطی دہراتے رہتے ہیں مگر یہ حیرت انگیز بات ہے کہ سینکڑوں قوموں کے درمیان صدیوں کے سفر میں بلاشبہ ہزاروں نسخے لکھے گئے مگر قرآن کا ایک نقطہ اور شعشہ بھی نہیں بدلا۔ اس لیے کہ ہزاروں کی تعداد میں حفاظ نگران تھے نیز مسلمانوں نے قرآنی کتابت کے لیے خصوصی انتظامات کیے اور آج بھی کیے جاتے ہیں۔ بہت سے مؤرخین اور مستشرقین بھی اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں صرف ایک بیان ملاحظہ ہو۔

فرانسیسی مصنف اور سرجن ڈاکٹر موریس بوکائلے انجیل اور قرآن کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’قرآن وحی کا وہ اظہار ہے جو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ محمد (ﷺ )کو پہنچی جس کو فوراً قلم بند کر لیا گیا اور اہل ایمان نے حفظ کر لیا وہ اپنی نمازوں خصوصاً ماہ رمضان المبارک میں اس کی قراء ت و ترتیل کرتے رہے خودمحمد(ﷺ ) نے اس کی سورتوں میں ترتیب قائم کی اور یہ سب سورتیں نبی کریم کی رحلت کے فوراً بعد…(حضرت ابوبکرصدیقؓ ) کے دور خلافت میں متن کو موجودہ شکل دینے کے لیے جمع کرلی گئیں۔ اس کے برخلاف مسیحی الہام متعدد انسانی بیانات پر مبنی ہے۔ حقیقت میں بہت سے عیسائیوں کے خیال کے برعکس ہمارے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے واقعات کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔

(بائبل قرآن اور سائنس از موریس بوکائلے صفحہ19تا 20، اردو ترجمہ ثناء الحق صدیقی نگارشات لاہور 1995ء)

قرآن کی معنوی حفاظت

قرآن کریم جیسے اپنے الفاظ و حروف اور ان کی حفاظت کے لحاظ سے معجزہ ہے اسی طرح اپنے وسعت معانی اور ان کے نظام تحفظ کے حوالے سے بھی لاثانی معجزہ ہے۔ قرآن ایک ایسی بارش کی طرح ہے جو متعدد زمینوں پر برستی ہے اور ہر زمین اپنے خصائل اور استعدادوں کے موافق اس سے فیض پاتی اور پھل پھول ظاہر کرتی ہے۔ ان میں میٹھے، پھل دار اور بلند و بالا سایہ دار درختوں اور شفائی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ زہریلی جڑی بوٹیاں بھی اگتی ہیں جو انسانوں کی بیماری اور موت کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم سے ملحدین اور کج طبیعت لوگ نقصان اٹھاتے ہیں جن کی دوا بھی پھر قرآن کے عشاق اور حاملین کے پاس ہے اسی لیے فرمایا ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے تو مومنوں کو ایمان میں اور کافر اور دل کے مریضوں کو رجس پر رجس میں بڑھا دیتی ہے (التوبہ:124تا125)

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (البقرۃ :27)

یعنی اللہ بہت سے لوگوں کو قرآن کے ذریعہ گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت دیتا ہے۔

علوم کا سمندر

قرآن کریم چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک آنے والی تمام نسل انسانی کے لیے کامل اور دائمی کتاب اور رہ نما ہے اور اس میں کروڑوں قسم کے انسانوں نے اس سے فیض پانا ہے جن میں تعلیم یافتہ، ان پڑھ، ذہین، سادہ طبع، سائنسدان، مفکرین، دانشور اور مختلف علوم کے ماہرین اور روحانی شخصیات شامل ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسے الفاظ میں نازل کیا ہے کہ ہر فرد اپنےزمانہ، اپنے ذوق، افتاد طبع اور ضرورت کے مطابق استفادہ کرسکتا ہے۔ پھر بھی اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ قرآن کی تمام آیات کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے (تفسیر ابن عربی بر حاشیہ عرائس ا لبیان جلد1صفحہ3)پھر فرمایا:لا تنقضی عجائبہ(جامع ترمذی کتاب فضائل القرآن باب فضل القرا٫ہ حدیث نمبر2831)یعنی اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔

حضرت امام جعفرصادق فرماتےہیں :

’’کتاب اللہ چار چیزوں پر مشتمل ہے1۔ عبارت جو عوام کے لیے ہے۔ 2۔ اشارت جو خاص لوگوں کے لیے ہے۔ 3۔ لطیف نکات جو اولیاءکے لیے ہیں۔ 4۔ حقائق جو نبیوں کے لیے ہیں۔ ‘‘

(تفسیر عرائس البیان جلد1صفحہ4۔ ابو محمد روزبہان ابن ابی النصر البقلی متوفیٰ606 ھ)

پس جس قدر معانی کی کثرت تھی اور بے شمار جہتوں میں تھی اسی قدر اس کے سچے معانی کی حفاظت بھی ضروری تھی ورنہ یہ قرآن با زیچہ اطفال بن جاتا۔

حفاظت معنوی اور اس کے طریق

پس حفاظت معنوی سے میری مراد یہ ہے:

٭…قرآن کے معنوں کی تعیین۔

٭…معانی کی وسعت کے باوجود اس کا مرکزی استنباط قرآن کے مطابق ہو۔

٭…ہر زمانہ کے مطابق نئے علوم کی دریافت اور ان سے مطابقت۔

قرآن کریم کی معنوی حفاظت کا سب سے پہلا فریضہ تو خودقرآن سرانجام دیتا ہے۔ قرآن کریم عربی لغت کا بھی شاہکار ہے اورقرآن میں تصریف آیات یعنی ایک ہی واقعہ یا حکم کا ذکر مختلف انداز سے اور الفاظ سے کیا جاتا ہے اور سب آیات کو ملا کر اکٹھا دیکھیں تو صحیح معنی کھل جاتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے

اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا

یعنی قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے۔ پس قرآن کا کوئی ایسا ترجمہ صحیح نہیں جس کے حق میں دس بیس آیات موجود نہ ہو ں کیونکہ وہ خوداپنے اوپر بھی مہیمنہے۔

حفاظت قرآن کا دوسرا بڑا ذریعہ سنت رسولﷺ اور صحیح احادیث ہیں۔ قرآن کریم کے تمام عملی احکامات کو رسول اللہؐ نے عملی شکل دے دی۔ پس سنت مستمرہ جو رسول اللہﷺ نے ہزار ہا صحابہؓ کوعملی طور پر دکھا دی اور اس پر قائم کر دیا وہ اس کے صحیح معنوں کی تعیین کر رہی ہے۔ اس کے بعد آپ کے خلفاء اور صحابہؓ نے اس سنت کو صحیح معنوں میں جاری کر کے عالمی وسعت دے دی ہے۔

صحیح احادیث نے سنت اور قرآن کے مطالب اور مفاہیم کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا، انہیں اپنے دامن میں سمیٹا اور ہزاروں حدیث کی کتب قرآن کے صحیح معنوں کی تعیین ان اصولوں کے ساتھ کر رہی ہیں کہ

٭…کوئی حدیث قرآن کے خلاف نہ ہو۔

٭…کوئی حدیث صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی متفقہ حدیثوں کے خلاف نہ ہو۔

٭… ان دونوں کتب کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ وہ قرآن کے خلاف نہ ہو ں۔

سائنس اور قانون قدرت

معنوی حفاظت کا ایک طریق سائنس اور قانون قدرت ہے۔ قرآن کریم کوئی سائنس اور تاریخ اور فلکیات کی کتاب نہیں مگر قرآن کی قریبا ً700؍آیات کائنات کے مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا قول جبکہ سائنس خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ اس لیے قرآن کا کوئی سائنسی بیان حقائق کے خلاف نہیں۔ اگر کسی وقت علما٫نے کوئی ایسا ترجمہ کیا جو سائنسی مسلمہ حقائق کے خلاف تھا تو قرآن ذمہ دار نہیں اور بعد میں آنے والی تحقیق نے اس کو رد کر دیا ہے کیونکہ قرآن کا غلط ترجمہ کرنا ممکن تو ہے مگراس پر دوام ممکن نہیں۔ ہر جدید سائنسی قانون قرآن کریم کی موافقت کرتا ہے۔ مثلاًاس دَور میں صرف صفائی اور خورونوش کے مضمون کو سامنے رکھیں تو قرآن کی حقانیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ وضو اور غسل کے ذریعہ صحت کی حفاظت، حلال اور طیب کے ذریعے توانائی کا حصول، اخلاقی بیماریوں سے حفاظت، بچوں کی رضاعت اور شہد سے شفا یابی اس کی واضح مثالیں ہیں۔

قرآنی پیشگوئیاں

زمانے کے بدلتے ہوئے حالات خود قرآن کے معنی کی تعیین اور حفاظت کرتے ہیں کیونکہ وہ پیشگوئیاں جو قرآن کریم نے چودہ سو سال قبل بیان فرمائیں وہ پوری ہو کر قرآن کی صداقت پر مہر لگا تی ہیں۔ بسا اوقات ان امور کو آخرت پر چسپاں کیا گیا مگر ان واقعات نے پورا ہوکر نہ صرف قرآن کریم کے معنوں کی تعیین کردی بلکہ ان کی معنوی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ ان پیش خبریوں میں مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کا ذکر بھی ہے اور آخری زمانہ میں مسلمانوں کےتنزل، چودھویں صدی میں مسیح موعودؑ کے نام سے ایک نائب رسول کی آمد، اور سائنسی ترقیات کے مختلف پہلوؤں کا ذکر بھی ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ التکویر، الانفطاراورانشقاق میں یہ مضامین بڑے لطیف پیرائے میں پھیلے پڑے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ زمانہ میں ان کے مزید معانی بھی دریافت ہوں۔

علمائے حق اور حفاظت قرآن

قرآن کریم کی معنوی حفاظت کا ایک ذریعہ علمائے حق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے ہرزمانے میں، ہر علاقے میں کثرت سے ایسے افراد پیدا کیے جنہوں نے قرآن اور اسلام کی خدمت کے لیے زندگیاں وقف کر دیں اور بغیر کسی معاوضہ کے ہر رنگ میں قرآن کی سچی تعلیم کو عام کرنے اور زائد بیلیں تلف کرنے کا اہتمام کیا۔ اس گروہ کو ہم متعدد شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہا٫، مجددین، صوفیا٫۔ کسی نے قرآن کی لغت اور شان نزول کوموضوع بنایا۔ کسی نے سنت و حدیث کی روشنی میں قرآن کی شرح کی۔ کسی نے قرآن سے فقہ کے اصول اور تفصیلات مرتب کیں۔ کسی نے قرآنی عقائد اور ان کے دلائل بیان کیے کسی نے اپنے زمانے میں قرآن پر ہونے والے اعتراضات کو رد کیا۔ کسی نے اس کے معانی میں ڈوب کر علم و حکمت کے موتی تلاش کیے اور قوم کی تربیت میں لگ گئے۔ بہت سے ایسے تھے جن کو خدا نے خود قرآن کے سچے معنوں سے اطلاع دی اور اس پر ثبوت بھی فراہم کیے۔

مسیح موعودؑ اور جماعت احمدیہ

چودھویں صدی ہجری میں چونکہ دنیا ایک نئے سائنسی دَور میں داخل ہو چکی تھی اور عالم اسلام پیش گوئیوں کے مطابق ہر طرف سے دشمن کے تھپیڑوں کی زد میں تھا اس لیے خدا نے مسیح موعودؑکے ذریعے سیلابوں کو روکنے کے لیے ناقابل تسخیر بندبنا دیے اورجہاں جہاں دشمن نے قرآن کریم پراعتراض کیے تھے وہیں سے خدا تعالیٰ نے معارف قرآنی کے چشمے بہا دیے۔ اگر پہلے بزرگ شہاب تھے تو مسیح موعود ؑشہاب ثاقب ہے جو دشمن پر نہایت تیزی سے سے حملہ کرتا ہے اور ہر وسوسہ کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تفسیرقرآن کے اصول بیان فرمائے۔ قرآن کریم کے متعلق متعدد غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ مثلاًنسخ قرآن، حروف مقطعات، قرآنی قسمیں، عصمت انبیا٫، قرآنی پیش گوئیاں۔ آپؑ نے کئی سورتوں کے حقائق اور معارف بیان کرکے دشمنوں کو چیلنج دیے۔ مثلاً فرمایا کہ جو معارف اور حقائق میں صرف سورت فاتحہ سے بیان کروں گا وہ ساری توریت اور انجیل کی70؍کے قریب کتب سے بیان کیے جائیں تو 500؍روپے نقد انعام دوں گا۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ360۔ یہ چیلنج 1897ءکا ہے)فرمایا کہ قرآن پر اعتراض کر کے ثابت کرنے والے کو ہر اعتراض کے بدلہ میں 50؍روپے انعام دیا جائے گا۔

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 313۔ یہ چیلنج 1886ء کا ہے )

آپؑ نے قرآن کریم کی روشنی میں متعدد قسم کی تحقیقات کا آغاز فرمایا اور اصول بیان فرما دیے۔ مثلاًحضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات اور سفر کشمیر، عربی زبان کا ام الالسنہ ہونااوردنیا کے مختلف خطوں میں انبیا٫ؑکی آمدوغیرہ۔

آپؑ کے ایک موعودبیٹے کو خدا نے علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا اور کلام اللہ کا مرتبہ اس کے ذریعے ظاہر کیا۔ اس نے چیلنج کیاکہ اس زمانہ میں خدا نے قرآن سکھانے کے لیے مجھے استاد مقرر کیا ہے۔ قرآن پر کسی علم کا کوئی ماہر اعتراض کرے تو میں اس کا جواب قرآن سے دوں گا وہ ساری عمر قرآنی تفسیر کے مقابلہ کے لیے بلاتا رہا مگر کوئی نہ آیا۔

(ماخوذ از الموعود، انوار العلوم جلد 17صفحہ538)

الغرض آج قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخصیت ہیں جو انسان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ یہی کتاب ہے جو مسلمانوں کو اور اسلام کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔ یہی کتاب ہے جس پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مدار ہے اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کتاب کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 1صفحہ 386، ایڈیشن1988ء)حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کی مدد سے جلسہ مذاہب عالم میں تمام مذاہب کو نیچا دکھایا اور اسلام کا مضمون بالا رہا۔ اللّٰہُ اَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرَ۔ اسی کی مدد سےآپؑ نے ہندوؤ ں، آر یو ں، یہودیوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روک دیے اور ان کو الٹے پاؤں واپس بھاگنا پڑا۔ وہ جو کہتے تھے کہ یسوع مسیح کا جھنڈا خانہ کعبہ پر لہرائے گا ان کا اپنا پرچم سرنگوں ہو چکا ہے۔ اور وہ جو دعویٰ کرتے تھے کہ ہماری سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا ان کا سورج گدلے پانیوں میں ڈوب چکا ہے۔ اسی کی مدد سے آپؑ نے ایک عظیم الشان جماعت قا ئم کر دی جو قرآن کی عظمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرنے کے لیے سرگرداں ہے اوراس مقدس کتاب کو دنیا کے ہر فرد کے ہاتھ تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔

شکرخدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں

غنچے تھے سارے پہلے اب گل کھلا یہی ہے

پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے

دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے

کہتے ہیں حسن یوسف دلکش بہت تھا لیکن

خوبی و دلبری میں سب سے سوا یہی ہے

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button