تاریخ احمدیت

23؍جنوری1922ء: مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) کو ہدایات زریں

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ڈائری

(23؍جنوری 1922ء بعد نماز صبح)

آج صبح کی نماز کے بعد شیخ فضل الرحمٰن صاحب نے بغرض تبلیغ نائیجیریا روانہ ہو نا تھا۔ حضورؓ نے ان کی کاپی پر اپنے قلم مبارک سے ہدایات لکھ کر دیں۔اور کچھ زبانی ارشادات فرمائیں اور پھر دیر تک پہلے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی۔ زبانی حسبِ ذیل نصائح فرمائیں:

(1)وہاں کی زبان سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر تبلیغ نہیں ہوسکتی۔

(2)جن لوگوں میں آپ تبلیغ کریں ان سے نہایت محبت اور حکمت سے کام لیں۔ اور ایک انتظام کے ماتحت ان کو رکھیں۔ مثلاً مختلف آدمی مقرر کیے جائیں جو ان کی نگرانی کریں۔ نمازوں میں باقاعدگی کے متعلق بھی انتظام کیا جائے۔

(3) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لیے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے۔ جب ان کو نصیحت کریںتو علیحدگی میں کریں تاکہ وہ بھی اپنی ہتک نہ سمجھیں ۔ ہاں الگ دونوں گروہوں کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ مذہبی طور پر ان کا سردار وہی ہے جو ہمارا آدمی ہو گا۔

(4) چونکہ ان لوگوں کے دماغ ابھی بہت موٹے ہیں باریک باتوں کو ابھی نہیں سمجھ سکتے۔مثلاً یہی کہ جنت میں انعامات جو ہوں گے۔تو مثلاًنمازیں متمثل ہو کر پھلوں کی شکل میں ملیں گی۔ اس لیے ان کے لیے یہی کافی ہوگا کہ دوزخ ایک ایسی چیز ہے جہاں خدا کی نافرمانی سے انسان جاتا ہے اور جہاں سخت عذاب ہوتے ہیں۔اور جنت وہ چیز ہے جہاں اس انسان کو جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کو بجا لائے بڑی بڑی راحتیں اورآرام ملتے ہیں ۔اس سے یہ مطلب نہیں کہ ان کو اعلیٰ تعلیم دی ہی نہ جائے بلکہ پہلی بات ذہن نشین ہونے کے بعد تدریجاً بتائیں۔

(5) انسان کو سست کبھی نہ ہونا چاہیے۔ہمیشہ چست رہے اور اس کے لیے کچھ ورزش کرتے رہنا چاہیے مثلاًچلنا پھرنا ہی سہی ۔ اس کا روح سے بہت تعلق ہوتا ہے۔ انبیاء کبھی سست نہیں ہوتے۔

(6) اپنا کام کرتے وقت کبھی یہ خیال دل میں مت لاؤ کہ لوگ میرا کام کردیں گے۔ کسی دوسرے پر نگاہ مت رکھو۔ ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس نیت سے کام کر دے کہ مجھے اس کا کام کرنے سے ثواب ہوگا۔ تو اس کی نیت کا بھی لحاظ رکھیں۔

(7) اخلاق کا خاص خیال رکھیں، جہاں تک ہو سکے اخلاق میں درستی پیدا کریں۔ حکام سے معاملہ کرتے وقت بھی مناسب ادب سے پیش آئیں اور اپنی تعلیم کی حقیقت سے ان کو بھی آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ ان لوگوں کے اختیار میں بھی کچھ ہوتاہے خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو چڑانا نہیں چاہیے۔

(8) پھر جن لوگوں میں آپ تبلیغ کریں گے ان (افریقنوں۔ تاریخ احمدیت)میں آجکل یہ خیال خاص طور پر جوش سے پھیلا ہوا ہے کہ دنیا ہمیں حقیر جانتی ہے اور ہم سے نفرت کرتی ہے اس لیے ان سے محبت سے معاملہ کریں۔ اور یہ بات ان پر ظاہر نہ ہونے دیں اور ان کو ذہن نشین کرائیں کہ دنیا جو ان سے نفرت کرتی ہے ا س کی وجہ عدم ایمان ہے۔ اس لیے ان قوموں سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ان کے مذہب کو حقیر جانیں۔ ان میں آجکل اس بات کی وجہ سے اس قدر جوش پھیلا ہوا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کو تباہ کر کے ان کی نسلیں آباد ہو جائیں اور اس جوش کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مکہ پر ایک حبشی حملہ کرے گا۔ تو اس کا کہیں یہی مطلب نہ ہو۔

(9) اپنی عادات میں، لباس میں اور کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مدنظر رہے۔ کفایت سے انسان کو شکر کی عادت پیدا ہوتی ہے اور شکر کے بعد بڑی بڑی نعمتیں ملتی ہیں۔ ایک انسان جس کو کفایت کی عادت نہ ہو اسے اگر بڑی بڑی نعمتیں بھی مل جائیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ میرا حق تھا۔ مجھے کیا مِلا۔ پس جو کفایت شعار نہیں ہوتا اس کے دل سے شکر کبھی نہیں نکلتا۔

(ماخوذ از الفضل قادیان 20؍مارچ 1922ء صفحہ 7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button