متفرق

گھریلو زندگی میں رحمی رشتوں کا احترام

(عصمت سلطانہ۔ جرمنی)

خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔اسی سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔خاندان کے تمام افراد وہ ستون ہوتے ہیں جو اس بنیادی معاشرتی اکائی کو تشکیل دیتے ہیں۔یہ اکائی جس قدرمضبوط اور مستحکم ہو گی معاشرہ اتنا ہی بہتر اور توانا ہو گا،اس لیے ہر تہذ یب اپنے معاشرتی نظام کی تشکیل کے لیے خاندان پر بہت تو جہ دیتی ہے۔مردوعورت کے مجمو عی حقوق و فرائض کے دائرہ کار کو طے کیا جاتا ہے،خاندانی اقدارکا تحفظ ہی معاشروں کو زندگی کے اُتار چڑ ھائومیں مدد دیتا ہے۔ خاندان انسانی رویے اور طرزِعمل کی تشکیل کرتا ہے۔خاندان ہی وہ ادارہ ہےجس کے ذریعے معا شرتی تربیت ہوتی ہے،خاندان ہی فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا ہے ،اِسے حفظِ مراتب کا شعوربخشتا ہے۔ اگر خاندان کا استحکا م کم ہو جائے تو انسانی طرزِ عمل،معا شرتی فرائض کاشعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا یقین سب کچھ ختم ہو جا ئے گا۔؎

خلقتِ انس میں ہے اُنس و محبت کا خمیر

گر محبت نہیں بے کار ہے انسان ہونا

(دُرِ عدن)

قر آنِ پاک میں مختلف مقامات پر ارشادہے۔

ترجمہ:اور والدین سے احسان کا سلوک کرو گے اور قریبی رشتے داروں سے۔(البقرۃ:84)

اور اﷲسے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔اور رحموں(کے تقاضوں)کا بھی خیال رکھو۔(النساء:2)

یقیناً اﷲعدل کا،احسان کا اوراقربا ء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔(النحل:91)

نبی ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب وہ اس کی تخلیق سے فارغ ہو گیا تو رحم نے کہا یہ قطع رحمی سے تیری پناہ میں آنے کا مقام ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں۔ کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں گا جو تجھ سے تعلق جوڑے گا۔ اور جو تجھ سے قطع تعلقی کرے گا میں اس سے تعلق توڑ لوں گا۔ اس پر رحم نے کہا اے میرے رب ! میں اس بات پر کیوں راضی نہ ہوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہ مقام صرف تجھے حاصل ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ پس اگر تم چاہتے ہو تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھو۔یعنی کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ اگر تم متولّی ہو جاؤ تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو اور اپنے رِحمی رشتوں کو کاٹ دو؟(محمد:23)

(بخاری کتاب الادب باب من وصل وصلہ اللہ)

حضرت سعد بن وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال مکہ میں مَیں بیمار پڑ گیا۔آنحضرتﷺ میری عیادت کے لیے تشر یف لائے۔ میں نے حضورؐ کی خدمت میں اپنی بیماری کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے پاس کافی مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی قریبی وارث نہیں کیا میں اپنی جائیداد کا دو تہائی حصہ صدقہ کردوں؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں!اس پر میں نے درخواست کی کہ آدھا حصہ؟آپؐ نے فرمایا نہیں،پھر میں نے عرض کی کہ تیسرے حصے کی اجازت دی جائے،تو آپؐ نے فرمایا جائیداد کے تیسرے حصّے کی اجازت ہے اور اصل میں یہ تیسرا حصّہ بھی زیادہ ہی ہے کیوںکہ اپنے وارثوں کو خوشحال اور فارغ البال چھوڑ جانا اِس بات سے بہتر ہے کہ وہ تنگدست اور پائی پائی کے محتاج ہوں۔اور لو گوں سے مانگتے پھریں۔تم جو بھی اﷲ تعا لیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرو گے وہ اپنے رشتے داروں اور وارثوںپر ہو یا دوسرے غرباء اور مساکین پر ،اﷲ اِس کا ثواب تمہیں ضرور دے گا۔

(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الفرائض نان میراث البنات حدیث1638)

مندرج بالا قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں رحمی رشتوں کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔رحمی رشتے۔والدین یعنی ماں باپ اور اُن کے قریبی رشتہ دار۔آئیں غور کریں!اہلِ خانہ کی اصلاح اورتربیت کے لیے مسلسل کو شش،دائمی تلقین اور دعائیںکرنا اوّل اسی کی ذمہ داری ہے جو اُن کا نگران ہے،قرآنِ شریف واضح طور پر گھروں کے نگرانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے اہلِ و عیال کے اخلاق وعادات کی نگرانی کریں اور انہیں ایسی باتوں سے بچا ئیں جو اُن کے دین اوراخلاق کو تباہ کرنے والی ہیں۔تو یقیناً یہ گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئند ہ آنے والی نسلوں کےرشتوں کی اہمیت واضح کریں۔اﷲتعالیٰ نے عورت کو ماں کے درجہ پر فائز کیا اور اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ،جنت حاصل کرنے کے لیے یقینا ًہمیں ماں کو وہ مقام اور عزت دینی ہے جو اس کا حق ہےنیزماں کے ساتھ ساتھ اُن کے قریبی رشتے داروں کو بھی عزت دینا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھناہے۔

پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اِس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اِتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تو تکار ہو سکتی ہے؟کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے ؟کبھی نہیں ۔کیو نکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات پر ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بُری لگی توفوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا ،میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ،یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جولائی2004ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جولائی2004ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک اور موقع پرفرمایا:

’’… آپس میں جو رشتہ دار ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک اور تعلق بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ترقی کریں۔ صلہ رحمی کیا ہے؟ عورتیں اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ اپنے خاوندوں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ساسیں جو ہیں وہ اپنی بہوؤں کا خیال رکھیں۔ اپنی بہوؤں کے رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں تا کہ جماعت کی جو ترقی کی رفتار ہے وہ پہلے سے تیز ہو۔ جو اکائی میں، جو ایک ہونے میں، جو محبت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں و ہ پھُوٹ میں اور لڑائیوں میں نہیں ہوتے۔ تو اﷲ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ‘‘

(خطاب فرمودہ 2؍نومبر2008ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)

اسی حوالے سے ایک اور موقع پرفرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ رحمی رشتے صرف اپنے رحمی رشتے نہیں ہیں، اپنے خون کے رشتے نہیں ہیں بلکہ خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے یا خون کے رشتے تھے، وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں۔ یعنی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بیوی کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں اور اسی طرح بیوی کے ماں باپ، بہن، بھائی خاوند کے ماں باپ بہن بھائی بن جاتے ہیں۔ جب یہ سوچ ہوگی تو کبھی رشتوں میں دوریاں پیدا نہیں ہوسکتیں۔ کبھی تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔ پس فرمایا کہ ان کے حق دونوں کو اس طرح ادا کرنے چاہئیں جس طرح اپنے رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی کے حق ادا کرتے ہو۔ یہ حکم صرف لڑکی کے لیے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا آپس کے تعلقات نبھانے کے لیے اِسی طرح لڑکے کو بھی صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہےاور اسی طرح دونوں طرف کے سسرالوں کا بھی فرض ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نامناسب باتیں کر کے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرہ کا امن اور سکون برباد نہ کریں اور اسی طرح اس پہلی آیت میں یہ سبق بھی دے دیا ہے کہ اس شادی کے نتیجے میں جو تمہاری اولاد پیدا ہوگی اُس کی نیک تربیت تم دونوں پر فرض ہے تاکہ آئندہ پھر معاشرہ میں نیکیاں پھیلانے والی نسل چلے اور فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کا تقویٰ یہ ہے کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرنا۔ اپنی تمام ذاتی خواہشات کو پیچھے چھوڑ دینا اور صرف اور صرف یہ مقصد سامنے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یاد رکھومجھے دھوکا نہیں دیا جاسکتا کیونکہ میں تمہارے ہر فعل اور عمل پر ہر وقت نگرانی کر رہا ہوں۔ پس اگر احمدی جوڑے اس حکم کو سامنے رکھیں تو وہ اُن احکام کی تلاش بھی کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ تقویٰ کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ پس ہو ہی نہیں سکتا کہ جو اس حد تک خدا تعالیٰ کے تقویٰ کو مد نظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بن سکتا ہے، یا کبھی اس میں فساد پیدا ہوسکتا ہے۔ کبھی لڑائی جھگڑے اس میں پیدا ہوسکتے ہیں اور اسی طرح جو رحمی رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ جو ایک دوسرے کے رشتوں کا پاس کرنے والا ہوگا۔ ان کا خیال رکھنے والا ہوگا اس کی دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری بھی اس میں دے دی گئی ہے‘‘۔

(خطاب فرمودہ 4؍اکتوبر2009ء برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ)

اسلامی تعلیمات کچھ اس طرح فطرت کے عین مطابق اور حسین ہیں کہ ان کے مطالعہ سے روح وجد میں آجاتی ہے اور ہزار جان سے قربان ہونے کو جی چاہتا ہے۔پس جس طر ح میاں بیو ی کو ایک دوسرے کے والدین کا خیال رکھنے کا حکم ہے تو وہاں سسرال والوں کا بھی فرض ہے کہ لڑکا اور لڑکی کی غلط طور پر رہنمائی کر کے یا نا مناسب باتیں کرکے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر معاشرے کا امن و سکون برباد نہ کریں ۔بلکہ رحمی رشتے داروں کے حقوق ان کی عزت و احترام اور نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرنا اور سب سے بڑھ کر جن سے مزاج نہیں ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تو یقینا ًہم جنت نظیر معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بزرگوں کی کہاوت ہے کہ

با ادب با نصیب

بے ادب بے نصیب

تو جب تک انسان اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کر کے ادب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھے گا تو وہ با نصیب نہیں بن سکے گا ۔ بڑوں کا احترم کریں۔دعائیں لینے والے بنیں اپنے و جود کو دوسروں کے لیے سکون کا باعث بنائیں، آنے والی نسلوں کے لیے ایسی مثالیں پیدا کریں جن کو اپنا کر پیا ر اور محبت کی فضا بکھرے۔نفرتوں کو خود سے اورگھروںسے اور معاشرہ سے دور رکھنے میں اپنا کردارادا کریں ۔یاد رکھیں !؎

جنہیں آپس میں ہی ٹکرانے سے فرصت نہیں ملتی

اُن ہی شاخوں کے پتے لہلہانا بھول جا تے ہیں

اللہ تعا لیٰ ہمیں تو فیق دے کہ محبتوں سے بھرپور معاشرہ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے والے ہوں۔(آ مین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button