متفرق مضامین

امتناع قادیانیت آرڈیننس اور اس کے مضمرات

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

مذہبی، سیاسی اور شہری آزادی کے حوالے سے پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کی حالت گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے اقوام عالم کے سامنے ہے۔اس میں پائی جانے والی حالیہ شدّت کا آغاز کم وبیش 37سال قبل بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی جانب سے 26؍اپریل1984ء کو جاری کردہ اس ظالمانہ آرڈیننس کے نفاذ سے ہوا تھا جو ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس20مجریہ1984ء‘‘کہلاتاہے۔

اس قانون کے نفاذ نے جہاں انسانی حقوق کے عالمی منشوراور دیگرشہری آزادیوں کے عالمی قوانین پر کاری ضرب لگائی تھی، وہیں پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کو ان کے مذہبی حقوق سے یکسر محروم کردیا گیا اور ان کے مذہبی عقائد کی ادائیگی کوایک جرم قرار دے دیا گیا۔

کسی بھی قانون کا نفاذ ہر فردِ واحد پر انفرادی پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سیاہ قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ہر ایک احمدی اس کی زد میں آگیا قطع نظر اس کے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی صوبہ کے شہر، محلہ یاگلی میں رہتا ہو۔ یہ قانون کیا ہے ؟ اور اس نے احمدیوں پر کیا قدغن لگائی ہے؟ اس بارے میں ہر امن پسند شہری کا جاننا ضروری ہے۔ اس قانون کے تحت مجموعہ تعزیرات پاکستان ایکٹ45 کے باب نمبر دس میں ترامیم کرکے 298A کے بعد 298B اور 298C کا اضافہ کردیا گیا جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ

ا۔…احمدیوں کاتبلیغ کرنا جرم قرار دےدیا گیا۔

ب۔…احمدیوں کا خود کو مسلمان کی طرح ظاہر کرنا بھی جرم اور ممنوع قرار دیا گیا۔

ج۔…اسلامی شعائرکا استعمال بھی جرم اور ممنوع قرار دے دیا گیا۔

اس قانون کی رو سے پاکستان بھر میں کہیں بھی رہنے والا احمدی کلمہ طیبہ نہیں پڑھ سکتا، اپنی مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتا، مساجد میں اذان نہیں دے سکتا اور خود کو کسی بھی پہلو سے مسلمان ظاہر نہیں کرسکتااوردیگر اسلامی شعائر کا استعمال نہیں کرسکتا۔ خلاف ورزی پر تین سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے۔ درحقیقت اس قانون کے نفاذ سے ہر احمدی کے سر پر ایک ایسی ننگی تلوار لٹک گئی ہے جو کسی بھی وقت، کہیں بھی کسی احمدی کا سر قلم کر سکتی ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ کے حالات و واقعات نے اس کو سچ بھی ثابت کردکھایا ہےاور آج پاکستانی احمدی کے پاس نہ مذہبی حقوق ہیں نہ سیاسی حقوق ہیں اور نہ ہی شہری حقوق ہیں بلکہ ان کی بطوراحمدی شناخت ہی ان کے جان و مال کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی طرف سے اس قانون کے نفاذ سے جماعت احمدیہ کے مخالفین کو ایک ایسا ہتھیار فراہم کر دیا گیا جس کا بلا دریغ استعمال آج تک کیا جارہا ہے اور پاکستان میں ہر احمدی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور وہ ایک خوف و ہراس کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ایسا خوف، جس کو مہذب دنیا میں قتل سے بھی زیادہ خوفناک تصور کیا جاتا ہے۔ کالج، یونیورسٹی یا سکول ہو دفتر ہو یا کوئی شاپنگ پلازا، ہر جگہ احمدیت کی مخالفت اور نفرت پھل پھول رہی ہے۔ اس سیاہ قانون کے نفاذ نے جہاں زندہ احمدیوں کی زندگیوں کو خطرات اور خوف کی بھٹی میں جھونک دیا ہے وہیں قبرستانوں میں دفن احمدیوں کو نا ختم ہونے والی بے حرمتیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج پاکستان میں کوئی بھی احمدی محفوظ نہیں۔ گھر کے اندر بیٹھا احمدی تو الگ رہا قبرستان میں دفن احمدیوں کو بھی سکون نہیں لینے دیا جاتا۔ الغرض مخالفین جماعت اس قانون کی آڑ میں بےگناہ احمدیوں کو بدترین ذہنی و جسمانی اذیت پہنچا رہے ہیں۔

اینٹی احمدیہ قانون نے پاکستان میں احمدیوں پرظلم و ستم، نا انصافیوں اور پرتشدد حملوں کی ایک نئی خون آلود تاریخ لکھی ہے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انفرادی حملوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر بھی احمدیوں کو پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ چک سکندر، جنڈوساہی سیالکوٹ، گھٹیالیاں سیالکوٹ، شمس آباد قصور وغیرہ کے واقعات اس کی مثالیں ہیں۔ حملے سمندر کنارے بیٹھے لوگ نہیں جان سکتے کہ سمندر کی گہرائی کیا ہے اور وہاں طوفانوں کی نوعیت کیا ہے۔ ایسے معاشرے جہاں کی بڑی عدالتیں خود یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ آج جھوٹی گواہیاں دے کر مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانا روز کا معمول بن چکا ہے، اسی معاشرے میں احمدیوں کو کیسے سکون اور تحفظ مل سکتا ہے ؟ پاکستان بنانے کی کوششوں میں پیش پیش رہنے والے احمدیوں کو اپنے ہی وطن میں بے نام اور گم نام کیا جا رہا ہے۔ اخبارات احمدیوں کوقتل کرنے کےفتووں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن ایسے کسی افسوسناک واقعے کے ہونے پر ایف آئی آرہمیشہ’’نامعلوم افراد‘‘کے نام سے کاٹی جاتی ہے۔

اس قانون کے نافذ ہونے پر بھی اُس وقت کی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے اداروں نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی تھی اور جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ آج حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں۔ احمدیوں پر مظالم کی بازگشت اقوام متحدہ سمیت اقوام عالم کے اداروں تک پہنچ چکی ہے اور اگر نہیں پہنچی تو پاکستانی عدالتوں تک جومختلف سیاسی ومذہبی دبائو میں آزاد فیصلے کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کے طول وعرض میں ہونے والی کانفرنسوں اور پریس کی خبروں کے ذریعے احمدیوں کے خلاف قتل، نفرت اور سوشل بائیکاٹ کی نہ ختم ہونے والی، دہائیوں جاری رہنے والی مہم نے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں احمدیوں کے خلاف ایسا ماحول پیدا کر رکھا ہے جہاں کسی بھی وقت، کوئی بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے، اور بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پولیس اور چھوٹی عدالتیں مذہبی ملائوں اور جماعتوں کے مکمل دبائو میں ہیں۔ اس قانون اور مذہبی جماعتوں کے دبائو کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ احمدیوں کے مخالفین پر کوئی گرفت نہیں کی جاتی جس کی وجہ سےگھروں، مساجد اور فیکٹریوں پر اجتماعی حملوں اور لوٹ مار کے واقعات میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حالات بہتری کی بجائے مزید خراب ہو گئے ہیں اور حکومتی ادارے مختلف بہانوں سے جماعت کے دفاتر کے اندر تک مداخلت کرنے کی کوشش میں ہیں گویا اداروں نے ملائوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کا یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اینٹی احمدیہ قانون کے نفاذ کے بعدستمبر1991ء میں جاری کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ضیاء کے دَور میں اس وقت کی مذہبی سیاسی جماعتوں اور علمائے کرام نے ضیاء الحق کو الٹی میٹم دےرکھا تھا کہ وہ 30؍ اپریل تک قومی اسمبلی کے فیصلہ کی روشنی میں احمدیوں کے خلاف مزید اقدامات کرے اور پھر اس الٹی میٹم کے ختم ہونے سے چار دن پہلے ہی احمدیہ مخالف اس قانون کو نافذ کردیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی اسی رپورٹ میں اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ

’’It is contrary to the 1981 United Nations Declaration on the Elimination of All Forms of Intolerance and of Discrimination Based on Religion and Belief. Indeed, in August 1985 the United Nations Sub-Commission on the Prevention of Discrimination and Protection of Minorities passed a resolution expressing \”grave concern at the promulgation of Ordinance XX [see below] …which, prima facie, violates the right to liberty and security of persons, the right to freedom from arbitrary arrest or detention, the right to freedom of thought, expression, conscience and religion, the right of religious minorities to profess and practise their own religion and the right to effective legal safeguard.‘‘

ایمنسٹی نے مزید لکھا کہ احمدیوں کے خلاف یہ قانون انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل18کی خلاف ورزی ہے۔

اگرغیر جانبدارانہ اور حب الوطنی کی سوچ کے ساتھ فرد واحد کے بنائے قانون کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ قانون محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور مذہبی جماعتوں کی سیاسی آشیر باد لینے کی غرض سے بنایا گیا تھا اور بانی پاکستان کے تصور پاکستان کے بالکل منافی تھا۔ اس کے دَور اقتدار کے دیگر متنازعہ فیصلوں کی طرح اس قانون نے بھی پاکستان کے قومی تشخص اور اس کے بیرونی وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس قانون کا مذہب کے ساتھ زبردستی تعلق جوڑا گیا۔ حقیقت میں اس کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ تو مذہبی فرقہ وارانہ سوچ کی اختراع ہے اور اس کے پیچھے وہی قوتیں کارفرما تھیں جن کا عقیدہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے مزید یہ کہ ان میں سے اکثر قیامِ پاکستان سے پہلے کانگریس کی ہمنوا تھیں۔ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف مذہبی جماعتوں نے اس قانون کی آڑ میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور پاکستان کو ایک ایسے بھنور میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کی اب کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔ قانون شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن یہ ایسا عجیب قانون ہے جو نہ صرف اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ فرقہ وارانہ تشدد، قتل و غارت اور انتہا پسندی ایسے جرائم کو فروغ دے رہا ہے۔

اندرونی طور پر اس قانون کی بدولت عدالتوں اور ججوں پر سیاسی ومذہبی دبائو میں اضافہ ہوا اور ملکی قومی اداروں میں احمدیوں کی جائز ترقیوں پر پابندیاں لگنے سے اداروں کے اندر ایماندار، دیانتدار اور قابل ترین افسران کی تعداد میں کمی ہوتی گئی اور آج سپریم کورٹ، ہائی کورٹ انہی قومی اداروں کے بارے میںجو کچھ کہہ رہی ہے وہ پوری قوم پڑھتی اور سنتی اور بخوبی جانتی ہے۔ تعلیم، سائنس، معیشت، میڈیکل سمیت دیگر اہم اداروں میں احمدی عالمی شہرت حاصل کر کے بیرون ممالک خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن اپنے ملک پاکستان میں ایسے قابل احمدی اس قانون کی بدولت پاکستان آنے سے قاصر ہیں۔ ہر سیاسی، نگران اور منتخب حکومت کواسی امتیازی قانون کی بدولت مختلف دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی قانون کی آڑ میں جب پاکستان میں احمدیوں پر حملے ہوتے ہیں تو اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے اور پھر حکومت وقت کو عالمی اداروں کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح اور طے ہے کہ آج کے دَور میں ظلم کابازار گرم نہیں رہ سکتا۔ کسی نہ کسی شکل میں اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسی لیے مہذب اقوام انسانی حقوق اور انسانی اقدار کے احترام کو اولیت اور فوقیت دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی موجودگی میں اب کوئی بھی ظلم اور زیادتی چھپی نہیں رہ سکتی، خواہ وہ مذہب کے نام پر ہو یا سیاست یا انفرادی ذاتی زیادتی ہو۔ 28؍مئی2010ء کو لاہور میں احمدیوں کی دو مساجد دارالذکر گڑھی شاہواور بیت النور ماڈل ٹائون میں دہشت گردی کا المناک حملہ بھی اسی قانون کا شاخسانہ تھا جس میں اسّی سے زائد احمدیوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ دنیا کے ہر کونے سے اس ظلم و بربریت کی مذمت کی گئی تھی اور عالمی میڈیا میں کئی ہفتوں تک اس کا ذکرہوتا رہا تھا۔ بڑے بڑے عالمی اخبارات میں یہ واقعہ شہ سرخی بنا تھا۔

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اپنے ہی وطن میں انصاف اور سیکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے کاروباری افراد اپنا کاروبار بند کرکے، شاپنگ سنٹروں میں دکانیں چلانے والے ان کو اونے پونے قیمت پر فروخت کرکے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے بیرون ممالک ہجرت کرنے اور اسائلم لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ نوجوان کسی بھی ملک و کمیونٹی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور تعلیم کا حصول ان کی اوّلین ضرورت اور بنیادی حق ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی نوجوان نسل جو تعلیمی اداروں میں پڑھتی ہے وہ اس قانون کی وجہ سے اپنی تعلیم کو مکمل کرنے یا یکسوئی سے پڑھنے سے قاصرہے۔ سینکڑوں ذہین احمدی طلباء کو تعلیمی اداروں میں اس قانون کا نشانہ بننا پڑا ہے اور بالآخر تعلیمی اداروں سے نکلنا پڑا یا ملک کو خیر باد کہنا پڑا یا بصورت دیگر جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس طرح سینکڑوں احمدی نوجوانوں کا تعلیمی کیرئیر اسی سیاہ قانون کی بدولت برباد ہوا ہے۔ کاروباری لوگوں کو اپنے چلتے ہوئے منافع بخش کاروبار بند کرنے پڑے، سرکاری اداروں میں اعلیٰ پوسٹوں پر رسائی اور ترقی مشکل کے بعد ناممکن ہوتی گئی ۔ پاکستان میں احمدیوں کے کاروبار برائے نام ہی رہ گئے ہیں اور جو ہیں ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے ایک منصوبہ بندی کے تحت اس اینٹی احمدیہ قانون کی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ آج یہ پاکستانی مسلمانوں کے ایمانوں کا حصہ شمار ہونے لگا ہےاور موجودہ نوجوان نسل نفرت اور تعصب کے بےلگام اور سرکش گھوڑے پر بیٹھے اس کو سر پٹ دوڑاتے ہوئے ہر ملکی قانون اور ادارے کو روندنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں احمدیوں پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button